ڈاکٹر محمد شاہنواز عالم
اسسٹنٹ پروفیسر ،شعبہ اردو، ملت کالج – دربھنگہ – بہار- 846004
حیات انسانی کے صدیوں کا سفر یہ ظاہر کرتا ہے کہ مہذب سماج میں زندگی بسر کرنے کا سب سے اعلیٰ اور ارفع سلیقہ یہ رہا ہے کہ فرد خود زندہ رہے اور دوسروں کو بھی زندہ رہنے کا موقع دے. یعنی فکر وعمل کی وہ تمام آزادی جس پر کسی بھی قسم کا جبر نہ ہو. اس ضمن میں سیاسی رہنماؤں، قومی مصلحین، دانشوروں اور مفکروں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ انسانی مساوات کو فروغ دیا جائے اور ایک ایسے سماج کی تعمیر کی جائے جو جہالت، تنگ نظری، فرسودہ اور ضرر رساں رسومات، مذہبی، نسلی اور لسانی عصبیت، فرقہ وارانہ جھگڑوں اور ذات پات کی تفریق سے بالکل پاک ہو. یعنی انسان کے ذہن و فکر سے توہمات، تنگ نظری اور تعصب دور ہو اور انسانی قدروں کا بول بالا ہو. سیکولرازم دراصل انہی تصورات کی ایک مکمل اور جامع اصطلاح ہے. لیکن مختلف انداز فکر کے لوگوں کے حلقے میں سیکولرازم کی تفہیم و تعبیر اتنے مختلف پہلوؤں سے بیان کی گئی ہے کہ اس اصطلاح کا مفہوم مبہم ہو کر رہ گیا ہے. بعض لوگ سیکولرازم کو مذہب کے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں تو بعض لوگوں نے اسے مذہب کو مملکت سے الگ کرنے والی قوت قرار دیا ہے. حالانکہ سیکولرازم کا دائرہ سیاست اور مذہب تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کے دیگر پہلو جیسے عقلیت پسندی اور اخلاقیات وغیرہ بھی قابل ذکر ہیں جن کی تشریحات سے سیکولرازم کے معنی و مفہوم میں اور وسعت پیدا ہو سکتی ہے. سیکولرازم لاطینی زبان کے SACULUM سےمشتق ہے جس کا مفہوم \”اس دور کا اس دنیا\” کا بتایا گیا ہے. یعنی سیکولرازم وہ انداز فکر ہے جس کا موضوع صرف مادی زندگی ہے. New International Dictionary میں سیکولرازم کی تعریف کے تحت لکھا گیا ہے. A system of social ethics based upon a doctrine that ethical standards and conduct should be determined exclusively with reference to present life and social well being without reference to religion ;New International Dictionary \’Vol – III Page ;2053ترجمہ – \”سیکولرازم سماجی اخلاقیات کا ایک ایسا نظام ہے جس کے اقدار و معیار کا تعین مذہب کا پابند ہوئے بغیر کلی طور پر دنیوی زندگی اور سماجی خوشحالی کے حوالے سے ہونا چاہیے.\” Encyclopaedia Of Americana میں سیکولرازم کی تعریف یوں کی گئی ہے. Secularism is an ethical system founded on the principle of morality.It first postulate is freedom of thought that is the right of every man to think for himself. … Secularism doesn\’t maintain that there is no other good but the good of the present life is a real good and to seek that is good. It aims to find that material condition in which it shall be impossible for man to be deprived or to be poor Encyclopedia of Americana Vol;24Page ;521ترجمہ – \”سیکولرازم ایک اخلاقی نظام ہے جو قدرتی اخلاق کے اصولوں پر مبنی ہے. اس کا پہلا کلیہ فکر کی آزادی ہے. یعنی ہر شخص کو اپنے لئے کچھ سوچنے کا حق…… سیکولرازم یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ موجودہ زندگی کی خوبیوں کے علاوہ کوئی اور خوبی نہیں ہے. البتہ اس کا مقصد وہ مادی حالات پیدا کرنا ہے جس میں انسان کی محرومیاں اور افلاس ناممکن ہو جائیں.\” یوں مغربی سیکولرازم کا خلاصہ یہ ہے کہ مذہب ذاتی زندگی تک محدود ہو اور اجتماعی دائرے میں اس کا عمل دخل نہ ہو. ہندوستان میں سیکولرازم اس سے مختلف ہے. یہاں سیکولرازم کا تصور یہ چاہتا ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہ ہو اور یہ کہ ریاست تمام مذاہب سے یکساں سلوک کرے. لہٰذا ہندوستان میں سیکولرازم کی جو تعریفیں بیان کی گئیں ہیں وہ مغربی تعریف سے کچھ مختلف ہے. ہندوستانی سماج کے سیاق و سباق میں اس کے زیادہ تر منفی نقطہ نظر کو نظرانداز کر کے ایک مثبت رویے کے تحت اپنایا گیا ہے. اپنی کتاب Recovery of Faith میں ایس رادھا کرشنن سیکولرازم کے متعلق لکھتے ہیں – Secularism as here defined is in accordance with the ancient religious tradition of India. It tries to build up a fellowship of believers, not by subordinating individual qualities to the group mind but by bringing them into harmony with each other \’Recovery of Faith\’ By S Radhakrishnan Page ;202ترجمہ – \”یہاں سیکولرازم کی تعریف ہندوستان کی عہد عتیق کی مذہبی روایات کے مطابق کی گئ ہےجومعتقدین کے مابین دوستی پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے اور ذاتی کوائف کو گروپ کے نظریات سے زیر نگوں کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے ہم آہنگی پیدا کرتی ہے.\” ڈاکٹر سید حامد حسین سیکولرازم کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں.
سیکولرازم کا مفہوم مذہب سے انحراف یا مذہب کو بے معنی ثابت کرنا نہیں ہے. یہ ایک ایسا رحجان ہے جو مسائل کو مذہب کا پابند کئے بغیر ان کے عمومی اسباب و نتائج کی جانب توجہ کرتا ہے. \”ماہنامہ \’شاعر\’ (قومی یکجہتی نمبر) ممبئی، 1974صفحہ – 192جسٹس وی آر کرشنا ایئر کے مطابق – \” مساوی سماجی، اقتصادی اور سیاسی انصاف کا تصور، فرد کے وقار اور آپسی بھائی چارگی کا تصور، عقائد اور عبادات کے معاملات میں آزادی کا تصور سیکولرازم کا اظہار و اطلاق ہے.\” ماہنامہ\’ یوجنا\’ دہلی، اگست 1988،صفحہ-21چونکہ ہندوستان میں مذاہب کی کثرت ہے، یہاں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، بودھ، جین اور کئی دوسرے فرقوں اور مذہبوں کے ماننے والے لوگ بستے ہیں. لہٰذا آبادی کا یہ مزاج اور مشترکہ ثقافت کا وجود سیکولرازم کے سوائے دوسرا نظریہ قبول نہیں کر سکتا. ہندوستانی سیکولرازم کے تعلق سے یہ نکتہ قابل غور ہے کہ سیکولرازم یہاں غیر ملکی تصور کے طور پر مغرب سے نہیں آیا ہے بلکہ یہ ہندوستان کے ماضی کی تاریخ کی دین ہے. یہاں مختلف قومیں باہر سے آئیں اور آباد ہو گئیں اور یہیں کی ہو کر رہ گئیں. لہٰذا فطری طور پر باہمی میل ملاپ ہوا اور خیالات و و افکار کا تبادلہ عمل میں آیا. اس کا اول نتیجہ یہ ہوا کہ نہ ہندو تہذیب اپنے اصل صورت میں قائم رہ سکی نہ اسلامی تہذیب. اور دوسرے دونوں تہذیبوں کے باہمی ارتباط سے ایک تیسری تہذیب نے جنم لیا جسے ہم ہندو مسلم تہذیب کہہ سکتے ہیں. یہی وہ تہذیب ہے جس کی خمیر سے اردو زبان پیدا ہوئی اور پھر اسی تہذیب کے زیر اثر اس کا ادب پروان چڑھا. ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں.
مسلم ذہن ہندوانہ رنگ روپ قبول کرنے لگا اور اس نے فارسی اور ترکی کی جگہ مقامی زبانوں کو سیکھا اور استعمال کرنا شروع کیا. ہندوؤں نے عربی فارسی اور ترکی الفاظ کو مقامی محاوروں میں جگہ دی. اس لین دین کا منافع ہماری تہذیب کے خزانے میں اردو زبان کی شکل میں شامل ہوا. \”\’ہندوستانی کلچر کا ارتقا\’ – تارا چند ; صفحہ- 48.تاریخ کے مطالعے سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ مسلمانوں کا اولین سیاسی مرکز دہلی، یوپی، ہریانہ اور پنجاب کے علاقے تھے. اور ان علاقوں میں کھڑی بولی رائج تھی. لہٰذا مسلمانوں نے کھڑی بولی کو اپنا لیا. یہی کھڑی بولی ارتقا کی منزلوں سے گزرتی ہوئی ایک باقاعدہ عوامی زبان کی شکل اختیار کرنے لگی. اس زبان میں عربی، فارسی، اور ترکی زبانوں کے الفاظ داخل ہونے لگے. چونکہ یہ زبان خالص ہندوستانی تھی اس لئے اس کا ابتدائی نام ہندی رکھا گیا. لیکن بعد میں اسے اردو کہا گیا . اس تعلق سے ڈاکٹر سید عابد حسین لکھتے ہیں.
مسلمانوں کا ہندستان آنے کے بعد دہلی کے علاقے میں مقامی بولی اور فارسی کے میل جول سے ایک مشترکہ کاروباری زبان بن گئ جو آگے چل کر اردو کہلائ.\” قومی تہذیب کا مسئلہ، از (ڈاکٹر) عابد حسین، صفحہ- 40.اردو اپنی ابتدا سے ہی اتنی لچکدار رہی ہے کہ یہ زبان ملک کی ضروریات اور تقاضے کے تحت فارسی اور عربی کے علاوہ دوسری زبانوں مثلاً سنسکرت، ترکی، پنجابی، برج بھاشا، پالی اور انگریزی کے علاوہ دوسری زبانوں کے الفاظ کو بھی اپنے اندر جذب و انجذاب کرتی رہی ہے. ایک اہم قابل غور بات یہ ہے کہ یہ زبان آغاز تا حال کسی ایک مذہب یا کسی ایک طبقے سے مخصوص نہیں ہے. اس زبان کے بولنے والے کا تعلق ہر ایک مذہب سے رہا ہے اور اس کے ادب کو پروان چڑھانے میں ہر ایک مذہب کے شاعروں اور ادیبوں نے نمایاں طور سے حصہ لیا ہے. لہٰذا اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کسی کو عذر نہیں ہونا چاہیے کہ اردو کے خدوخال کو سنوارنے اور اس کے مزاج میں ہندستانی عناصر پیدا کرنے میں ایک طرف خود اس زبان کے سیکولر مزاج کا بڑا دخل رہا تو دوسری طرف مختلف مذاہب اور عقائد کے ماننے والوں نے مل کر اس زبان کی توسیع و اشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا. اس طرح زبان اردو پہلی سیکولر علامت تھی جو سر زمین ہند میں رونما ہوئی اور بالآخر بلالحاظ مذہب و ملت یہ عوام کی زبان بن گئی اور سیکولر کلچر کی تعمیر و تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا. اس ضمن میں سر تیج بہادر سپرو جیسی شہرہ آفاق شخصیت کا قول بھی توجہ کا مستحق ہے. وہ اردو زبان کے متعلق فرماتے تھے کہ اردو زبان ہندو مسلمان دونوں کو اپنے آباواجداد سے ایک مشترک و مقدس ترکہ کی حیثیت سے ملی ہے جو قطعاً ناقابل تقسیم ہے. یعنی اردو زبان تہذیبی وحدت کی علامت ہے. بقول پروفیسر محمد حسن –
اردو جدید ہندوستانی زبانوں میں تقریباً تنہا زبان ہے جو شروع سے ہی سیکولر لہجہ کو اپناتی آئی ہے. اور اس کا آغاز ٹھیٹھ مذہبی ادب سے نہیں ہوتا. اس کے رشتے کسی مخصوص علاقے کے دائرے میں محدود ہونے کے بجائے کل ہند سطح پر بکھرے اور پھیلے نظر آتے ہیں.\” اردو اور مشترکہ ہندوستانی تہذیب :مرتبہ کامل قریشی صفحہ – 66، 165. مختصر طور پر کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان ہندوستان میں ایک مکمل نظام حیات لے کر آئے تھے اور اسی بنا پر اول انہوں نے یہاں سیاسی تسلط قائم کیا اور پھر سر زمین ہند کو اپنا وطن بنایا. لیکن انہیں اس مستقل سکونت کے لئے قدیم ہندوستان کے نظام حیات سے مفاہمت کے راستے کی تلاش ضروری تھی اردو اسی تلاش و طلب کے نتیجے میں پیدا ہوئی اور ایک ایسی فضا قائم کرنے کی کوشش کی جس میں مذہب و ملت کی کوئی قید نہ تھی.
٭٭٭