ادراک ِ میرؔ۔ایک نفسیاتی مطالعہ

\"\"
٭علیشا خانم
ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی،دہلی۔

اردو ادب میں میرؔ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں جس طرح بعد از وفات میرؔ کے کلام نے انھیں جلا بخشی اور تاریخ نے خدا ئے سخن کا مرتبہ عطا کیا ۔اسی طرح میرؔکی زندگی نے انھیں کبھی خوشگوار اور پر سکون لمحات میسر نہ ہونے دیئے۔جب میرؔ کی زندگی کو نفسیات کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ـ تومیرؔ کی طرزِ زندگی اور شخصیت کے مشاہدات ازحدتکلیف دہ حقائق کے پوشیدہ راز وں سے پردہ اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ جس کے سبب اردوادب میں میرؔ کا ثانی ملنا مشکل ہو جا تا ہے ۔یوں تو میرؔ نے اپنی تمام تر زندگی ناکامیوں و محرمیوں کے ساتھ بسر کی۔ میرؔ کو اپنی ذندگی میں جن نا مساعد حالات سے دوچار ہونا پڑا، ایسے واقعات و واردات عصبی و ذہنی عارضہ کا باعث (بنے)بنتے ہیں چونکہ ناکامی اور محرومی سے انسانی زیست میں احساسِ کمتری (inferiority feeling) کا جذبہ نمودار ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ اس جذبہ میں شدّت پیدا ہونے لگتی ہے ۔جو ایک الجھائو و نفسیاتی عارضہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے جسے کمتری الجھائو (inferiority complex) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ نفسیاتی علامت ہے جس میں فرد ایسی انتشاری کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے جس میں انسان اپنے وجود کو بے معنٰی اور حقیر سمجھنے لگتا ہے ۔یہ احساس فرد کی شخصیت پر مثّبت اور منفی دونوں ہی طرح سے کارفرماء ہوسکتا ہے جس کے ما تحت یہ عارضہ انسان کو سپردِ خاک بھی کر سکتا ہے یا پھراس کی ترقی و کامیابی کے درجات بھی بلند کر سکتا ہے ۔
جب انسان کی خواہشات کی تکمیل و آسودگی کے سبھی امکان ختم ہوجاتے ہیں اور اس کے حصول کی امیدیں ریزہ ریزہ بکھر جاتیں ہیں ۔تب فرد محرومی و کمتری کے احساس میں گرفتار ہوجاتا ہے اس کیفیت میں انسان اپنی ذات کو مختلف اعتبار سے نقصان پہچانے کی کوشش کرتا ہے ۔یہ کیفیت اتنی شدید ہوتی ہے کہ شخص خود پر قابو نہ پاکر ذہنی اختلال میں مبتلا ہو جاتا ہے جس کے سبب وہ خودکشی بھی کر سکتاہے یا پاگل بھی ہو سکتا ہے۔اگر احساس کمتری (inferiority feeling) کے جذبے کا رخ مثبت زاوئے کی جانب موڑ دیا جائے۔ تو انسان کی ادراکی کیفیت میںتبدیلی آجاتی ہے ۔جس کے نتیجے کے طور پر احساسِ کمتری (inferiority feeling) کا جذبہ احساسِ برتری (superiority feeling) میں تبدیل ہو جاتاہے او ر اس کے ردِعمل میں احساس کمتری کا جذبہ فرد کو اپنی خواہشات کے متبادل کے حصول کی جانب کوشاں کرتا ہے ۔ جس کے ذریعہ منفرد شخصیت کا انکشاف ہوتا ہے ۔
چنانچہ احساسِ کمتری سے برتری کی ادراکی کیفیت نے میرؔ تقی میر کواردو ادب میں خدائے سخن کے تخت پر لا بٹھایا ۔زندگی کے نشیب و فراز کے باوجود میرؔ نے کبھی اپنی شخصیت کو بکھر نے نہیں دیا۔ انھوں نے مہد سے لحد تک جو رنج و الم کی عمر گزاری ہے انکی تلخ زندگی کی بازگشت ہمیں میرؔ کی تمام تر تخلیقات و کلام میں سنائی دیتی ہے ۔ درد و غم ، پریشانیاں، ناکامیاں و محرومیاں ہمیشہ میر ؔ کی زندگی و شخصیت پر گرویدہ رہیں۔ میرؔ کے اس داخلی کرب کا اندازہ درجہ اشعار سے لگایا جا سکتا ہے جو ان کی زندگی پر صادق آتے ہیں۔ـ
سمجھ کر ذکر کر آسودگی کا مجھ سے اے ناصح
وہ میں ہی ہوں جسے عافیت بیزارکہتے ہیںـَ
٭ ٭ ٭
مرے سلیقے سے مری نبھی محبت میں
تمام عمر میں نا کامیوں سے کام لیا ۔
اردو ادب میں میرؔ کی داخلی و خارجی زندگی کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ میر ؔ کو عہد طفلی سے ہی ایسے مصائب سے دوچار ہونا پڑا ۔جس نے ان کے بچپن کو لمحہ لمحہ دُکھ ، رنج اور تکالیف کی نظر کر دیا ۔ جہاں میرؔ کے لئے بچپن ہی سے سوتیلے بھائی کے حاسدانہ سلوک اور رویّوں نے تکالیف ، پریشانیوں اور مسائل کا آغاز کیا ، تو وہی معصوم عمرمیں والد کی وفات نے میرؔ کی شخصیت کو رنجیدہ کردیا ،زندگی کے سفر میں وقت نے آگئے بڑھ کر یوں کروٹ لی کہ زمانہ بلوغت میں (ناکامی )عشق نے میرؔ کو صدموں کے حوالے کر دیا ، میرؔ کی زندگی کے مطالعہ سے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ آفات و مسائل کو میرؔ کی ذات سے والہانہ عشق رہا ،چونکہ کبھی درد اور تکالیف نے میرؔ کے دامن کو خالی نہ رہنے دیا ۔ حالات کی ستم ظریفی نے جلا وطنی پر مجبور کیا جس پر سوتیلے ماموں کے رویہّ نے تکلیف کو اور شدید رنگ دے دیا ان حالات کی تاب نا لاکر میر ؔ ذہنی و نفسیاتی عارضہ میں گرفتار ہوگئے ۔غالب ؔکا یہ مصرع میر اور ؔ ان کے حالات کا ترجمان معلوم ہوتا ہے۔

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جا نا
میرؔ کی زندگی میں یہ حادثات بھی کم نہ تھے کہ عہدِجوانی میں دہلی کے بار ہا اجڑنے اور عمر کی پختگی میں دہلی کو خیرآباد کہنے کا صدمہ بھی اُٹھانا پڑا ، میرؔ کی ذات سے وابستہ یہ سلسلہ عمر کے آخری پڑائو تک قائم رہا ، بڑھاپے میں شریک ِ حیات اور اولاد کی وفات کے حزن الم نے میر ؔ کی زندگی کو غمکدے میںنقش کر دیا۔ شاید ان ہی حالات نے میر ؔ کو یہ شعر کہنے پر مجبور کیا ہوگا۔
مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع سو دیوان کیا
یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ جب انسان مسلسل تکالیف اور پریشانیوں سے گزرتا ہے اور جب کسی صورت ان حالات سے فرار کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا ،ہرایک سمت سے رنج و الم ، ناکامی ، محرومی فرد کو اپنی گرفت میںلیے رہتیں ہیں ۔ جس کے سبب انسان کی شخصیت میں ذہنی محرکات کے متحرک ہونے سے اضطرابی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ جس سے فرد نجات چاہتا ہے اور ذہنی سکون کا متلاشی رہتا ہے۔زندگی کے ایسے نشیب و فراز سے وجود میں آئے( الجھائو complexes- ) جب شدّت اختیار کر تے ہیںتوشدید نفسیاتی امراض کے طور پر ظاہرہو تے ہیں۔ انسان کو دنیا میں تمام تر موجودات اوراحساسات و جذبات کا علم ادراک کے مرہونِ منت ہوتا ہے ۔ ادراک (preception ) ذی حیات کا وہ اہم جز ہے جس کے بغیر زندگی کی حقیقت ممکن نہیں لہذا علمِ نفسیات میں ادراک کی اصطلاح کو قابل قبول مقام حاصل ہے۔
نفسیات کے نقطہ نظر سے شخصیت کے ضمن میں ادراک کے مطالعہ و مشاہدے میںفرد کی حیات و زیست کے تمام تر پہلو شامل ہیں۔مثلََاذاتی ، داخلی اور خارجی زندگی ، موروثی اثرات ، خاندانی حالات ، نوجوانی کے تضاد ات ،معاشرتی حالات و انقلابات اور شخصیت کے شعوری و لا شعوری محرکات ان سبھی کے زیرِ اثر فرد کے حرکات و سکنات اور احساس و جذبات کی کارفرمائیوں کو دیکھا و سمجھا جاتا ہے ۔ ادراک کا تعلق حیات انسانی سے روزِ اوّل سے منسلک ہے چونکہ ادراک ہی کے وسیلے سے دنیا و زندگی کے راز ہم پر واضح ہوتے ہیں۔
نفسیات میں ادراک سے وہ اصطلاح مراد لی جاتی ہے ۔جس کے زیر سایہ انسان کو تمام جاندار مخلوقات و کائنات میں موجود تمام خارجی اشیاء اور اس کے ساتھ ان کے متفرقات ‘ خصوصیت سے وابستہ اپنی داخلی کیفیت کا علم ہوتا ہے اور اس عمل کو انسان کے تحسسات (senses organ) انجام دیتے ہیں۔ انگریزی زبان میں ادراک کے لئے perception کی اصطلاح کا استعمال کیا جاتاہے ۔جو کہ لاطینی زبان کے لفظ ’’ Perceptio ‘‘ سے مآخذ ہے ۔ ادراک کی تعریف کے ضمن میں ’’سیّد اقبال امروھوی ‘‘ لکھتے ہیں کہ :۔
’’۔۔۔۔۔۔ ادارک سے فرد کو خارجی دنیا کا علم ہوتا ہے اور ساتھ ہی داخلی ، ذہنی اور جسمانی حالت کا بھی علم ہوتا ہے ۔وہ تمام اشیاء جو محسوسات
کے دائرہ میں آتی ہیں ادراک کا سبب بیتی ہیں ۔۔ ادراک کسی آلئہ حس کے تہیج کا نتیجہ ہوتا ہے ــــ۔۔۔‘‘۔۱؎
تو وہی ’’تعلیمی نفسیات کے نئے زاوئیے ‘‘ میں ادراک کی وضاحت ان جملوں میں ملتی ہے ۔
’’ تحسسات (Sensation) کو خارجی اشیاء سے منسوب کرنے کے ذ ہنی عمل کا نام ادراک (Preception ) ہے ۔
جب کوئی تحسّس (Sensation) حواس (Senses)کے ذریعے دماغ کے سامنے آتا ہے تو ذہن اپنے سابقہ تجربات کی
بنا پر اس کو مختلف عنوانات سے تعبیرکرتا ہے ۔۔۔۔۔ یعنی ادراک (Preception ) ایسا ذہنی عمل ہے جس میں تحسّس او ر سابقہ
تصورات مل کر تعبیر کا کام سر انجام دیتے ہیں۔۔ـــــ‘‘۔۲؎
مختصراََ ادراک کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ ادراک (Preception )ہی کے صدقے کارواںِ زندگانی رواں دواں ہے۔ جس کے سب سے اہم جزــ حس(Senses)ہیں۔ جو ہمیں خارجی دنیاکے حسی صفات سے وابستہ کراتے ہیں ۔ غالبََاسب سے پہلے شے کی واقفیت حس کوہوتی ہے ۔ جس کے احساس سے ادراک عمل میں آتا ہے ۔ تحسس(Sensation ) اور حس (Sense) کے آپسی ربط سے جو اطلاق ہوتا ہے اسے ادراک سے تعبیر کیا جاتا ۔یعنی ہمیںحسّی عمل سے جن تجربات اور مشاہدات کا حصول ہوتا ہے اس کے عوض ہمیںاس شے کی شناخت ہوتی ہے اور یہی شناخت ہمارے وجدان میں اس شے کے خدوخال کو متعین کرنے اور اسکی بنیادی اشکال کو واضح کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے ۔یہ حسّی عمل کا سلسلہ تجربات و مشاہدات کی معرفت ہمیں دنیا میں تمام موجودات سے آشنا کراتا ہے ۔ غرض یہ کہ ہمیں اسی کے طفیل اپنی داخلی کیفیت سے بھی واقفیت حاصل ہوتی ہے ۔ جیسے درد ، خوشی ، غصّہ ، مایوسی ، حسد وغیرہ ایسی دیگر کیفیات ہیں ۔جس سے ہمہ وقت سامنا ہوتا ہے۔

ایک عام فہم ذہین میں ادراک کی فقط اتنی ہی کارفرمائیاں ہوتیں ہیں کہ وہ کائنات میں موجود تمام مخلوقات و اشیاء سے فرد کو روشناش کرائے۔لیکن جب ادراک کسی تخلیق کا ر کے ذہن کو متحرک کرتا ہے تو وہاں اس کا زاویئہ نظر تبدیل ہو جاتا ہے ۔چونکہ تخلیق کار خواہ کوئی ادیب ہو یا شاعر بہت حساس فطرت کا مالک ہوتا ہے اور یہی حسساسیت تخلیق کارکے افکار و نظریات کو انفرادیت عطا کرتی ہے ۔ جب کوئی شاعر اپنے مشاہدات سے ادراک کی جانب قدم بڑھاتا ہے تو وہ شے کی بنیادی شکل و حقیقی تصاویرمیں ایسے رنگوں کواُبھارکر سامنے لاتا ہے ۔جنھیں دیکھنے سے دیگر افراد کی نگاہ قاصر ہے ۔اس ضمن میں میرؔ کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہو ۔
مارا زمیں میں گاڑا تب اس کو صبر آیا اس دل نے ہم کو آخر یوں خاک میں ملایا
پوجے سے اور پتھر ہوتے ہیں یہ صنم تو اب کس طرح اطاعت ان کی کروں خدایا
آخر کو مر گئے ہیں اس کی ہی جستجو میں جی کے تئیں بھی کھویا لیکن اسے نہ پایا
عشق کا تصور دنیا کے وجود کے ساتھ انسان کی زیست میں پیوست ہے ۔ تصورِعشق خاص و عام اور تخلیق کا ر سبھی کے یہاں اس کی تجلیاں نظر آتیں ہیں۔عشق میںسبھی کو اپنے حالات اور وقت کی مناسبت دیگر مراحل سے گزرناپڑتا ہے۔ عام فہم شخص سے ایک شاعر کے نزدیک عشق کا تصور اور اس کے خدوخال بلکل جدا ہوتے ہیں ۔ غالبََاجس طرح ہر شاعرکی نفسیات جدا ہوتی ہے اسی ماننداس کے عشق کی فضابھی جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔ لہذا یہاں میرؔ کے عشق کی تجلیّوں میں ادراک اور اس کے اقسام کی نشاندہی کی گئی ہے۔
چنانچہ مذکورہ اشعار میرؔ کے عشق کے علمبردار ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی ادراکی کیفیت کے ترجمان ہیں۔ جو ان کے محبوب کے برہم ہونے کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔محبوب کا بیزار اور برہم ہونا ایک فطری عمل ہے ۔ مگر میرؔ اس ردِعمل کی تاب نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کے لئے صبر آمیز مقام ہے۔ محبوب کے برہم ہونے پر میرؔ کو اپنی اس کیفیت کا احساس محبوب کی ستم ظریفی ، بیزاری ، سنگ دلی اور اپنی بے بسی ، محرومی ، ناکامیابی اور تباہی کے احساس کے جذبے کے ادراک سے پیدا ہوتا ہے۔حالانکہ یہ داخلی کیفیت ہے جو میرؔ کومحبوب کے ردِعمل کی شکل میں خارجی دنیا سے ہمکنار کراتی ہے ۔اس داخلی کیفیت کے علم کو نفسیات میں’ داخلی ادراک‘ (Internal Preception)کہا جاتا ہے ۔جو حسی عمل سے ادراک کے براہ راست وجدان سے شناخت کی سماعتوں سے ٹکراتے ہوئے اپنے وجود میں ہونے والی تبدیلیوں سے حاصل کردہ تغیرات سے فرد کو آشنائی کرا تا ہے ’ ادراکِ داخلی ‘(Internal Preception)کی تعریف کے حوالے سے اقبال امروھوی رقمطراز ہیں کہ ۔
’’ جب فرد کو اس کی ذہنیت اور اس کے خیالات کا علم ہوتا ہے تو یہ داخلی ادراک کی ایک مثال ہے۔ پریشانی کا احساس ، دکھ ، تکلیف
اور غم زدہ ہونے کا تعلق داخلی ادراک سے ہے ۔۔‘‘۳؎
بلاآخر اس اقتباس کی راشنی میں میرؔ کی داخلی کیفیت سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ داخلی ادراک کی فراوانی ذی حیاتِ میںسب سے زیادہ تخلیق کار کے ذہن کومتاثر کرتی ہے جس کی نشاندہی میرؔ کے اس شعر سے ہوتی ہے ۔
ہر صبح میرے سر پر اک حادثہ نیا ہے پیوند ہو زمیں کا شیوہ اس آسماں کا
میر ؔ اس شعر میں حوادثِ زندگی کا ذکر کرتے ہیں اور اپنی تمام تر تکالیف کا باعث آسماں و زمیں کی گردش کو مانتے ہیں ۔ جس کے دامن میں بادستور دن و رات ہوتے ہیں۔ جس کی ہر صبح نا مساعد حالات و واقعات کا پیغام لاتی ہے ۔ لہذا شاعر گردشِ دوراں کی تاب نہ لا کرآ سماں کے زمیں دوز ہونے کی دعا کرتا ہے ۔ چونکہ نہ گردشِ ایام سرگرم رفتار ہوگا اور نہ ہی شاعر کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا ۔ ایک تخلیق کا ر کے فکری سر چشمے عام فہم ذہن سے جدا ہوتے ہیں ۔ چونکہ ایک عام فہم شخص کی فکر اور تخیل کبھی اس طرح پرواز نہیں کر سکتے جو ایک تخلیق کار کے لئے ممکن ہے ۔ ایک عام انسان زندگی کے مصائب و آلام کی جانب اس طرح متوجہ نظر نہیں آتا جتنا کہ مبداء تخلیق نظر آتے ہیں ۔ چنانچہ ایک تخلیق کار کے یہاں موجِ حوادث اپنی نوعیت کی معنویت بدل لیتی ہیں ، جس کی بنا پر تخلیق کار کے تحسّس (Sensation) حواس (Senses) کسی شے کے احساس سے تخیل و وجدان کے آپسی ربط سے ایک ایسی دنیا آباد کرتے ہیں جس کا ادراک و تصّور ایک عام فہم ذہن کے لئے ممکن نہیں ۔تخلیقار کو ایسے الہام ہوتے ہیں اور ان چیزوں کابھی ادراک ہوتا ہے جو حقیقت کے آئینہ میں صاف اور واضح نظر نہیں آتیں لیکن وہ ایک مصنف و شاعر کے تخیلی ادراک اور وجدانی کیفیت کی اختراع ہوتی ہے جو قاری کے ذہن و دل پر سحر کا اثر رکھتی ہے ۔ اس ضمن میں میرؔ کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہو۔
پڑے ایسے اسباب پایان کار کہ ناچار یوں جی جلا کر چلے
بہت آرزو تھی گلی کی تیری سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا ہمیں آپ سے بھی جد ا کر چلے

جبیں سجدے کرتے ہی کرتے گئی حق بندگی ہم ا د ا کر چلے
علم نفسیات میں ادراک داخلی (Internal Preception) کے علاوہ ادراک کی دیگر اقسام بھی موجود ہیں ۔جن کا اظہار نمایاں طور پر میرؔ کے یہاں ملتا ہے ۔ مثلََا ادراک مکانی( Spatial Preception ) ، ادراک مفرد( Pure Preception ) ، کیفیاتی ادراک (Qualitative Perception ) ، التباس (Illusion) او ر فریب ادراک ( Hallucination ) وغیرہ ہیں۔
ادراک مکانی ( Spatial Preception ) یہ ادراک کی وہ منزل ہے ۔جہاں انسان کو تحسسات کے ذریعے مکاں از زماں ، مقامات اور فاصلے کا علم ہوتا ہے ۔کسی بھی شے کے علم کا حصول تبھی ممکن ہے جب ہمیں اس شے کے درمیانی فاصلے و وقت کا علم ہوگا ، اور یہی علم ہمیں اس شے کی شناخت سے تمیز تک کے مراحل طے کرنے میںمعاون ثابت ہوتا ہے ۔ لہذاادراک کی سبھی اقسام کی راہ شناخت کی دہلیز کو چھو کر گزرتی ہیں۔الغرض نفسیاتی نقطہ نگاہ سے اصطلاح ـ’’ ادراک مکانی ‘‘ کی تعریفی وضاحت اور خیالات کا اظہار ان جملوں میں ملتا ہے۔
’’ مکانی ادراک (Spatial Preception)
یہ ادراک ہمیں اشیاء کی مکانی حالت سے متعلق معلومات فراہم کرتا ہے اس کے ذریعہ جس چیز کا ادراک ہو رہا ہے اس کا مقام ،
دوری ، نزدیکی وغیرہ کا علم ہوتا ہے ۔۔۔۔ـ‘‘۴؎
ادراک مکانی کو میرؔ کے اس شعر کی روشنی میں بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
کیونکے نکلا جائے بحر غم سے مجھ بے دل کے پاس آگے ڈوبی جاتی ہے کشتی مری ساحل کے پاس
درجہ بالا میرؔ کا شعر ادراک مکانی ( Spatial Preception) کی با الخصوص وضاخت کرتا ہے ۔ یہاں میرؔکے حسّی عضا و تحسسات انھیںعشق کے ساحل پرکشتی ِحیات کے غرق ہونے کا ادراک کراتے ہیں۔اس شعرمیں کشتی سے ساحل کی نسبت ،کشتی کا سمندر کے کنارے پر آکر ڈ وبنا ، کشتی اور ساحل کے آپسی ربط کی نشاندہی کرتا ہے ۔جو شاعر کی اضطرابی و نفسیاتی کیفیات کی علامت مثلََا احساسِ کمتری ، مایوسی ، کیفیتی ادراک ا ور ادراک مکانی کی غمّاز ہیں ۔جس کے ماتحت ہمیں مقام، وقت اور فاصلے کا علم ہوتا ہے ۔ میرؔ کی اضطرابی کیفیت سے ایسا گماں ہوتا ہے کہ میرؔ نے یہ شعر اپنے محبوب کی جدائی سے چند ساعت پہلے کہا ہو ۔ بہرحال میرؔ کا یہ شعر ان کے داخلی اور خارجی محرکات کا آئینہ دار ہے۔جس طرح خارجی محرکات کی بنا پر مکانی ادراک ( Spatial Preception) کی وضاحت ہوتی ہے ، ایسے ہی داخلی محرکات ادراک مفرد( Pure Preception ) کی تصدیق کرتے ہیں۔ جسے ’’ادراک خالص ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ ادراک کی اس قسم میں انسان کو ایسے تجربات کا ادراک ہوتا ہے ۔جس کا تعلق فرد کے گزشتہ تجربات سے منسلک ہو ۔ جو ماضی سے حال کا رشتہ اسطوار کرنے میںاپنا فریضہ انجام دیتے ہیں۔جیسے میرؔ کے یہ اشعار :۔
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
٭ ٭ ٭
کثرت میں درد و غم کی نہ نکلی کوئی طپش کوچہ جگر کے زخم کا شاید کہ تنگ تھا
٭ ٭ ٭
گرمی سے میں تو آتش غم کی پگھل گیا راتوں کو روتے روتے ہی جوں شمع گل کیا
مذکورہ صدر اشعار ادراک مفرد( Pure Preception ) کی تقلید کرتے ہیں۔ جس میںمحبوب کے نام کی تسبیح ، زخموں کی فراوانی اور الم ِ فراق ـ’’ادراک مفرد‘‘ کے مظہر ہیں۔جنکا با ضابطہ تعلق شاعر کے گزشتہ تجربات سے موجودہ داخلی محرکات کے متحرک ہونے سے ہیں۔ ادراک کی فراوانی و سرگرمیوں کے بغیر زندگی کا قافلہ اپنی راہ گزر پر آگے نہیں بڑھ سکتا ہے ، یہاں تک کے ہم اپنے احساسات و جذبات اور کیفیات کی آگاہی کے لئے ادراک کے متقاضی ہیں۔ چنانچہ ادراک کی جس صفت سے ہمیں اپنی کیفیت کا علم ہوتا ہے اسے علمِ نفسیات میں’’ کیفیاتی ادراک (Qualitative Perception ) ‘‘ کہتے ہیں۔ جس کے رہین منّت خارجی ماحول و اشیاء سے رابطہ قائم ہوتا ہے۔ اس عبارت کی تصدیق کے لئے اقبال امروہوی کا یہ اقتباس پیش ہے۔
’’ کیفیاتی ادراک (Qualitative Perception )
اس قسم کے ادراک سے ہم کو اشیاء کی کیفیت کا ادراک ہوتا ہے ۔کیفیت میں اشیاء کے رنگ ، جسامت ، شکل ، خشبو اور ہیئت

سب ہی شامل ہیں اور ان خصوصیت کا فرق ادراک میں ظاہر ہوتا ہے ۔ ۔۵؎
خوبی کو اس کے چہرے کی کیا پہنچے آفتاب ہے اس میں اس میں فرق زمین آسمان کا
٭ ٭ ٭
دوزخ کیا ہے سینہ مرا سوز عشق سے اس دل جلے ہوئے کے سبب ہوںعذا ب میں
٭ ٭ ٭
خواہ تخلیق نثر ہو یا نظم اس میں خالق کے کیفیاتی ادراک کو بہت اہم دخل ہوتا ہے چونکہ یہ ادراک تخلیق کار کے لئے خارجی دنیا سے وابستہ اشیاء کے ربط و ضبط ، خصوصیات ، تجاوز و تفریق کے تعین میں معاون ثابت ہوتا ہے ۔ نیز میرؔ ان اشعار میں محبوب کے چہرے کے لئے آفتاب ، تفریق کے لئے زمیں و آسماں اور آتشِ عشق کے لئے عذابِ دوزخ جیسی تشبیہات و استعارات سے اپنی داخلی کیفیات کا اظہار کرتے ہیں ۔
ادراک کی مذکورہ علامتوں کے علاوہ ادراک کی دو اہم علامتیں التباس (illusion ) اور ر فریب ادراک ( Hallucination ) ہیں۔ جنھیں میرؔ کے یہاں خصوصی مقام حاصل ہے ۔
’’۔۔۔۔ادراک کی دو علامتوں التباس (Illusion) اور فریب ادراک ( Hallucination ) ۔۔۔۔التباس کسی خارجی اور حقیقی ہیّج
کی غلط تشریح کو کہتے ہیں جب کہ فریب ادراک ایک ایسا ادراک ہے جس کا انحصار کسی خارجی ہیّج پر نہیں ہوتا ۔التباس گویا ادراک کی
غلط فہمی ہے اور فریب ادرا ک ایک غلط ادراک ہے جس کی کوئی حقیقی بنیا د نہیں ہوتی ۔ان دونوں کا تعلّق بصارت ، سماعت ،
لمس ، ذائقہ غرضیکہ کسی بھی احساس سے ہوسکتا ہے۔۔۔۔۶؎
درجہ بالا اقتباس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ التباس (illusion ) ادراک کی اس علامت کی وضاحت کرتا ہے کہ جب ہمارے تحسسات (orgen Senses)کسی شے کے خارجی اور حقیقی پہلو کو پوشیدہ رکھ کر ہمیں اسی شے کے ادراک میں کسی دوسری شے سے وابستہ کراتے ہیں ۔جسکے باعث ہمیں ابتدائی ادراک فہم کے متبادل کسی دوسری شے کا ادراک ہوتا ہے ، اور ہمیں اس حقیقی شے کے مقام پر کسی دوسری شے کی شناخت حاصل ہوتی ہے۔ مثلََا ۔ گھر کے صحن میں کھڑے درخت کو اندھیرے میں دیکھنے سے کسی انسان کے کھڑے ہونے کادرک ہوتا ہے۔ اور اسی طرح کبھی کبھی گھر کے کسی حصّے سے آنے والی آواز سے ہمیں اپنے کسی آشناں کی آواز کا ادراک ہوتا ہے وغیرہ ۔نفسیات میں التباس کی مختلف اقسام موجود ہیں۔جیسے نظری التباس (Visuall illusion ) ، سمعی التباس (illusion Auditional ) ، شامّتی التباس (illusion Olfactory ) ، ذائقتی التباس (illusion Gustatory ) اور مسّی ا لتباس (illusion Kinetic ) وغیرہ ہیں۔
التباس (illusion ) کے ضمن میں بطور مثال میر تقی میرؔ کی مثنوی ’’ شعلہ عشق ‘‘ کے چند اشعار پیشِ نظر ہیں ۔
( مثنوی شعلئہ عشق)
تنک دور چل کر کیا یہ سوال مجھے ہے ترے حرفے شب کا خیال
کہاں شعلئہ سرکش آتا ہے یاں کدھر پیچ و تاب آکے کھاتا ہے یاں
ٹھرتا ہے کس جا وہ آتش فگن طرف کون سے ہو ہے گرم سخن
کوئی دم میں دریا پہ آیا فرود ہو ا نیزہ بالا سبھوں کو نمود
لب آب وہ شعلئہ جاں گداز تڑپ کر بہت با زبان دراز
پکارا کہاں ہے پر س رام تو محبت کا ٹک دیکھ انجام تو
بھڑکتی ہے جب آگ دل کی مرے لب آب اتروں ہوں غم میں ترے
مثنوی شعلئہ عشق میرؔ کی معروف عشقیہ مثنویوں میں سے ایک ہے جسکا مرکزی کردار ہیرو پرس رام اور اس کی بیوی ہیں ۔مذکورہ اشعار میں’’ ادراکِ التباس illusion Perception ‘‘ کی علامت پرس رام کی رفیقِ حیات ہے۔ جو بعد از مرگ ایک شعلئہ کی شکل میں نمودار ہوتی ہے ۔ اور اپنے خاوند کی جستجو میں ہر طرف سرگرداں رہتی ہے ، یہ کردار نظری التباس اور سمعی التباس کی نمایاں مثال ہے ۔ علاوہ ازیں مثنوی کے قصّے کے دونوں مرکزی کردار’’ ادراک Perception ‘‘ کی

دیگر علامتوں کے بھی غمّاز ہیں ۔ جیسے پرس رام کی بیوی’’ ادراکِ التباس illusion Perception ‘‘ کی علامت ہے جس کا ادراک پرس رام کو ہوتا ہے۔ قصّہ مختصر یوں ہے کہ پرس رام اپنی شریکِ حیات کی محبت اور وفا کے امتحان کا شائق ہوتا ہے ۔اور بطور آزمائش وہ اپنی موت کی جھوٹی خبر اس تک پہنچا تا ہے ۔نیز وہ اس جھوٹی خبر کی تاب نہ لا کر اس صدمے سے فوت ہوجاتی ہے، جو بعد ازمرگ ایک شعلہ کی شکل میں دریاکے کنار ے پرس رام کی تلاش و جستجو میں مضطرب رہتی ہے۔جب پرس رام دریا کے کنارے پہنچتا ہے تو اسے شعلے کی شکل میں اپنی بیوی کا ادراک ہوتا ہے ۔جبکہ وہ اپنی بیوی کو نظرِ آتش کر چکا تھا ۔ یہاں ادراک التباس کی کرم فرمائی تھی کہ پرس رام کو اس شعلے سے اپنی شریکِ حیات کا ادراک ہو رہا تھا ۔اور اس طرح ادراک التباس کی فراوانی پر اس مثنوی کا اختتام ہوتا ہے۔
تو وہیں فریب ادراک ( Hallucination ) سے وہ ادراک مراد لیا جاتا ہے جس میں خارجی دنیا کی کسی شے سے کوئی حقیقی تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ نفس و ذہن کی بنائی ہوئی تصویر ہوتی ہے اور جس کے روبرو اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا اور نہ ہی تحسسات کا یہاں کوئی دخل ہوتا ہے ۔ فریب ادراک ( Hallucination ) میں سبھی کارفرمائی تصورات پر مبنی ہوتیں ہیں ۔اس ضمن میں میرؔ کی مثنوی ’’ معاملات ِعشق ‘‘ کے چند اشعار غور طلب ہیں ۔ جس میں میرؔ کے ذاتی عشق کا شمار کیا جاتا ہے ۔
’’ مثنوی معاملات ِ عشق ‘‘
میں تو بستر پر دل شکستہ اداس چاند سا منھ انھوں کا تکیے پاس
میں بچھونے پہ بے خود و بے خواب ایک پیکر پری کا سا ہم خواب
فرش پر پائوں یہ غبار آلود ان میں وے دونوں پا نگار آلود
جلتی آنکھوں کنے گل رخسار جس پہ کچھ بکھرے موے غبر بار
پاس منھ کے وے لال تر نازک دست گستاخ پر کمر نازک
فرش پر اس گل بدن سے سب بویا پھول میں نے بچھائے تھے گویا
شب کٹی صورت خیالی سے دن کو ہوں میں شکستہ حالی سے
’’ مثنوی معاملات ِ عشق ‘‘ کے ذکر کردہ اشعار ’’ فریبِ ادراک ( Hallucination ) ‘‘ پر منحصر ہیں ۔۔ یوں تو اس مثنوی میںمیرؔ عشق کے سات مراحل کا ذکر کرتے ہیں۔ نیز میرؔ اس مثنوی کے معاملئہ ششم میں اپنی اس تصوراتی دنیا کا ذکر کرتے ہیں۔چنانچہ جب میرؔ محبوب کے ہجر و فراق کے الم و نامساعد واردات کے باعث بستر سے اٹھنے سے بھی مجبور ہو گئے تھے ۔اور اسی اضطرابی کیفیت کے سبب ’’ فریبِ ادراک ( Hallucination ) ‘‘ میں مبتلہ ہو گئے ۔لہذا اس کیفیت میں میر ؔمحبوب کے وصال کے لئے ایک تخیلی جہاں آباد کرتے ہیں جہاں ان کی ناآسودہ خواہشات تکمیل پاتیں ہیں۔ میرؔ کے لئے یہ خیالی دنیا بہت خوشگوار ، پر سکون اور لطف انگیز ثابت ہوتی ہے ۔

’’۔۔۔۔۔۔ یہ حواس کے جعلی تاثرات ہوتے ہیں ۔مثال کے طور پر مریض ایسی آوازیں سنتا ، اور وہ چیزیں دیکھتا ہے جن کا حقیقتََا
کوئی وجود نہیں ہوتا ۔یہ دہوکہ مختلف حواس سے متعلق ہو سکتا ہے، سامعہ ، باصرہ ا و ر لاسہ وغیرہ ، اس سے متا ثر ہوتے ہیں۔۔۔۔۷؎

الغرض فریب ادراک ( Hallucination ) کی اس علامت میں میرؔ اپنی ایک الگ دنیا آباد کرتے ہیں۔ اس ادراک سے وابستہ کیفیت کے اثرات خوشگوار اور تکلیف دہ ، ڈر اور خوف کسی بھی طرح کی جبلّت سے منسوب ہو سکتے ہیں ۔ فریب ادراک ( Hallucination ) اس وقت سرگرمِ عمل میں آتا جب انسان کی خواہشات کی تسکین اور آسودگی کے تمام راستے بند ہوچکے ہوتے ہیں۔اور خواہش کی تکمیل کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔جس کے باعث اضطرابی کیفیت اور حالات شاعر کے ذہن و شخصیت کو بے حد متاثر کرتے ہیں ۔ جس سے وہ کومپلکس کا شکار ہو جاتا ہے اور نتیجہ کے طور پر اپنی خواہشات کی آسودگی و تکمیل کے لئے ایک خیالی دنیا کا انتخاب کرتا ہے ۔ مثلََا۔
’’ کو مپلکس کے زیر اثر ،افعال متحرک ہوکر اپنے مقصد کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ مقصد کا حصول
مکمل نہیں بلکہ نا قص اور محدود ہوتا ہے یعنی حقیقی نہیں بلکہ محض خیالی ہوتا ہے یہی چیز وہمی صورت گری کہی جاتی ہے ،
انسان خیالی پلائو پکاتا ہے۔۔۔۔۔۔حقیقی دنیا کی تشفی کے بجائے خوش گوار خیالی تصو یریں بنا کر خواہشات کی تکمیل کرلیتا ہے ۔ ۔۸؎

لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ میرؔ زندگی کے ایسے نشیب و فراز سے دوچار ہوئے جنھوں نے میرؔ کی ادراکی کیفیات اور شخصیت کے تمام داخلی و خارجی محرکات کو ہمیشہ متحرک رکھا۔ جس کے سبب انھوں نے داخلی کرب ، محرومی ، بے بسی ، جبر و ضبط کا ادراک کیا ، جہاں درد بھی اپنی حدود سے تجاوز کرگیاجس کے باعث میرؔنفسیاتی و ذہنی اختلا ل و عارضہ میں مبتلہ ہوگئے ۔ میر ؔ اپنی اس ذہنی بیماری اور کیفیت کا ذکر اپنی آپ بیتی میں ان الفاظوں میں کرتے ہیں۔
’’۔۔۔۔۔ میرا دُکھا ہوا دل اور زخمی ہوگیا ۔ اور میں پاگل ہو گیا،مزاج میں وحشت پیدا ہو گئی ، جس کو ٹھری میں رہتا تھا اُس کا دروازہ بند کرلیتا تھا
اور اِس ہجوم ِ افکار میں تنہا بیٹھ جاتا ، چاند نکلتا تو میرے لیے قیامت ہوتی تھی، اگرچہ میں اُس وقت سے چاند کو دیکھتا آیا تھا جب منھ
دُھلاتے وقت دایہ ــ’’ چاند چاند ‘‘ کہتی اور میں آسماں کی سمت دیکھتا تھا ،لیکن اس طرح کہ دیوانگی تک نوبت پہنچ جائے اور وحشت اتنی
بڑھ جائے کہ لوگ کہ لوگ مجھ سے ڈر کر میری کوٹھری کا دروازہ بند کر دیں اوع مجھ سے دور بھاگنے لگیںــ۔۔۹؎
تو وہیں میرؔ اپنی اس جنونی کیفیت کے ادراک اور نفسیاتی عارضے کو مثنوی ــــ’’ خواب و خیال ‘‘ کی نذر کرتے ہیں۔ جس کی سراغرسانی خواب و خیال کے درجہ ذیل اشعار سے ہوتی ہے ۔یہ قول قابل تسلیم ہے کہ خواہ فرد جنونی عارضہ میں مبتلہ ہو یا نفسیاتی اضطراب میں ہر ایک صورتِ حال میں انسان کو اپنے خارجی محرکات اور داخلی کیفیت کا لازمی ادراک ہوتا ہے۔ فرد کے شعوری و لا شعوری محرکات اس کے ذہن اور شخصیت کو متاثر ضرور کرتے ہیں لیکن کسی بھی صورتِ حال میں ادراک سے محروم نہیں کر سکتے ہیں۔
’’ مثنوی خواب و خیال ‘‘
چلا اکبرآباد سے جس گھڑی در و بام پر چشم حسرت بڑی
پس از قطع رہ لائے دلی میں بخت بہت کھینچے یاں میں نے آزار سخت
جگر حورِ گرد وں سے خوں ہوگیا مجھے رکتے رکتے جنوں ہوگیا
ہوا خبط سے مجھ کو ربطِ تمام لگی رہنے و حشت مجھے صبح و شام
کبھو کف بلب مست رہنے لگا کبھو سنگ در د ست ر ہنے لگا
نظر رات کو چاند پر گر پڑی تو گویا کہ بجلی سی د ل پر پڑی
کیا بند اک کو ٹھڑی میں مجھے کہ آتش جنوں کی مگر واں بُجھے
میرؔ کے مرض جنون کے حوالے سے ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں کہ : ۔
’’۔۔۔۔۔۔۔میرؔ نے اس زمانے میں جب وہ عالمِ جنون میں تھے ، خان آرزو کے مشورہ پر ریختہ گوئی شروع کی ۔ یہ ۱۱۵۳ / ۱۱۵۴ھ
(۴۱۔۱۷۴۰ء)کا زمانہ ہے۔میر ۱۱۵۲ھ / ۱۷۳۹ ء میں دلّی آئے اور کچھ عرصے بعد جنون کے مرض مبتلا ہوکر ’’ زندانی و زنجیری ‘‘ ہو گئے ۔۔۱۰؎
علمِ نفسیات میں ذہنی اختلال کے لئے ’’جنون (Psychosis ) ‘‘ کی اصطلاح کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور مرضِ جنوں کو اس عبارت میں تسلیم کیا جاتا ہے ۔
’’ شدید ذہنی امراض کے لیے نفسیات میں Psychosis کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جن کو اردو میں جنونی
عارضہ کہہ سکتے ہیں۔مفکرین صرف پاگل پن ، دیوا نگی او ر جنون کی مختلف اقسام کو اس کے تحت لاتے ہیں۔۔۔۔ ۔ نفسیاتی
زبان میں کہا جاتا ہے کہ جنونی امراض کی وجہ فرد کی ایڈ اور اس کی اندرونی طاقتوں میں تصادم کی شکل میں ہوتی ہے ۔۔۔
انا کمزور ہوجاتی ہے اور ایڈ اس پر قابو رکھتی ہے ۔۔۔ایڈ کی لاشعوری کیفیت شعور کی کیفیت میں تبدیل ہو جاتی ہے جس کی
وجہ سے فرد کی ہیجانی کیفیت میں شدت آجاتی ہے جو غیر معمولی اور غیر طبعی کردار کا باعث ہوتی ہے ۔عرف عام میں اس
کو دماغی توازن بگڑجانا کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۱۱؎
شعر و ادب کی تخلیق میں ِ جنوں (Psychosis ) کی معنویت کے حوالے سے ’’ میر ؔکے نہان خانے ‘‘ میںشبیہہ الحسن نو نہروی قلمطراز ہیں کہ : ۔
’’۔۔۔۔۔۔۔شعر و ادب کے سلسلے میں جنون اس معنی میں نہیں بولا جاتا ہے جس معنی میںیہ لفظ کسی طبی کتاب میں استعمال
ہوتا ہے اور نہ اس معنی کے اعتبار سے جنون شاعری کے لئے ضروری چیز ہے ۔شاعر ایک حساس انسان ہوتا ہے

اور ہر حساس انسا ن کتافتوں کے مقابل میں مجنون معلوم ہوتا ہے ۔شاعر کا بڑھا ہوا احساس بہت جلد دوسروں کو یہ
محسوس کرا دیتا ہے کہ جیسے وہ اعتدال کے معینہ معیار سے گریزاںہے ۔۔۔۔۔۔۔اصلاح پزیر جنون ہمیشہ ایک عظیم ذہن
کی داخلی خصوصیت رہا ہے ۔ دُنیا کے اعلیٰ پایہ کے ذہن معتدل جنون ، کے شکار رہے ہیں اور اسی کی بدولت وہ عظیم
تخلیقات مرض وجود میں آئے ہیں جو انسانی معجزے کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔۔۱۲؎
مذکورہ اقتباسات کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایک شدیدذہنی و نفسیاتی عارضہ میں مبتلہ شخص جس کے اوزان تک درست نہیںہوتے وہ باکمال تخلیق کا مالک ہوتا ہے۔یوں تو میرؔ ذہنی بیماری سے صحتیاب توہوگئے لیکن اس مرض نے ان کی شخصیت کو اس درجہ متاثر کیا کہ میرؔ تا عمر نفسیاتی اضطراب سے باہر نہ آسکے ،جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ افسردگی کے اسیر رہے۔ اس اضطرابی کیفیت و جبلّت نے ان کی ادبی تخلیقات میں اہم فریضہ انجام دیا ۔ اپنے آخری ایّام میں میرؔ نے اپنی اجل کے حوالے سے اک شعر قلمبند کیا تھا ۔ جس میں میر تقی میرؔ کو اپنی موت کا ادراک ہوتا ہے جو ’’ ادراک Preception ‘‘کی باکمال مثال ہے ۔
ساز پسیج آمادہ ہے سب قافلے کی تیاری کا
مجنوں ہم سے پہلے گیا ہے اب کے ہماری باری ہے
میر ؔ کی زندگی ہم پر یہ واضح کرتی ہے کہ جس طرح زندگی کے، ر نج و الم ، محرومیوں ، ناکامیوں اور تمام تر حوادث اور نامساعد حالا ت نے میرؔ کی شخصیت کی تعمیر کی انہیں خارجی اور داخلی محرکات کے ادراک کے باعث انھوں نے شاعری کے اُفق پر سرفرازی حاصل کی۔مختصر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بے شک انسانی وجود اور اس کے احساسات و جذبات اس کی کیفیت پر مسلم ہیں لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب ہمیں کائنات میں تمام موجودات کے ساتھ ساتھ اپنی داخلی کیفیات و محرکات کا صحیح ادراک حاصل ہو ۔ کیا یہ خیال و تصور بھی قابلِ قبول ہو سکتا ہے کہ ـ’’ بغیر ادراک کے ہماری زندگی کا کارواں جاری و ساری رہے‘‘ نہیں اس خیال کا تصور بھی کرنا ناعقلی ہے۔چونکہ چرند و پرند ہو یا انسان یا دنیاکی کوئی بھی جاندار مخلوق ہو ، سبھی کی ذندگی کے لئے ادراک بنیادی جز ہے۔

حواشی
۱۔ اصطلاحاتِ نفسیات تشریح و تفھیم ۔ سیّد اقبال امروھوی ۔ ۲۰۰۱؁ ۔ص۲۸ ۔ دہلی۔
۲۔ تعلیمی نفسیات کے نئے زاوئیے ۔مسرّت زمانی، ابنِ فرید ۔ ۱۹۸۸؁ ۔ ص ۱۲۵ ۔ علیگڑھ ۔
۳۔ اصطلاحاتِ نفسیات تشریح و تفھیم ۔ سیّد اقبال امروھوی ۔ ۲۰۰۱؁ ۔ص۲۹ ۔دہلی۔
۴۔ ایضََا ۔۔۔ ص ۲۹
۵۔ ایضََا ۔۔۔ ص۳۰
۶۔ ابنارمل نفسیات حصہ اوّل ۔ الیفرم روزن مترجم ذکیہ مشہدی ۔ ۱۹۹۹؁ ۔ ص۴۰، ۴۱ نئی دہلی
۷۔ نفسیاتِ جنوں ۔ برنارڈہارٹ مترجم عبیدہ زمان ۔ ۱۹۷۸؁ جولائی۔ ص۳۳۔ نئی دہلی
۸۔ جدید نفسیات ۔ سیّد اقبال امروھوی ۔ ۲۰۰۳؁۔ ص۱۳۸، ۱۳۹ ۔ دہلی
۹۔میرؔ کی آپ بیتی ۔نثار احمد فاروقی ۔ نومبر ۱۹۵۷؁ ۔ ص۹۵/ ۹۴ ۔ دلّی
۱۰۔محمّد تقی میرؔ ۔ڈاکٹر جمیل جالبی ۔ ۱۹۸۳؁ ۔ ص۲۶ دہلی
۱۱۔ نفسیاتِ جنوں ۔ برنارڈہارٹ مترجم عبیدہ زمان ۔ ۱۹۷۸؁ جولائی۔ ص۸۶۔ نئی دہلی
۱۲ ۔ میرؔ کے نہاں خانے ۔ مشمولہ تنقید و تحلیل ۔شبیہہ الحسن نو نہروی ۔ ۱۹۵۸؁ ۔ ص۱۷۲ ۔لکھنئو

Leave a Comment