مابعدجدیدیت اورعوامی ادب کی شعریات کی تعمیروتشکیل

ڈاکٹر الطاف انجم
کشمیر یونیورسٹی ، حضرت بل ، سرینگر کشمیر
اُردو زبان و ادب سے وابستہ ہر ایک عام قلم کار اور طالبِ علم بخوبی جانتا ہے کہ ادبی تاریخ کا ہر دور کسی نہ کسی ادبی رویّے ، رجحان، میلان ، تحریک سے متعلق رہا ہے ۔ اس اعتبار سے اُردو میں بیسویں صدی کا ربع آخر مابعد جدیدیت سے موسوم کیا جارہاہے ۔ مابعد جدیدیت عصر حاضر کی تغیر پذیر ثقافتی صورتِ حال کا نام ہے۔ اُردو میں ادبی سطح پر جدیدیت کے بعد جب ما بعد جدیدیت کا دور شروع ہوا تو ادب کی تخلیق سے لے کر اس کی تفہیم او رتحسین تک بیک وقت کئی نظریات سامنے آئے جن سے ادب کے موضوعات میں تنوع پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اسلوبیاتی سطح پر نمایاں تبدیلی رونما ہوئی۔ مابعد جدیدیت اپنی اصل میں نہ ترقی پسندی کی ضد ہے اور نہ جدیدیت کی مانند کسی مخصوص رویّے کی متحمل بلکہ یہ مختلف اور متنوع افکار و نظریات کی کہکشاں کا نام ہے۔ واضح رہے کہ ادب میں کوئی رجحان یا تحریک نہ اچانک جنم لیتی ہے اور نہ دفعتاً ختم ہوجاتی ہے بلکہ یہ تغیر پذیر سماجی، سیاسی، تہذیبی اور ثقافتی حالات و واقعات کی وجہ سے نمو پذیر ہوتی ہے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اُردو میں ما بعد جدیدیت کے آثار ۱۹۷۵ء کے آس پاس ظاہر ہونا شروع ہوچکے تھے لیکن اکثر محققین اس رائے پر متفق ہیں کہ اس کا باضابطہ آغاز بیسویں صدی کے آٹھویں دہائی میں ہوا۔ جس طرح اردو میں ما بعد جدیدیت کے آغاز کے تعلق سے مختلف ناقدین نے مختلف آرا پیش کی ہیں اسی طرح اس کی تعریف و توضیح کے تعلق سے بھی کوئی حتمی او رقطعی بات سامنے نہیں آرہی ہے۔اس کی ایک وجہ ما بعد جدیدیت کی رنگارنگی، بوقلمونی اور تکثیریت ہے، جس سے خوفِ طوالت کے سبب یہاں صرفِ نظر کیا جارہا ہے ۔ مابعد جدیدیت کی تعریف کے ضمن میں کثرتِ رائے کی بنیادی وجہ اس کی علمی، ادبی ، سماجی ، عمرانیاتی،تہذیبی اور ثقافتی جہات ہیں، اسی وجہ سے اُردو کے اکثر و بیشتر ناقدین کے mind set کے ساتھ مابعد جدیدیت کی یہ تکثیری اور بوقلمونی خصوصیات آسانی سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتیںسمجھ میں نہیں آتیں ۔گوپی چند نارنگ نے ابتدا میں ہی بعض اہلِ اُردوکی تنگ نظری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ :
’’یہ (مابعدجدیدیت ) واحد المراکز نہیں بلکہ کثیر المراکز اور رنگا رنگ ہے۔ نظریاتی اعتبارسے دیکھیں تو مابعدِ جدیدیت بتِ ہزار شیوہ ہے ۔ ترقی پسندی اور جدیدیت تک ہمارے ذہن سیدھی سادی وحدانی تعریفوں کے عادی رہے ہیں ۔ اس وقت ہماری سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ مابعد جدیدیت کی کوئی سکہ بند یا فارمولا بند تعریف ممکن نہیں ، کیونکہ مابعدجدیدیت بنیادی طور پر فارمولے وضع کرنے یا ہدایت نامے جاری کرنے کے خلاف ہے ۔‘‘۱؎
یہ صورتِ حال آج اکیسویں صدی کی دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی جوں کی توں ہے ، وجہ وہی ظاہر ہے جسے اقبال نے بلیغ انداز میں کہا تھا ؎
طرزِکہن پہ اڑنا آئینِ نو سے ڈرنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
البتہ ایک مشکل اُردو کے جملہ ادبا و قارئین کو درپیش رہی ہے وہ یہ کہ مابعدجدیدیت مغربی افکار و نظریات اور تصورات واقدار کی حامل ہے ،یہ مشرقی مزاج و معیار بالخصوص اُردو معاشرے کے لیے کس طرح قابلِ قبول ہوسکتی ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کی جانب گوپی چند نارنگ ، وزیر آغا ، حامدی کاشمیری ، عتیق اللہ ، وہاب اشرفی ،ناصر عباس نیّر، قاضی افضال حسین،قدوس جاویدجیسے اکابرین نے سنجیدگی سے توجہ نہیں کی ۔ یہ سوال اپنی جگہ اپنے تعقلات کی بنیاد پر اہم ہے جس سے مفر ممکن نہیں ۔ اس ضمن میںحتی المقدور غوروفکر سے کام لیتے ہوئے جو نتائج مستخرج ہوئے وہ اس طرح ہیں:
ہر کسی تحریک یا رجحان کا مقامی سیاق ہوتا ہے جو اُس کے معرضِ وجود میں آنے کے اسباب فراہم کرتا ہے۔ اس طرح اُردو میں جب ہم سرسید تحریک ، ترقی پسند تحریک یا جدیدیت کی بات کرتے ہیں تو اِن سب نے مغربی اثرات قبول کرتے ہوئے اُردو میں اپنی شناخت قائم کی لیکن انہوں نے کسی ایک مغربی خیال یا فلسفے کو مقدم جان کر اُس سے استفادہ کیا یا اُس کی تتبع میں خود کو آشکار کیااور یوں وہ اُردو کی تحریکیں یا رجحانات کہلائے۔ اس کے برعکس مابعد جدیدیت کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ موخرالذکر ۱۹۸۰ء کے آس پاس اُردو تنقید میں زیرِ بحث انِ معروضات کے ساتھ آئی کہ اِ س کی فکری اور فلسفیانہ بنیاد بادریلا، میشل فوکو، دریدا، لیوٹارڈ ، فریڈرک جیمسن کے افکار پر مبنی ہیں۔ اِن مفکرین میں سے بعض فرانس کے ہیں اور باقی اسی طرح یوروپ کے دوسرے ممالک اور تہذیبوں سے متعلق ہیں۔ اُردو کے عام قارئین اور ادبا کا یہ سوال اہم ہوسکتا ہے کہ اِن مفکرین کے خیالات ہماری تہذیبی ترجیحات، ثقافتی انسلاکات ، معاشرتی میلانات اور ادبی و لسانی جمالیات سے مختلف ہیں تو اِ ن کے خیالات کو کس طرح ہماری مجموعی صورتِ پر منطبق کیا جاسکتا ہے۔ لیکن میں قارئین اور ادبا کرام کی خدمت میں یہ عرض کردوں کہ اُردو میں ۱۹۸۰ء کے بعد کا زمانہ وہ زمانہ نہیں رہا جو ۱۹۴۰ء یا ۱۹۶۰ء کا تھا۔ گو خالص ہماری اپنی شعری اور نثری میلانات وہ نہیں رہے جو ساٹھ کی دہائی میں تھے۔مغربی مابعدجدیدیت سے ہم اگر یہاں پرصرفِ نظر بھی کریں تب بھی ۱۹۸۰ء کے بعد کا زمانہ جدیدیت والا زمانہ نہیں ہے۔ گویا اگر۱۹۸۰ء کے بعد کے ادب میں فکری، لسانی اوراسلوبی سطح پر تغیر اور تبدیلی واضح ہے تو اسے کیوں کر ’جدیدیت ‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ گویا۱۹۸۰ء کے بعد کا دور کچھ اور ہوتو ہو لیکن ’جدیدیت ‘کسی بھی طور نہیں ہے۔ اب چوں کہ اُردو ادب کا ہر دور اپنے حاوی فکری میلانات کے سبب کوئی نہ کوئی نام ضروررکھتا ہے، اس لیے ۱۹۸۰ء کے بعد کے دور کو بھی نامیانے کی ضرورت ہے۔ اب اربابِ حل و عقد کے سامنے کئی ایک نام ہیں جو جسے وہ اس دور کو شناخت کے لیے مقرر کرسکتے ہیں:
۱۔پس جدیدیت
۲۔ مابعدجدیدیت
۳۔ جدید تر ادبی صورتِ حال
۴۔ عالمگیر ادبی رجحان
۵۔ نئی ادبی صورتِ حال
۶۔ معاصر ادبی صورتِ حال
غرض یہ اور اس طرح کے کئی نام اِس دور کو دیے جاسکتے ہیں لیکن اپنے قریب ترین سابقہ ادبی رجحان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ ’’مابعد جدیدیت‘‘ کا دور کہلایا۔ واضح رہے اب یہ مغربی مابعدجدیدیت ہرگز نہیں ہے بلکہ اُردو کے اپنے قریب ترین ادبی رجحان کے بعد کا دور ہے۔ میرے خیال میں اب کسی کوبھی دورِ حاضر کو’ مابعد جدیدیت‘ کا دور کہلانے میں اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ اب یہ خالص مقامی رنگ و بو کی متحمل رہتی ہے۔لیکن اُردو کی دوسری تحریکات اور رجحانات کی طرح اس کے بھی فکری پس منظرکو مغربی دانشوروں کی کاوشوں میں تلاش کیا گیا ہے ۔ وجہ ظاہر ہے کہ عالمگیریت کے تحت جوتغیر و تبدل یوروپ میں نظر آیا جس سے کوئی بھی ذی حس انسان راہ فرار اختیار نہیں کرسکتا ہے ،اور جس نے ہماری زندگی کے ہر پہلو کو کم و بیش متاثرکیا۔ یہی تغیر کسی نہ کسی صورت میں یا ترمیم و تبدیلی کے ساتھ برصغیر میں بھی دیکھنے کو ملا۔
اس اعتبارسے مابعد جدیدیت کے بنیادی مقدمات پر مفصل گفتگو کی یہاں گنجائش نہیں ہے تاہم ان کا اجمالی جائزہ پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:
۱۔ مہابیانیہ (Grand Narration) کا رد:
مابعد جدیدیت کا سب سے اہم وصف یہ ہے کہ اس نے ان تصورات کے کامل انہدام کا سامان پیدا کیا جو ما قبل کے اہم فکری ستون تھے مثلاً عقلیت پسندی، کلیت پسندی، آفاقیت، ترقی، فلاح اور خوش حالی وغیرہ۔ مابعد جدیدیت نے ان تمام تصورات کو مہابیانہ (grand or master narratives) قرار دے کر ان کے مقابلے میں مِنی بیانیہ کو پروان چڑھایا ہے۔ جو آفاقیت کے بجائے مقامیت پر اصرار کرتے ہیں۔ مابعد جدیدیت ان مہابیانیوں کو چیلنج کرتی اور انھیں معرضِ سوال میں لاتی ہے ان مہابیانیوں کے سر سے آفاقیت اور کلیت کا تاج اتار پھینکتی ہے اور انھیں سامنے کی سماجی، سیاسی اور ثقافتی صورتِ حال کے تناظر میں لانے کی کوشش (contextualize) کرتی ہے۔ یوں مابعد جدیدیت کسی ایک مرکزی بیانیے کی بجائے متعدد، متنوع او رمِنی بیانیوں کا تصور پیش کرتی ہے۔ ان میں سے کوئی بیانیہ حتمی اور مطلق نہیں ہے۔ بہر حال بیانیے کی معنویت اس کے مخصوص تناظر کے اندر ہے۲؎۔ غرض مابعد جدیدیت کسی بھی مہابیانیہ یعنی بڑی فلسفیانہ روایت پر یقین نہیں رکھتی۔ ہیگل ہوکہ مارکس، ما بعد جدید ذہن سب کو مشتبہ او رمشکوک نظر سے دیکھتا ہے۔ اس لیے مابعد جدیدیت ’’چھوٹے بیانیہ‘‘ (mini narratives) کی حمایت کرتی ہے۔ یعنی ضمنی اور مقامی روایت کو ترجیح دیتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ مقامی ثقافتی شناخت کی بازیافت کی کوشش ہے۔
(۲) معنی کی تکثیریت (Plurality of Meaning):
مابعد جدیدیت میں متن واحد معنی نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ معنی اور مفاہیم کے لامتناہی سلسلہ کا امین ہوتا ہے۔ واضح لفظوں میں مابعد جدیدیت متن میں مضمر معانی کی طرفوں اور تہوں کو کھولنے کا فلسفہ ہے۔ یہ تمام نظر انداز کردہ معانی کو سامنے لانے پر اضرار کرتی ہے۔ دریداؔ نے طاقت اور اقتدار کے توسط سے معانی کی تشکیل کی جو بات کی اس کے حوالے سے مابعد جدیدیت نے متن کی تکثیریت کا فلسفہ پیش کیا جس کی رو سے حاشیہ پر رکھے ہوئے معنی کو سامنے لانے کی بات کی گئی ہے۔ یا اس معنی کو قرأت کے دوران پانے کی بات کی گئی ہے۔ جو متن میں موجود تو ہے لیکن سماجی، ثقافتی اور سیاسی عصبیت کی وجہ سے اس کا اظہار ممنوع قرار پاتا ہے۔ اس طرح مابعد جدیدیت متن کے معانی کے سکہ بند تصورات کو توڑتی ہے بلکہ یہ مقامی ثقافتی شناخت پر مُصر ہے۔ اس بات سے شاید ہی کسی کو انکار ہوگا کہ مابعد جدیدیت ایک کھلا ڈلا ذہنی رویّہ ہے۔ تخلیقی آزادی کا، اپنے ثقافتی
تشخص پر اصرار کرنے کا، معنی کو سکہ بند تصورات سے آزاد کرنے کا، مسلمات کے بارے میں از سر نو غور کرنے اور سوال اٹھانے کا، دی ہوئی ادبی لیگ کے جبر کو توڑنے کا، ادعائیت خواہ سیاسی ہو یا ادبی اس کو رد کرنے، زبان پر متن کے حقیقت کے عکسِ محض ہونے کا نہیں بلکہ حقیقت کے خلق کرنے کا، معنی کے معمولہ رخ کے ساتھ اس کے دبائے یا چھپائے ہوئے یا نظر انداز کئے ہوئے رخ کے دیکھنے دکھانے کا، اور قرأت کے تفاعل میں قاری کی کارکردگی کا۔ دوسرے لفظوں میں مابعد جدیدیت تخلیق کی آزادی اور تکثیریت کا فلسفہ ہے جو مرکزیت کا کلیت پسندی کے مقابلے میں ثقافتی بوقلمونی، مقامیت، تہذیبی حوالے اور معنی کے دوسرے پن the other کی تعبیرپر اور اس تعبیر میں قاری کی شرکت پر اصرار ہے‘‘۔۳؎ مابعد جدیدیت کسی معنی کے حتمی اور قطعی ہونے کی جب دعویدار نہیں ہے تو کسی متن کی کلیت پسندی اور دائمیت کی بات کیسے کرسکتی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ مابعد جدیدیت کا کوئی مرکزی متن نہیں ہے۔ جس طرح مابعد جدیدیت ہر مہابیانیہ اور ہر نظریے کو رد کرتی ہے، جو خود اس کی حتمیت کی نفی کرتی ہے۔ غرض جب مابعد جدیدیت کسی نظریے کو حتمی، مطلق اور آفاقی ماننے سے انکار کرتی ہے تو اس بات کا اطلاق خود پر بھی کرتی ہے۔ اسی طرح مابعد جدیدیت کا کوئی مرکزی اوربنیادی متن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مابعد جدیدیت کو کسی فکری دائرے میں مقید نہیں کرسکتے ہیں۔ گمان اغلب ہے کہ اسی وجہ سے مابعد جدیدیت کی کوئی سکہ بند تعریف ممکن ہے نہ مناسب۔
(۳) تخلیقی آزادہ روی
مابعد جدیدیت کے بنیادی مقدمات میں تخلیقیت پر اصرار بے جا نہیں ہے۔ اس نے مصنف، متن، قاری اور قرأت سب کے حوالے سے تخلیقیت کو غیر معمولی اہمیت تفویض کی ہے۔ مصنف موضوعات کے انتخاب و برتائو میں آزاد ہیں۔ متن سے اخذ معانی کے عمل میں قاری آزاد ہے۔ اسی طرح قاری قرأت کے تفاعل کے دوران اپنی تخلیقیت کو پروان چڑھا سکتا ہے۔ تخلیقی آزادی کی یہ روش مابعد جدیدیت کا اہم امتیاز ہے۔ اس کی رو سے متن کو صرف مصنف کی ہی تخلیق قرار نہیں دے سکتے بلکہ متن کو قاری بھی خلق کرتا ہے۔ ہندی ادب کے نامور نقاد پروفیسر نامور سنگھ ادب کے مختلف تخلیقی مراحل سے متعلق اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’تنقیدی عمل میں لگے ہونے کے سبب میں تخلیقی ادب کا قاری ہوں۔ لیکن قاری بھی تخلیق کار ہوتا ہے اور قاری اس شاعری کو اپنے طریقے سے تخلیق کرتا ہے۔ لوگ اپنی پڑھی سنی چیزوں میں اپنا کچھ جوڑ دیتے ہیں۔ ’’رام چرتر مانس‘‘ پچھلے پانچ برسوں میں وہی نہیں رہ گیا ہے۔ جس شکل میں اس وقت لوگوں نے پڑھا ہوگا آج بھی دیکھتے ہیں کہ رام چرتر مانس کی تشریح لوگ طرح طرح سے کرتے ہیں اور نئے نئے معانی پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے مابعد جدیدیت اگر یہ کہتی ہے کہ کسی تصنیف کو قاری بھی تخلیق کرتا ہے تو ایسا کہہ کر وہ تخلیقیت کو خارج نہیں کرتی بلکہ تخلیقیت کی دنیا کو وسعت بخشتی ہے‘‘۔۴؎
تخلیقی آزادہ روی کو بعض لوگوں نے مابعد جدیدیت کے برعکس جدیدیت کا وصف گردانا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جدیدیت میں جس تخلیقی آزادی کی بات کی جارہی تھی، وہ صرف ذات کی حدوں میں مقید تھی۔ وجودیت اور بے بسی وبے چارگی اس کے نمایاں پہلو تھے۔ ان سے آگے جدیدیت کی تخلیقی آزادی دو قدم بھی نہیں چل سکی جبکہ مابعد جدیدیت کی تخلیقیت فطری موضوعات کو انگیز کرتی ہوئی زندگی کے ہر سکھ او ردُکھ کو اپناتی ہے۔
(۴) کوئی بھی نظریہ حتمی اور قطعی نہیں ہے
مابعد جدیدیت کی اہم خوبی یہ ہے کہ اس نے ہر نظریے کی مطلقیت (absolutism) کو رد کیا ہے۔ کسی بھی نظریہ کے حتمی اور قطعی نہ ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ مابعد جدیدیت میں کوئی نظریہ نہیں ہے۔ بلکہ ہر نظریہ مابعد جدیدیت میں شامل ہوسکتا ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے اس کوکوئی حیثیت ہی حاصل نہ رہی ہو۔ مابعد جدیدیت کسی مخصوص نظریے کو اپناتی بھی ہے اور اس نظریے کو رد کرنے کا سامان بھی اپنے پہلو میں رکھتی ہے۔ اگر آج مابعد جدیدیت میں پس ساختیات، نومارکسیت یا ما بعد نوآبادیات یا نو تاریخیت جیسے نظریے ہیں تو کل وہ رد بھی ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح جو نظریہ ابھی تک حاشے پر تھا اب مرکز میں آکر اہمیت حاصل کرنے لگا۔ مابعد جدیدیت کو سمجھنے میں اس لیے بھی دقتیں پیش آتی ہے کہ یہ کوئی بندھا ٹکا نظریہ نہیں، بلکہ نظریوں کا رد ہے۔ اس کی رو سے کوئی نظریہ کافی و شافی نہیں بلکہ ہر نظریے میں اس کے رد کی گنجائش بھی ہوتی ہے۔ یہ رویّہ سابقہ رویّوں سے خاصا مختلف ہے۔ جو اذہان مختف نظریوں کا بت بناتے ہیں اور نظریوں میں ہر درد کی دوا ڈھونڈنا چاہتے ہیں ان کو مابعد جدیدیت کی بت شکنی اور آزارگی آسانی سے سمجھ میں نہیں آتی‘‘۵؎۔ اُردو میں مابعد جدیدیت کو ترقی پسند تحریک اور جدیدیت کی طرح سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے۔ ترقی پسند تحریک ایک ایسی ادبی تحریک کے طور پر اُردو میں شروع ہوئی جس کی فکری اور فلسفیانہ بنیادیں کارل مارکسؔ اور اینگلزؔ کے تصورات او رنظریات پر استوار تھیں جسے ہم ماسکو برانڈ مارکسزم (Maso Brand Marxism) کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ اسی طرح جدیدیت ایک ذہنی اور فکری رجحان تھا جس کی اساس کر کے گارڈ، سارتر اور کامیو کے وجودی افکار پر مبنی تھی۔ جدیدیت ذات کے مسائل لے کر سامنے آئی۔ مثلاً اجنبیت، بے چارگی و بے چہرگی، منفیت، لایعنیت، یاسیت، وجودیت وغیرہ۔ ان سب کے برعکس مابعد جدیدیت کی فکری بنیادیں ایک نہیں بلکہ کئی نظریات پر مبنی ہیں، جیسے پس ساختیات، نو تاریخیت، تانیثیت وغیرہ۔ اس لیے مابعد جدیدیت کی تفہیم و توضیح ان نظریات کے بنیادی مقدمات کے حوالے سے کرنا مناسب او رموزون ہے۔ ان نظریات کو الگ ایک ذیلی ابواب میں مفصل اور مدلل انداز میں پیش کیا جائے گا۔ مابعد جدیدیت کے بنیادی مقدمات کو پیش کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ پچھلے بیس تیس برسوں میں انسانی سوچ میں اتنی تبدیلیاں آئی ہیں کہ پہلے کی بہت سی چیزوں پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ بہت سی معمول حقیقتیں جو انسان کی صلاح و فلاح کی ضامن سمجھی جاتی تھیں، اب شک کی نظروں سے دیکھی جانے لگی ہیں۔ تاریخ کا سفر ترقی کی راہ میں ہے یا نہیں، انسانیت کا مستقبل، ذات کی مرکزیت، معنی کی کشاکش، زبان کی پُراسراریت، ادب کی نوعیت و ماہئیت، متن کی خود کفالت، قاری کی فعالیت، ان سب سوالوں کی طرفیں کھل گئی ہیں اور یہ سب بحثیں مابعد جدیدیت منظر نامہ کا حصہ ہیں‘‘۶؎۔ مابعد جدیدیت اور مقامیت
مابعد جدیدیت کے مذکور بالا مقدمات کی تعریف کے بعد آئیے اس امر پر غور کرتے ہیں کہ یہ عوامی ادب کو کس طور پر انگیز کرتے ہیں۔ مابعد جدیدیت کی سب سے بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اُن روایات، نظریات اور اقدار کے بطلان کا اعلان کرتی ہے جو امتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ عام عقل کا حصہ بن گئے یا جبراً بنائے گئے مثلاً ہم یہ ایک زمانے سے سنتے آئے ہیں کہ دنیا میں جمہوری اقدار قائم کی جائیں گی لیکن دنیا کے طاقتور ممالک اپنے مفادات کی تحصیل و تکمیل کے لیے کس طرح اس جمہوریت کا گلا گھونٹ رہے ہیں اس کا تماشہ چشم فلک نے ہر زمانے میں دیکھا ہے۔ اسی طرح عالمی بھائی چارہ کا راگ الاپا جارہا ہے لیکن ایسے عناصر منضبط انداز میں انسانوں کی نسل کُشی کررہے ہیں جن سے نہ صرف انسانیت شرم سے سرنگوں ہے بلکہ بھائی چارہ کے حامی ہی اس کی تابوت میں کیل ٹھوکنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ اس طرح کی کئی مثالیں ہیں جن سے طوالت کے خوف سے یہاں پر صرف نظر کیا جارہا ہے۔ لیکن کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عالمی اہمیت کی حامل انہی اقدارا کو مابعد جدیدیت نے ’’مہابیانیہ‘‘ کا نام دے کر اس انداز سے رد کردیا کہ ان کی جگہ مقامی اقدار و روایات او رتصورات و مفروضات کو ثقافتی منظر نامہ ک احصہ بنانے پر اصرار کیا۔ اس کلیے کی رُو سے عالمگیریت (Globization) کی جگہ مقامیت (Localism) کو بہ نظرِ استحسان دیکھا جارہا ہے۔ اس بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ مقامیت سے مراد ہمارے ارد گرد کے معاشرتی مسائل و مصائب، میلے و ٹھیلے، آداب و خوردو نوش، سماجی رویّے جیسے عناصر کے ساتھ ساتھ وہ نہ جانے کتنے اور کیسے پہلو ہیں جن کے سائے میں معاشرے کا ایک عام انسان طوہاً و کرہاً زندگی گزار لیتا ہے۔ غرض یہ ایسے عناصر ہیں جن سے ہماری ہر صبح کا سفر شام تک پہنچ جاتا ہے۔ اس میں ہمارے معاشرے کے وہ دونوں اجزا لائقِ توجہ ہیں جو ہمیں مغموم و محزون اور نشاط و انبساط سے دو چار کرتے ہیں۔ مقامیت کا سب سے اہم او بنیادی جُز ہماری اجتماعی سائیکی ہے جس کی رُو سے ہم خوب او رناخوب او راعلیٰ و ادنی کے مابین خطِ امتیاز کھینچ لیتے ہیں۔ مقامیت نے ہی ہمارے سامنے کی زندگی کے وہ دھنک رنگ چن کر ہماری ثقافتی شناخت کو رنگا رنگ بنادیا ہے۔ غرض مابعد جدیدیت نے عالمی سطح کی اقدار کے مقابلے میں جن مقامی روایات و اقدار اور افکار و تصورات کو حاشیے سے اٹھا کر مرکز میں لانے کا سب سے اہم کام کیا ہے اس کی بنیاد پر آج ہر کوئی ثقافتی مظہر مابعد جدید صورتِ حال کا منت پذیر ہے۔
مابعد جدیدیت کے دو رمیں عوامی ادب
’’مقامیت‘‘ کے حوالے سے مذکورہ بحث آگے بڑھاتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ عوامی ادب اسی مقامیت کے بطن کا وہ زائیدہ ہے جس میں عوامی احساسات و جذبات، تجربات و مشاہدات، تصورات و مفروضات، آرزوئیں و امنگیں، محرومیاں و مجبوریاں کی لیل و نہار کا مشاہدہ بڑی آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔ راقم الحروف کا یہ ماننا ہے کہ کسی بھی معاشرے کا ادبِ عالیہ (Classical Literature) اس کے عوامی ادب جسے عرفِ عام میں فوک ادب کہتے ہیں کا ارتقائی روپ ہوتا ہے۔ اب جب کہ مابعد جدید دور میں مقامی روایات اور اقدار کو غیر معمولی طور پرترجیح دی جارہی ہے۔ اس لیے دورِ حاضر کو ادبی سطح پر عوامی ادب سے منسوب کیا جانا چاہئے۔ اس کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ سائنسی انکشافات اور ایجادات کے زائیدہ اطلاعاتی تکنالوجی کی ہوش رُبا ترقی نے طفننِ طبع کے اتنے اور ایسے ذرائع فراہم کیے ہیں کہ اس فہرست میں ادبِ عالیہ دوسرے یا تیسرے درجہ کی شے کے بطور اپنی موجودگی پر اصرار کررہے ہے۔ غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے اجتماعی ذوقِ طبع میں انقلابی نوعیت کی تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ برصغیر کے تناظر میں اگر دیکھیں تو اور باتوں کے علاوہ اُردو زبان و ادب کی تنزلی نے بھی اس ڈوبتی ہوئی نیا کو بسوئے بھنور ہونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ واقع یہ ہے کہ مرزا محمد رفیع سوداؔ، میر دردؔ، غلام ہمدانی مصحفیؔ، انشا اللہ خان انشاؔ، شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ، مومن خان مومنؔ، مرزا غالبؔ کے شعری شہ پاروں اور سجاد حیدر یلدرم، خوجہ حسن نظامی، پریم چند، منف، بیدی، کرشن چندر، قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی کے منثور تخلیقی کارناموں سے علمی و جمالیاتی، تاریخی و عمرانیاتی، لسانی و تہذیبی اور فکری و اسلوبیاتی ادراک و احساس کی دولتِ بیش بہا حاصل کرنے کے لیے جس سنجیدہ اور پختہ ذوق اور ظرف کی ضرورت ہوتی ہے وہ وہبی ہو یا نہ ہو لیکن اپنی اصل میں وہ کسبی صفت ہوتی ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے مناسب ماحول کے علاوہ مسلسل مشق و مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ اس مشق و مہارت سے منسوب ریاض کے لیے یکسوئی، دیوانگی کی حدوں تک پہنچے ہوئے ذوق شوق اور مزاج کی فطری مناسبت جیسے عناصر کی ناگزیر ضرورت ہوتی ہے، غرض یہ عناصر مجموعی طور پر آج اس لیے مفقود نظر آتے ہیں کہ دورِ حاصر کے برق رفتار حالات و واقعات ابنِ آدم کو غور و فکر کرنے کا ایک لمحہ بھی فراہم نہیں کرتے۔ اس طرح جب معاصر قاری اُردو کے کلاسیکی ادب پاروں سے مصافحہ یا مکالمہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ علیم اللہ حالیؔ کی زبان میں گویا یوں کہہ رہا ہے:
اے ناقدینِ فن میری تفہیم کے لیے
سنجیدگی ہے شرط تماشا نہیں ہوں میں
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ انٹرنیٹ کی طلسم کاری، ٹیلی ویژن چینلوں کی بھر مار اور دوسرے تفریحی ذرائع نے عام لوگوں اور ادبِ عالیہ کے درمیان خلیج کو پہلے سے زیادہ وسیع کیا۔ ادبِ عالیہ سے متعلق ان حقیقی مشاہدات و تصورات نے عوامی ادب کی مقبولیت اور اہمیت کو مزید دو چند کردیا۔ اب معمولی یا سطحی ذوق و شوق رکھنے والے لوگ دوسرے ذرائع کے ساتھ ساتھ عوامی اجب سے بھی اپنے تفننِ طبع کا سامان پیدا کرلیتے ہیں۔
عوامی ادب کی شعریات
مابعد جدید دورکے عوامی ادب کی شعریات اپنے ما قبل دور سے کس طرح مختلف ہے، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب اس ادب کی مختلف اصناف کو جگہ جگہ اپنے مقامی تہذیب و ثقافت کے حوالے سے پیش کیا جارہاہے۔ عوامی ادب کی شعریات سے مراد وہ قواعد و ضوابط اور اصول نظریات ہیں جن کے تحت اس کی تخلیق، ترسیل، تشہیر، تنقید اور تفہیم کے مختلف مراحل طے ہوتے ہیں۔ دراصل شعریات ایک ایسی جامع اصطلاح ہے جو بیک وقت ادب کی تخلیق و تحسین اور تنقید و تعبیر کے مختلف اور متنوع میلانات کو محطوی ہے۔ غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ عوامی ادب بھی ادبِ عالیہ کی طرح آئیڈلوجی سے خالی نہیں ہے اس لیے معاصر عوامی ادب کے مطالعہ کے دوران اُس معاشرتی گردہ کے مخصوص طرزِ فکر اور عقائد کی تہوں اور طرفوں کو کھولنے کا موقع فراہم ہوتا ہے نیز اس کا ادراک و احساس بھی ہمارے سامنے نمایاں ہوجاتے ہیں جس میں وہ تخلیق کے مختلف مراحل و منازل طے کرتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی ادب کی شعریات مسلسل تغّیر و تبدل سے ہم کنار ہوتی رہتی ہے۔
اب یہاں پر یہ سوال ابھر رہا ہے کہ عوامی ادب میں تخلیق کے لیے سماج کو کون سا طبقہ سرگرم رہتا ہے جس کے لیے عقلِ عام کے مطابق ہر طبقہ کی شرکت اپنے اپنے معیار و مزاج کے تحت ہوتی رہتی ہے کیوں کہ حسرتیں اور آرزوئیں، محرومیاں اور مجبوریاں، مسرت و انبساط، حزن و ملال کی دھوپ چھائوں کا نظارہ ہر ایک طبقہ کے یہاں مختلف صورتوں اور ہیئتوں میں کیا جاسکتا ہے اس لیے عوامی ادب کی تخلیق کو کسی خاص گروہ سے منسوب کرنا صحیح معلوم نہیں ہوتا ہے۔ لیکن عوامی ادب کی وضاحت جے۔ اے۔ کاڈن کر مرتب کردہ لغت Dictionary of Literary Terms and Literary Theory نے فراہم کی ہے، وہ اس ضمن میں متضاد نظریہ کی حامل محسوس ہوتی ہے۔ کاڈن نے اور باتوں کی علاوہ عوامی ادب کی تخلیق کے بارے میں لکھا ہے کہ:”Folk literature is the creation of primitive and illitrate people.”
لیکن اس حوالے سے یہ سوال قائم کیا جاسکتا ہے کہ کیا انسانی جذبات و احساسات صرف ایک طبقہ کے حصہ میں آئی ہے؟ کیا سماج کا متوسط او رتعلیم یافتہ طبقہ درد و غم، حزن و ملال، نشاط و انبساط کا اظہار و ابلاغ اپنے مترنم انداز و اسلوب میں نہیں کرتا ہے؟ اس طرح کے کئی سوالات بیک وقت ہمارے اذہان کو جھنجھوڑتے ہیں۔ لیکن ان سب باتوں کا جواب دیتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ حسرت و مسرت، خوشحالی و بدحالی ازل سے ابنِ آدم کا مقدر بنے ہوئے ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہوسکتا ہے کہ الگ الگ طبقات عوامی ادب کی مختلف اصناف میں اپنے مافی الضمیر کا اظہار کررہے ہیں۔ جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کی خلق کو صرف نیم خواندہ یا قدیم انسانوں سے مشروط کیا جائے۔ اس لیے عوامی ادب کو کسی خاص طبقہ سے مخصوص و منسوب کرنا کم عقلی او رکم نظری کی دلیل ہے۔
مابعد جدید دورمیں عوامی ادب کی اہمیت
’’مابعد جدید دورمیں عوامی ادب کی اہمیت‘‘ کے عنوان سے اس بحث کو سمیٹے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ دورِ حاضر اپنے جلو میں عمومی مزاج و معیار کے حوالے سے عوامی ادب کے فروغ کے لیے دھنک رنگ امکانات رکھتا ہے۔ ویسے بھی یہ د ور تکثیری مزاج کا متحمل ہے اس لیے ادب کی دوسری اصناف کے ساتھ ساتھ عوامی ادب کی اصناف کا پروان چڑھنا بھی یقینی بات ہے۔
حوالہ جات و حواشی
۱۔ گوپی چند نارنگ، جدیدیت کے بعد، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ۲۰۰۵، ص : ۴۷
۲۔ ناصر عباس نیّر، جدید اور ما بعد جدید تنقید، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، (پاکستان) سنہ اشاعت ۲۰۰۴ء، ص: ۲۰۲۔ ۲۰۱
۳۔ بحوالہ گوپی چند نارنگ، جدیدیت کے بعد، ایجوکشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، سنہ اشاعت ۲۰۰۵ء، ص: ۳۱
۴۔ نامور سنگھ، تخلیقیت کا نیا منظر نامہ، مشمولہ ماہنامہ کتاب نما (زیر اہتمام)، دہلی، نومبر ۲۰۰۷ء، ص: ۵
۵۔ گوپی چند نارنگؔ، مابعد جدیدیت کے مختلف روشن زاویے، مشمولہ، نئی ادبی دریافت، الہ آباد (اتر پردیش)، شمارہ نمبر ۲، ص: ۱۲
۶۔ ایضاً
7. J. A. Cuddon, Dictionary of Literary Terms and Literary Theory, Penguin, London, 1998, Pp-322

 

ڈاکٹر الطاف انجم

مابعدجدیدیت اورعوامی ادب کی شعریات کی تعمیروتشکیل