اردو کے فروغ کے لیے کام کرناہم سب کی ذمے داری ہے:ڈاکٹر ماجد ؔدیوبندی
محمد ماجد صدیقی قلمی نام ڈاکٹر ماجدؔ دیوبندی کا شمار ہندوستان کے ان اہم ترین شعراء میں کیا جاتا ہے جنہوں نے دنیا ئے ادب میں منفرد مقام بنایا۔انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے قوم و ملت کو جوڑنے کا جو کام کیا ہے، ماجد دیوبندی نے شاعری میں کبھی جھوٹ کا سہارا نہیں لیا اور ہمیشہ حق بیانی کو اپنا فرض سمجھ کر قوم کو اتحاد اور اسلامی اقدار کا پیغام دیتے رہے۔ڈاکٹر ماجد دیوبندی کی پیدائش 7جولائی 1964 ملک کے تاریخی شہر دیوبند میں ہوئی ۔ آپ کے والد کا نام محمد زاہد صدیقی تھا۔ آپ پر چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ میں ایک تحقیقی مقالے میں ایک باب بھی لکھا گیا۔ دوسری جانب لاہور یونیورسٹی(پاکستان) میں ان پر ایم۔فل کا مقالہ لکھا جا رہا ہے۔وہ نہ صرف ایک حساس شاعر ہیں بلکہ ایک ریڈیو بروڈکاسٹر، ٹی۔وی۔نیوز ریڈر اور صحافی کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔انہوں نے عرصہ دراز تک ماہنامہ ادبی میزان نکالا۔ ان کے ادبی اور سیاسی مضامین ہندوستان کے بڑے اخبارات و رسائل میں مسلسل شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی ایک کتاب جو خواجہ حسن نظامی کی شخصیت اور فن پر ہے ،جو مختلف یونیورسٹیوں کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ہندستان پاکستان کے اہم تخلیق کاروں، نثر نگاروں اورناقدین نے ان پر مضامین لکھے اور ان کی علمی اور شعری صلاحیتو ں کا اعتراف کیا ہے۔ تقریباً چالیس ایوارڈ سے بھی نوازے جا چکے ہیں۔ہندستان کے مختلف اردو اداروں اور اکیڈمیوں نے ان کو بارہا نوازا ہے۔
ان کی کل 8کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں3 غزلوں مجموعہ، ایک نعت شریف کا مجموعہ،2 نثر کی اور 2ہندی شاعری کی کتابیں شامل ہیں۔وہ آج کل دہلی اردو اکادمی کے وائس چیئرمین ہیں۔ان کی سربراہی میں صرف نو ماہ کے عرصے میںدہلی اردو اکادمی نے جو کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔ اپنی عادت اور خلوص اور انکساری کی وجہ سے ماجد دیوبندی ہزاروں اردو والوں کے دل کی دھڑکن بنے ہوئے ہیں۔گزشتہ دنوں صہیب الیاسی کی نئی فلم ’’گھر واپسی‘‘ کا میوزک رلیز ہونے والا تھا جسے شو سینا والوں نے ہونے نہیں دیا۔ اس فلم میں ماجد دیوبندی کے چار گانے لکھے ہوئے شامل کیے گئے ہیں، جو غلام علی،سونو نگم،شان اور سنیدھی چوہان نے گائے ہیں۔صحافی سید عینین علی حق کی ڈاکٹر ماجد دیوبندی سے ہوئی گفتگو کے اقتباسات سہ ماہی عالمی اردو ادب کے قارئین کے لئے پیش خدمت ہیں۔
سوال: اردو اکادمی کے وائس چیرمین منتخب ہونے کے بعد آپ نے کیا کیا کارہائے نمایاں انجام دئے؟
جواب: مجھے بہ حیثیت وائس چیئرمین خدمات انجام دیتے ہوئے صرف نو ماہ گزرے ہیں۔ گزشتہ گورننگ کونسل نے ان آٹھ لوگوں کو نوکری سے نکال دیا تھا جو پچھلے دس سال سے اکادمی میں کام کر رہے تھے۔ میں نے سب سے پہلے ا ن لوگوں کو دوبارا اکادمی میں ملازمت پر رکھا اور ان کی دعائیں لیں۔مقامی شعرا کو مشاعروں میں شرکت کرنے کا نذرانہ 1500 (پندرہ سو)روپے دیا جاتا تھا ,جسے میں نے2000 (دو ہزار )روپے کیا۔اردو اکادمی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نو مہینوں میں تقریباً پانچ سو شعرا کرام کو مشاعروں میں مدعو کیا گیا۔ اس دوران چار سیمینار منعقد کرائے، جن میں اہم عنوانات پر ہندستان کے مشاہیر نے مقالے پیش کیے ۔جشن جمہوریہ اور جشن آزادی کے مشاعروں میں شعرا کا زاد راہ اب16500،دہلی والوں کا اور باہر والوں کو اس کے علاوہ سیکنڈ اے۔سی۔کا کرایہ دیا جاتا ہے۔اس سال میں نے جوائن کرتے ہی دہلی میں پانچ روزہ اردو وراثت میلہ لال قلعہ کے سبزہ زازمیں منعقد کرایا، جس میں چار بیت،داستان گوئی،مشاعرہ،قوالی اور تمثیلی مشاعرے خاص طور پر عوام نے بے حد پسند کیا۔ہندستان کے اہم غزل سنگر اور قوالوں نے فن کا مظاہرہ کیا، جو نہایت کامیاب نقش چھوڑنے میں کامیاب ہوا۔اردو اکادمی دہلی تقریبا200سو اردو خواندگی کے مراکز چلارہی ہے، جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ اردو سیکھ رہے ہیں۔ ان میں ایک مرکز اکادمی میں بھی چل رہا ہے، جس میں زیادہ تر ہندو بھائی اور ریٹائرڈ افسران اردو سیکھ رہے ہیں اور اردو کے فروغ میں حصہ لے رہے ہیں۔اکادمی ایک مرکز پر مدارس کے بچوں اور بچیوں کے ساتھ مسلمان بچوں کو اردو کمپیوٹر کا کورس کراتی ہے۔ پہلے ان بچو بچیوں سے 500(پانچ سو) روپے وصول کیے جاتے تھے، لیکن میں نے آتے ہی بچوں سے رجسٹریشن کی وہ رقم بند کرائی اور اب الحمدللہ اکادمی بچوں کو ہر ماہ ایک ہزار روپے دے رہی ہے۔ ان بچوں کی تعدادپہلے20 سے بھی کم تھی ،جواب پچاس سے زیادہ ہے۔اکادمی کی عمارت کی پر لوگ افسوس کرتے تھے۔ آج اکادمی کی بلڈنگ خوب صورت ہوتی جارہی ہے اور مسلسل کام چل رہا ہے تاکہ بلڈنگ اور بہتر ہو سکے۔گزشتہ سال کتابوں پر انعامات نہیں دیے جا سکے تھے۔ ہم نے اس سال گزشتہ سالوں کے مقابلے زیادہ کتابون کو انعامات دیے ہیں۔تقریباً 95(پچانوے) فیصد کتابوں کو انعامات دیے گئے ہیں۔ہر سال کے مقابلے اس سال مسودات پر مالی امداد کافی زیادہ تخلیق کاروں کو دی گئی ہے۔ان میں بھی 95(پچانوے) فیصد مسودات کو مالی امداد دی گئی ہے۔گزشتہ سالوں میں اکادمی کی کسی بھی میٹنگ میں ایک ممبر کو1000(ایک ہزار) روپے دیے جاتے تھے۔ اس سال سے اس رقم کو بڑھا کر3000(تین ہزار ) روپے کر دیا گیا ہے۔آج ہر سال کے مقابلے اردو والوں کی آمدکا سلسلہ بہت زیادہ بڑھا ہے۔میں پہلا وائس چیرمین ہوں جو پابندی سے اکادمی میں جاتا ہے اور مسلسل کام میں مصروف ہے ۔جس کی وجہ سے عوام میں اردو اکادمی کا وقار بڑھا ہے۔کسی مدیر کے نہ ہوتے ہوئے بھی میںپانچ مہینے تک ماہنامہ’’ ایوان اردو‘‘ اور’’ امنگ ‘‘ کو معیاری شائع کرایا۔مستحق 25ادباء کو ہر ماہ پانچ ہزار روپے کا وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔
سوال:اردواور اردو ادب کے فروغ کے لیے آپ کے کیا کیا منصوبے ہیں؟
جواب: اردو کو گھر گھر پہنچانے میں مشاعروں کا اہم رول رہا ہے۔ہم نے زیادہ مشاعرے منعقد کرائے ہیں اور مزید اضافہ کرنے کا ارادہ ہے۔پوری دہلی میں اردو کے نئے مراکز کھولنے کا ارادہ ہے۔ابھی جو ہیں وہ بہتر نتائج نہیں دے پا رہے ہیں۔ انہیں بند کر کے نئے مراکز کھولنے کا ارادہ ہے ،جس کا اشتہار اخبارات میں دے دیا گیا ہے۔کچھ نئے موضوعات خاص طور پہ دہلی والوں پر سیمینار کرانے ہیں ،جس سے دہلی والوں کو عوام تک پہنچا یا جا سکے۔
سوال:دہلی کے اسکولوں میں خالی پڑی ہوئی آسامیوں کے لیے آپ کیا کیا کر رہے ہیں؟
جواب: وزیر اعلیٰ سے بات ہوئی ہے اور انشا ء اللہ جلد اسکولوں میں خالی اسامیوں کو پر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔حالانکہ یہ بہت پیچیدہ مسئلہ ہے لیکن ہمارا کام کوشش کرنا ہے۔
سوال:اسکولوں میں وقت پر اردو نصاب نہیں پہنچ پاتے، اس کا کون ذمے دار ہے؟
جواب: زیادہ تر نصاب این۔سی۔ای۔آر۔ٹی۔ شائع کرتی ہے لیکن چند سالوں سے اس میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سال میں نے مرکزی فروغ انسانی وسائل کی وزیر اسمرتی ایرانی کو باقائدہ خط لکھ کر ان سے درخواست کی ہے کہ اس کمی کو دور کیا جائے اوراردو اکادمی دہلی کی خدمات لیں۔ دیکھیں وہ کیا کرتی ہیں۔
سوال:اردو اکادمی میں عرصہ دراز سے مستقل سکریٹری نہیں ہے۔دوسرے ملازمیں کی بہت سی جگہیں خالی ہیں۔آپ اس سلسلے میں کیا اقدامات کر رہے ہیں؟
جواب:جلد مستقل سکریٹری لانے کا ارادہ ہے۔ایک سب ایڈیٹر رکھ لیا گیا ہے۔ مزید تقرری جلد ہی کرنے جا رہے ہیں۔ دوسری خالی آسامیوں کو بھی جلد پر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔سنا ہے جو لوگ عرصہ دراز سے اکادمی پر قابض تھے ان لوگوں کی جگہ غلط تقرر کرکے خود ہی سارے پروموشن لے لیے اور یہ بے چارے دیکھتے رہ گئے۔اللہ کا شکر کہ میں ان ضرورت مندوں کے کام آ سکا۔
سوال:ہر گھر میں اردو کوپہنچانے کا خواب کیسے شرمندۂ تعبیر ہو سکے گا؟
جواب: ہم اپنے بچوں کو بھی اردو پڑھائیں اور خود بھی پڑھیں۔ مایوسی کفر ہے انشاء اللہ اردو گھر گھر پہنچ رہی ہے اور اس کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے۔میں جو کچھ کر سکتا ہوں ہر وقت حاضر ہوں۔
سوال:اردو اکادمی کے اردو خواندگی مراکز بہت زیادہ ہوا کرتے تھے، اب کم رہ گئے ہیں۔کیوں؟
جواب: اس سال ہم بڑھا رہے ہیں۔کمی کی وجہ شاید یہ ہے کہ غلط لوگوں اور اپنے رشتے داروں کو مراکز دے دئے گئے اور ان سے کوئی رپورٹ نہیں لی گئی۔نتیجے کے طور پر ایمانداری کے فقدان اور کام نہ کرنے سے نقصان ہوا۔
سوال:کیا آپ کو لگتا ہے کہ مشاعروں کا معیار گر چکا ہے؟
جواب: کچھ گرا ہے ،لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مشاعرے آج اردو کے فروغ میں سب سے زیادہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
سوال: بیشتر اردووالے اردو کے اخبارات ورسائل تک گھر پر نہیں منگاتے، اپنے بچوں کو اردو پڑھانا شایدوہ توہین سمجھتے ہیں؟
جواب:یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ میرے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ میں گھرپر پانچ اردو کے اخبارات خرید کر منگاتا ہوں۔ خدا کا شکر ہے میری تین بیٹیاں ہیں ۔تینوں اردو پڑھتی ہیں۔تینوں ہی اپنے اسکولوں میں اعلیٰ نمبرات کے ساتھ اردو غزل،بیت بازی وغیرہ میں اول انعامات حاصل کرتی ہیں۔مجھے محفوظ لگتا ہے مرا گھر۔۔۔مرا بچہ جب اردو بولتا ہے۔
سوال:اکادمی کی لائبریری میں جگہ کی قلت اور نئی کتابوں کا فقدان ہے۔ایسا کیوں؟
جوقاب: اکادمی میں نئے کمروں کی تعمیر ہو ر ہی ہے۔انشا ء اللہ نئی کتابوں کی خرید کو بڑھایا جائے گا۔
سوال: اردو کمپیوٹر کو جدید کرنے کے لیے آپ کیا کچھ کرنے والے ہیں؟
جواب: جو بھی ممکن ہو سکے گا انشا ء اللہ کیا جائے گا۔
سوال:اردو کو دہلی کی دووسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے ،لیکن اردو کے سائن بورڈ اغلاط سے بھرے ہوئے ہیں۔اس جانب آپ کی توجہ کیوں نہیں گئی؟اگر گئی ہے تو آپ نے کیا اقدام کئے؟
جواب:دہلی میں جب اے۔پی۔جے عبد الکلام کے نام سے سڑک کا افتتاح ہوا تو اس کا نام غلط لکھا گیا تھا۔ میں نے خود جا کر اور اپنے سامنے اس کا نام صحیح لکھوایا۔ ایسی ہی کوشش مزید کی جائے گی۔
سوال:سرکاری دفاتر میں اردو میں کام کاج نہیں ہوتے۔کیا حکومت کو آپ نے اس طرف متوجہ کرایا ہے؟
جواب: میں نے گزارش کی ہے حکومت کے ذمے داروں سے کہ اردو میں کام کاج ہو اور اس کے لیے اردو کی اسامیاں بھری جائیں۔ خدا کرے میری کوشش کامیاب ہو جائے۔
سوال: عام آدمی پارٹی میں کوئی مسلم بڑاچہرہ نہیں ہے۔آپ کے ساتھ وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال اور دوسرے وزرا ء کا سلوک بہت مثبت دیکھا گیا ہے۔کیا آپ کھل کرسیاست میں آنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
جواب: جی نہیں۔میں اردو کا خادم ہوں اور اردو کے لیے سب کچھ کرنے کا جذبہ رکھتا ہوں۔انشا ء اللہ آخری سانس تک اردو کی خدمت کرتا رہوں گا۔
سوال: آپ کے چند مشہور اشعار؟
جواب: پیش کر رہا ہوں
سامان تجارت مرا ایمان نہیں ہے
ہر در پہ جھکے سر یہ مری شان نہیں ہے
اللہ مرے رزق کی برکت نہ چلی جائے
دو روز سے گھر میں کوئی مہمان نہیں ہے
۔
وہیں وہیں بڑی انسانیت ہوئی محسوس
جہاں جہاں بھی ملے ہلیں مری زبان کے لوگ
۔
پہلے یہ طے کرو کہ وفادار کون ہے
پھر وقت خود بتا ئے گا غدار کون ہے
آئو کہ پڑھ لیں غور سے تاریخ گلستاں
یہ دیکھنا ہے صاحب کردار کون ہے