اسیرؔکشتواڑی کی تصنیف ’’ذکروفکر‘‘کاایک مختصرتعارف

\"\"
٭ڈاکٹرشہنازقادری
صدرشعبہ اُردو ،
گورنمنٹ ایم ۔اے۔ایم پی جی کالج جموں۔

’’ذکروفکر‘‘جموں وکشمیرکے خطہ ٔ چناب سے تعلق رکھنے والے محقق ،مورخ، نقاد،شاعراورسرکردہ سابقہ حکومتی عہدیدارجناب ولی محمداسیرؔکشتواڑی کی ایک شاہکارتصنیف ہے جو2018؁ء میں اقراء پبلشرس نے زیورِطبع سے آراستہ کی ہے ۔زیرنظرتصنیف 434 صفحا ت پرمشتمل ہے جس کاجاذب نظر گردپوش قاری کاایک تومن موہ لیتاہے اوردعوت فکربھی دیتاہے۔اسیرؔکشتواڑی کی یہ تصنیف ۳۵؍ ادبی ،مذہبی،تحقیقی، تنقیدی ،ثقافتی، تاریخی اور معلوماتی نگارشات پرمشتمل ہے ۔ان تمام مضامین میں اسیرؔکشتواڑی نے جموں وکشمیرسے ،تعلق رکھنے والے مقتدرعالموں اورادیبوں کی تصانیف یااصناف ادب پرتبصرہ کیاہے تواس کتاب کواگرتبصروں کامجموعہ کہاجائے توزیادہ بہترہوگا۔
زیرنظرکتاب کے گردپوش پراگرچہ پروفیسرشہاب عنایت ملک نے بہترین الفاظ میں مصنف کاتعارف یوں پیش کیاہے کہ
’’ریاست جموں وکشمیرکے ادبی اُفق پراسیرؔکشتواڑی کانام بڑامعتبرہے ۔وہ بیک وقت ایک ادیب،شاعر،محقق،تاریخ نگاراورتنقیدنگارکے علاوہ وسیع مطالعہ رکھنے والے ایک ذہین انسان بھی ہیں۔ تقریباً چونتیس کتابو ں کے مصنف ومولف اسیرؔکشتواڑی کوادبی ذوق کالج کی پڑھائی کے دوران ہی پیداہوگیاتھا جہاں ان کی رہنمائی برصغیرکے معروف شاعررساؔجاودانی نے کی۔اس کے بعدسرکاری ملازمت میں جب داخل ہوئے تو اس شوق نے اورزورپکڑلیا‘‘۔ ؎۱
( ؎۱۔ذکروفکر:ازاسیرؔکشتواڑی ۔ص۔گردپوش)
تاہم اسیرؔکشتواڑی کی اس کتاب کانام ہی دعوتِ فکردینے کے لئے کافی ہے۔’’ذکروفکر‘‘نام کاانتخاب اسیرؔکے وسیع وعریض ذہنی شعورکاپتہ دیتاہے ۔اگرچہ اس نام کی تاویلیں کھولنے کی کوشش کی جائے تو شروعات،قران مقدس کے مطالعے سے کی جاسکتی ہے ۔ذکرکے حوالے سے قران کی13ویں صورت الرعدکی 28ویں آیت کے آخری حصّہ کودیکھئیے۔
ترجمہ :’’سُن لواللہ کی یاد ہی میں دِلوں کاچین ہے ‘‘۔

ذکرکے ساتھ اگرچہ فکربھی ہواوروہ فکرجس سے اچھائی ،بہتری،خوفِ خدااورمثبت سوچ کوملایاجائے توانسان کاشرف عظمت کی بلندیوں پرگامز ن ہوناتوطے ہے ۔’’ذِکروفکر‘‘ کے وسیع موضوع کوحکیم الامت علامہ اقبال ؔیوں ’’نظم ‘‘کے پیرائے بیان کرتے ہیں ۔

یہ ہیں سب ایک ہی سالک کی جستجوکے مقام
وہ جس کی شان میں آیاہے علم الاسما

مقامِ ذکر،کمالات ِرومیؔ وعطارؔ
مقام ِفکر،مقالات بوعلیسینا

مقامِ فکرہے پیمائش ِزماں ومکاں
مقام ِذکرہے سُبحان ربی الاعلیٰ

غرض یہ صاحب ِکتاب کی علمی اورادبی بصیرت ہی ہے جس نے نام کااتنابہترانتخاب کیا۔نہ صرف یہ بلکہ ولی محمد اسیرؔکشتواڑی کی اُردوزبان وادب کے والہانہ محبت کاثبوت اس بات سے بھی ملتاہے کہ انہوں نے اپنی اس بیش بہامحنت کے ثمریعنی فکرونظرکوان تخلیق کاروں سے منسوب کیاہے جنھوں نے ان کے بقول وادی ٔ چناب کے تخلیق کاروں کواُردوزبان وادب کی خدمت کرنے کی راہ دکھائی ۔ ان میں مصنّف مرحوم رساؔجاودانی ،عشرت ؔکاشمیری ،نشاطؔ کشتواڑی ،طائوس ؔبانہالی اورگونی ؔبھدرواہی کے نام گِناتے ہیں۔
بہرحال اب کتاب کے مشمولات کامختصرتجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مضامین پرایک سرسری نظرڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے جہاں تک اس کتاب کے مضامین کاتعلق ہے یہ اُردوادب میں بے شک ایک حوالہ جاتی کتاب کاحکم رکھتی ہے ۔کتاب کے مشمولات میں پیش لفظ اُردوکے سرکردہ نقاد ،محقق صحافی،افسانہ نگار،ماہرِپریم چند وسرسیدپروفیسرصغیرافراہیم کاتحریرکردہ ہے ۔موصوف نے باریک بینی سے اس کتاب کامطالعہ کرکے ایک صحت مندتجزیہ پیش کیاہے ۔لکھتے ہیں۔
’’اس کتاب میں جومباحث سامنے آئے ہیں اورجو نئے اُفق دریافت ہوئے ہیں ان سے اُمیدیں اوربھی وابستہ ہوگئی ہیں ‘‘۔ ؎۲
( ؎۲۔ذکروفکر:ازاسیرؔکشتواڑی ۔ص۔۸)
پیش لفظ کے بعدمصنف نے ’’اپنی بات‘‘ کے عنوان سے کتاب کے بارے میں مختصراً اپنے خیالات کااظہار کیاہے ۔کتاب کے تعارف کے ساتھ ساتھ کتاب کے مشمولات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ۔
’’ان مضامین میں حتی الوسع اختصارسے کام لینے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ آج کے عدیم الفرصت انسان کوان کامطالعہ کرنے میں زیادہ وقت نہ لگے ‘‘۔ ؎۳
( ؎۳۔ذکروفکر:ازاسیرؔکشتواڑی ۔ص۔۹)
ولی محمداسیرؔکشتواڑی ریاست جموں وکشمیرکے شعرااورادباء کی صف ِاول میں بٹھائے جانے کے مُستحق ہیں۔اُردوشاعری میں وہ ایک منفردمقام رکھتے ہیں اب تک انکے لاتعداداشعارکوعلمی وادبی حلقوں میں سراہاگیاہے۔ریاستی حکومت میں اعلیٰ عہدیدارکی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دینے کے ساتھ ہی ساتھ علم وادب سے وابستگی ان کے گہرے عالمانہ شعورکاپتہ دیتی ہے ۔مصنف کی مذکورہ تصنیف کی شروعات سے ہی ان کے شاعرانہ ذوق کااندازہ لگایاجاسکتاہے ۔کتاب کاپہلامضمون ’’رساجاودانی ’’نظم ثریا‘‘کے آئینے میں‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں نہ صرف کتاب کاگہرائی اورگیرائی سے مطالعہ پیش ہواہے بلکہ موصوف کی شاعرانہ عظمت کااعتراف بھی کیاگیاہے ۔اسیرؔکشتواڑی رساؔجاودانی کی شاعری میں پوشیدہ حقیقت ورومان کے حسین ودلکش امتزاج کی نشاندہی کرتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ رساؔجاودانی کی شعری زبان کابھی بھرپورجائزہ لیتے ہیں۔غزل رساؔ میں چھوٹی بڑی بحروں کاجوکامیابی کے ساتھ اظہارملتاہے اس کی نشاندہی مذکورہ مضمون میں باریک بینی سے کی گئی ہے ۔’’رساؔجاودانی ’’نظم ثُریا‘‘کے آئینے میں‘‘ اگرچہ بہ اعتبارِعنوان رساؔجاودانی کی نظموں کااحاطہ ہوناچاہیئے تھاتاہم اسیرکشتواڑی نے تنقیدی بصیرت کے ساتھ تحقیقی رویے کوبھی ہاتھ سے نہ جانے دیا۔انہوں نے رساؔجاودانی کی اُردودوستی اوراُردوزبان وادب کے تئیں ان کی والہانہ محبت کوبھی بخوبی اُجاگرکیاہے ۔پیش ہیں اس ضمن میں رساؔمرحوم کے یہ اشعار:
کیسی پیاری زبان ہے اُردو ہے ادب جسم جان ہے اُردو
لعل وجوہر کایہ خزانہ ہے یاجواہرکی کان ہے اُردو
نثرمیں گلستان ہے یکسر نظم میں بوستان ہے اُردو
نازاس دیس کو اسی پر ہے فخرِ ہندوستان ہے اُردو
غرض پہلے ہی مضمون میں مصنف نے اختصارکے دائرے میں مفکرانہ،ناقدانہ اورمحققانہ خوبیوں کے ساتھ شاعرِ دلنواز مرحوم رساجاودانی کے شعروشعورکانہایت عمدہ پیرائے میں حق ادا کیاہے ۔آگے چل کر اسیرؔکشتواڑی ریاست جموں وکشمیرسے تعلق رکھنے والے معتبرشعراکی ایک بڑی فہرست جن میں میکشؔ کاشمیری ،نشاطؔ کشتواڑی ،گونیؔ بھدرواہی ،طائوس ؔبانہالی ،برج ناتھ بیتاب ؔ،وفاؔبھدرواہی وغیرہ کے شعروفن کاجائزہ لیتے ہیں اوران شعراحضرات کے حوالے سے نہ صرف صنف ِ غزل میں رنگِ تغزل کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ ان کے کلام کونہایت عمدگی کے ساتھ شعروادب کی موجودہ صورت حال سے منسلک کرنے کافریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔
شعروشاعری نے ساتھ ساتھ اسیرؔکشتواڑی اُردونثرکے اسرارورموز کے ساتھ بھی حددرجہ ذہنی مناسبت ومطابقت رکھتے ہیں جس کاثبوت مذکورہ تصنیف ہی نہیں بلکہ اس سے قبل کی تصانیف تصویر ِضلع ڈوڈہ،ضلع ڈوڈہ کی ادبی شناخت ،تاریخِ اشاعت اسلام ،تاریخ اولیائے جموں وکشمیر،سفرحرمین ،یادِ ندیم ،فرشِ گُل ،فوکس آن جموں اینڈکشمیروغیرہ سے فراہم ہوتاہے۔ اسیرؔنے اُردونثرکی طرف بھی موجودہ تصنیف میں خاطرخواہ توجہ کی ہے ۔اس کتاب میں غیرافسانوی نثرکی اہم صنف انشائیہ کوبھی درلایاگیاہے ۔اسیرکشتواڑی نے پروفیسرمحمدزمان آزردہ کوشاعرکے ساتھ ساتھ ناقد،ترجمہ کاروانشا نگارکے بطوربھی پیش کیا ہے۔
زیرنظرکتاب میں اسیرؔنے انکے انشائیوں کی روشنی میں نہایت عمدگی کے ساتھ تجزیہ پیش کیاہے اورباریک بینی سے ان کے مجموعہ ہائے انشائیہ ’’غُباردِل ‘‘،’’شیریں کے خطوط‘‘غبارکارواں کابہترین تنقیدی جائزہ لیاہے ۔پروفیسرمحمدزمان آزردہ کے اِنشائیوں کاتجزیہ کرتے ہوئے اسیرؔکشتواڑی بحوالہ گوپی چندنارنگ یوں رقمطرازہیں۔
’’انشائیہ وہی لکھ سکتاہے جوزندگی بسرکرنے کاہُنرجانتاہواورزندگی کی خوشیوں،محرومیوں،خوبیوں،کجیوں اوربلندیوں ،وادیوں ہرچیزکواپنی گرفت میں لے سکتاہو۔ محمدزمان آزردہ ؔکے انشائیوں میں اس بات کی اچھی کوشش ملتی ہے ‘‘۔ ؎۴
( ؎۴۔ ذکروفکر۔ازولی محمداسیرؔکشتواڑی ۔ص۔۱۸۵۔)
اس کتاب کوایک معلوماتی کتاب کی حیثیت بھی حاصل ہے وہ اس لئے کہ اس کتاب میں جموں وکشمیرکے کئی خطوں کی تاریخ ،تہذیب وتمدن ،ثقافت اورجغرافیائی ساخت کے بارے میں بھی جانکاری فراہم ہوتی ہے۔جہاں زیرِنظرکتاب کامطالعہ کشمیر،کشمیرصغیربھدرواہ اورکشتواڑکے نشیب وفرازسے قاری کوواقف کرتاہے وہیں سرزمین ِ لداخ کے جغرافیائی خدوخال سے بھی آشناکردیتاہے۔ مصنف نے عبدالغنی شیخ کی کتاب ’’لداخ :تہذیب وثقافت ‘‘کاایک معلوماتی تجزیہ پیش کیاہے جس سے خطہ لداخ کی تمام معلومات سے قاری کوواقف ہونے کاموقعہ فراہم ہوتاہے ۔اس ضمن میں زیرنظراقتباس کی معلومات انگیزاہمیت کودیکھئیے۔
’’لداخ ریاست جموں وکشمیر کا ایک اہم خطہ ہے جو ۱۹۴۷؁ء سے پہلے پینتالیس ہزار مربع میل پر پھیلا ہوا تھا ۔ کشمیر پر قبائلی حملہ کے بعد سارا گلگت پاکستان کے قبضہ میں چلاگیا جبکہ تقسیمِ ملک کے نتیجے میں اس کے اسکردو کا ایک حصہ بھی کٹ گیا تھا ۔ لداخ کا رقبہ گھٹ کر تیس ہزار مربع میل رہ گیا ہے‘‘ ؎۵
( ؎۵۔ذکروفکر:ازولی محمداسیرؔکشتواڑی ص۲۰۲)
نہ صرف یہ بلکہ لداخ کی تہذیبی،تمدنی ،جغرافیائی،ثقافتی اورادبی معلومات کے ساتھ لداخ میں اُردوزبان وادب کی بھی مکمل جانکاری ملتی ہے ۔’’لداخ ۔تہذیب وثقافت ‘‘کے مصنف کے حوالے سے اسیرؔکشتواڑی اس ضمن میں یوں رقمطرازہیں:
’’اُردولداخ کی تہذیبی اوررابطے کی زبان ہے۔یہاں کی مادری زبان کے بعداُردوپڑھنے والوں کی تعدادسب سے زیادہ ہے۔۔۔۔۔۔۔آزادی کے بعداُردونے نمایاں ترقی کی ۔اُردومیں کتابیں لکھی گئیں اوراُردوکے قارئین کی تعدادہزاروں تک پہنچی۔ آج لداخ میں ادبی ،سیاسی اورثقافتی زندگی پراُردوکااثرہے ‘‘۔ ؎۶
( ؎۶۔ذکروفکر:ازولی محمداسیرؔکشتواڑی ۔۲۰۳)
ذکروفکرمیں فن شناسی اورفنکارشناسی کے عمدہ نمونے یکجادیکھے جاسکتے ہیں۔ اسیرؔکشتواڑی نے زیرِنظرکتاب میں جہاں شاعری ،تاریخ ،تہذیب ،تمدن ،ثقافت ،انشائیہ وغیرہ پرموثرٔ اظہارخیال کیاہے ۔وہیں جموں وکشمیرمیں افسانوی ادب کابھی مکمل خاکہ پیش کیاہے خواہ وہ خالدحسین کے حوالے سے بات کی گئی ہویا،امین بنجارہ کے افسانوں کاتجزیہ کیاگیاہو،یاڈاکٹرعبدالمجیدبھدرواہی کاذکرکیاگیاہو۔یاکسی اور افسانہ نگارکوسامنے لایاگیاہو۔چونکہ یہاں سب پربات کرنے کی گنجائش نہیں ہے اس لئے نمونتاًمضمون ’’خالدحسین کی اُردوکہانیاں‘‘ کوبطورِحوالہ پیش کیاجاتاہے ۔خالدحسین کے افسانوں کین نو(۹) مجموعے منظرعام پرآچکے ہیں جنھیں عوامی حلقوں میں خوب سراہاگیاہے ۔اُن کاتخلیقی سفرجاری وساری ہے اور و ہ آئے دن اپنے قلم سے یکساں طورپراُردواورپنجابی زبانوں میں اپنے بیش بہاجواہرسے اضافہ کرنے میں مصروف ِعمل ہے ۔خالدحسین کے افسانوں میں خواہ ’’ستی سرکاسورج‘‘ یا’’اشتہاروں والی حویلی ‘‘کی کہانیاں ہوں یاکہ ان کی دوسری کہانیاں ان میں زندگی کے مختلف ومتعددتجربات ،سماجی اورسیاسی حالات ،تہذیبی وتمدنی واقعات اورمعاشرتی واقتصادی پہلوئوں کی نشاندہی جگہ جگہ دیکھنے کوملتی ہے۔غرض ’’خالدحسین کی اُردوکہانیاں‘‘ کے عنوان سے اسیرؔکشتواڑی نے ان کی حیات اورافسانہ نگاری کے ضمن میں پُرازمعلومات تحریرکونہایت خوبصورتی اورباریک بینی سے صفحۂ قرطاس پراُبھاراہے جس کی ایک جھلک مندرجہ ذیل اقتباس میں بخوبی دیکھی جاسکتی ہے۔
’’میں نے دیکھاکہ خالدبنیادی طور پر ایک زرخیز دماغ انسان ہیں جن کے خیالات بلنداورنرالے ہیں۔ جن کی سوچ مثبت ہے اورنظرانتہائی باریک ۔ جوزبان دان ہی نہیں بلکہ متناسب محاورات اورتشبیہات کواپنی رواں تحریر میں استعمال کرکے جادوبیانی کاثبوت فراہم کرتے ہیں۔وہ طِلمساتی دُنیاکو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی کہانیوں کامواد اپنے اردگردکے ماحول سے لیکراپنے فنی کمال سے اُنھیں رومان پر ور اور پُرکشش بنادیتے ہیں‘‘ ؎۷
( ؎۷۔ذکروفکر:ازولی محمداسیرؔکشتواڑی ،ص۔۲۳۳۔)
ذکروفکرمیں تبصروں کی زبان سلیس ،سادہ ،صاف وشفاف اورمربوط ودلکش ہے ۔مختصرالفاظ میں کہی ہوئی باتیں معنی ومفہوم سے لبریز ہیں۔اگرچہ متعددتصانیف واصناف پرمبصرنے تنقیدی بصارت سے بھی تبصرے کاکام لیاہے جس سے یہ کتاب تنقیدی تصنیف کے زمرے میں بھی باضابطہ طورپرآتی ہے تاہم متانت اورسنجیدگی بھی بدرجہ اُتم دیکھی جاسکتی ہے۔چنانچہ اسیراپنے تنقیدی ذوق کے حوالے سے خودہی ذکروفکرکے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:۔
’’میں کڑی تنقیدکرنے سے گریزکرتاآیاہوں محض اس لئے کہ میری تحریرپڑھ کراُبھرنے والے تخلیق کاروں کی ذرابھربھی حوصلہ شکنی نہ ہو‘‘ ؎۸
( ؎۸۔ذکروفکر:ازولی محمداسیرؔکشتواڑی ،ص۔۱۹۱۔)
اسیرؔکشتواڑی نے ذکروفکرمیں ایک اہم موضوع تاریخ کے حوالے سے بھی کچھ تبصروں کوشامل کیاہے ۔واضح رہے موصوف تاریخ نویسی کے میدان بھی اپناایک منفردمقام رکھتے ہیں۔ان کی کچھ تصانیف اس ضمن میں خاص اہمیت کی حامل ہیں۔’’تاریخ اولیائے جموں وکشمیر‘‘،تاریخِ اشاعت اسلام اورزیرِنظرکتاب میں بھی مصنف کے مختلف تاریخی نوعیت کے تبصروں نے اس شعبے یعنی تاریخ پراپنی دسترس کاثبوت فراہم کیاہے ۔اسیرؔکشتواڑی ،کشتواڑکی تاریخ کے ضمن میں ایک کہنہ سال مخطوطے کے حوالے سے کشتواڑکی تاریخ کامکمل خاکہ ’’تاریخِ کشتواڑکاڈیڑھ سوسال پرانا مخطوطہ ‘‘کے عنوان سے نہایت باریک بینی سے کرتے ہیں ۔اسی طرح جناب بشیرؔبھدرواہی کی تصنیف ’’بھدرواہ کی تاریخ وثقافت ‘‘کاتعارف اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ بھدرواہ کی تاریخ اورثقافت کاایک مکمل خاکہ قاری کے سامنے آتاہے ۔اسی طرح عبدالغنی منشورؔبانہالی کی تاریخی کتاب ’’بانہال گیٹ وے آف کشمیر‘‘ کامفصل تبصرہ کرتے ہوئے اس کی اہمیت وافادیت کامدلل تجزیہ پیش کرتے ہیں ۔موصوف مذکورہ کتاب کی اہمیت کے حوالے سے ایک صحت مندآرا ء بھی یوں ظاہرکرتے ہیں کہ :۔
’’بانہال گیٹ وے آف کشمیر‘‘کتاب ایک معتبراورموقرتاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے ۔اگریہ کتاب انگریزی زبان میں بھی منتقل ہوجائے توانٹرنیٹ کی وساطت سے یہ معلومات کاخزانہ پوری دُنیاکوفیض یاب کرے گا‘‘۔ ؎۹
( ؎۹۔ذکروفکر:ازولی محمداسیرؔکشتواڑی ،ص۔۲۵۴)
الغرض ذکروفکرکے تمام تبصرے یکے بعددیگراپنی ادبی،علمی،تحقیقی،تنقیدی ،تاریخی،تہذیبی اورمعاشرتی سطح پراہمیت وافادیت کے حامل ہیں ۔مصنف ذکروفکرنے ان تبصروں کامکمل حق اس لئے ادا کیاکیونکہ بذات ِ خودان کی شخصیت میں ایک ادیب،شاعر،محقق، مورخ،ناقد اورمبصرکی بے شمارتہیں سمٹی ہوئی ہیں۔ان کی ادبی اورتخلیقی کاوشوں کی بنا پرریاست جموں وکشمیرکے انہیں State Award کے امتیازی اعزازسے 2011؁ء میں نوازا۔ اسیرؔکشتواڑی کی دیگرتصنیفات میں بھی ذِکروفکر کی طرح ہی عمیق ادبی شعوراورسنجیدہ تحقیقی وتخلیقی کاوشیں دیکھنے کوملتی ہیں انہیں خوبیوں کی وجہ سے موصوف کی ایک اورتصنیف ’’تاریخ ِاولیائے جموں وکشمیر ‘‘کوجموں وکشمیراکیڈیمی آف آرٹ کلچراینڈلنگویجزکی جانب سے 2015؁ء کے کلچرل اکیڈمی ایوارڈسے نوازاجاچکاہے اورانکی ایک اورانگریزی تصنیف Focus on Jammu &Kashmir بھی۲۰۰۶؁ء ایوارڈیافتہ کتاب ہے ۔موصوف کی انہیں کتابوں کی سراہناکودیکھ کراورزیرنظرکتاب ذکروفکرکی ادبی وفنی گہرائی اورگیرائی کومحسوس کرکے راقمہ کواُمید ِقوی ہے کہ ولی محمداسیرؔ کشتواڑکی زیرنظرتصنیف نہ صرف پڑھی جائے گی بلکہ ہرسطح پراس کی اہمیت اورافادیت کوسراہابھی جائے گا۔

Leave a Comment