اردو میں تحقیق کاارتقاء

\"\"
٭شبین تاج

ریسرچ اسکالر
شعبۂ اردو، گنانا بھارتی، بنگلور یونیورسٹی، بنگلور560056

تحقیق حقائق کی کھوج کانام ہے تاکہ دستیاب موادیامعلومات میں حق بات سامنے آجائے ۔تحقیق کاکام حال کوبہتربنانا،مستقبل کوسنوارنااور ماضی کی تاریکیوں کوروشنی عطاکرناہے ،تحقیق کاایک اہم کام گمشدہ دفینوں کودریافت کرنااور ماضی کی تاریکیوں کودورکرکے اسے روشنی عطاکرناہے تحقیق موجودمواد کومرتب کرتی ہے ،اس کاتجزیہ کرتی ہے ،اس پر تنقید کرتی ہے اور پھراس سے ہونے والے نتائج سے آگاہ کرتی ہے ۔۱ ؎ادبی تحقیق کابھی دائرہ کارہے ۔
ایک وقت تھاجب ادب کوتحقیق کے باب میں قبول نہیں کیاجاتاتھا۔اس کاتعلق صرف تنقید اور تبصرے کے عمل سے ہی تھالیکن جب معاشرتی علوم وجودمیں آئے تویہ محسوس کیاجانے لگاکہ سائنسی طریقہ کارکااستعمال کرکے اس شعے میں بھی صحیح نتائج کاحصول ممکن ہے لہٰذاادب کوبھی تحقیق کے دائرے میں شامل کیاگیا۔۲؎
تحقیق کے موجودہ معیارتک پہنچنے کے لئے اردوادبی ولسانی تحقیق نے طویل سفرطئے کیاہے ۔اردوتحقیق کاآغازاٹھاویں صدی عیسوی میں تسلیم کیاجاتاہے ۔جب اس زمانے میں شعراء کے تذکرے لکھے گئے یہ تذکرے جوابتداء میں فارسی اور پھر اردومیں بھی لکھے جانے لگے معیارکے لحاظ سے انتہائی کمزورہیں ۔ان کی بنیادجدیدتحقیق اصولوں پراستوارنہیں اور نہ ہی ان کی حیثیت معاصرین کی سوانحی حالات سے زیادہ ہے لیکن اس کے باوجوداردوتحقیق کے ابتدائی نقوش ان ہی تذکروں کے اندرتلاش کرناپڑتے ہیں ۔چنانچہ ناقدین اور محققین کاایک بڑاطبقہ ان تذکروں کواردوتحقیق کانقش اول قراردیتاہے ۔۳؎
تذکروں کے بعد محمد حسین آزادکی آب حیات تحقیق کی راہ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔آب حیات تذکرہ نویسی اورباقاعدہ تاریخ نویسی کے درمیان ایک مضبوط کڑی ہے ۔اگر چہ اس کے بیت سے بیانات پر اعتراضات کئے گئے اور اس کی بعض معلومات کوغیر متندقراردیاگیا۔تاہم آب حیات کی بنیادی حیثیت کے بارے میں کوئی دورائے نہیں ۔آب حیات کی طرزپر اردوکی ادبی تاریخیوں کاسلسلہ موجودہ زمانے تک جاری ہے ۔سرسیدتحریک کے زیراثرجونیاعلمی اور سائنسی رجحان پیداہوااس سے تحقیق بھی تقویت پہنچی ہیں ۔وہ زمانہ تھاجب ہندوستان میں مغربی اثرات کے زیراثر زندگی کی ہر چیزتبدیلی کی طرف مائل تھی ۔حالات تبدیلی کے نئے اثرات اردو ادب وتحقیق پر بھی نمایاں طور پر مرتب ہوئے بہت سی نئی تحریکیں نمودارہوئیں جن کے ذریعہ نئے ذہنی وفکری تعبیرات عام ہوئے خاص کرمذہبی عقائدکے مابیں تصادم کی صورت پیداہوئی اور متضادذہنی تکری روے سامنے آئے ۔دلائل ،شواہداور سندکی ضرورت عام ہوئی اور حقائق کی بازیانت کاعمل تیزہوا۔چنانچہ سرسیدحالی اور شبل کواردو تحقیق کی روایت کے بنیادگزاروں کامقام حامل ہے ۔
آثارالضادید،آئین اکبری ،تاریخ فیروزشاہی اور تزک جہانگیری سرسیدکے تحقیق نقطہ نظر کومترشیخ کرنے والی کتابیں ہیں ۔خاص کر آثارالضادیدکادوسراایڈیشن سرسیدکوایک محتاط مدون کی صورت میں سامنے لاتاہے اس کے علاوہ آئین اکبری کی تدوین میں تدوین متن کے جدیداصولوں کاسراغ ملتاہے حالیؔ نے سوانح نگاری کے میدان میں تحقیق کی مثال پیش کرنے کی ۔وہ سوانح کی ترتیب ،واقعات وحقائق کی تلاش وجستجواور صحبت بیان پر پوری توجہ صرف کرتے ہیں ۔باضابطہ ماخذ کمی نشاندہی کرتے ہیں ۔حالیؔ کایہ کہناکہ روائی اور سنی سنائی باتوں اور رسمی معلومات پر انحصارکافی نہیں ۔ان کے ذوق تحقیق پر دلالت کرتاہے ۔ان کی سوانحی کتابیں حیات جاوید،حیات سعدی اور یادگارغالب اردو تحقیق کے اچھے نمونے قراردئے جاسکتے ہیں ۔
شبلی کااندازاستقرائی تحقیق کے قریب ہے ۔ان کی تحقیق کی مثالیں ان کی لکھی گئی سوانح عمریاں ہیں المامون، ’’سیرۃ النبی‘‘ الفاروق ،الغزالی وغیرہ میں واقعات کی تحقیق ان کی ترتیب ،اخذنتائج وغیرہ شبلی کے تحقیق شعورکونمایاں کرتی ہیں ۔فارسی ادبیات کی کتاب ’’شعرالعجم‘‘میں انہوں نے عربی فارسی شعراء ادباء تذکرہ نگاروں اور انگریزی مورخین سے استفادہ کیاہے ۔شبلی کے بعض مضامین بھی ان کے تحقیقی قد رمیں اضافہ کرتے ہیں ۔اردو میں خالص ادبی تحقیق بیسویں صدی کے ادائل میں شروع ہوتی ہے اس سلسلے میں مولوی عبدالحق ، حافظ محمودشیروانی اور قاضی عبدالودودوغیرہ بزرگوں نے اپنی زندگی کابڑاحصہ اردوزبان وادب کی تحقیق میں صرف کیااوراردوتحقیق کامعیاربلند کیا۔
بیسویں صدی میں تحقیقی روایت میں توسیع کرنے والے ایک اہم بزرگ مولوی عبدالحق ہیں ۔مولوی عبدالحق کویہ ا ہمیت حاصل ہے کہ انہوں نے تحقیق ادیب کوایک قومی نصب العین کی طرح قبول کیااور اسے عمربھر جاری رکھا۔ قدیم دکنی مخطوطوں کی تلاش وصحت ان کے بنیادی کاموں میں سے ہیں ۔دکن کے غیردریافت ادب کو منظر عام پر لاکر انہوں نے معلوم ادبی تاریخ کی دنیاکی کایاپلٹ دی ۳؎ نودریافت کتابوں میں ان کے میوط مقدمے ،حاشے اور صحت متن سے مستقبل کی تنقید کی راہ ہموارہوئی ’’معراج العاشقین‘‘’’سب رس‘‘ ’’قلب شتری‘‘’’علی نامہ ‘‘’’اور گلشن عشق ‘‘ وغیرہ اسی سلسلے کی کتابیں ہیں ان کامختصرمگر وقیع مقالہ اردو کی نشوونمامیں علمائے کرام کاکام بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتاہے ۔
اردو ادب میں تحقیق کی باضابطہ ابتداء حافظ محمودشیرانی سے ہوتی ہے ۴؎ وہ پہلے محقق ہیں جنہوں نے تحقیق کے اصول پائیدار بنیادوں پر قائم کئے اور جدیدمغربی اصولوں کورواج دیا۔
’’پنجاب میں اردو‘‘ ’’تنقیدآبِ حیات ‘‘ ’’تنقیدشعراء العجم ‘‘اور ’’پرتھوی راج راسو‘‘ جیسی کتابوں کے علاوہ بے شمار مقالات میں ان کی تحقیقی ژرف نگاہی اور بصیرت کی اعلیٰ ترین مثالیں موجودہیں ۔داخلی شہادنوں کویکساں اہمیت دینے والے اس اہم محقق کوبجاطورپر تحقیق وتدوین کومعلوم اول شمارکیاگیاہے ۵؎ قاضی عبدالودودبھی اسی اندازفکرکے محقق ہیں انہوں نے آبِ حیات کی تاریخ کی اغلاط کی نشاندہی اور غالب کے فرضی استاد کی حقیقت بتانے کے علاوہ دیوان شورش اور تذکرہ ابن امان اللہ طوفان وغیرہ کوبھی مفیدحواثی کے ساتھ مرتب کرکے شائع کئے ۔آزادی سے پہلے اردو کی اس تحقیقی روایت کودرجہ بالابزرگوں کے علاوہ بعض دیگر علمائے ادب وتحقیق نے بھی تقویت پہنچائی اور اپنے تحقیقی کارناموں سے اس روایت کومستحکم کیا۔محی الدین قادری زور،مولوی محمد شفیع برج موہن وتاریہ کیفی ،شیخ چاندحامد حسن قادری مولاناامتیازعلی عرشی شیخ محمد اکرام نصیر الدین ہاشمی ،مالک رام اور مسعود حسن رضوی ادیب وغیرہ چندایسے ہی نام ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دائرہ کارمیں تحقیق کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے زبان ادب کے بیشمارمخفی گوشوں کوبے نقاب کیااوراردوتحقیق کی ترقی میں اپناکرداراداکیا۔
جہاں تک اردوتحقیق کی اعلیٰ روایات کاتعلق ہے وہ اس وقت قائم ہوئیں جب تعلیم کے اعلیٰ جماعتوں میں اردوکو اہمیت دی گئی
۶؎ یونیورسٹیوں میں نہ صرف اردو بلکہ دوسری زبانوں اورمضامین میں بھی ریسرچ پرزوردیاگیا۔یونیورسٹیوں میں تحقیق کایہ سفرآزادی سے آس پاس شروع ہوااوربہت تیزی سے پروان چڑھا۔ڈاکٹر گیان چند لکھتے ہیں ۔
’’آزادی کے بعد ہندوپاک میں اردو کی اعلیٰ تعلیم جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ہے اس دورمیں ادبی تحقیق کواتنافروغ ملاکہ اسے اردو تحقیق کازریں دورکہہ سکتے ہیں (۷)جامعات میں بارحاصل کرنے کے بعد اردوتحقیق انتہائی تیزی سے پھیلی ہے ہندوپاک کی تقریباً ہر قابل ذکر یونورسٹی میں اردو کاشعبۂ قائم ہے ۔جن میں ہر سال سینکڑوں کی تعدادمیں تحقیقی مقالے لکھے جارہے ہیں ۔
تقسیم ہندکے بعد سے اب تک کے عرصے میں اردوتحقیق کی روایت کوثروت مندبن نے میں جن محققین نے اہم کرداراداکیاہے ان میں ڈاکٹر سیدعبداللہ ،ڈاکٹر غلام مصطفی خان ،ڈاکٹر وحید قریشی ،ڈاکٹر سہیل نجاری ڈاکٹر جمیل جالی ،رشیدحسن خان، شفیق خورجہ ،ڈاکٹر گیان چند ڈاکٹر خلیق انجم ڈاکٹر ابواللیث صدیقی ڈاکٹر تبسم کاشمیری ڈاکٹر شوکت سبزواری ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ،ڈاکٹر فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر چند نارنگ اور ڈاکٹر معین الدین عقیل وغیرہ چند ایسے نام ہیں جواردو تحقیق کی عمارت میں اہم ستونوں کادرجہ رکھتے ہیں ۔ان کے تحقیق کارناموں کااحاطہ اس مختصر تذکرے میں کسی طرح ممکن نہیں ۔
فن تحقیق کی روایت کی صحیح معنوں میں تشکیل آزادی کے بعد ہوئی ، ڈاکٹر سید عبداللہ نے تنقید کے فروغ کے زمانے میں تحقیق کی اہمیت محسوس کی اور ایک مضمون’’ تحقیق وتنقید‘‘ لکھ کر پہلی مرتبہ تحقیق کی قدروقیمت متعین کرنے کی کوشش کی ، یہ مضمون ۱۹۶۵؁ء میں شائع ہوا، جس کے بعد یہ سلسلہ آگے بڑھا اور دکاء کا مضامین اس کے حوالے سے دستیاب ہونے لگے ، ڈاکٹر ابو للیسا صدیقی کا مضمون’’جدید علمی تحقیق کا طریق کار(۱۹۸۵؁ء)، ڈاکٹر عبادت بریلوی کا مضمون’’ادبی تحقیق کا بنیادی اصول ‘‘(۱۹۸۵؁ء) ، آل احمد سرور کا مضمون ’’اردو میں تحقیق‘‘(۱۹۸۵؁ء) ، ڈاکٹر نذیر احمد کا مضمون ’’تاریخی تحقیق کے بنیادی مسائل واصول‘‘(۱۹۸۵؁ء) ، قاضی عبدالودود کا مضمون ’’اردو ادب اور تحقیق ‘‘(۱۹۹۵؁ء) اور مظفر علی سید کا مضمون’’اردو ادب اور تحقیق‘‘(۱۹۶۰؁ء) چند ایسے ہی مضامین ہیں جو اردو تحقیق اور اصول تحقیق کی اہمیت کے حوالے سے اسی عرصے میں دستیاب ہوئے۔
چھٹی دہائی میں ان چند مضامین کی اشاعت کے ساتھ ہی ہمارے علماء تحقیق وتنقید کی بھر پور توجہ تحقیق اور اصول تحقیق کی طرف ہونے لگی، ۱۹۶۶؁ء میں انجمن اساتذہ اردو جامعات ہند کے زیر اہتمام دہلی میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی ، اس کے تیسرے اجلاس میں اردو تحقیق کے مسائل کو بھی اہمیت دی گئی اور ہندوستان بھر کے نامی گرامی علمائے تحقیق نے اردو تحقیق کے مسائل پر آٹھ مقالات پیش کرکے اس روایت کو پہلی مرتبہ اعتبار بخشا، یہ مقالات بعد میں شائع کئے گئے۔
اردو فن تحقیق کی پہلی باقاعدہ کتاب بھی تدوین متن ہی سے متعلق ہے ، ڈاکٹر خلیق انجم کی کتاب ’’متنی تنقید‘‘ کو نہ صرف یہ انفرادیت حاصل ہے کہ یہ تدوین متن کے مسائل اور تمام اہم اصول پہلی بار پیش کرتی ہے ، اصول تحقیق کی روایت میں ’’متنی تنقید ‘‘ کے بعد اگلے ہی سال ڈاکٹر عبدالرزاق قریشی کی کتاب’’مبادیاتِ تحقیق‘‘ شائع ہوئی ، ’’متنی تنقید‘‘ کی بنیاد پر تدوین متن سے متعلق ایک اور کتاب ڈاکٹر تنویر علوی کی ’’اصول تحقیق وترتیب متن‘‘ ۱۹۷۷؁ء میں شائع ہوئی اور جس سے گویا اس موضوع کی تکمیل ہوئی(۷) یہ کتاب دراصل مضامین کا مجموعہ ہے جو ڈاکٹر تنویر علوی نے اس موضوع سے دلچسپی لیتے ہوئے وقتاً فوقتاً تحریر کئے تھے۔
فن تحقیق کی روایت میں ۱۹۸۶؁ء کا سال اس حوالے سے اہم ہے کہ اس سال متعدد کتابیں اردو اصول تحقیق کی زیر بحث روایت کا حصہ بنیں، اس سال ڈاکٹر اعجاز راہی کی مرتب دو کتابیں مقتدرہ قومی زبان کے زیر اہتمام شائع ہوئیں، پہلی کتاب اصول تحقیق سے متعلق ایک سمینار کی روداد پر مشتمل ہے ، مقتدرہ قومی زبان نے اہمیت وضرورت پر ان دوکتابوں کے مطالعے سے بڑی حد تک روشنی پڑتی ہے ، ڈاکٹر سلطانہ نجش کی دو جلدوں پر مشتمل اہم انتخابات مقالات ’’اردو میں اصول تحقیق‘‘ کی اشاعت بھی اسی سال ہوئی۔
بیسویں صدی کی نویں دہائی کے بقیہ چار سالوں میں ہمیں تحقیق اور اصول تحقیق سے متعلق مزید چھ کتابیں دستیاب ہوجاتی ہیں’’پاکستان میں اردو تحقیق، موضوعات اور معیار‘‘ کے نام سے ڈاکٹر معین الدین عقیل کی کتاب ۱۹۸۷؁ء میں شائع ہوئی، اس کتاب میں آزادی کے بعد پاکستان میں ہونے والی ادبی تحقیقات کے پینتیس سالوں کے منظر نامے کو سمیٹنے کی قابل قدر کوشش کی گئی ہے ۔
دہلی اردو تحقیق کا اہم مرکز رہاہے ، آزادی کے بعد بھی دہلی کا یہ تشخص برقرار رہا، تقسیم ہند کے بعد تحقیق وفن تحقیق کے باب میں یہاں کے محققین نے جو اضافے کئے ان کا ایک انتخاب ’’آزادی کے بعد دہلی میں اردو تحقیق‘‘ کے نام سے ڈاکٹر تنویر احمد علوی نے مرتب کرکے اردو اکیڈمی دہلی کے زیر اہتمام شائع کیا، بیسوی صدی کے آخری دس سال بھی ایک قابل وقعت سرمایہ اردو فن تحقیق کی جھولی میں ڈال کر رخصت ہوئی ہے ، اصول تحقیق کی روایت اکسیویں صدی میں داخل ہوکے بھی اسی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے جس رفتار سے پہلے کے آخری چند برسوں میں نظر آتا ہے بلکہ بعض غیر معیاری اور گائیڈ وسرقہ نما کتابوں کو شمار کیا جائے تو اس میں خاصہ اضافہ ہوا ہے ، یہ عرصہ مضامین کے حوالے سے بھی زیادہ زرخیز ہے، فن تحقیق کی روایت میں ۲۰۰۶کا سال بھی مفید رہا، اس سال بھی چند کتابیں مبادیات تحقیق’’تحقیق وتدوین‘‘ اردو تحقیق پنجاب یونیورسٹی میں’’ جامعاتی تحقیق ‘‘اس روایت کا حصہ بن چکی ہیں۔؎
اردو فن تحقیق کے آغاز اور روایت کے سلسلے میں درجہ بالااجمالی لیکن ارتقائی جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ روایت بیسویں صدی کے نصف آخر یا آزادی کے بعد سے اب تک کے عرصے میں تشکیل وارتقاء پذیر ہوئی ، اس کی ہلکی سی داغِ بیل اگرچہ اس سے پہلے پڑچکی تھی ، اس پورے عرصے میں اس موضوع سے متعلق نہ صرف بیسوں کتابیں ، تصنیف کی گئیں بلکہ سینکڑوں تعداد میں مضامین بھی لکھے گئے۔
اردو تحقیق کے فن کو فروغ دینے والے نامور قلم کاروں کی صف میں آل احمد سرور، احتشام حسین ، گوپی چند نارنگ ، شمس الرحمن فاروقی ، مجنوں گور کھپوری، اختر حسین رائے پوری، خواجہ احمد فاروقی، خلیل الرحمن اعظمی، پروفیسر محمد حسن وہاب اشرفی، قاضی عبدالودود، امتیاز علی عرشی، رشید حسن خاں وغیرہ ایسی قد آور شخصیتیں ہیں جن کے آگے دنیائے ادب سر جھکا چکی ہے اور ان ہستیوں کی گراں قدر ادبی خدمات کا اعتراف کیا جاچکا ہے ، ساتھ ہی ان اساتذہ ادب کے کارناموں سے متعلق بے شمار مطالعے اور تجزئے بھی منظر عام پر آچکے ہیں، یہ سلسلہ آج بھی بڑی تیزی وتندہی کے ساتھ جاری ہے ،
۱) ڈاکٹر تبسم کاشمیری’’ ادبی تحقیق کے اصول‘‘ مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد۱۹۹۲؁ء (اشاعت اول) ص ۲؎
۲) ’’ادبی اور لسانی تحقیق اصول اور طریق کار‘‘ ص ۸۱
۳) ڈاکٹر افتاب احمد آفاقی ’’آزادی سے قبل اردو تحقیق‘‘ مشمولہ ’’تحقیق وتدوین‘‘ از پروفیسر ابن کنول شعبہء اردو دہلی یونیورسٹی ، دہلی ۲۰۰۶، ص ۳۶۷
۴) انور سدید ڈاکٹر’’اردو ادب کی مختصر تاریخ‘‘ عزیز بک ڈپو ، لاہور(طبع سوم) ۱۹۹۸ء ص ۳۵۸
۵) ایضا ص۳۷۶
۶) رشید حسن خان ’’ادبی تحقیق، مسائل اور اترپردیش اردو اکیڈمی لکھنو ۱۹۹۰؁ء ص۱۱
۷) گیان چند ڈاکٹر اردو کی ادبی تحقیق آزادی سے پہلے ’’مشمولہ‘‘ ادبی اور لسانی تحقیق، اصول اور طریق کار ص ۲۳۹
۸) ایضا ص۲۳۰
۹) ’’جدید رسمیات تحقیق‘‘ ص ۵۱

Shabeen Taj W/o Mohammed Azeemulla
Opp. H.M.S. College, H.M.S. Colony, Shettihalli Main Road, Tumkur-572102, Karnatak

Leave a Comment