اردو نظم سِمت و رفتار

(1857سے 1935 تک)
\"\"
٭ڈاکٹر وسیم انور

اسسٹنٹ پروفیسر
شعبہء اردو فارسی،ڈاکٹر ہری سنگھ گور یونی ورسٹی,ساگر ایم پی 470003
wsmnwr@gmail.com

1857کے انقلاب کے بعد سماجی سیاسی اور ذہنی افق پر جو تبدیلیاں رونما ہوئیںاس کے اثرات شعر و ادب پر بھی ہوئے۔ انقلاب کے بعد تیزی سے مغربی ممالک کے تہذیبی کلچرل اور ادبی اثرات ہندوستانی ذہنوں پر پڑنے لگے۔ہندوستان پر مکمل تسلط قائم کرنے کے بعد انگریزی حکومت نے اقتدار کو مضبوط کرنے لئے مختلف انجمنیں قائم کیں۔ عوام کے مسائل سے واقفیت اور حکومت کی پالیسیوں کی ترسیل کی غرض سے بنائی گئی یہ انجمنیں علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکزبھی تھیں۔ 21 جنوری 1865 میں’ ’انجمنِ اشاعتِ مطالبِ مفیدہ پنجاب‘ ‘ قائم کی گئی۔ یہی انجمن ’انجمنِ پنجاب‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔
انجمنِ پنجاب کے روح رواں مولانا محمد حسین آزادؔ جو خود دلّی کالج کے طالب علم اور ذوقؔ کے شاگرد رہ چکے تھے، نئے رجحانات سے آشنا ہو کر نئی اردو شاعری کا خاکہ بنایا، ان کی کوششوں اور ڈاکٹر جی ڈبلیو لائٹنر کی علم دوستی نے اُسے علمی و ادبی سرگرمیوں کا ایک فعال مرکز بنا دیا۔ 15اگست 7 186کو منعقد انجمن پنجاب کے جلسے میںآزاد نے ’نظم اور کلامِ موزوں کے باب میں خیالات‘ کے عنوان پر ایک لکچر دیتے ہوئے مشرقی شاعری، خاص کر اردو فارسی شاعری کے نقائص کی طرف توجہ دلائی اور پھر نئی شاعری اور نظم نگاری کی ترقی کے لئے انجمن پنجاب میں موضوعی مشاعروں کا اہتمام کیا۔ کرنل ہالرائڈ کی سرپرستی میںآٹھ مئی1874 کو لاہور میں وہ پہلا یادگار مشاعرہ ہوا جس میں نئے طرز کی نظمیں پڑھی گئیں۔ پہلے مولانا آزاد ؔنے ایک بہت عمدہ اور بے حد معلومات افزا خطبہ دیا اور پھر شاعری میں اصلیت سے کام لینے،مقامی رنگ پیدا کرنے اور زندگی کی سچی تصویر کشی کرنے کو کہا۔ اس طرح اردو شعری روایت میں ایک نئے دور کا اضافہ ہوا۔ حالیؔ نے بھی ان موضوعاتی مشاعروں میں شرکت کی اور کئی موضوعاتی نظمیں لکھیں۔ آزادؔ اور حالیؔ کی ان کوششوں سے اردو شاعری کو روایتی تقلید کے دائرے سے نکل کر کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع ملا۔ شاعری روایتی موضوعات سے آزاد ہوکر عام بول چال کی سطح پر جینے لگی۔ یہ دور تہذیبی معاشرتی اور ادبی تغیرات اور روایت سے بغاوت کے بجائے اصلاحی دور تھا۔
ادب کو زندگی کے تناظر میں رکھ کر دونوں کے باہمی رشتوں پر غور کرنے کے زبردست رجحان کو باقاعدہ طور پر پروان چڑھانے میں سرسید تحریک یا علی گڑھ تحریک سے بڑی مدد ملی۔ اس تحریک کو آگے بڑھانے میں حالیؔ اور شبلیؔ پیش پیش رہے۔ لیکن اس اصلاحی تحریک کو جلد ہی ایک شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ سرسید کی انگریزوں سے قربت اور سائنسی نظریے کی وجہ سے لوگ کھل کر علی گڑھ تحریک کی مخالفت کرنے لگے۔جن میں اکبرؔ الہ آبادی کا نام خصوصیت سے قابل ذکر ہے۔ ان کا نصب العین سرسید سے مختلف نہیں تھا، لیکن وہ اس طریقۂ کار کے شدید مخالف تھے۔ اس مخالفت اور شدید عوامی ردِعمل نے انسانی سوچ کو پھر ایک نئی دنیا کی تلاش پر مجبور کیا اور رومانی رجحانات پرورش پانے لگے۔
جبکہ انگلستان میں رومانی تحریک کلاسیکی شاعری کے خلاف ایک ردِعمل کے طور پر شروع ہوئی۔ اس میں اجتماعی تصورات کے بجائے انفرادیت اور داخلیت پر زوردیا گیا۔ جس میں شعراء نے زندگی کی تلخ حقیقتوں سے منہ موڑ لیا اور خوابوںکی دنیا میں اپنی من پسند دنیا بنانے لگے۔ اردو شاعری میں یہ رجحان بھی عام ہوا۔ اس ضمن میں پروفیسر احتشام حسین لکھتے ہیں:
’’آزادی کی خواہش، نئے اثرات، نئے وقوف اور تجدد کے ذوق نے خیالات کو نئی دنیائوں میں آوارہ کیا۔ خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں بے تکان اور بے روک ٹوک گل گشت کرنے کے سلسلے میں بہت سی روایتی رکاوٹیں دور ہوئیں اور بہت سے نئے قلعے سر ہوئے، اسی کو ہم رومانیت کہہ سکتے ہیں۔ مشکل ہی سے بیسویں صدی کا کوئی شاعر ہوگا جو رومانیت کے افسوں کا شکار نہ ہوا ہو۔‘‘۱؎
رومانیت کے رجحان کو عام کرنے میں اختر شیرانی اور عظمت اللہ خاں پیش پیش رہے۔ اختر شیرانی کا طرز اظہار نوجوانوں میںبے حد مقبول رہا۔بیسویں صدی کے اوائل میں اسمٰعیلؔ میرٹھی، شبلیؔ، شوقؔ قدوائی، وحیدالدین سلیم، نظم طباطباعی، سرور جہاں آبادی، نادر کاکوروی، چکبستؔ اور اکبرؔ وغیرہ حالیؔ اور آزاد کی پیروی کرتے رہے۔ ان شعراء نے زیادہ تر ایسے موضوعات پر نظمیں لکھنا پسند کیا جن سے اخلاقی اصلاح ہوسکے یا جو عام لوگوں میں قومی جذبہ بیدار کرسکیں یا پھر ایسی نظمیں جن میں مناظر فطرت کی عکاسی کی گئی ہو۔ یہ دور بنیادی طور پر موضوعاتی شاعری کادور تھا۔
بیسویں صدی کے ربع اوّل میں سامنے آنے والے نظم نگاروں کی فہرست طویل ہے جن چند نظم نگاروں نے اس دور میں مقبولیت حاصل کی ان میں سب سے اہم نام اقبال کا ہے۔ اقبال نے غالب کے داخلی اور تخلیقی پیرایۂ اظہار کی روایت کی توسیع کرتے ہوئے حالیؔ اور آزادؔ کی تشکیل کردہ روایت کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ انھوں نے نئے موضوعات اور نظم کی ہیئت کو اپنانے کے ساتھ غزلیہ روایت کا بھی گہرا اثر قبول کیا۔ چنانچہ انکا رشتہ اپنی شعری روایت سے مضبوط اور مستحکم ہے۔ انھوں نے ادب کے افادی پہلوئوں کو نمایاںکرنے پر زور دیا۔ رومانی تحریک کی کوکھ سے جنمے فن برائے فن کے نظریے کو اقبال نے سختی سے مسترد کردیا۔ وزیر آغا اس کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اقبال نے فرد کو احمقوں کی جنت سے باہر نکالا اور اسے ایک ایسے نئے فکری اسلوب سے آشنا کیا جو نہ تو مغربی افکار کی خوشہ چینی کا عمل تھا نہ پدرم سلطان بود کی کیفیت سے سرشار تھا اور نہ جس کی اساس ایک خیالی دنیا ہی پر استوار تھی۔ لہٰذا اردو ادب کی تحریکوں میں اقبال کی تحریک کو بطور خاص بڑی اہمیت حاصل ہے کہ یہ تحریک مزاجاً سرسید کی تحریک سے اثرات قبول کرنے کے باوصف اس سے بھی مختلف تھی اور رومانی تحریک سے بھی۔‘‘۲؎
اقبالؔکی شاعری نے اردو میں پہلی بار قومی اور ملّی مسائل کو ان کے وسیع تر تناظر میں دیکھا اور اظہار اور بیان کی نئی نئی جہات ایجاد کیں۔ ان کی مقبولیت عوام سے زیادہ خواص میں رہی۔ان کے انسانِ کامل کے تصور اور خودی کے فلسفے نے شاعری میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ اقبال نے نوجوانوں میں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا حوصلہ، محبت کو اپنا مسلک بنانے کا قرینہ اور مشکلات سے خوف زدہ نہ ہونے کا عرفان پیدا کیا۔
مختصراً اقبال ؔنے اردو نظم میں معنوی اور صوری دونوں اعتبار سے اضافے کئے اور اس صنف کو نئے امکانات سے روشناس کیا۔ اقبال نے اپنی شاعری سے اپنے عہد کے ساتھ ساتھ بعد کی نسل کو بھی متاثر کیا۔ لیکن ’’1935 کی نسل اقبال کے طرز فکر سے زیادہ اظہار سے متاثر ہوئی ہے۔‘‘۳؎
اقبالؔ کے علاوہ اس دور میں جن دوسرے شاعروں نے اردو نظم نگاری میں اہمت حاصل کی ان میں جوش، اختر شیرانی، حفیظ جالندھری اور عظمت اللہ خاں نمایاں ہیں۔ ان سب شعراء نے اردو نظم میں فکرو فن کے نئے تجربے کئے اور اپنے عہد کی نسل کو متاثر کیا۔
اس عہد میں اقبال کے بعد جوش کا ہی نام لیا جاسکتا ہے۔ ان کی شاعری کے تین اہم موضوعات ہیں۔ مناظر فطرت کی عکاسی، حسن و عشق کا بیان اور انقلاب۔ ان تینوں موضوعات کے اظہار میں جوش کا اندازِ بیان جذباتی ہے۔ وہ اقبالؔ کی طرح موضوعات کی گہرائی میں اتر کر نہیں سوچتے، اگرچہ انھیں زبا ن و بیان پر غیرمعمولی قدرت حاصل ہے۔ وہ اردو میں ’’ایجی ٹیشن‘‘ شاعری کے موجد ہیں۔انقلابی نظموں میں ان کا لہجہ خطابت اور بلند آہنگی کا ہے۔ ترقی پسند اردو نظم پر ان کے اس لہجہ کا پورا اثر پایا جاتا ہے۔ محمدحسن لکھتے ہیں:
’’ان کی خطیبانہ شاعری کے اعلی ترین نمونے انقلابی شاعری میں ملتے ہیں۔ یہ وہی لہجہ ہے جو فکری سیاق و سباق کی تبدیلی کے ساتھ اقبال کے ہاں سے ہوتا ہوا جوش تک پہنچتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ جوش نے اس لہجے میں نرالا جوش اور آزادی وطن کے لئے جہاد کا جنون بھردیا اور1936سے1960تک پوری ادبی نسل جوش کی روایت کے سائے میں پروان چڑھی اس میں سردار جعفری، مجاز، مخدوم، جاں نثار اختر،پرویز شاہدی سبھی شامل ہیں۔‘‘۴؎
اس دور میں جن شعراء نے ہیئت و اسلوب کے تجربے کئے ان میں سب سے خاص نام عظمت اللہ خاں کاہے جو غزل کے متعلق اپنے باغیانہ تصور کے لئے مشہور ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ غزل کی گردن بلا تکلف ماردی جانی چاہیے۔ لیکن ان کی اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے مغرب کی شاعری سے واقفیت کے سبب اردو نظم میں داخلی اور خارجی تنظیم کو بدلنے کی کوشش کی۔ وہ عربی اور فارسی عروض کے بجائے ہندی پنگل سے استفادہ کرنا چاہتے تھے۔ وہ نظم کو فارسی لفظیات اور لب و لہجہ سے الگ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کی شاعری کے متعلق عقیل احمد صدیقی لکھتے ہیں:
’’عظمت اللہ خاں کا اصل مقصد اردو شاعری کو ’’ہندوستانی روح‘‘ سے ہمکنار کرنا تھا ان کی عشقیہ نظموں میں عورتوں کی طرف سے عشق کا اظہار ملتا ہے۔ جو دراصل اس ہندوستانی روح کی بازیافت ہے جو ہند اسلامی تہذیب کی تشکیل سے پہلے ہندی یا سنسکرت شاعری کا خاص مزاج رہا ہے۔ عظمت اللہ خاں کے ان تجربوں کا خاص اثر میراجی نے قبول کیا ہے اور ان کے توسط سے ایک پوری نسل متاثر ہوئی ہے۔‘‘۵؎
ساغرؔنظامی نے قوم پرستی کی چاشنی سے اپنی شاعری میں لذت پیدا کی۔حفیظ ؔجالندھری بھی ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ انھوںنے ابتدا میں اچھی رومانی اور وطنی نظمیں کہیں، کچھ نظم نماگیت اور کچھ گیت نما نظمیں لکھیں، لیکن بقول سردار جعفری:
’’اقبال ؔبننے کی خواہش نے ان کی شاعری کا گلا گھونٹ دیا۔‘‘۶؎
اس طرح آزادؔ اورحالیؔ کی نیچرل شاعری کی اصلاحی تحریک سے لے کر1935 تک کا عرصہ اردو نظم کی تشکیل کا دور ہے۔ اس دوران نظم اس قابل بنی کہ اس کو علیحدہ صنف کی حیثیت دی جاسکے، اور اس میں زندگی کے تمام تجربات پیش کئے جاسکیں۔ اس دور میں نظم کی خارجی اور داخلی دونوں صورتیں بدل گئیں۔ غیر مقفّٰی نظم، نظم معریٰ اور نیم پابند نظم کی ہیئت اردو شاعری میںجگہ پانے لگیں۔ اس دور میں اقبالؔ کی فلسفیانہ شاعری پروان چڑھی۔ انھوں نے نظم کو صوری اور معنوی امکانات سے روشناس کرایا۔اس دوران عظمت اللہ خاں نے نظم کے لئے ایک مختلف اور غیرروایتی ڈھانچہ پیش کیا۔ اور پہلی بار نظم کو غزل کے اثرات سے پاک کرنے کی شعوری طور پر کوشش کی۔ 1935تک آتے آتے اردو نظم اس قابل ہوچکی تھی کہ اس میں زندگی کا ہرتجربہ اور ہر خیال بیان کیا جاسکے۔اس پس منظر میں ترقی پسندوں کی نسل وجود میں آئی اور انھوں نے اردو نظم سے وہ سب کام لئے جن کے لئے اردو نظم منتظر تھی۔

حواشی:
۱؎ جدید ادب: منظر اور پس منظر – سید احتشام حسین: صفحہ ۱۹۵
۲؎ نئے تناظر – وزیر آغا: صفحہ ۵۷
۳؎ جدید اردو نظم نظریہ و عمل – عقیل احمد صدیقی: صفحہ ۴۶
۴؎ معاصر ادب کے پیش رو- محمد حسن: صفحہ ۱۹-۱۸
۵؎ جدید اردو نظم نظریہ و عمل – عقیل احمد صدیقی صفحہ ۴۸
۶؎ ترقی پسند ادب – علی سردار جعفری: صفحہ ۱۷۴
٭٭٭

Dr. Waseem Anwar
Assistant Professor
Department of Urdu & Persian
Dr. H. S. Gour University, Sagar M. P. 470003
wsmnwr@gmail.com,

Leave a Comment