اردو ادب کا سیمینار مافیا اور ماہ ِمارچ

\"22555121_1592151924207991_4889934044443978308_n\"
٭ڈاکٹر شہلا نواب
ادیبہ ، صحافیہ و شاعرہ
ایم اے اردو، سیاسیات ،ایم ایڈ،پی ایچ ڈی ،
ماسٹر ان جرنلزم اینڈ ماس کمیونکیشن اور ایل ایل بی۔
3359-62کوچہ جلال بخاری ،دریا گنج ،دہلی 110002
shehlanawab@gmail.com

آجکل سوشل میڈیا پر جناب مجتبیٰ حسین کے حوالے سے ایک قول بہت مقبول ہورہا ہے سوچا اسی پر قلم اٹھائی جائے بات درست ہے کیونکہ مارچ کا مہینہ آتے ہی سرکاری پیسے کو خرچ کرنے کے لئے سیمنار مافیا سرگرم ہوجاتا ہے۔بات سچ ہے مگر اس میں ایک اضافہ کردوں کہ صرف سیمینار مافیا ہی نہیں مشاعرہ مافیا بھی قدم سے قدم ملاکر ان کے ساتھ ہوتا ہے ۔جہاں بھی جس کا زور چل جائے۔تمام سرکاری اداروں کی جانب سے ادب و ثقافت کے نام پر خزانوں کے منہ کھول دئے جاتے ہیں۔ویسے پورے سال کی ترقی کا دارومدار مارچ پر ہی ہوتا ہے۔فرضی اور حقیقی اخراجات کا ایک لمبا چوڑانہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔بہت سے لوگوں کا ذاتی بجٹ اسی ماہ سے شروع ہوتا ہے۔گویا آئندہ سال کا پورا انحصار اسی پر ہوتا ہے ۔
میں ان سیمیناروں اور مشاعروں کے بالکل خلاف نہیں ہوں یہ ہیں تو پتہ چلتا رہتا ہے اردو زبان ترقی کررہی ہے اور بڑے بڑے عالیشان ہوٹلوں میں جب اردو زبان کے سیمینار منعقد کئے جاتے ہیں تو اطراف کے لوگوں کو بھی اس بات کا بخوبی احساس ہوجاتا ہے کہ اردو کوئی غریب زبان نہیںیہ بات اور ہے کہ وہ ادب سے وابستہ کچھ لوگوں کی عجیب و غریب حرکات و سکنات سے کچھ اوربھی سوچنے پر مجبور ہوجائیں ۔خیر یہ ان کی سوچ کا معاملہ ہے اور اس پر کوئی پابندی بھی نہیں ہے۔
ائیر کنڈیشنڈ ہال میں سیمینار منعقد کراکر بتایا جاتا ہے کہ یہ زبان اب صرف خستہ ہال مدرسوں یا اسکولوں تک محدود نہیں ہے ترقی دیکھو اس کے مسائل کہاں حل ہورہے ہیں یہ اور بات ہے کہ مسائل جوں کہ توں ہی رہتے ہیں ہوسکتا ہے مارچ کے مہینے میں ہونے والے ائیر کنڈیشنڈ ہال کی ساری ٹھنڈک سے اردو زبان کی ترقی کچھ ٹھٹھر جاتی ہو ممکن ہے ۔مگر زبان کے مسائل پر بات تو ہوئی ہے۔ مقالات پڑھے گئے داد و تحسین کا سلسلہ شروع ہوکر بڑے بڑے لفافوں سے گذرتا ہوا عمدہ و لذیذ کھانوں کی خوشبو میں کہیں کھو جاتا ہے کوئی بات نہیں اگلے مارچ کا انتظار۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ان سیمیناروں کے موضوع بہت اہم ہوتے ہیں مگر مقالہ پڑھنے والے یا اس موضوع پر بات کرنے والے بیشتر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا اس موضوع سے تجرباتی یا تحقیقی دور دور کا واسطہ نہیں ہوتا ہے۔جیسے ’’اردو زبان کی ترقی میں خواتین کا کردار ‘‘۔یا اردو صحافت میں خواتین کا کردار ۔اور درپیش مسائل: اردو صحافت میں خواتین کے کردار کی بات تو چل جاتی ہے مگر جہاں تک درپیش مسائل کی بات ہے وہاں ایک بھی خاتون نہیں ہوتی ہے ۔وجہ یہ بھی ہے کہ بیشتر صرف اداریہ ان کے نام سے ہوتا ہے باقی مسائل مرد حضرات کو ہی درپیش ہوتے ہیں اسی لئے وہی سیمینار میں بھی پیش پیش ہوتے ہیں۔مسئلہ شاید اس وقت کچھ حل ہوجاتا ہو جب اعزازیہ کے طور پر بڑی رقم ملتی ہو۔مگر عوامی سطح پر ان مسائل کو حل کرنے یا دور کرنے کے لئے کوئی مضبوط حکمت ِ عملی تیار نہیں ہوتی ہے۔آئندہ سیمینار کے لئے عنوان اور مقالہ نگار سب بدل جاتے ہیں ۔
یہ تو ایک مثال ہے ایسے لاتعدادسیمینار ہوتے ہیں عنوان دیکھ کر د ل خوش ہوجاتا ہے کہ بس اس بار مسئلہ حل ہی سمجھو۔مگر پھر گھوم پھر کر سال دو سال بعد وہی عنوان اور اکثر وہی لوگ ۔عام طور سے اردو زبان و ادب کی ترقی کی فکر میں مبتلا مقالہ نگار حضرات وہی ہوتے ہیں جن کا خود کا اور ان کے افراذ خانہ کا اردو زبان سے دور دور کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے مگر قاضی صاحب دبلے ہوئے جارہے ہیں۔ اگر یہ سیمینا ررک گئے تو لفافے کیسے ملیں گے۔اسٹیج پر آکر پروچن شروع ’’ ہم کو اردو زبان کی ترقی کے لئے کوشش کرنی چاہئے زبان کو گھر گھر تک پہنچانا ہوگا ‘‘۔مگر کوئی ان سے سوال نہیں کرتا کہ آپکے بچے انگلش اسکول میں پڑھتے ہیں تو پھر ہمارے بچے اردو اسکول میں کیوں پڑھیں آخر زبان کی ترقی کا جو سوال ہے ۔ اکثر ان مقالہ نگار حضرات کے بچوں کو تو اردو زبان احساسِ کمتری میں مبتلا کردیتی ہے یا وہ یہ کہہ کر بات ختم کردیتے ہیں کہ نئی نسل کہا ںاردو زبان سے رغبت رکھتی ہے۔
ان سیمیناروں کے کنوینر کیونکہ اکثر سرکاری ملازمتوں سے وابستہ ہوتے ہیںسرکاری پیسے سے سیمینار کے نام پر خرچ کرنا ہے تو ایسے مقالہ نگار بھی بلائے جاتے ہیں جو ان کو ایکس چینج سیمینار دلا سکیں۔جتنی بھاری رقم آپکے دستخط سے ان کے اکاؤنٹ میں گئی ہے اس کی کچھ بھرپائی تو ہو ورنہ قلم کی سیاہی کا حق کیسے ادا ہوگا جس سے دستخط کئے گئے ہیں۔
ہر اردو پروگرام میں پروفیسروں مقالہ نگاروں کو یہی شکایت رہتی ہے کہ سامعین کی تعداد بہت کم ہے کنوینر نے پروگرام کی پبلسٹی اچھی طرح سے نہیں کی ہے ہوسکتا ہے حاضرین ان کا نام سن کر ہی بھاگ جاتے ہوں ۔جناب کوئی آپکا مقالہ سننے کیوں آئے گا کبھی اس سوال پر غور کیا ہے نہ کوئی نیا مدعا نہ اس کا حل نہ کوئی تحقیق نہ انداز بیان ،آپ تو مقالہ نگار کی حیثیت سے آئے ہیں مقالہ پڑھا لفافہ لیا اور غائب۔ آپ اپنے ساتھی مقالہ نگاروں کا مقالہ سننے کو تیار نہیں پھر کوئی اور آپکا مقالہ کیوں سنے۔آپ خود کسی بھی سیمینار میں بطور حاضرین یا سامعین جانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ حاضرین سیمینار توسیمینار ہال تک جانے کے لئے کرایہ خودادا کرتا ہے اپنا وقت لگاتا ہے واپس گھر جانے کے لئے کرایہ ادا کرتا ہے۔جب سیمینار میں کھانے کا وقت ہوتا ہے تب لمبی قطار میں لگ کر کھانا حاصل کرتا ہے آپ کو تو سجی سجائی میزیں ملتی ہیں کہیں کہیں تو مقالہ نگار اور دوسرے سامعین کے لئے کراکری بھی الگ ہی ہوتی ہے۔سامعین کیساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے پھر کہتے ہیں زبان کی لئے لوگوں کی دلچسپی ختم ہورہی ہے ۔حاضرین کی تعداد بہت کم ہے۔ادب میں اتنا غیر ادبی رویہ خاص طور سے سرکاری اداروں کے سیمیناروں میں خاص طور سے دیکھنے کو ملتا ہے۔ جب آپ سامعین کی عزت نہیں کرسکتے وہ آپکو سننے کیوں آئیں گے ۔آپ نئی نسل کے ساتھ کھانے کے وقت بیٹھنا پسند نہیں کرتے آپکا اعلی مزاج آپکی شان کی پہچان بن جاتا ہے۔سامعین اپنا پیسہ خرچ کرکے اپنا وقت لگا کر آتے ہے ان کے ساتھ اتنا غیر مساویانہ رویہ کیوں ہوتا ہے ۔
بات صرف سیمینار کے کھانوں تک ہی محدود نہیں ہے سامعین کو زبان کی ترقی کے لئے ایسے ایسے تیکھے جملے سننے کو ملتے ہیں ایسا لگتا ہے سامعین کی صف میں سب اردو زبان کے قاتل اور گنہگار ہیں۔مقالہ نگار نے جذباتی کیا ،تالیاں بجیں ۔لفافہ تھاما اورغائب۔اب نئے مارچ میں نیا مقالہ۔
ہم مارچ میں ایسا کوئی سیمینا ر منعقد کیوں نہیں کرتے ہیں کہ جس کا عنوان ہو اس سال ہم نے اردو زبان کی ترقی کے لئے کیا کیا، پچھلے سال جو وعدے تھے جو حکمت عملی تھی اس پر کتنا عمل کیا اور باقی پر کب تک عمل ممکن ہے۔جن مسائل پر سیمینار کیا تھا ان مسائل پر کتنا قابو پایا گیا ہے۔آئندہ سال کے لئے کیا حکمتِ عملی رہیگی اور اردو زبان کی ترقی میں کتنی معاون ہوگی ،نئی نسل کو زبان کی ترقی کے تئیں کتنا باشعور بنایا گیا۔
ایسا لگتا ہے ہم زبان کی ترقی کا ڈرامہ کرکے خود زبان سے اپنی ترقی کروارہے ہیں۔یہی حال مشاعروں کا بھی ہے جن کو الف کے نام ب کا پتہ نہیں وہ اردو کے نامور شاعر ہیں جن کو اپنا نام اردو میں لکھنا نہیں آتا وہ اردو کے باواآدم بن گئے ہیں دوسروں کے اشعار اور آپکے ترنم نے مشاعروں کے کینوس کو ہی تبدیل کردیا ہے ۔اتنی کم عمری میں شاعر و شاعرات اتنی پختہ غزل کہہ دیتی ہیں کہ جتنی ترقی ان مشاعروں میں ہوتی ہے کہیں اور ممکن نہیں ہے۔
اللہ جانے یہ زبان کی ترقی ہے یا زبان پر ستم،مگرصورتحال کم و بیش ہرسال ایسی ہی ہوتی ہے نمائش کے مشاعرے ہوں یا بیجا نمائش کے لئے مشاعرے ،چند بے بحر اور بے ہنر لوگوں کی طوطی بول رہی ہے۔یہ حکمت عملی عام حاصرین و سامعین کی عقل سے باہر کی بات ہے۔میں تو یہ تک سمجھنے سے قاصر ہوں کے سیمناروں میں مقالات پر سوالات کا فوری طور رکنے والا پر سلسلہ شروع ہی کیوں کیا جاتا ہے۔
کنوینر کو چاہئے کہ وہ یہ پابندی عائد کرے کے اگر مقالہ نگار نے دوسرے مقالہ نگاروں کو نہیں سنا تو ان کو اعزازیہ نہیں دیا جائیگا اور مقالہ نگار کاپورے وقت تمام سیشن میں حاضر ہونا ضروری ہے پھر دیکھئے ہال کیسے کھچا کھچ بھرے ہوں گے اوراردو زبان کی ترقی کے نئے باب روشن ہونگے۔

Leave a Comment