ڈاکٹر رؤف پاریکھ
حال ہی میں راقم الحروف کو جامعہ میں اردو زبان کے آغاز اور ارتقا سے متعلق کورس پڑھانے کا موقع ملا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اکثر طالبِ علم اردو کو لشکری زبان سمجھتے ہیں۔ ان کا استدلال تھا کہ ہم بچپن سے یہی سنتے آئے ہیں کہ اردو لشکری زبان ہے۔
اردو زبان کے آغاز و ارتقا کے بارے میں آج تک جو مختلف نظریات پیش ہوئے ہیں، ان میں سب سے زیادہ معروف و مقبول لیکن سب سے قابل توجہ نظریہ یہی ہے کہ اردو لشکری زبان ہے۔ اگرچہ ماہرینِ لسانیات نے یہ بات کوئی ایک صدی پہلے ثابت کر دی تھی کہ اردو لشکری زبان نہیں ہے لیکن افسوس کہ آج بھی یہ نظریہ موجود ہے کہ اردو لشکری زبان ہے۔
اردو زبان کے آغاز اور ارتقاء سے متعلق مباحث میں لشکری زبان کے نظریے کی تردید میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں طالب علموں کی نظر سے ایسا تحقیقی موادِ مطالعہ بالعموم نہیں گزرتا لہٰذا وہ ایسے فرسودہ نظریات کے اسیر رہتے ہیں۔ یہ سطور اپنے طالب علموں کی رہنمائی کی غرض سے لکھی جا رہی ہیں۔
لشکری زبان کا نظریہ ہے کیا؟
اردو کے لشکری زبان ہونے کا نظریہ، جسے نظریہ نہیں قیاس آرائی کہنا چاہیے ۱، کہتا ہے کہ اردو ایک کھچڑی یا ملواں زبان ہے اور یہ مغلوں کے عہد میں بیرونِ ہندوستان سے آئے ہوئے مسلمانوں کی زبانوں (مثلاً عربی، فارسی اور ترکی وغیرہ ) کے الفاظ اور مقامی بولیوں کے سنسکرت الاصل یا ہندی الاصل الفاظ سے مل کر بنی ہے۔ اس نظریے کو درست ماننے والوں کی ایک دلیل یہ ہے کہ ’’اردو‘ ‘ترکی زبان کا لفظ ہے اور اردو کے معنی ترکی میں لشکر یا فوجی چھاؤنی کے ہیں۔ چونکہ مغلوں کے لشکر میں مختلف زبانیں بولنے والے سپاہی شامل تھے اور وہ آپس میں گفتگو کے لیے ایک ایسی زبان استعمال کرتے تھے جس میں ان تمام زبانوں کے الفاظ شامل تھے، اسی لیے اس زبان کا نام ’اردو‘ پڑ گیا۔
غلط فہمی کا آغاز کیسے ہوا؟
اردو کے لشکری زبان ہونے کا نظریہ سب سے پہلے میر امن دہلوی (۱۷۵۰ء تا ۱۸۳۷ء )کے ہا ں ملتا ہے۔ انھوں نے’ باغ و بہار‘ کے دیباچے میں لکھا ہے:
’’حقیقت اردو زبان کی بزرگوں کے منھ سے یو ں سنی ہے کہ دلی شہر ہندوؤں کے نزدیک چو جگی ۲ہے۔ اِنھِیں کے راجا پرجا قدیم سے وہاں رہتے تھے اور اپنی بھاکھا بولتے تھے۔ ہزار برس سے مسلمانوں کا عمل ہوا۔ سلطان محمود غزنوی آیا۔ پھر غوری اور لودی ۳ بادشاہ ہوئے۔ اس آمدو رفت کے باعث کچھ زبانوں نے ہندو مسلمان کی آمیزش پائی۔ آخر امیر تیمور نے (جن کے گھرا نے میں اب تلک نام نہادِ سلطنت کا چلا جاتا ہے) ہندوستان کو لیا۔ ان کے آنے اور رہنے سے لشکر کا بازار شہر میں داخل ہوا۔ اس واسطے شہر کا بازار اردو کہلایا۔ پھر ہمایوں بادشاہ پٹھانوں کے ہاتھ سے حیران ہو کر ۴ ولایت ۵ گئے۔ آخر وہاں سے آن کر پس ماندوں کو گوش مالی دی۔۔۔ جب اکبر بادشاہ تخت پر بیٹھے تب چاروں طرف کے ملکوں سے سب قوم قدر دانی اور فیض رسانی اس خاندانِ لاثانی کی سن کر حضور میں آ جمع ہوئے [کذا]۔ لیکن ہر ایک کی گویائی اور بولی جدی جدی تھی۔ اکٹھے ہونے سے آپس میں لین دین سودا سلف سوال جواب کرتے ایک زبان اردو کی مقرر ہوئی۔ جب حضرت شاہ جہاں صاحبِ قراں نے قلعہ مبارک اور جامع مسجد اور شہر پناہ تعمیر کروایا۔۔۔ اور شہر کو اپنا دارالخلافت بنایا تب سے شاہ جہاں آباد مشہور ہوا (اگرچہ دلی جدی ہے، وہ پرانا شہر اور یہ نیا شہر کہلاتا ہے)اور وہاں کے بازار کو اردوئے معلیٰ خطاب دیا۔ ‘‘ ۶
َٖ حافظ محمود شیرانی نے تفصیل سے بتایا ہے کہ لفظ اردو کب کب اور کن کن معنوں میں کس کس نے استعمال کیا ہے۷۔ شیرانی صاحب کی تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ میر امن کے بعد جن لوگوں نے لفظ اردو اور اردو زبان کے بارے میں اظہار خیال کیا، ان میں سے کئی نے اردو کے لشکری زبان ہونے کی قیاس آرائی کو الفاظ کے رد و بدل کے ساتھ دہرا دیا ہے۔ مثلاً چرنجی لال (مؤلف’ مخزنِ محاورات‘)، سید احمد دہلوی (مؤلف ’فرہنگِ آصفیہ‘)، محمد حسین آزاد، سر سید احمد خاں، امام بخش صہبائی اور حکیم شمس اللہ قادری وغیرہ نے اردو کی ابتدا کا تعلق لشکر، بازار، اردوئے معلیٰ اور مختلف زبانوں کی آمیزش سے جوڑا ہے۔ ۸ محمد حسین آزاد کے ہاں تو تضاد یہ ہے کہ وہ دیباچے کے بعد ’’آبِ حیات‘‘ کا آغاز ہی اس جملے سے کرتے ہیں : ’’اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے‘‘۹ لیکن چند ہی صفحات کے بعد کہتے ہیں : ’’ ترکی میں اردو بازار لشکر کو کہتے ہیں۔ اردوئے شاہی اور دربار میں ملے جلے الفاظ زیادہ بولتے تھے۔ وہاں کی بولی کا نام اردو ہو گیا۔ ‘‘۱۰ یہاں ’’اردوئے شاہی ‘‘ سے آزاد کی مراد شاہی قلعہ ہے کیونکہ اردو کے معنی قلعے کے بھی تھے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر’’ اردو‘‘ کے معنی’’ بازار‘‘ ہوتے تو پھر ’’بازار بازار‘‘ کہنے کی کیا تُک تھی؟
ان قابلِ احترام بزرگوں کی بات جب تواتر سے دہرائی گئی تو ظاہر ہے کہ اسے معروف و مقبول ہونا ہی تھا۔ ہمارے یہ سب قابلِ احترام بزرگ یہ باتیں اس زمانے میں کر رہے تھے جب لسانیات کا علم یا تو وجود ہی نہیں رکھتا تھا یا مغرب میں بھی گھٹنوں کے بل چل رہا تھا۔ بعد میں لسانیات کے علم نے اتنی ترقی کر لی کہ اس کی کئی شاخیں ہو گئیں، جن کی مزید ذیلی شاخیں بھی ہیں، مثلاً تاریخی لسانیات، تقابلی لسانیات، تجزیاتی لسانیات، صوتیات، فونیمیات، صرفیات اور نحوی مطالعات وغیرہ۔ گویا یہ بزرگ لسانیات سے واقف نہیں تھے جبکہ بقولِ مرزا خلیل احمد بیگ اردو کے آغاز اور ارتقا کا مسئلہ خالصتاً لسانیات کا مسئلہ ہے۔ وہ لوگ جو لسانیات سے کماحقہٗ واقفیت نہیں رکھتے نیز ہند آریائی زبانوں کے تاریخی ارتقا اور ان کے صرفی و نحوی اصولوں پر نظر نہیں رکھتے، وہ اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اردو کوئی ملواں یا کھچڑی زبان ہے اور یہ مختلف زبانوں کے ملنے سے وجود میں آئی ہے۔ ۱۱
مزے کی بات یہ ہے کہ میر امن کے پیش کردہ اس غلط نظریے سے بعض غیر ملکی ماہرین بھی متاثر ہو گئے حتیٰ کہ رڈوف ہورنلے (A.F.Rudolf Hoernle)اور گریرسن (G.A.Grierson)جیسے اہلِ علم نے بھی اردو کو ملی جلی زبان بتایا۔ ۱۲ اس ضمن میں شوکت سبزواری نے بالکل درست نشان دہی کی ہے کہ گریرسن نے جب ہندوستان کا تفصیلی لسانی جائزہ لیا تو اس نے اس خیال سے رجوع کر لیا اور اردو کو بالائی دو آبے اور مغربی روہیل کھنڈ میں بول چال میں مستعمل ’’ہندوستانی‘‘ [یعنی اردو] بولی پر مبنی قرار دیا۔ ۱۳ اس موقع پراس کے الفاظ یہ ہیں :
“Literary Hindustani is based on the vernacular Hindustani spoken in the Upper Doab and in Western Rohilkhand “. ۱۴
اس ضمن میں گریرسن کے الفاظ جو اس نے حواشی میں وضاحتاً دیے ہیں، یہ ہیں :
” It will be noticed that this account of Hindustani and its origin differs widely from that which has been given hitherto by most authors (including the present writer), which was based on Mir Amman’s preface to the ‘Bagh-o-Bahar’. According to him Urdu was a mongeral mixture of the languages of the various tribes who flocked to the Delhi bazar. The explanation given above was first put forward by Sir Charles Lyall in the year 1880, and the Linguistic Survey has shown the entire correctness of the view. Hindustani is simply the vernacular of the Upper Doab15 and Western Rohilkhand, on which a certain from amount of literary polish has been bestowed, from which a few rustic idioms have been excluded.”
اس عبارت کا ترجمہ کچھ یوں کیا جا سکتا ہے:
’’یہ بات محسوس کی جائے گی کہ ہندوستانی[یعنی اردو] اور اس کے آغاز کے بارے میں یہ بیان ان باتوں سے بہت مختلف ہے جو آج تک بیشتر لکھنے والوں نے، بشمول راقم الحروف، پیش کی ہیں اور جن کی بنیاد میر امن کی ’باغ و بہار‘ کا دیباچہ تھا۔ میر امن کے مطابق اردو ان مختلف قبائل کی زبانوں کا مرکب تھی جنھوں نے دہلی کے بازار کا گروہ در گروہ رخ کیا۔ ( اس غلط فہمی کے ازالے کے لیے) جو وضاحت سطور بالا میں درج ہے، وہ سب سے پہلے سر چارلس لائل نے ۱۸۸۰ء میں پیش کی تھی اور اس لسانیاتی جائزے سے ان کا یہ نقطۂ نظر پوری طرح درست ثابت ہو گیا ہے۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ ہندوستانی بالائی دو آبے اور مغربی روہیل کھنڈ کی بولی ہے جس پر ایک خاص مقدار میں ادبی صیقل گری کی گئی ہے اور جس میں سے بعض دیہاتی محاورے خارج کر دیے گئے ہیں۔ ‘‘
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہاں ہندوستانی سے مراد اردو ہے۔ اردو کو یہ نام یورپی ماہرین نے دیا تھا اور اب اس نام کی کوئی زبان دنیا میں وجود نہیں رکھتی۔ اگرچہ پڑوسی ملک کے بعض دانش ور لفظ ’’ہندوستانی‘‘استعمال کر کے اردو کا تشخص مجروح کرنے اور اردو کو ہندی ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
لشکری زبان کا نظریہ کیوں غلط ٹھہرتا ہے؟
اردو کے لشکری زبان ہونے کا نظریہ پیش کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ دو یا زیادہ زبانوں کے ملنے سے کوئی نئی تیسری زبان وجود میں آ سکتی ہے۔ اس ضمن میں کام کے دو اصول یاد رکھنے ضروری ہیں جو شوکت سبزواری نے مختلف مآخذات بالخصوص میکس ملر (Max Muller) سے اخذ کر کے پیش کیے ہیں :
۱۔ زبانوں کی تقسیم اور ان کے باہمی رشتوں کا تعین ان کی صرفی اور نحوی خصوصیات اور ساخت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں ذخیرۂ الفاظ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ۱۶
۲۔ دوسرے یہ کہ یہ خیال سراسر غلط اور لسانی بحثوں میں حقیقت سے بھٹکانے والا ہے کہ دو یا دو سے زیادہ زبانوں کو جوڑ کر کوئی نئی تیسری زبان بنائی جا سکتی ہے۔ کوئی زبان آس پاس کی زبانوں اور بولیوں سے غذا حاصل کر کے اور ان کی فضا میں سانس لے کر توانائی تو حاصل کر سکتی ہے لیکن کسی زبان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی دوسری زبان سے مل کر ایک تیسری زبان بنا سکے۔ زبان دراصل ایک ایسی چیز ہے جو مسلسل ارتقاء اور تغیر کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔ ۱۷
محض ذخیرۂ الفاظ کی بنیاد پر کسی زبان کی اصل اور اس کے آغاز کا اندازہ لگانا اس لیے غلط ہے کہ الفاظ تو ایک زبان سے نکل کر دوسری زبان میں چلے جاتے ہیں اور دنیا کی شاید ہی کوئی زبان ایسی ہو جس میں دوسری زبانوں کے کچھ نہ کچھ الفاظ نہ ہوں۔ مثال کے طور پر انگریزی میں دنیا کی سو سے زائد زبانوں کے الفاظ شامل ہیں۔ لیکن کوئی نہیں کہتا کہ انگریزی کھچڑی زبان ہے کیونکہ زبانیں اس طرح نہیں بنا کرتیں۔ ان کی تشکیل اور ارتقا میں صدیاں اور بسا اوقات اس سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ اردو کی تشکیل میں بھی سیکڑوں بلکہ ہزاروں سال لگے ہیں۔ اگر باہمی رابطے سے نئی زبان بنا کرتی تو دنیا کے کئی خطے ایسے ہیں جہاں مختصر رقبے میں کئی مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس طرح کئی ملواں یا کھچڑی زبانیں دنیا میں ہوتیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ صرفی اور نحوی ساخت کی اہمیت کے ساتھ ساتھ لفظیات بھی اہمیت رکھتی ہے، خاص کر بنیادی الفاظ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بنیادی الفاظ میں بعض مصادر (آنا، جانا وغیرہ)، اعداد (ایک، دو، تین وغیرہ) اور بنیادی رشتے (ماں، باپ، بھائی، بہن وغیرہ) ایک ہی خاندان کی زبانوں میں مماثلت رکھتے ہیں ۱۸ اور ان سے اس زبان کے ڈھچر کا بہت کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
میر امن کا یہ بیان کہ’’ آپس میں لین دین، سودا سلف، سوال جواب کرتے ایک زبان اردو کی مقرر ہوئی‘‘ ان کی سادگی کے سوا کچھ اور نہیں کہلا سکتا (اور بقول شخصے دیگر بزرگوں کے اس طرح کے الفاظ بھی محض ان کا تبرک سمجھ کر پڑھنے چاہئیں، ان پر ایمان لانا ضروری نہیں ہوتا)۔ اگر زبانیں اس طرح مقرر کرنے سے بنا کرتیں تو دنیا میں کتنی ہی نئی زبانیں مقرر ہو کر وجود میں آ چکی ہوتیں۔ زبان کوئی ایسی چیز نہیں جسے کسی معاشرے پر اوپر سے تھوپا جا سکے۔ زبان تو ایک بہتے دریا کی طرح ہوتی ہے جو اپنا راستہ خود بناتی ہے۔
قابلِ غور با ت یہ ہے کہ باقاعدہ سوچ اور ارادے سے جتنی بھی ’’نئی‘‘ زبانیں تجرباتی بنیادوں پر اختراع کی گئیں ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہ ہوسکی۔ دراصل وہ سب غیر فطری زبانیں تھیں اور ماہرینِ لسانیات انھیں مصنوعی زبانیں (artificial languages) کا نام دیتے ہیں۔ ان میں سے نمایاں مثال ’’اسپرانتو‘ ‘(Esperanto) کی ہے۔ یہ ایک مصنوعی زبان تھی جو ۱۸۸۷ء میں بین الاقوامی ذریعۂ اظہار کے طور پر یورپ کی بڑی زبانوں کے الفاظ کے مادوں سے بنائی گئی تھی۔ اس کا بانی زمینوف( Zamenhof ) نامی ایک پولستانی (Polish) عالمِ زبان تھا۔ وقتی طور پر مقبول ہو جانے کے باوجود یہ زبان اپنی موت آپ مر گئی لیکن اس طرح کی کئی سو مصنوعی زبانیں ہیں جو وفات پاچکی ہیں۔ ۱۹ اب صرف لسانیات کی کتابوں میں لکھے ہوئے ان کے نام ان ناکام کوششوں کا اعلان ہیں جو، اگر میر امن کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو، آپس کے لین دین کے لیے زبان’’ مقرر‘‘ کرنے کے سلسلے میں کی گئی تھیں۔ گویا کوئی زبان ارادے سے یا مختلف زبانوں کے ملنے سے وجود میں نہیں آ سکتی۔
آزاد کا یہ نظریہ کہ اردو برج بھاشا سے نکلی ہے، دراصل ہورنلے نے سب سے پہلے پیش کیا تھا۔ یہ اس لیے قابل تسلیم نہیں کہ اردو اور برج بھاشا میں بعض ایسے صرفی، نحوی اور صوتیاتی فرق ہیں کہ اردو برج کی بیٹی نہیں ہوسکتی۔ ان اختلافات اور مختلف خصوصیات کی تفصیل شوکت سبزواری صاحب بخوبی بیان کر چکے ہیں اور ان کو دہرانا تحصیلِ حاصل ہے۔ مختصراً یہ کہ اردو کا لسانی سرمایہ برج سے کہیں زیادہ، پیچیدہ اور بعض صورتوں میں قدیم تر ہے لہٰذ ا وہ کسی طرح بھی برج سے ماخوذ نہیں ہوسکتا۔ ۲۰
دل چسپ بات یہ ہے کہ لشکری اردو کے نظریے کو درست ماننے والے امیر خسرو کو، جن کا انتقال ۱۳۲۵ء میں ہوا، اردو کا شاعر مانتے ہیں اور اردو کا آغاز مغلوں کے دور سے بھی مانتے ہیں حالانکہ مغل دور کا آغاز ۱۵۲۶ء میں پانی پت کے میدان میں بابر کی کامیابی سے ہوتا ہے۔ گویا ان کے خیال میں اردو کے آغاز اور اس کی ابتداء سے بھی چند سو سال قبل امیر خسرو اردو میں شاعری فر ما رہے تھے۔ یوں اردو کا آغاز مغل دور سے قبل کیوں نہ تسلیم کیا جائے؟ خود آزاد نے بھی ’’آبِ حیات‘‘ میں امیر خسرو کا احوال اور ان کی اردو شاعری کے نمونے دیے ہیں۔
زبان کس طرح بنتی ہے؟
ہر زبان کا ایک بنیادی صرفی اور نحوی ڈھانچا ہوتا ہے اور اسی کی بنیاد پر اس زبان کی اصل اور اس کے خاندان کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بنیادی لفظیات بھی اہم ہوتی ہے لیکن زبانیں کس طرح بنتی ہیں اور ان کا آغاز و ارتقا کیسے ہوتا ہے، یہ لسانیات کا ایک دل چسپ موضوع ہے۔ زبان بننے سے متعلق کئی مختلف نظریات موجود ہیں۔ ان کی تفصیل کا یہ موقع بھی نہیں اور یہ تفصیل کئی کتابوں میں دی گئی ہے۔ مثلاً گیان چند جین کی کتاب ’’لسانی مطالعے‘‘ میں ’’آغازِ زبان کے نظریے ‘‘ کے عنوان سے ایک مفصل مضمون شامل ہے۔ ۲۱ مختصراً یہ کہ خود ماہرین ِ لسانیات بھی کسی ایک نظریے پر متفق نہیں ہیں۔ البتہ کسی نے بھی یہ عجیب نظریہ پیش نہیں کیا کہ دو یا زیادہ زبانوں کے ملنے سے کوئی نئی زبان بن سکتی ہے۔ بقول سہیل بخاری ’’پاک و بھارت کی زبانوں میں سے کوئی زبان ایسی نہیں ہے جو دو زبانوں کے میل جول سے وجود میں آئی ہو بلکہ دو زبانوں کے میل سے تو اس برِ صغیر کیا دنیا میں کوئی زبان آج تک پیدا نہیں ہوئی ہے۔ ‘‘۲۲
اردو کا آغاز اور زبانوں کے خاندان
دنیا کی زبانوں کو ماہرینِ لسانیات نے ان کی لسانی خصوصیات کی بنا پر خاندانوں میں تقسیم کیا ہے۔ وہ زبانیں جویکسانیت کی حامل ہوتی ہیں۔ انھیں ایک گروہ یا خاندان میں رکھا جاتا ہے۔ اسے زبانوں کا خاندان(family of languages) کہتے ہیں۔ اردو کے آغاز اور ارتقا کے بارے میں کوئی حکم لگانے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اردو کا تعلق زبانوں کے کس خاندان سے ہے۔
دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح اردو کو بھی اس کی لسانی مماثلتوں اور مشترک خصوصیات کی بنا پر ایک لسانی خاندان میں رکھا گیا ہے جس کا نام ہند یورپی (Indo-European) ہے۔ یہ زبانوں کا سب سے بڑا اور اہم ترین خاندان ہے اور برِ عظیم پاک و ہند، یورپ، برِ اعظم امریکہ، افریقہ کے جنوبی حصوں اور آسٹریلیا پر بھی محیط ہے۔ ۲۳ دنیا کی کئی بڑی زبانیں اسی خاندان میں شامل ہیں اور اس کی بہت سی شاخوں میں سے ایک اہم شاخ ہند ایرانی(Indo-Iranian) کہلاتی ہے۔ اسے اِنڈِک یا ہند آریائی بھی کہتے ہیں۔ اس کا ارتقا برِ عظیم پاک و ہند میں ہوا۔ ۲۴ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ آریا وسط ایشیا سے لگ بھگ پندرہ سو سال قبلِ مسیح میں ترک وطن کر کے یہاں آئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی زبان پر اثرات پڑتے گئے اور یہ ایرانی(اس سے مراد موجودہ فارسی نہیں ہے) سے ہند آریائی سانچے میں ڈھل گئی۔ ۲۵ البتہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آریاؤں کے اصل وطن اور ان کی ہندوستان آمد کے بارے میں اب جدید تحقیق کی روشنی میں کچھ اختلافات ہو گئے ہیں اور بالخصوص بعض بھارتی عالم اور تاریخ داں اس نظریے سے اختلاف کرنے لگے ہیں۔
گیان چند جین کے مطابق آریاؤں کی زبان کے ارتقا کی تین منزلیں بتائی جاتی ہیں، جو یہ ہیں :
۱۔ قدیم ہند آریائی دور :
یہ پندرہ سو سال قبلِ مسیح سے پانچ سو سال قبلِ مسیح تک تھا۔ اس دور میں قدیم ہند آریائی زبان تین مرحلوں سے گزری اور اس کی شکلیں ویدک سنسکرت، کلاسیکی سنسکرت اور پالی تھیں۔
۲۔ وسطی ہند آریائی دور:
یہ دور پانچ سو سال قبلِ مسیح سے ایک ہزار عیسوی تک تھا۔ اس میں زبان نے ارتقا پاکر پراکرت کی شکل اختیار کی اور پھر اس کا ایک اور روپ بنا جسے اپ بھرنش کہتے ہیں۔
۳۔ جدید ہند آریائی دور:
یہ دور ایک ہزار سا ل ِ عیسوی سے تا حال ہے۔ ۲۶
ان ادوار اور ان میں ہونے والی لسانی تبدیلیوں کی طویل تفصیلات ہیں۔ مثلاً یہ کہ مختلف علاقوں میں مختلف پراکرتیں بولی جاتی تھیں جن کے الگ نام تھے۔ پھر پراکرتوں کا ارتقا ہوا اور انھوں نے اپ بھرنشوں کی شکل اختیار کی۔ اپ بھرنش بھی کئی طرح کی تھی۔ گویا پراکرت اور اپ بھرنش کسی ایک زبان کا نام نہیں۔ اس کے بعد اپ بھرنش کی جگہ مختلف بولیوں نے لے لی۔ ان بولیوں کے ناموں اور علاقوں اور ان کی صرفی و نحوی خصوصیات کی نشان دہی بھی کئی کتابوں میں کی جاچکی ہے۔ یہ ساری تفصیل گیان چند جین، مرزا خلیل احمد بیگ، شوکت سبزواری اور بعض دیگر ماہرین نے دی ہیں۔ ۲۷ ان سب کو یہاں دہرانا مقصود نہیں ہے۔ مختصراً یہ کہ اردو کی جڑیں تاریخ میں بہت دور تک پیوست ہیں۔ اردو کی عمر محض چند سو سال نہیں اور نہ ہی یہ مغل دور میں پیدا ہوئی ہے۔ اردو کا آغاز مغلیہ دور سے بہت پہلے ہو چکا تھا۔ بس اس کا نام اس وقت اردو نہیں کچھ اور تھا اور اس کی شکل بھی یقیناً موجودہ اردو سے بہت مختلف تھی۔ اتنی مختلف کہ قدیم اردو کے بعض نمونے دیکھ کر بعض لوگ کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ اردو تو نہیں ہے! یہ کون سی زبان ہے؟۔
اردو کا نام پہلے اردو نہیں تھا
اردو کا وجود بہت قدیم ہے لیکن ا س کا نام نیا ہے۔ اردوسے پہلے اس کے کئی نام تھے جو مختلف علاقوں اور مختلف زمانوں میں مختلف تھے۔ مثلاً ہندوی، ہندی، دہلوی، گجری، دکنی اور ریختی۔ بعض مغربی دانش وروں نے ا سے اِنڈوستان(Indostan ) کا نام دیا ( اسی لیے اس کا نام ہندوستانی بھی پڑ گیا)اور بعض نے اسے مُور( Moor ) یعنی مسلمانوں کی زبان کہا۔ ۲۸ شمس الرحمٰن فاروقی یہ بات وزن رکھتی ہے :
’’ہماری زبان کے نام کے طور پر لفظ ’اردو‘ کا استعمال اٹھارھویں صدی عیسوی کے ربع آخرسے پہلے نہیں ملتا۔ زبان کے نام کے طور پر اس لفظ (اردو) کی زندگی غالباً ’زبانِ اردوئے معلائے شاہجہاں آباد ‘ کی شکل میں شروع ہوئی اور اس سے مراد تھی’’ شاہجہاں آباد کے شہرِ معلی / قلعۂ معلی/ دربار معلی کی زبان۔ ‘‘ایسا لگتا ہے کہ شروع شروع میں اس فقرے سے ہماری اردو زبان نہیں بلکہ فارسی مراد لی جاتی تھی۔ مرورِ ایام کے ساتھ یہ فقرہ مختصر ہو کر زبانِ اردوئے معلی، پھر زبانِ اردو اور پھر اردو رہ گیا۔ ‘‘۲۹
شمس الرحمان فاروقی نے ایک اور اہم بات یہ بھی بتائی ہے کہ پہلے لفظ ’’اردو‘‘ سے دہلی کا شہر مراد لیا جاتا تھا۔ ۳۰ گویا کسی زبان کے نام کی بنیاد پر اس کی تاریخ اور آغاز و ارتقا کا فیصلہ کرنا نہایت گمراہ کن ہے۔
اردو کی ابتدا پراکرت سے ہوئی
اردو کی ابتدا سے متعلق کئی نظریے ہیں لیکن ان نظریات پر تبصرے کایہ موقع نہیں اور ان پر تبصرے بھی بہت سی کتابوں میں موجود ہیں۔ ۳۱ مختصراً یہ کہ اس بات پر تو سب متفق ہیں کہ اردو لشکری زبا ن نہیں ہے اور یہ سنسکرت میں جڑیں رکھتی ہے، پھر پراکرت اور اپ بھرنش کے مرحلوں سے گزری اور مختلف علاقوں میں مختلف بولیوں کی شکل میں سامنے آئی۔ البتہ اختلاف اس پر ہے کہ وہ کون سی پراکرت یا اپ بھرنش تھی جس سے ارتقا پاکر اردو آخر کار اردو بنی اور موجودہ شکل میں آئی۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اردو نے غالباً شورسینی پراکرت سے ارتقا پایا ہے۔
اردو کا آغاز مغلوں سے بہت پہلے ہو چکا تھا
بعض تاریخی کتابوں میں ایسے کئی الفاظ، مرکبات، جملے اور مصرعے آئے ہیں جن سے یہ بات بخوبی ثابت ہو جاتی ہے کہ اردو (اس وقت اس کا نام ہندی یا ہندوی یا جو کچھ بھی تھا) مغلیہ دور سے قبل نہ صرف موجود تھی بلکہ اس کا استعمال عام بول چال میں بھی ہو رہا تھا۔ مثال کے طور پر ساتویں صدی ہجری کے بزرگ حضرت فرید الدین گنج شکر ؒ (متوفیٰ ۶۶۴ھ) سے یہ جملہ منسوب ہے: ’’پونوں کا چاند بالا ہے۔ ‘‘۲ ۳ شاہانِ گجرات اردو میں بات چیت کرتے تھے اور محمود بیگڑا سے یہ جملہ منسوب ہے:’’نیچی بیری سب کوئی جھورے۔ ‘‘۳۳ سلطان فیروز شاہ خلجی کے بعد ناصر الدین محمد شاہ نے مشرقی ہندوستان سے تعلق رکھنے والے بعض افراد کو دہلی سے نکالنے کا حکم دیا تاکہ سیاسی معاملات میں مداخلت سے باز رہیں۔ جب ان میں سے کچھ لوگوں نے خود کو دہلی کا اصلی باشندہ ظاہر کیا تو ان کی شناخت کے لیے ان سے لفظ ’’کھڑا کھڑی‘‘ بلوایا گیا (جو مشرقی ہند کے لوگ آسانی سے نہیں بول سکتے تھے) اور جو نہ بول سکا اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ۳۴ پیرحسام الدین راشدی کا کہنا ہے کہ سندھ میں بھی تغلق دور میں عام زبان اردو تھی اور اس کی سند میں انھوں نے ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ۷۵۱ ھ میں سلطان محمد تغلق نے سندھ میں سومروں کے صدر مقام ٹھٹھہ (جس کو فارسی اور عربی میں ’تتہ‘ لکھا جاتا تھا) پر فوج کشی کی لیکن اسی زمانے میں بیمار ہو کر وفات پائی۔ دس برس بعد فیروز تغلق نے ٹھٹھے پر حملہ کیا لیکن اسے پیچھے ہٹنا پڑا۔ ’’تاریخ فیروز شاہی ‘‘ کے مطابق اس پر ٹھٹھے والے بہت خوش ہوئے اور کہا ’’برکتِ شیخ پٹھا، ایک موا ایک ہٹا۔ ‘‘۳۵ کچھ نے اس لفظ کو نتھا، کچھ نے بھکا اور کچھ نے ہٹا پڑھا ہے۔ راشدی صاحب کا خیال تھا کہ یہ لفظ ہٹا یا نہٹا ہے۔ سید سلیمان ندوی نے اس جملے کو’’ برکتِ شیخ تھیا، اک موا اک تہا‘‘ لکھا ہے۔ ۳۶ راشدی صاحب نے لکھا ہے کہ شیخ حسین پتھا سندھ کے مشہور ولی ہیں اور ’’تحفۃ الکرام‘‘ میں ان کی تاریخِ ولادت ۵۶۰ ھ اور وفات ۶۰۶ھ درج ہے نیز یہ کہ ان کا مزار آج بھی ٹھٹھہ شہر سے کچھ فاصلے پر واقع ہے۔ ۳۷ راقم کا خیال ہے کہ صاحبِ مزار ’’پیر پٹھا‘‘ (ٹھ مشدد) کے نام سے بھی معروف ہیں اور ممکن ہے کہ قافیے کی رعایت سے یہ لفظ ’’نٹھا‘‘(ٹھ مشدد) ہو جس کے معنی ہیں ’’ بھاگا‘‘ یعنی یہ جملہ غالباً یوں ہو گا: برکتِ شیخ پٹھا، ایک موا ایک نٹھا۔ ‘‘
مغل دور سے قبل جو فارسی لغات بر عظیم پاک و ہند میں لکھی گئیں، ان میں فارسی الفاظ کے اردو مترادفات بھی دیے گئے ہیں ہے۔ ۳۸ مغلیہ دور کی ابتدا میں بھی اردو کا چلن عام تھا۔ خود مغلیہ سلطنت کے بانی بابر کا ایک شعر اس کے ترکی دیوان کے ایک قلمی نسخے میں ایسا ہے جس میں تقریباً ڈیڑھ مصرع اردو میں اور بقیہ ترکی میں ہے۔ ۳۹
اردو اور مسلمانوں کی ہندوستان آمد
یہ بات تو سبھی مانتے ہیں کہ اردو کی جدید صورت گری میں فارسی، عربی اور مسلمانوں کی دوسری زبانوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ اردو میں عربی اور فارسی کے الفاظ کثیر تعداد میں ہیں۔ اس کے علاوہ ترکی، پشتو اور بعض دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اس کے ذخیرۂ الفاظ میں شامل ہیں۔ معروف ماہرِ لسانیات سنیتی کمار چٹر جی کی یہ بات بھی درست ہے کہ مسلمان ہندوستان میں نہ آتے تو اردو کی تشکیل میں چند صدیوں کی تاخیر ہو جاتی۔ ۴۰ ممکن ہے کہ اس کی موجودہ صورت بھی کچھ اور ہوتی لیکن اردو کے آغاز کا سلسلہ مسلمانوں کی ہندوستان آمد سے جوڑنا تاریخی اور لسانی طور پر درست نہیں۔ اردو اس سے بھی پہلے وجود رکھتی تھی، گو اس کی شکل کچھ اور تھی۔
یہ کہنا کہ گیارھویں صدی عیسوی میں (یعنی آج سے کوئی ایک ہزارسال قبل) مسلمانوں کی آمد سے اردو کی صورت گری پر فرق پڑا ایک بات ہے لیکن یہ کہنا کہ اردو مسلمانوں کی زبانوں اور مقامی زبانوں سے مل کر بنی ہے یا لشکری زبان ہے بالکل الگ بات اور سراسر غلط ہے۔