ماڈرن اردو قصيده نگارى ميں شكيل شمسى كے نئے رجحانات

ڈاكٹر بسنت محمد شكری

شعبہ اُردو،فيكلٹى آف آرٹس طنطا – يونيورسٹى،مصر۔

                آج ہمارى پيارى زبان اردو جو عالمى اعداد وشمار كے مطابق دنيا كى تيسرى بڑى زبان بن چكى ہے اس كو قومى اور بين الاقوامی سطح پر فروغ دينے ميں جن مشاعروں كا گزشتہ بيس سال ميں اہم رول رہا ہے ان مشاعروں ميں شكيل شمسى كى شركت اور شموليت خاص اہميت رکھتى ہے ۔ یہ بات سچ ہے کہ حقیقی صحافى اور شاعر اپنے بارے میں خود كچھ نہیں لكھ پاتے۔شكيل شمسى ايك جيتے جاگتے ادبى معيار وقار اور كردار كا نام ہے وه بنيادى طور پر غزل كے شاعر ہيں۔ ليكن انهوں نے قصيدے بھی لكھے ہيں ان كى قصيده نگارى ميں معاشى اور سياسى اسباب سے پيدا ہونے والى اس صورت كا حوالہ ہے جو آج ہندوستانى معاشرے، تہذيب اور سماج كى سطح پر بد ديانتى اور فريب كاريوں سے گزر رہى ہے۔ اس لئے وه نہايت درد مندى كے ساتھ انسانى معاشره اور جہان كى رونقيں مانگنے كے لئے اپنے پورے وجود كمال كے ساتھ جلوه گر ہوتے ہيں۔ ان كى قصيده نگارى ميں كسى طرح كے افكار وخيالات كى قيد نہيں ہے۔

دل کی خواہش ہے کہ چھپر پھاڑ کر دولت ملے

 مجھ کو بے محنت کئے ہی محنت آنا چاہیئے

 میں کہوں کھل جائے سم سم اور دروازہ کھلے

 اس علی بابا کو چوروں کا خزانا چاہیئے

 رزق تو اللہ دے گا بس وہی رزاق ہے

 صدق دل سے بس اسی سے لو لگانا چاہیئے

(قصيده در مدح حضرت فاطمہ زہرا)

 ان اشعار ميں خواہشوں اور حرص وہوس كے عمل كى بهر پور ترجمانى ہے ۔ ندرت خيال سے آراستہ وپيراستہ ايسى بے شمار جھلكياں ان كا مزاج شعرى ہے جس پر ان كے جمالياتى شعور كى قدرت كى داد دينى پڑتى ہے ۔اسى ليے ميں نے انهيں نئى ہوا كھلی فضا اور نئے طرز احساس كے شاعر كى حيثيت سے تعبير كيا ہے۔ سادگى كى اس مثال كو ديكھيں:

میں گھر گیا ہوں پھر سے یزیدوں کے درمیاں

میں آج قید پنجہء جورو جفا میں ہوں

(قصيده در مدح حضرت على)

 يہ شعر سياسى اور تہذيبى رویہ كى عام روش، يہ طرز احساس سوچ وفكر كا عمل دل ميں درد جگاتا ہے اس طرح كے اشعار ان كے يہاں تلخى آميز عمل كر ديتى ہے اور تخليقى سطح پر بيدارى كے خوابوں كى ضمانت بن جاتى ہے ۔ شكيل شمسى ايك تخليق كار كى حيثيت سے شاعر كى ذمہ دارياں خوب نبھاتے ہيں ۔ مضامين موضوع كے انتخاب اور اسلوب كى بھول بھليوں كو پورى طرح سمجھتے ہيں اور ايك متعين كرده دائره عمل زبان تخيل ظرف اور ادراك كى رنگ آرائى اور معنى آفرينى سے لذت گوش ہى نہيں ہوش وخرد بھى چھين ليتے ہيں۔ ان كى قصيده نگارى ميں خيال نوکی ادائیگی جگہ جگہ موجود ہے۔ شكيل شمسى زبان كى ہيئت ساخت آفرينى كا لحاظ ركهتے ہيں نازك ترين واردات وكيفيات كى مؤثر تصوير كشى كرتے ہيں، اپنے قصيدوں ميں تواتر وتسلسل كے ساتھ آہنگ كے بہاؤ كا خيال ركھتے ہيں ايك حادثاتى مشاہده جيسے واقعات كربلاء كا ذكر شكيل شمسى تفصيل سے اور اپنے مخصوص انداز ميں كرتے ہيں۔ چند اشعار ديكھيں:

 اے خدا آل نبی کی مدح کرنے کو مجھے

 فکر دعبل اور دل بہلول دانا چاہیئے

 فاطمہ کے نام پرمحفل سجے جب بھی شکیل

 سب سے پہلے سورۂ کوثر سنانا چاہئے

(قصيده در مدح حضرت فاطمہ زہرا)

                اگر شعر ميں جمالياتى عنصر كى كارفرمائى نہ ہو تو وه لذت ہوش وگوش كے ليے بے كيف ہے ۔لہجے اور اسلوب كو سپاٹ بنا ديتى ہے ۔شكيل نے اپنے اشعار ميں لفظوں كو اعتبار بخشنا ہے اور فضا كو روشن كرنے كے ليے لفظوں كى لوبڑھائى ہے ۔ وه ادبی علاقوں اور نشيبوں ميں عہد اور وقت كے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے اس كے تاريخى تہذيبى اور تمدنى شعور سے بهى بڑا كام ليتے ہيں اور استعارتى تجسيم تو ہميں چونكا ديتى ہيں ۔ اردو قصيدوں ميں غم كے مضامين بہت ملتے ہيں مگر اس قدر غم زمانہ اور غم جاناں شكيل كى قصيده نگارى ميں ملتا ہے شايد ہى كہيں اور مل سكے ۔ قصيدوں كى زبان بڑى دلكش اور شيريں ہے۔ شكيل كے قصيدوں ميں ايك رُكى تھمى سى كيفيت ملتى ہے جو ايك طويل داستان غم كاعنوان۔ اٌن كا غم خاموش اور گہرا ہے ” قصيده در مدح حضرت فاطمہ زہراء اور قصيده در مدح حضرت على ؒ” اس كى گرفت بھی ڈھیلی ڈھالى نہيں اس كے پنجے رگ جاں سے اُلجھے ہوئے ہيں جس سے چھٹنا محال ہے۔ اُن كے شعور ميں ايك خاص قسم كى لچك ہے جو مزاج كى نرمى اور گرمى دونوں سے مل كر ترتيب پاسكى ہے ان سب صلاحيتوں نے مل كر اُن كے بيان غم كو ايسى تاثير اور دلكشى بخشى ہے جس كى مثال شعرائے عصر حاضر ميں كمیاب اور ناياب ہے ۔شکیل شمسی کی شاعری بیرونی ممالک میں اہم حیثیت رکھتی ہیں۔

ڈاكٹر بسنت محمد شكری

ماڈرن اردو قصيده نگارى ميں شكيل شمسى كے نئے رجحانات