اختر الایمان کی شاعری کی انفرادیت

\"\"
٭ ڈاکٹر عبدا لحی
شاہین باغ، جامعہ نگر،اوکھلا۔25

اخترالایمان کی شاعری کی انفرادیت پر اظہار خیال کرنے سے پہلے میں سمجھتا ہوں کہ تھوڑی سی باتیں ان کی زندگی سے متعلق بیان کرتا چلوں کیونکہ کسی بھی شاعر کی کامیابی میں اس کی اپنی زندگی کا عمل دخل بہت زیادہ ہوتا ہے اور اختر الایمان کی شاعری تو ان کے اپنے حالات و واقعات اور تجربات کا نچوڑ ہے۔
اخترالایمان کی پیدائش 12نومبر1915 کو نجیب آباد ، ضلع بجنور میں ہوئی تھی۔ ان کا گھرانا قدامت پرست تھا۔ غربت کا ماحول تھا۔ ان کی والدہ ان پڑھ تھیں۔ بچپن میں ہی معاشی تنگی کے سبب انھیں والد کے ساتھ گھر چھوڑنا پڑا۔ وہ دہلی آ جاتے ہیں۔ والدہ کا پیار انھیں نہیں ملتا ہے۔ دہلی آنے کے بعد والدہ نے کوئی خط بھی نہیں لکھا کیونکہ وہ ان پڑھ تھیں۔ اختر کے بچپن کی ایک بات ہے کہ ان کی چھوٹی بہن کے لیے ان کے تایا کے لڑکے کا رشتہ آیا تھا، جو کافی عمر دراز تھا اور دوسری شادی کرنا چاہتا تھا۔ یہ سب باتیں ایسی تھیں جو اختر کے دل و دماغ پر نفش ہوگئیں۔ دہلی میں ان کے والد انھیں بہت مارتے پیٹتے تھے۔ بقول اختر ایک بار انھیں والد کا پیار ملا تھا اور اس وقت جب انھوں نے لوٹا توڑ دیا تھا اور رضائی میں دبک کر پٹائیکے ڈرسے سسک رہے تھے تو والد نے آکر چمکارا تھا اور پیار کیا تھا لیکن الد کے لیے اختر کے پیار میں کمی نہیں تھی وہ والد کو بہت زیادہ چاہتے تھے ۔جب ان کے والد دہلی میں پوسٹ آفس کے سامنے کام کرنے لگے تو اختر انھیں گھر لے گئے اور کہا کہ میں آپ کا خرچ برداشت کروں گا۔ ایسے ہی حالات و واقعات کے درمیان اختر جوان ہوئے۔
اخترالایمان دہلی آنے کے بعد اشفاق نامی شاعر سے ملتے ہیں اور اس کے کلام کے جواب میں خود بھی شاعری شروع کر دیتے ہیں۔ پھر وہ میرٹھ جاتے ہیں، دوبارہ لوٹ کر دہلی آتے ہیں پھر علی گڑھ میں ایم اے میں داخلہ لیا اور بعد میں ریڈیو میں ملازم ہو گئے جہاں ن۔ م۔ راشد پہلے سے تھے۔ کچھ وجوہات کی بنا پر انھوںنے ریڈیو کی نوکری چھوڑ دی اور بمبئی چلے گئے وہاں فلموں کے لیے مکالمے لکھے۔ ان کا انتقال9 مارچ 1996کو ہوا تھا۔
اختر کے شروعاتی دور کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے لگتا ہے کہ جیسے یہ ایک وحشت زدہ انسان کی شاعری ہے جو لوگوں سے اس جہاں سے بھاگ رہا ہے۔ ان کے نوجوانی میں شائع ہوئے پہلے مجموعے گرد اب کی نظمیں ایسی ہی ہیں۔ ان کے مجموعے گرداب کو 1944 میں شاہد احمد دہلوی نے شائع کیا تھا۔ اس مجموعے پر تبصرہ کرتے ہوئے فراق نے کہا تھا کہ ’’نئے شاعروں میں سب سے گھائل آواز اختر الایمان کی ہے جس میں بلا کا درد اور زمانے کے حوادث پنہاں ہیں۔ ان کا یہ شعر کافی مشہور ہوا تھا :
اب ارادہ ہے کہ پتھر کے صنم پوجوں گا
تاکہ گھبراؤں تو ٹکرا بھی سکوں مر بھی سکوں
(نظم: تنہائی میں)
لیکن بعد کی نظموں میں انھوں نے بہت جلد ایسے لہجے پر قابو پا لیا اور اپنی شاعری کو نئی منزلوں اور رفعتوں سے روشناس کرایا۔ اختر الایمان اردو شاعری میں اپنے منفرد لب و لہجے ، عام فہم الفاظ ، فارسیت سے عاری الفاظ اور علامتی شاعری کے لیے جانے جاتے ہیں۔ انھیں علامتی شاعر کہا جا تا ہے۔ منظر نگاری ، علامت، خوبصورت الفاظ ، نئی اصطلاحات کے استعمال سے وہ بخوبی واقف تھے۔ ان کی نظموں کے کچھ اشعار :
آپ ہوں میں نہیں انسان سے مایوس ابھی
ابھی پھوٹے ہیں شگوفے ابھی کمسن ہے بہار
شبنمی سبز لبادوں سے مہک آتی ہے
خاک و خوں توڑ ہی دیں گے کبھی دیرینہ خمار
(خاک و خون)
شہیدوں کا خوں اس حسینہ کے چہرے کا غازہ نہیں ہے
جسے تم اٹھائے لیے جا رہے ہویہ شب کا جنازہ نہیں ہے
(پندرہ اگست)
زلزلہ، اف یہ دھماکہ ، یہ مسلسل دستک
کھٹکھٹاتا ہے کوئی دیر سے دروازے کو
اف یہ مغموم فضائوں کا المناک سکوتـ‘‘
’’کون آیا ہے ذرا ایک نظر دیکھ تو لو؟‘‘
توڑ ڈالے گا یہ کم بخت مکاں کی دیوار
اور میں دب کے اسی ڈھیر میں رہ جائوں گا
(موت)
جس جگہ رات کے تاریک کفن کے نیچے
ماضی و حال، گنہگار نمازی کی طرح
اپنے اعمال پہ رو لیتے ہیں چپکے چپکے
(مسجد )
ان کی کچھ نظمیں مثلاً: ایک سوال، نئی صبح ، خاک و خون ، تاریک سیارہ، ایک کہانی، پندرہ اگست، آزادی کے بعد، غلام روحوں کا کارواں، جنگ ، سوالیہ نشان، دلی کی گلیاں وغیرہ کافی مشہور ہیں لیکن ان کی سب سے زیادہ مشہور نظم ’’ایک لڑکا ہے‘‘ جس کا ایک بند ہے۔
مگر جب جب کسی کے سامنے دامن پسارا ہے۔ یہ لڑکا پوچھتا ہے اختر الایمان تم ہی ہو۔
( ایک لڑکا )
ان کی کچھ نظموں میں سیاست کی فضا ملتی ہے لیکن پھر بھی ان میں ایک الگحسن ہے ، ایک منفرد آہنگ ہے جو دوسرے شاعروں میں نہیں ملتاہے۔ انھوں نے خود ہی کہا تھا کہ میری نظموں کو بہت دھیان سیپڑھنا ہوگا ورنہ سمجھ میں نہیں آئے گی۔ انھوں نے غزلیہ لہجہ نہیں اپنایا بلکہ نثری انداز میں نظمیں لکھی ہیں جو انھیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ انھوں نے زندگی کو جیسا تلخ پایا، جیسا محسوس کیا اسے اپنی نظموں میں پیش کر دیا۔ ان کی نظموں میں وقت ہر جگہ موجود ہے، کبھی یہ ندی کے روپ میں ہے تو کبھی رمضانی قصائی کی شکل میں تو کبھی کارواں کی شکل میں۔ان کے مجموعوں گرداب،تاریک سیارہ، خاک و خون کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انھوں نے زندگی کے تلخ تجربوں کو ،زندگی کے کرب کو، غم کو بڑے آسان اورعام فہم الفاظ میں پیش کیا ہے ۔ دوسرے شعرا زندگی کو توڑ مروڑ کر کئی حصوں میں پیش کرتے ہیں لیکن اختر الایمان نے زندگی کو زندگی کی شکل میں پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری کسی بھی ازم وزم سے الگ ہے۔ نہ وہ جدید ہے اور نا ہی ترقی پسند۔ ان کا منفرد لب و لہجہ انھیں سب سے الگ بناتا ہے۔
کچھ ناقدوں کے مطابق انھوں نے میرا جی کا اثر قبول کیا تھا لیکن ایسا کہنا غلط ہے۔ ان کی کچھ نظموں میں ایسا ہے لیکن سارے کلام کا تجزیہ کرنے سے یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح انھوں نے ن م راشد کی شاعری سے تھوڑا استفادہ تو کیا تھا لیکن جہاں ن م راشد کی شاعری میں جنسیت کا عمل دخل ہے وہیں اختر کی شاعری میں سطحی تصور، جنسیت کا دور دور تک گزر نہیں ہے۔ انھوں نے ایک نظم میں شہر کے لیے ’’اونچے محلوں سے گنبد اور ملوں کی چمنیاں‘‘ کا استعمال کیا ہے۔ اس علامتی مصرعے سے ہی پتہ چلتا ہے کہ شہر کیسا ہوتا ہے ایک پوری تصویر ہمارے سامنے ابھر کر آ جاتی ہے جہاں ایک طرف تو امیروں کے اونچے محل ہیں اور دوسری طرف ملوں کی چمنیاں ہیں ، جس میں غریب مزدور کام کر رہے ہیں۔ اس سے بہتر نقشہ تو کھینچا ہی نہیںجا سکتا۔ اختر کبھی ببول کے بارے میں کہتے ہیں کہ تالاب کے قریب رہ کر بھی وہ پیڑ خشک ہے سوکھا ہے اورتالاب اسے روز آئینے کی طرح تکتا رہتا ہے لیکن پھر بھی اس نے ببول کے لیے کچھ نہیں کیا۔ کبھی وہ گونگی عورت کو قوت گویائی دینے کی بات کرتے ہیں تو کبھی وہ تقسیم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ ان کا کلیات ’’سروسامان کے نام سے 1983 میں شائع ہوا تھا۔ اختر کی شاعری میں نئے نئے الفاظ اور تراکیب۔ مثلاً تاریک کفن, ظلمت گزیدہ، دیرینہ خمار، شب کا جنازہ وغیرہ ملتی ہیں جو انھیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ ان کی شاعری جہاں حقیقت پر مبنی ہے وہیں اردو نظم کو ایک نئے لب و لہجہ اور نئے انداز سے نوازتی ہے۔
ان کی شخصیت محض ایک شاعر کے روپ میں ہی اچھی نہیں تھی بلکہ وہ ایک اچھے انسان بھی تھے۔ حقیقت پسندتھے۔ شعلہ بیان مقرر تھے۔ جہاں باپ کے سامنے ایک لفظ نہیں بولتے تھے وہیں ناگپور، دہلی وغیرہ جگہوں پر تقریری مقابلوں میں اول آتے تھے۔ لیاقت علی خاں نے انھیں کہا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد مجھ سے ملنا تو ان کا جواب تھا۔ میں تو تقسیم کے ہی خلاف ہوں اور اگر وہ پاکستان چلے جاتے تو شاید اردو زبان کو اتنا اچھا شاعر نہیں ملتا، ہاں پاکستان کو ایک اچھا سیاسی لیڈر اوr بیوروکریٹ ضرور مل جاتا۔ ان تمام خصوصیات کی حامل شخصیت اختر الایمان آج ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن اپنی نظم نگاری اور نئے لہجے کے لیے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

Leave a Comment