٭ڈاکٹر محمد یوسف خان
۴۳۔کھیڑا کھال، تعلقہ۔ بگلی
ضلع، دیواس۔ ایم۔ پی (۴۵۵۲۲۷)
ہمارا وطن عزیز سر زمین ہندوستان نہایت قدیم عہد تاریخ سے مختلف نسلوں قوموں کا گہوارہ اور مسکن رہا ہے۔ جنہوں نے یہاں اپنی تہذیب تمدن ۔ مذہب ۔ معاشرت اور زبانوں کو مروج کیا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں قدیم ادی باسی قومیں دراوڑ نسل کے لوگ ۔ آریہ ۔ ترک ایرانی نسل کے لوگ ملتے ہیں اور قدیم ادیواسی ۔ آریائی ۔ دراوڑی ۔ ہندوجین بدھ ۔ سکھ۔ عیسائی ۔یہودی ۔ پارسی۔ اسلامی مذاہب ۔ تہذیب و تمدن و زبانوں کے لوگوں کے میل جول و اشتراک سے موجودہ ہندوستانی قوم کا جنم ہوا ہے جو اپنے اپنے مذاہب تہذیب و تمدن و معاشرت و رسم و رواج کی پیروی کرتے ہوئے ۔ مختلف زبانیں بولتے ہوئے بھی ہم آہنگی و اپنا ئیت و یک جہتی کے ساتھ زندگی بسر کرتہی ہے۔ تفریق میں اتحاد ۔ انیکتا میں ایکتا ہندوستانی قوم کی نمایاں خصوصیت ہے۔ جس کا سب سے بڑا سمبل ۔ نشانی ہندوستانی تہوار اور مشترکہ زبان اردو ہے۔ جس کے خمیر میں ہندوستانیت اور جس کے مزاج میں ہندوستان اور اس کی خوشبوں بسی ہوئی ہے۔
یہ نہ تو غلط بیانی ہے۔ نہ مبالغہ آرائی کہ اردو زبان ہند آریائی خاندان کی بیٹی۔ ہندوستان باشندوں اور مسلمانوں کے باہمی میل جول اور ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھا نے کی ضرورت کے تحت ان کی زبانوں پنجابی ہریانوی ۔ کھڑی بولی برج وغیرہ کے ترکی فارسی زبانوں کے میل جول۔ لین دین اور اور اشترا ک سے وجود میں آئی ہے۔ اس نے پنجاب میں سر ابھارا۔ دہلی میںمتشکل ہوئی ۔ دکن جاکر دکنی ۔ گجرات جاکر گجری دکن کی صورت میں پھیلی آخری مغلوں کے عہد میں یکساں شکل اختیار کی عہد برطانیہ میں عہد جدید میں آزادیِ برصغیر کے بعد ہندو پاکستان وغیرہ میں مروج ہوکر ہندوستانی باشندوں کے درمیان افہا م و تفہیم کا فریضہ ادا کرنے لگی اور آخر یہ ہندوستانیت ۔ ہندوستانی یک جہتی کا سب سے بڑا سمبل مانی جاتی ہے۔
اردو میں ادبیات کا آغاز شاعری سے ہوا۔ حضرت امیر خسرو نے دہلی سلطنت کے عہد میں اس کا آغاز کیا اور یہ دکن گجرات ۔ شمالی ہند میں پھیلی بر طانوی عہد میں جدید شاعری کی صورت میںجلوہ گر ہوئی اور آزادی کے بعد ہندو پاک کی شاعری کی شکل میں ۔
چونکہ اردو برصغیر کے تمام مذاہب کے تمام علاقوں ے باشندوں کی مشترک زبان رہی ہے۔ اس لئے اس کے بولنے لکھنے پڑھنے والوں میں ہندوجین ، بدھ ۔سکھ۔ پارسی ۔ عیسئی ۔ یہودی۔ اور مسلمان سبھی باشندے شامل ہیں۔ اور اس کی شاعری کی تخلیق و ترویج میں ہی ان سب کا حصہ رہا ہے۔
ہندوستان تہذیب و تمدن و معاشرت کے لحاظ سے سب رنگا رنگ چمن ہے۔ یہاں مختلف قوموں نسلوں کے نہ صرف مذاہب زبانیں ۔ عقائد ۔ رسم و رواج و معاشرت ہی رنگا رنگ ہیں بلکہ ثقافتی زندگی ۔ کلچرل لائف کا سماجی زندگی کا ایک وسیع و اہم پہلو تہوار بھی رنگا رنگ ہیں۔ ہندوستان میں ہر نسل ۔ ہر مذہبی گروہ پر علاقے کے مختلف لوگوں کے اپنے اپنے تہوار ہیں۔ یہ مذہب بھی ہیں ۔ تہذیب بھی ۔ موسمی بھی ۔ قومی و علاقائی بھی ۔ تہواروں کی رنگا رنگی میں دنیا کا کوئی ملک ہندوستان کی برابری نہیں کرسکتا۔
تہواروں کی بنیاد عموماً مذہب پر ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ ہندوستان ایک زراعتی ملک ہے۔ اس لئے یہاں منائے جانے والے تہوار اگر ایک طرف مذہبی نوعیت کے ہیں تو دوسری طرف موسموں کی تبدیلی ۔ فصل کی تیاری ۔ پیدا وار کی فراہمی سے بھی ان کا تعلق ہے۔ ہندو۔ جین ۔ بدھ۔ سکھ یہودی۔ عیسائی ۔ بارسی ۔ اسلام دھرم سے تعلق رکھنے والے کئی تہوار ہے۔ اور موسموں فصلوں سے تعلق رکھنے والے ہیں ۔ اب چونکہ اردو ایک مشرک زبان ہے اس لئے اس کے شعراء میں ہر مذہب کے لوگ شامل ہیں اور چونکہ ان میں ہم آہنگی اپنائیت۔ رواداری احترام وغیرہ بھی موجود ہے اس لئے انہوں نے نہ صرف اپنے بلکہ دوسرے لوگوں ۔ نسلوں ۔ مذہبوں ۔ علاقوں کے لوگوں کے تہواروں پر بھی نظمیں کہیں ہیں۔ یہ تمام نظمیں نہ صرف عقیدت و احترام کو پیش کرتی ہیں بلکہ قومی یک جہتی کو بھی ظاہر کرتی ہیں ۔ اردو شاعری میں ہندوستانی تہواروں کی عکاسی ایک بسیط موضوع ہے۔ اردو میں ہندوستانی تہواروں سے متعلق شاعروں کا بڑاسرمایہ ملتا ہے جو ایک ضخیم مقالے کا متقاضی ہے۔ یہاں اسے مختصراً بیان کیا جاتا ہے۔
بسنت (بہار) کا موسم آتا ہے تو ہر طرف درخت و پودے سبز ہوجاتے ہیں پھول کھول جاتے ہیں۔ فضا مست ہوجاتی ہے۔ ایسے میںدام و خواص رنگین لباس پہن کر رنگ عبیرہ گلال اڑاتے ہیں۔ بیساکھی اور ہولی اس سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اردو میں بسنت سے متعلق کئی نظمیں ملتی ہیں۔ امیر خسرو نے اپنے مرشد کے سامنے اشعار پڑھے تھے۔
مورا جو بنا نویلڑا بھیو ہے گلال کیسے گھر دینی بکس موری مال۔
کپڑے رنگنے سے کچھ نہ ہوت یارنگ میں میں نے تن کو ڈبو یارے۔
قلی قطب شاہ کے کلیات میں بسنت سے متعلق کئی اشعار ملتے ہیں۔
بسنت کھیلیں عشق کا آپیارا۔ تمہیں ہیں چاند میں ہوں جوں ستارا۔
بسنت کھیلیں ہمن ہور ساجنایوں کہ آسمان رنگ شفق پایا ہے سارا۔
بنی صدقے بسنت کھیلیا قطب شاہ رنگیلا ہورہیا تر لوک سارا۔
امانت لکھنوی:
کیا فصل بہاری نے شگوفے ہیں کھلائے ۔ معشوق ہیں پھرتے سر بازار بسنتی ۔
بے نظیر شاہ:
وہ پھولوںپر ہر سمت چھایا بسنت۔ وہ بلبل ہیں گاتے ہیں کیا کریا بسنت
بسنتی ہے یہ جامہ ہر بشر کہ ہلدی بھی شرماتی ہے دیکھ کر
نہ کیوں اتنی زردی پہ ہو عقل دنگ جسے دیکھئے زرد ہی زرد ہے۔
سلام سندیلوی:
بسنت آگیا یہ ہے موسم بسنتی ۔ زمانہ بسنتی ہے عام بسنتی ۔
گل و غنچہ و باغ و شبنم بسنتی۔ ہواؤں کی ہے زلف برہم بسنتی ۔
نظیر اکبر آبادی:
مل کر صنم سے اپنے ہنگا م دل کشائی ۔ ہنس کر کہا ہم نے اے جاں بسنت آئی۔
کیا کیا بیاں ہو جیسے چمکی چمن چمن میں ۔ وہ زرد پوش اس کی وہ طر ز دل ربائی۔
انشاء:
برگ گہہ دکھائے ہے کہ ارغواں بسنت۔ لاوے ہے ایک تازہ شگوفہ یہاں بسنت۔
منور لکھنوی:
جب ہیجاں بپا کر نے کو وحشت خیز بسنت آیا جب یہ عالم دنیا کا ہے جب یہ گلر یز بسنت آیا۔
نظیر لکھنوی :
دیکھو بسنت لای ہے دنیا پہ کیا بہار سر سوں کے پھل ہوگئے ہر سمت آشکار۔
ہے کتنی خوشگوار ہوا کوہسار کی۔ ہندوستان میں ہے یہی رت بہار کی۔
آؤں وطن کا حق محبت ادا کریں ہم انسوؤں سے پریم کا بوٹا ہرا کریں۔
کشوراو احدی :
پھاگن کے گلابی چھینٹوں سے ہر سوسبزے اگ آئے ہیں۔
سرسوں پھولی کلے ہوئے چھٹکے ہوئے بادل چھائے ہیں۔
چہروں پر بسنتی عالم ہے جسموں پر بسنتی جوڑے ہیں۔
سرسوں پھولی کلے ہوئے چھٹکے ہوئے بادل چھائے ہیں۔
منشی دوار کا پرشاد:
ساقی کچھ آج تجھ کو خبر ہے بسنت کی ہر سو بہار پیش نظر ہے بسنت کی
سرسوں جو پھول اٹھی ہے چشم قیاس میں پھولے پھلے شجر ہیں بسنتی لباس میں ۔
ان کے علاوہ بے نظیر شاہ ڈاکٹر مائل وغیرہ اور کئی شعرانے اس تہوار کی عکاسی کی ہے۔
ہولی: ہولی ہندوستان کا خاص تہوار ہے پھاگن کے مہینے میں بڑی دھوم دھا م کے ساتھ منا یا جاتا ہے ۔ اردو میں اس تہوار کی عکاسی کرنے والی کئی نظمیں ہیں۔
محمد علی قطب شاہ نے تو اس کا ذکر بسنت ضمن میں کیا ہے۔ دوسرے کئی شعرانے اس پر مستقل نظمین کہی ہیں۔
جوش:
یکے گلال کے جو ہر طرف اُڑ رہے ہیں ۔ دل کا نکالتی ہے اپنے غبار ہولی۔
پچکاری ہاتھ میں ہے ناکاری باتیں منہ پر آپس میں کھیلتے ہیں یہ گل عذار ہولی۔
فائز:
آج ہے روز بسنت اے دوستان بسر و قد ہیں ۔ دوستاں کے درمیاں ۔
ازعبیر ورنگ کیرا و گلال ابر چھایا ہے سفید و زرد ولال۔
میرؔ:
ہولی کھیلا آصف الدولہ و زیر رنگ صحبت سے عجب ہیں خرد و پیر۔
عرصہ گل ریزی سے گلشن ہوگیا۔ چرغ ان تاروں سے روشن ہوگیا۔
خوان بھر بھر عبیر لاتے ہیں گل کی پتی ملا اڑاتے ہیں۔
جشن نوروز ہند ہولی ہے راگ درنگ اور بولی ٹھولی ہے۔
شاد حاتم:
مہیا سب ہیں اب اسباب ہولی۔ اسکو یا روبھر ورنگوں سے جھولی۔
گلال ابرک سے سب بھر بھر کے جھولی پکارے یک بیک ہولی ہے ہولی۔
لگی پچکاریوں کی مار ہونے ہر اک سورنگ کی بوچھار ہونے۔
کوئی ہے سانولی کوئی ہے گوری کوئی چمپا بدن عمروں سے تھوڑی
نظیر اکبر آبادی نے ہولی پر کئی نظمیں کہی ہیں اور اس مستی بھرے رنگین تہوار کا ذکر والہانہ انداز میں کیا ہے۔
جب پھاگن رنگ جھمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی۔
کپڑوں پہ رنگ چھڑکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی۔
کچھ گھنگرو تال چھنکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی۔
ایسے ہی عیش مہکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی۔
لطیف النساء مشہور تذکرہ نگاراسد اللہ تمنا حیدر آبادی کی بیگم تھیں ۔ وہ صاحب دیوان شاعرہ تھیں کہتی ہیں۔
کھیلے تھے ہر سوہم نے کر سیر باغ ہولی۔ پچکاریاں لے کھیلیں ہم بافراغ ہولی ۔
بی بی خدیجہ پہلے آئی تھی رنگ پر اپنے۔ پھیکی عبیر دارابرک کیا کر دماغ ہولی۔
بیدم وارثی:
پھاگن کھیلن گئے ہیںبنواری۔ سکھی گھمسان برج میں پروہے۔
نہ دیکھیں پیا اپنو پریو گردا لگاہیں مارہیں پچکاری ۔
باسط بسوانی :
ہولی تن من پھونک رہی ہے دور سکھی گردھار ہی ہے۔
ہائے اکیلی کھیل رہی ہوں ساری ڈوبی سارہی ہے۔
رکشا بندھن ۔ راکھی کا تہوار ہے جس میں بہن بھائی کے ہاتھ پر راکھی باندھتی ہے اور وہ اس کی حفاظت کا وعدہ کرتا ہے۔ فلموں میںراکھی کے گیت جو اردو آمیز ہوتے ہیں بڑے مقبول ہیں۔
نظیر اکبر آبادی کہتے ہیں۔
چلی آتی ہے اب تو ہر کہیں بازار میں راکھی ۔ سنہری سبز ریشم زردار گلنار کی راکھی ۔
بنی گوکہ نادر خوب خوب ہر سردار کی راکھی سلونوں میں عجب رنگین ہے دلدار کی راکھی ۔
دسہرہ: دسہرہ کا تہوار ہندوستان کا اہم تہوار ہے۔ اس میں رام چندر جی کی راون پر فتح کو یاد کرکے جشن منایا جاتا ہے۔ اردو میں اقبال ظفر علی خان ساغر اور کئی شعرانے رام چندرجی پر نظمیں کہی ہیں۔
درگاہ پوجا: درگاہ پوجا پر نظیر اکبر آبادی نے درگاجی کے درشن کے نام سے نظم کہی ہے۔ یہ تہوار مشرقی ہندوستان کا خاص تہوار ہے۔
دیوالی : ہندوستان کا عام تہوار ہے۔ یہ روشنی کا تہوار ہے۔ اس سے ملتا جلتا ایک تہوار ایران کے لوگ بھی مناتے ہیں جسے جشن چراغاں کہا جاتا ہے۔ یہ تہوار رام چندر جی کی ۱۴؍ برس بن باس کے بعد اجودھیا کو واپسی کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ ہر طرف روشنی کی جاتی ہے۔ لکشمی پوجا ہوتی ہے۔ اور خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ اردو میں نظیر اکبر آبادی۔آل احمد سرور ۔ حرمت الاکرام ۔ شمیم ۔ کرپائی ۔ مخمور سعیدی۔ حفیظ جالندھری اور کئی شعرانے اس پر نظمیں کہی ہیں۔ یہ تہوار برائی پر اچھائی کی جیت کا سمبل ہے۔
دیوالی
نظیراکبری آبادی:
ہر اک مکاں میں دیا پھر جلا دوالی کا۔ ہر اک طرف کو اجالا ہوا دوالی کا۔
سبھی کے دل میں سماں بھاگیا دوالی کا عجب بہار کا دل کو مزا دوالی کا ۔
افسر میرٹھی:
تارے ہیں آکاش تلے جگمگ جگمگ دیپ جلے۔
آئی پھر دیوالی آئی گھر گھر سکھ کی جوت جلائی چہروں پر خوشحالی آئی۔
آل احمد سرور:
یہ بام ودر پہ چراغاں یہ قمقموں کی بہار سیاہ نور سیاہی سے برسر پیکار
یہ لہر لہر یہ رونق یہ ہم ہمہ یہ حیات۔ جگا کے جیسے چمن کو نسیم صبح کی ذات۔
تاباں :
یہ ٹمٹاتے دئے لکشمی کے چرنوں میں سبھی نے ھسن عقیدت کے پھول ڈالے ہیں۔
وہ جن کو لکشمی دیوی سے قرب حاصل نہیں گھروں میں اپنے بھی دیپک جلائے بیٹھے ہیں۔
حرمت الاکرام :
لکشمی رہ گزر شب پہ ہے مصروف خرام رات دیوالی کی آئی ہے اجالو سب کو۔
شمیم کر ہانی :
دئیے جلاؤ مسلسل جلاؤ آج کی رات۔ ہوا کے تند میں دل کا دیا جلاتے رہو۔
بڑھے جو ظلمت دوراں تو مسکراتے رہو۔ دئیے جلاؤ مسلسل جلاؤ آج کی رات۔
مخمور سعیدی:
پھر ایک سال کی تاریک راہ طے کرکے۔ متاع نور لٹاتی یہ رات آئی ہے۔
افق سے تابہ افق روشنی کی ازرائی ۔ یہ رات کتنے اجالوں کو ساتھ لائی ہے۔
جین دھرم کا تہوار۔ چھماونی ۔ گویا ان کی عید ہے جس میں یہ لوگ ایک دوسرے سے گلتے ملتے ہیں۔ اور سال بھر کر ناگوار باتوں کے لئے معافی مانگتے ہیں ۔ چھما کے معنی ہیں معاف کرنا۔(شما)
نذیر بنارسی کہتے ہیں۔
دل میں نئے ارمان بسانے کا دن آیا غنچے کی طرح دل کو کھلا نے کا دن آیا۔
آپس میں گلے ملنے ملانے کا دن آیا۔ اک سال کے بعد آج ٹھکانے کا دن آیا۔
اسلامی تہوار ۔ ہندوستان میں مذہب اسلام کے ماننے والوں کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہے۔ اور اس ملک میں مسلمانوں کے کئی تہوار مروج ہیں۔ ان میں عید الفطر۔ عید الاضحی ۔ عید میلاد۔ شب برات۔ محرم خاص ہیں۔ اردو میں ان سے متعلق بکثرت نظمیں ملتی ہیں۔
کلیات قلی قطب شاہ میں عید میلاد۔شب معراج ۔ عید سوری ۔ عید مولود نبی ۔ عید غدیر۔ شب برات۔ عید رمضان ۔ بقرعید ۔ پے کئی نظمیں ملتی ہیں ۔ شمالی ہند کے کلاسیکی شعرا نے جشن عید کے موقعہ پر کئی قصائد کہے ہیں۔ دور جدید کے کئی شعرا مختلف تہواروں کے موقع پر نظمیں کہتے آئے ہیں۔ رسائل جو عید نمبر نکالتے تھے ان میں شعرا عید پر نظمیں کہتے تھے۔ اردو ہندوستانی تہواروں پر بچوں کے شعرا نے بکثرت نظمیں کہی ہیں ۔ جو ان کے مجموعوں یا بچوں کے رسائل میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ۔
اردو میں ہندوستانی تہواروں سے متعلق منظومات کا یک بسیط عطیہ و دقیع ذخیرہ موجود ہے۔