احمد رشید کے افسانوں میں ساختیاتی نظام

\"12088219_557718724385008_1478684689600791907_n\"
٭ ڈاکٹر حامدرضا صدیقی
89شبلی ہاسٹل ایم ایم ہال
اے ایم یو ،علی گڑھ۔

۱۹۷۰ اور ۱۹۸۰ کے درمیان جن مخصوص افسانہ نگاروں کو شہرت حاصل ہوئی ہے مثلاََ پروفیسر طارق چھتاری،سیدمحمد اشرف ، پروفیسر غضنفر وغیرہ ان میں ایک گوشہ نشیں افسانہ نگار احمد رشید بھی ہیں۔ انہوں نے ۱۹۷۹ء سے افسانہ لکھنا شروع کیا اور ان کا پہلا افسانہ ’’ شیشہ ٹوٹ گیا‘‘ ہے جو ۱۹۷۹ ء میں خاتون مشرق میں شائع ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا تخلیقی سفر جاری رکھا اور ان کے افسانے ملک اور بیرون ملک کے موقر رسالوں میں شائع ہوتے ر ہے ہیں ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’ وہ اور پرندہ‘‘ کے عنوان سے ۲۰۰۴میں شائع ہوا اور اس کے بعد ان کا دوسرا مجموعہ ’’ بائیں پہلو کی پسلی‘‘ ۲۰۱۴ء میں شائع ہوکر داد و تحسین حاصل کرچکا ہے۔
احمد رشید نے افسانہ نگاری کا آغاز تو اپنے عہد کے مروجہ رویوں یعنی رومان پسند ی سے کیا مگر اس کے بعد اپنی انفرادیت قائم کی اور حقیقت و رومان ، نفسیاتی لا شعور، نفسیاتی کش مکش کا اضافہ کرکے ایک منفرد موضوع کو منتخب ۔ انسان کے ذات کی نفسیاتی کیفیات، جنسی، معاشی مسائل ان کے افسانوں کا نمایاں موضوع ہیں۔ احمد رشید کے افسانوں کا دائرہ کار صرف انسان کے نفسیات اس کے شعور و لا شعور کی جہات تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان میں سماج میں بسنے والے ان انسانوں کے ہزاروں آرزو و خواہشات ہیں جو غربت و افلاس درد و کرب میں پیچ و خم کھاتے ہیں اور معاشرتی، ثقافتی، روایتی اقدار جو خواہشوںکی قتل کرکے ان کی نا آسودگی کا سبب بنتی ہیں اور پھر اس روایت کی طوفان میں آکر ریزہ ریزہ ہوجاتی ہیں۔ احمد رشید کے افسانے ہمارے سماجی نظام کے مختلف پہلوؤں کو بے نقاب کرتے ہیں وہ اپنے افسانوں میں طبقاتی تضادات ، اقتصادی، عدم مساوات اور سیاسی ظلم و استبداد پر برملا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں ہماری سیاسی، سماجی، خاص طور پر اقلیت اور بر صغیر کی تقسیم کے بعد اقلیتوں کی بدحالی، فسادات کے سانحے یہ تمام مسائل بھر پور تلخی کے ساتھ موجود ہیں۔ ان کے افسانوں کا ایک نمایان موضوع اس مشرقی روایت کی پاسداری ہے جس کا ہماری زمین روایات و اقداراور لوک ورثے سے گہرا رشتہ ہے۔ ان کے افسانے جہاں انسانی باطن میں موجود انوکھی سچائیوں کو اجاگر کرتے ہیں وہیں سماجی و ثقافتی منظر نامے میں حیات ممات کو تلاش بھی کرتے ہیں اور ان کے افسانوں میں ابدی و ازلی خفی وجلی حقیقت کی تلاش کے واضح اشارے بھی ملتے ہیں۔
’’ باہیں پہلوکی پسلی‘‘ احمد رشید کا دوسرا افسانوی مجموعہ ہے جو ۲۰۰۱۴ء میں شائع ہوا اس میں کل ۲۱ افسانے شامل ہیں جو اپنے موضوعات و مسائل کے اعتبار سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ’’ کہانی بن گئی‘‘ اس مجموعہ کا پہلا افسانہ ہے اور اس کہانی کی کردار ایک عورت ہے جو روی کمار کے نام سے کہانی لکھتی ہے در اصل اس کہانی میں افسانہ نگار نے افسانے کے فن رموز و علائم پربڑے ہی فنکارانہ انداز میں بات کی ہے جس سے کہانی کا پوری طرح سے ارتقاء تو ہوتا ہی ہے اور کہانی کیبناوٹ، ساخت و ہیئت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ اس کہانی کے کچھ حصے ملاحظہ ہوں۔
’’ گویا کائنات اور حیات کے تعلق سے انسان کو سمجھنے کی کوشش کو تخلیقی تجربہ نہیں کہیں گے‘‘
شاید آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انسان کا کوئی بھی عمل، در اصل اپنے آپ میں رد عمل ہوتا ہے۔‘‘
یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ہر زندگی کے اندر پوشیدہ کائنات کے رموز کا انکشاف
اور اس کابیان دیگر عمرکے ایک ایک لمحہ کا اظہاراز خود ایک کہانی ہوتا ہے۔
نگاہ چاہیے کہانی تلاش کرنے کے لئے۔‘‘
عورت جو اس کرہ ارض کا مرکز ی نقطہ ہے۔
اس کے کوائف، احساسات اور جذبات کا فنی اظہار کسی فرد کے بس سے باہرہے۔‘‘
ان اقتباسات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کہانی کار جو ایک معمر خاتون ہے اور مرد کے نام سے لکھتی ہے وہ ایک جہاں دیدہ عورت ہے وہ عورت کے (Emotion ) اور وجود کو بیان کرتی ہے جو واقعی ایک عورت کی ذات ہی سمجھ سکتی ہے عورت کے جذبات کیفیات کی صحیح ترجمانی کرسکتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ تخلیق کاروں کے مسائل کو بیان کرتی ہے کہ وہ کس طرح سے کہانی تخلیق کرتے ہیں اور انسان و کائنات کے سمجھنے کی کوشش کو تخلیقی تجربہ کہہ کر ایک بڑا سوال اٹھایا ہے کہ اس کائنات میں انسان اور کائنات کے مسائل کو سمجھنا خود ایک کہانی ہے۔ اور انسان کا کوئی بھی عمل در اصل اس کاردعمل ہوتا ہے یعنی تخلیق کار کہانیوں میں اپنے ردعمل کو ہی پیش کرتا ہے وہ جن مسائل اور تجربات سے گذرتا ہے اس کو کہانی کی شکل میں پیش کردیتا ہے ۔’’کہانی بن گئی ‘‘احمد رشید کا فنی اور اساسی نقطۂ نظر سے بہترین افسانہ ہے۔ ’’ ویٹنگ روم‘‘ در اصل دنیا کی بے ثباتی پر مبنی افسانہ ہے دنیا کو ویٹنگ روم کہہ کر افسانہ نگار نے اس کائنات کو فانی اور عارضی ہونے کے طرف اشارہ کیا ہے۔ کہانی دنیا کے گہما گہمی اور روزانہ کی دوڑ بھاگ انسانوں کی دنیاوی مشغولیات و مصروفیات سے شروع ہوتی ہے، کہانی کا مرکزی کردار ایک بوڑھا آدمی ہے جو سفر کررہا ہے وہی راوی بھی ہے جو ساری کہانی بیان کرتا ہے۔ اس کہانی میں سفر و مسافر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور انسان ایک مسافر ہے جس کو اس فانی دنیا سے ایک دن سفر کرنا ہی ہے اس دنیا کو ویٹنگ روم یعنی عارضی زندگی اور انسان کو مسافر کہہ کر یہ بتانا چاہتا ہے کہ انسان دنیا میں آنے کے بعد اپنے سفر آخرت کو بھول گیاہے اور عارضی دنیا کو بنانے میں مشغول ہے اس کو خوب سے خوب تر بنانے کی جستجو میں لگ جاتا ہے۔
’’ ویٹنگ روم کی صفائی ستھرائی میں لگ گیا تھوڑی دیر کے لئے وہ بھول گیا کہ وہ ایک مسافر ہے۔ نہ تکان کادھیان، نہ بوجھ کی الجھن۔ ویٹنگ روم کی چہار دیواری رنگین اور خوبصورت تصاویر سے سجی ہوئی تھیں ان مختلف تصویروں کے درمیان کا مختصر حصہ خالی پڑا تھا جو سپاٹ اور بدنمادکھائی دے رہا تھا اس نے سوچا اگر اس پر کوئی تصویر آویزاں کردی جائے تو اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگ جائیں گے۔ ویٹنگ روم کی زیب و زینت اور آرائش میں اس قدر مصروف ہوگیا وہ بھول گیا کہ ویٹنگ روم میں اس کا قیام صرف اتنا ہے کہ جب ریل گاڑی آجائے تو سوار ہوکر اسے اپنے وطن جاناہے۔‘‘
اس اقتباس میں کہانی کی پوری روح اور تھیم سمٹ آئی ہے اور کہانی کے پورے رموز و علائم واضح ہو گئے ہیں۔ احمد رشید بڑے خلاقانہ ذہنیت مالک ہیں۔ انہوں نے اس اقتباس میں جن خوبصورت تصاویر کا ذکر کیا ہے وہ اشارہ(استعارہ) ہے اس عالم کے فانی ہونے کا اور انسان اس عارضی دنیا کی زیب و زینت کرنے میں مصروفِ کار عبث مبتلا ہے۔ اس اقتباس سے دنیا کے فانی ہونے انسان کے سفر کرنے اور عارضی مسافر ہونے کے تمام مسائل پر واضح اشارے ملتے ہے۔ ’’ باہیں پہلو کی پسلی‘‘ ایک علامتی ، استعاراتی اور تمثیلی کہانی ہے احمد رشید نے دنیا کو ایک رنگ منچ سے تشبیہ دی ہے جس میں عورت کے وجود ، اس کے جنسی، معاشی، نفسیاتی،معاشرتی،اور خاندانی مسائل کو پیش کیا ہے عورت کے جذبات و احساسات اس کے نفسیاتی رد عمل اور ذہنی نشیب و فراز کو بڑی چابک دستی سے اجاگر کیا ہے۔ عورت ذات کی استحصالی صورت اور مختلف الجہات کو تمثیلی انداز میں بیان کیا ہے کہ مائی حوا سے لے کر دور حاضر میں عورت کی ذات کو کس کس انداز میں کچلا گیا ہے اس کا بتدریج ارتقائی سفر مذکورہ افسانہ کا موضوع بن گیا ہے۔ اس کہانی میںاحمد رشید نے جگہ جگہ قرآن و حدیث ، ویدوں ، پرانوں اور انبیا کرام کے قصوں سے بھی استفادہ کیا ہے۔ اس میں مرکزی کردار ایک نوجوان عورت ہے جو دور حاضر کے معاشرے میں آفس میں کام کرتی ہے آزاد خیال لڑکی ہے مگر مختار سے شادی کرنے کے بعد اپنے آپ کو مجبور محدود اور قیدی سمجھنے لگتی ہے۔ دور ازل سے سماج میں عورت کے کیا حقوق ہیں انسانی معاشرے میں اس کا کیا درجہ ہے مختلف تہذیبوں اور ادوار میں عورت کا کس کس طرح سے استحصال کیا گیا اور موجودہ سماج میں عورت کے وجود اور حقوق کے مسائل کیاہیں ان تمام مسئلوں کو ایک خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے۔ احمد رشید نے اس کہانی کا آغاز ابتدائے آفرینش سے کیا ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دور رسالت مآب ﷺ اور پھر اس کے بعد دور حاضر سے ملادیا ہے عورت ذات کے ساتھ پیدائش سے لے کر آخری سانس تک عدم مساوات اور استحصال کیا جاتاہے جب وہ رحم مادر میں ہوتی ہے تواس کے قتل کے بہانے اس مرد اساس معاشرے میں ڈھونڈ لئے جاتے ہیں بیٹی کے پیدائیش سے خاندان کے وقارپر داغ لگنے کا اندیشہ خیال کیا جاتا ہے ،یہاں تک کہ بیٹے کے ناجائز تعلقات سے خاندان کے وقار میں اضافہ سمجھا جاتا ہے؟۔ عورت ذات کو کبھی چترا کی صورت میں پتی کی جلتی چتا میں جلنا پڑتا ہے وہ کبھی بیوہ ہونے پر دنیا کے تمام منحوسیت ، طعنہ و تشنیع کا انبار بنا دی جاتی ہے کبھی کوئی مرد عورت کے مرنے پر کیوں نہیںجلتا؟ جس سے پتہ چلتا ہے کہ عورت معاشرہ میں جبر و تشدد کا شکار ہے۔ مرد کو دیوتااور بھگوان کا درجہ دیاجاتا ہے اور ناری کو دیوداسی، رکھیل، داسی سمجھا جاتا ہے اس کائنات میں مذہبی ٹھیکداروں نے بھی عورتوں کواپنے پیروں، تلے خوب روندا ہے اس کہانی میں احمد رشید نے یہ اشارہ بھی کیا ہے کہ آپ کی بعثت کے بعد لڑکیوں کو زندہ در گور کرنے کی بیہودہ رسم ختم ہوئی اور آپ نے فرمایا کہ وہ گھر جنت جیساخوبصورت ہے جس میں لڑکیاں ہوتی ہیں اور لڑکیاں قیامت کے دن دوزخ سے بچنے کے لئے ان کے لئے آڑ بن جائیں گی۔ اس میں افسانہ نگارنے یہ بھی سوال اٹھایا ہے کہ جو حضرات حقوق تانیثیت کی باتیں کرتے ہیںکہ عورت آزاد ہے تو وہ عورت کہاں ہے ؟جو آزاد ہے وہ تو مردوں کا لباس، مردوں کی طرح بال اوابود وباش اختیار کرنے کے بعد ہی مرد اساس معاشرے میں اسے کچھ ملا ہے تو وہ جسمانی حیثیت سے عورت ضرور ہے لیکن ذہنی طور پر تو وہ مرد ہی ہوتی ہے۔احمد رشید کا یہ جملہ بہت ہی معنی خیز ہے:
’’ وہ سوچتی ہے لیکن حقیقی عورت کو کیا ملا؟ اگر ملا ہے مرد بن کر ملا ہے عورت کی حیثیت سے وہ آج یعنی ویسی ہی ذلیل ہے۔ عزت اگر ہے تو اس مرد مونث یا زن مذکر کے لئے جو جسمانی حیثیت سے تو عورت ہے، مگر دماغی اور ذہنی حیثیت سے مرد ہو۔‘‘
احمد رشید نے اس کہانی میں عورت کے وجود، عورت کے تشخص، سماج میں عورت کی حیثیت اور زندگی کے تمام شعبے میں اس کی جنسی افتراق اور صنفی امتیازات کیا کیا ہیں ان تمام مسائل کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے اور عورت کی محکوم و پست حیثیت اور اس پر ہونے والے ظلم و استحصال کے متعلق مختلف پہلوؤں سے سوال اٹھایا ہے۔ ’’ بھورے سید کا بھوت‘‘ میں افسانہ نگار نے مختلف قسم کے اوہام باطلہ توہم پرستی، بدعقیدگی، بھوت پریت، شیطان اور سماج کے مروجہ فرسودہ روایات، ذہنی فتورات ہیں جن کو بڑے ہی ہنر مندی سے پیش کیا ہے کہانی میں بیانیہ انداز میں متکلم ساری کہانی بیان کرتا ہے اور اپنی زندگی کے مختلف توہمات و تخیلات کے ذریعے پیش کرتا ہے۔ اس کردار کا نام شبیر ہے۔ اس کہانی کو پڑھنے کے بعد قاری کے اندر ہماری دیرنہ روایت سماج کے رکھ رکھاؤ ، اقدار اور انسان کی شرافتیں کی گم ہوتی ہوئی ایک نئی دنیا کی قاری کو سیر کراتی ہے ۔ مثلا جب بچہ پیدا ہوتا تھا تو اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے۔ بیمار ہونے پر مولویوں اور حافظوں سے پھونک ڈلواتے ، مزارات پر چادر اور فاتحہ خوانی ہوتی، بچے کو تعویز اور گنڈے پہنائے جاتے جو روایتیں اب پوری طرح ختم ہو چکی ہیں ۔ پہلے انسانوں کو سر کش شیاطین سے خطرہ رہتا تھا مگرآج کا انسان انسان کے لئے درندہ بن گیا ہے احمد رشید نے کیا بات کہی ہے:
’’ یہ باریک بات اب میری سمجھ میں آئی ہے کہ جب انسان بھوت ہوگئے ہیں، بھوتوں نے سنسنان علاقے چھوڑ دئے ہیں۔ اس لئے وارداتیں بڑھ گئی ہیں انسان کے خوفناک ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ واردات کرتے وقت آبادی میں بھی نہیں چوکتا۔‘‘
اس اقتباس میں افسانہ نگار نے معاشرے کے مختلف درندگی کے پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کس طرح سے انسان کے اندر سے انسانیت ختم ہوچکی ہے انسان نے حیوانیت کی جگہ لے لی ہے بھوت پریت تو قبرستان اور سنسنان علاقوں میں انسانوں کو تکلیف دیتے تھے مگر انسان کے اندر اخلاقی اعتبار سے اس قدر زوال آگیا ہے کہ وہ سر عام قتل و غارت، ظلم وستم اور زنا بالجبر جیسی خوفناک خبائث میں مبتلا کرتا ہے انسان انسان کے درندگی سے محفوظ نہیں ہے۔ بھورے بابا کا مزار ایک نیم کے درخت کے نیچے ہے اس نیم کے نیچے جلال (زوال) کے وقت اور مغرب کے وقت چھم چھم چھن چھن کی آوازیں آتی ہیں یہ سب کو سنائی تو دیتی ہے مگر دیکھائی نہیں دیتی ہیں یہ ایک وہم باطل ہے جو ہمارے معاشرے کا حصہ ہے اس افسانے میں احمد رشید نے دلتوں کے استحصال اور پچھڑوں کے مسائل کو بھی پر زور انداز میں اٹھایا ہے کہ ایک مہترانی اور اس کا شوہر نیم کے پیڑ کے نیچے رہتے ہیں جن کو محلے کے ذمہ داران نے خدمت کے عوض میں رہنے کے لئے تھوڑی سی جگہ دے رکھی ہے اس نیچ ذات کو کوئی منھ نہیں لگاتا ہے کیونکہ یہ بدصورت اور چھوٹی ذات کے افراد ہیں۔مذہب کے ٹھیکیداروں کا تو ان کے سائے سے بھی دھرم بھرشٹ ہوجاتا ہے جو برہمنی نظام کے دین ہے جو چھوا چھات کے شدت سے قائل ہیں مگر یہی ٹھکیدار رات کے اندھیرے میں اس مہترانی سے اپنے ہوس کی آگ بجھانے میں زرا بھی شرم نہیں کرتے ہیں یہ مذہب کے ٹھیکدار اس مہترانی کے جسم کی بوٹیاں تو نوچ کے کھا لیتے ہیں مگر جب وہ حاملہ عورت دردزہ میں تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہے تو ان ہوس کے درندوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ہے۔ افسانہ نگار نے مذکورہ افسانے میں فرسودہ توہمات اور بدعقیدگی کے مسئلوں کو بیان کیا ہے کہ نیم کے درخت کی شاخحمید صاحب کے مکان کے طرف جھکی ہے تو سب مرد اس گھر کے نکمے ہوگئے ہیں اور جو ان لڑکیوں پردور ے پڑ رہے ہیں در اصل افسانہ نگار نے اس زوال پذیر معاشرے پر شدید طنز کیا ہے جو خود محنت نہیں کرتے ہیں اور طرح طرح سے اپنے قسمت کو کوستے ہیں گھر کی لڑکیاں بالغ ہیں ان کو شادی کی ضرورت ہے مگر یہ جاہل معاشرہ مولوی اورپنڈتوںکے چکر میں پڑتے رہتے ہیں۔ جو دعا و تعویذ سے ان کا علاج کرنے کے بہانے ان کا جنسی استحصال بھی کرتے ہیں۔
’’ فیصلے کے بعد‘‘ احمد رشید حقوق نسواں سے متعلق شاہکار افسانہ ہے اس کے دو کردار ہیں جن کے ارد گرد ہی کہانی چلتی رہتی ہے اس کہانی کی مرکزی کردار ایک عورت شفق ہے آزاد خیال کی عورت ہے اور وہ حقوق نسواں کی سرگرم رکن اور ممبر ہے جو عورتوں کی آزادی کی لڑائی لڑتی ہے اور اس لڑائی میں اپنی حقیقی زندگی سے ہار جاتی ہے کیونکہ مرد کے بغیر عورت کی زندگی مکمل نہیں ہوسکتی ہے اور وہ آزادی نسواں کے حقوق کے لئے اس طرح متحرک ہوجاتی ہے کہ وہ خود اپنی ذات سے لا پرواہ اور تنہا ہوجاتی ہے اور اپنا سب کچھ کھو دیتی ہے۔
’’زندگی کا اکیلا پن کتنا سنگین ہوتا ہے …… کوئی مجھ سے پوچھے ….. مگر کون پوچھے؟ اس کی نگاہ مسہری پہ رکھی تصویر پرگئی زندگی….. تنہائی….. آزادی فریم کے اندر سے آفتاب مسکریا۔
وہ سوچتی ہے حقوق کی جنگ میں زندگی ہار گئی ہوں اور تنہائی ملی ہے آزادی کی جدوجہد میں جہاں سے شروع وہیں ختم سی جیسے آفتاب نصف النہار پر رک گیا ہو….. وہ الٹے پاؤں چلنے لگی بہت دور پیچھے کی طرف۔‘‘
اس اقتباس سے کہانی کے بہت سارے علائم و رموز واضح ہوجاتے ہیں کہ شفق جو آزادی کی جدو جہد میں اپنی زندگی سے بہت دور چلی گئی ہے اور تھک ہار کر آخر کار واپس ہوتی ہے اس کہانی میں افسانہ نگار نے دونوں کرداروں کے نام سے بھی کافی فائدہ اٹھایا ہے آفتاب اور شفق آفتاب بھی آزاد خیال مرد ہے مگر وہ شفق کی نظریات سے متفق نہیں ہے افسانہ نگار نے دونوں کے ناموں سے بھی اشارہ کردیا ہے یہ آفتاب یعنی مرد اساس معاشرہ ہمیشہ غالب رہا ہے اور شفق یعنی عورت معاشرے میں کھوئی ہوئی اور ڈوبتی ہوئی کشتی کے مانند ہے شفق آزادی کے تلاش میں اپنی ذات کو بھی ڈبا دیتی ہے۔ پوری کہانی فلیش بیک کی تکنیک میں چلتی ہے۔ آفتاب اور شفق دونوں کے ازدواجی زندگی میں دھیرے دھیرے تلخی آنی شروع ہوتی ہے اور پھر دونوں الگ ہوجاتے ہیں آفتاب اس کو بتاتا بھی ہے کہ جس طرح سمندر میں کنکری پھینکنے سے لہریںپیدا ہوتی ہیںلیکن ساحل پر آکر ڈوب جاتا ہیں اور کہتا کہ اگر انسان کو فطرت کے مطابق زندگی گذارنے کا موقع مل جائے تو وہ انسان کی معراج ہوسکتی ہے آفتاب طرح طرح کے سوالات شفق سے کرتا ہے کہ تم حقوق نسواں کی مجاہدبنی ہو عورتوں کی ترقی کی خواہاںہو مگر خود تم آزاد نہیں ہو۔جدید دور نے آزادیٔ نسواں کا مفہوم بدل دیا ہے کہ عورت آزاد ہے اس لئے نوکری کرکے مرد کے کندھے کا بوجھ ہلکا کرے ، بچے پیدا کرے، دردِزہ میں تڑپے ، دودھ پلائے ، کھانا بنائے اور یہ تمام صورتیں استحصال کی ہیں۔ لیکن شفق اس بات کو ماننے کو تیار نہیں ہوتی وہ آفتاب سے طلاق لے کر عرفان سے شادی کے لئے راضی ہو جاتی ہے اور اس کو اپنی حقیقت کا پتہ چلتا ہے توعرفان کہتا ہے کہ تم ایک کی ہوکر نہیں رہی تو دوسرے مرد کی کیسے ہوکر رہ سکتی ہو وہ تڑپ اٹھتی ہے وہ آزادی تو آفتاب سے حاصل کرلیتیہے لیکن تنہائی کے حصار میں قید ہوجاتی ہے۔
’’مداری‘‘ سیاست پر مبنی تمثیلی انداز کی کہانی ہے اس کہانی میں احمد رشید نے جگہ جگہ ہلکا سا اشارہ کیا ہے کہ کس طرح سے الیکشن کے وقت بڑے بڑے لیڈر ڈگڈگی لے کر آتے ہیں اور معصوم عوام کو بلی کا بکرا بناتے ہیں اور اس سماج کے کچھ اثر و رسوخ والے اشخاص کو خرید کر اپنا جموڑا بناتے ہیں احمد رشید کا یہ اقتباس
’’ بھائیو ، جموڑا ہماری مرضی سے چلے گا، اٹھے گا، بیٹھے گا….. ہم جو دیں گے وہی لے گا ….. آگے مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہوگا۔‘‘
اس اقتباس سے بہت سے معانی سامنے آجاتے ہیں کہ کس طرح سے ہمارے قائدین سماج کے ٹھیکداروں کو خریدلیتے ہیں وہ چاہے میڈیا والے ہوں، یا کوئی سماجی کارکن ہوں، یا کوئی متحرک شخص ہو سب کاپیسے سے منھ بند کردیتے ہیں کہ تم اپنے علاقے میں کوئی احتجاج نہیں کروگے جو ہم چاہیں گے وہی ہوگا ۔ اس افسانے میں اقلیتوں کی جماعت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ کس کس طرح سے ان کو بکرا بنایا جاتا ہے۔
’’ ہمیں بہادر جموڑا چاہییٔ میں…..میں کی آواز ہجوم میں گوجنے لگی ایک کالی داڑھی والا آگے بڑھا ….. مداری نے ڈانٹتے ہوئے کہا ،، ہمیں بکرا نہیں چاہیے ….. ہمیں جموڑا چاہیے ….. بکرا تو ہم خود بنالیں گے ….. داڑھی والا ڈر کر پیچھے ہٹ گیا۔‘‘
مسلمان طبقے کا ہمیشہ استحصال کیا گیا الیکشن میں اس کو بکرا بنایاجاتاہے ان کو طرح طرح کے لالچ دے کر ان سے ووٹ لے لیا جاتا ہے مگر وعدہ کبھی پورا نہیں کیا جاتاہے اور جب یہ قائدین عوام کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر پاتے ہیں تو مذہبی جذبات سے کھیلنا شروع کردیتے ہیں مثلاََ جب مداری پیتل کی بانسری نکال کراس میں کرشن بھگوان کے مدھر راگ چھیڑ دیتا ہے اور عوام مذہبی طور پر اتنے جذباتی ہو جاتے ہیں کہ مداری (لیڈر) کی چال پر غور کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ قائدین کبھی کبھی لوگوں کے اندر مذہبی طور پر اتنی نفرت پیدا کردیتے ہیںکہ فرقہ وارانہ فسادات رو نما ہونے لگتے ہیںاس طرح یہ کہانی دور حاضر کے تناظر میں اور بھی اہمیت کی حامل ہوجاتی ہے یہ ہمارے جمہوری نظام کی گھناؤنی سیاست کا بہت بڑا المیہ ہے۔
’’حاشیہ پر‘‘ اس کہانی کا عنوان ہی سب کچھ بیان کردیتا ہے کہ ہندوستان میں اقلیت خصوصی طور سے مسلمان وہ تعلیمی، معاشرتی، سیاسی یعنی ہر اعتبار سے حاشیے پر ہیں ۔ آزادی کے بعد آج تک ۷۰ سالوں میں نہ جانے کتنے کمیشن بنے معاشی، تعلیمی ترقی کے لئے اسکمیں تیار ہوئیں۔ مگر یہ قوم وہیں پر ہے سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ اپنے ہی ملک میں دوسرے درجے کی شہری کی حیثیت سے دیکھا جاتاہے۔ اقلیتی طبقہ آج بھی اپنے ہی وطن میں غیر محفوظ محسوس کرتا ہے۔ اس کہانی کے تین کردار ہیںوکیل، ڈاکڑ، معلم تینوں ٹرین میں سفر کررہے ہیں۔ تینوں ٹرین میں اپنے آپ کو majorty کے سامنے insecure محسوس کرتے ہیں ڈاکڑ معلم کی داڑھی دیکھ کر اس کے قریب بیٹھ جاتا ہے۔ احمد رشید نے بڑے ہی معنی خیز انداز میں بات کہی ہے:
’’دروازہ پر لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر میں ہکا بکارہ گیا، پولیس اہلیہ کے قتل کی تفتیش کر رہی تھی، موت قتل سے پڑے (٭٭) تافساد میں ہلاک ہو، معلم کی قطع کلامی ڈاکڑ نے کی۔ موت کا نہیں، خوف تو شک و شبہات کا ہے ،، وکیل نے کہا ہاں جس وقت میں اس ڈبہ میں داخل ہواسب ہی مسافر مشکوک نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگے، معلم نے کہا آپ کے داڑھی ہے نا ڈاکڑ نے کہا اسی کو دیکھ کر میں آپ کے پاس بیٹھا تھا۔‘‘
اس میں افسانہ نگار نے اقلیت کے من جملہ مسائل کے طرف اشارہ کیا ہے کہ اس طبقہ کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے فرقہ وارانہ فسادات کا شکار وہی ہوتا ہے دہشت گرد کہہ کر پھنسا یا جاتا ہے اس کی حب الوطنی کو شکوک و شبہات کے گھیرے میں لے لیا جاتا ہے اور اقلیت کے اندر ظلم و بربیت کی وجہ سے خوف و دہشت باقاعدہ طور پر پیدا کیا گیا ہے۔ ان کو طرح طرح کے جرائم میں پھنسا کر ذلیل خوارکیا جاتا ہے۔ ’’ہاف بوٹل بلیڈ‘‘ جیسا کہ عنوان سے پتہ چلتا ہے کسی کو آدھے بوتل خون کی ضرورت ہے یا آدھے بوتل خون کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوگئی مگر کہانی اس سے ذرا ہٹ کے ہے یہ احمد رشید کی انفرادیت ہے کہ وہ معاشرے کے مسائل پر ذرا ہٹ کر سوچتے ہیں اور لکھتے ہیں۔ اس کہانی کے دو کردار ہیں شوہر اور بیوی جو کسی سرائے میں رہتے ہیں شوہر رات میں رکشہ چلاتا ہے اور دن بھر تلاش معاش میں رہتا ہے۔یہ ایک نوجوان جوڑا ہے بیوی حاملہ ہے اس کو خون کی ضرورت ہے اور ان کے پاس کھانے کے لالے پڑے ہیں شوہر دن بھرکے تلاش معاش کے بعد شام میں ہاسپٹل جاکر اپنا خون بیچ دیتا ہے تو کبھی ’’ پریکٹس فیملی پلاننگ‘‘ میں جاکر اپنے اسپرم کو بیچ دیتا ہے۔ شوہر کو انیمیاکی بیماری بھی ہے اس کو بھی خون کی ضرورت ہے مگر انسان کی بیکسی اس کو یہ سب کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔
’’میں ہوں تمہارا خون، خون کی کمی کے سبب تمہیں نیند زیادہ آتی ہے۔ اگر اپنی صحت کا خیال رکھوگی تب ہی میرے خون کی حفاظت ہوگی‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہا۔ ڈاکڑ نے تمہیں بھی انیمیا تشخیص کیا ہے۔ یہ سب خون کی تجارت کا نتیجہ ہے سنجیدگی کا دامن پکڑتے ہوئے کہا۔ڈاکڑ علاج کم کرتے ہیں ڈراتے زیادہ ہیں۔‘‘
اس کہانی میں احمد رشید نے سماج کے منھ پر کاری ضرب لگائی ہے کہ آج کا معاشرہ کتنا بے حس ہوگیا ہے انسانیت ختم ہوگئی ہے لوگوں کو اپنے خون بیچنے پڑرہے ہیں شوہر انیمیا کا مریض ہے اور اپنی زندگی کو سوچ کر کس طرح پیچ و خم کھائے جارہا ہے وہ وہی سمجھ سکتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں صرف اونچے طبقے کی حکومت ہے غریب و مزدور ، نوجوان بے روزگار اپنے خون بیچ رہے ہیں اپنی آدھی زندگی آفس کا چکر کاٹ کر گذار دیتے ہیں تو وہ اسپرم اور خون نہ بیچیں گے تو اور کیا کریں گے غربت افلاس انسان سے کیا کیا کراسکتی ہے یہ افسانہ اس کی بہترین مثال ہے۔
’’ وہ بیڈ پر لیٹ گیا ہے اس کا ذہن چھت پر ٹنگے پرانے طرز کے پنکھے کی طرح دھیرے دھیرے ایک ہی سمت میں گھوم رہا ہے۔خون بوند بوند بوتل میں ٹپک رہا ہے اور وہ قبر میں اترتا محسوس کررہا ہے۔ بیڈ کے قریب آہٹ ہوئی اور ادھ کھلی آنکھ پوری کھل گئی ،نرس کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب رہی ہیں۔ ساری (soory ) انیمیا کی وجہ سے ….. پھر بھی یہ سو روپیہ ۱۰۰….. الفاظ منھ میں پھنس گئے۔‘‘
ان اقتباس میں دور حاضر کے نوجوانون طبقے کی مختلف مسائل پر اشارے کئے گئے ہیں وہ اپنی نسلیں، اپنے خون اور اپنا اسپرم بیچ کر بھی اس زوال آمادہ معاشرہ میں زندہ نہیں رہ پا رہا ہے ہمارا معاشرہ مردہ ہوچکا ہے لوگ خود غرض اور بے حس ہوگئے ہیں اس میں اس کی بیوی کی بھی عزت نہیں بچتی ہے سماج کے بنییٔ ساہوکار جو سماج کے بڑے بھیڑئے ہیں وہ اس کی بیوی کی عزت کو نوچ نوچ کر کھاجاتے ہیں اور اجناس کو جسم کے بدلے میں بیچ رہے ہیں۔ ’’ اندھا قانون‘‘ فلیش بیک کی تکنیک میں لکھی ہوئی کہانی ہے جو سماج میںقانون،پولیس، عدلیہ اور لالچ اور محبت جیسے مسائل کو پیش کرتی ہے وجے اس کہانی کا مرکزی کردار ہے جو روپا کا منگیتر ہے اور اس کو اس کے سسرال والے مارنے کاپلان کرتے ہیں اور رات میںقصہ اس کے برعکس ہو جاتا ہے دھوکے سے اس کا سالا شیکھر وجے سمجھ کر اپنے باپ کا قتل کردیتا ہے پولیس ایمانداری سے تحقیق نہیں کرتی ہے پیسہ لے کر الٹے ہی وجے کو پھنسا دیتی ہے اور وہ انصاف کے دروازے پر اپنی آدھی زندگی گذار دیتا ہے جیل سے نکلنے کے بعد بوڑھا ہوجاتا ہے مگر اس کو انصاف نہیں ملتا ہے۔
’’بی بی بولی‘‘ فرقہ وارانہ فسادات پر مبنی شاہکار کہانی ہے ویسے تو انتظار حسین نے شہر افسوس، منٹو نے ’’کھول دو، بیدی نے لاجونتی جیسے افسانے لکھے ہیں مگر احمد رشید کا انداز ذرا مختلف ہے اس کہانی کا کردار ایک عورت ہے جو فرقہ وارانہ فسادات میں اپنی ذہنی توازن کھو چکی ہے کیو نکہ اس کے سامنے اس کی ماں، بہن کی عزت کو تار تار کیا جاتا ہے اور ماردیا جاتا ہے مگر یہ بچ جاتی ہے اس تباہ حال گھر میں وہ اور صرف اس کا بوڑھا باپ ہے وہ فرقہ وارانہ حادثہ کے بعد نہ بولتی ہے نہ سنتی ہے انسان کے وحشیانہ پن سے پوری طرح دماغی توازن کھو چکی ہے وہ ایک زندہ لاش کی طرح ہوگئی ہے۔ کہانی کے آخر میں کہانی کا سارا تاثر سمٹ آتا ہے جب اس کے ہونٹوں پر حرکت ہوتی ہے۔
’’ زیر لب تلخ مسکراہٹ ….. پھر ایک خوفناک قہقہہ ….. فحش اور وحشی انداز میں عورت نے دائیں ہاتھ کو اوپر سے ناف کے نیچے حرکت دی۔ زمین سے پتھر اٹھا یا اور بوڑھے شخص کے سر پر دے مارا چاروں طرف خوفناک قہقہوںکی گونج میں اس کااپنا خون زمین پر بکھر گیا۔‘‘
اس اقتباس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فسادات کے بعد اس لڑکی کے اندر مرد ذات سے اتنا شدید نفرت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے باپ ہی کو مار ڈالتی ہے اور جس طرح ’’کھول دو، ‘‘سکینہ بے حواسی میں اپنے شلوار نیچے سرکانے لگتی ہے اسی کی طرح یہ بھی بڑے فحش انداز میں ہاتھ کو ناف کی طرف لے جاتی ہے یعنی مرد ذات عورت سے صرف اور صرف جنسی خواہشات چاہتا ہے اس کی ذات اس کے وجود اور اس کی روح کو بھی نہیں سمجھتا ہے جس سے عورت ذات کا مرد ذات سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔
احمد رشید کے یہاں عورت کے استحصال اور اس پر ہونے والے ظلم کے خلاف شدید احتجاج ملتا ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں مسئلہ تانیثیت کو بڑی مضبوطی کے ساتھ پیش کیا ہے ان کے یہاں عورت کے تمام رنگ و روپ احساسات و جذبات، نفسیات و کیفیات کے مسائل ملتے ہیں ۔ انہوں نے عورتوں کے حقوق ، انکے مسائل کو بڑی باریک بینی سے دیکھا ہے۔ عہد جدید کی عورت کی سوچ و فکر اور فلسفہ تانیثیت کے پیچیدگیوں کوبڑی فنکاری سے بیان کیا ہے۔ ان کے افسانوں میں ان کے تجربات و مشاہدات کا رنگ غائب ہے انہوں نے سماجی اور خارجی وقوعات کی بجائے افراد کے داخلی وقوعات پر زور دیا ہے ان کے بیشتر کردار اپنی باطنی کیفیات اور تضادات کے ساتھ اپنی ذات کا انکشاف کرتے ہیں۔ احمد رشید کسی بھی تخیلی مشاہدہ اور تجربے کے اظہار کے لئے الفاظ کے بہترین جواہر ڈھونڈ لاتے ہیں وہ افسانے کو بامعنی اور دلکش بنانے کے لئے خاس اپنے ایک اسلوب کا استعمال کرتے ہیں مثلا وہ ہندی اردو کے اتنے خوبصورت الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں جیسے ، سونت، سڑپ، بائی تم اویاں نئے ہو، راجہ صائب وغیرہ یہ ایسے الفاظ کے شیڈ ہیں جواحمد رشید کا اپنا ایک خاص ڈکشن ہے اور انفرادیت قائم کرتا ہے۔

Dr. Hamid Raza Siddiqui

89, Shibli Hostal, MM Hall, AMU, Aligarh
hamidrazaamu@gmail.com
7895674316
٭٭٭

Leave a Comment