اردو کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانوں کے فروغ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے: ڈاکٹر شیخ عقیل احمد

زبان ملک کی پہچان اور وجود کا اٹوٹ حصہ ہے: پروفیسر گریشور مشر

قومی اردو کونسل اور گاندھی بھون کے اشتراک سے منعقدہ دو روزہ قومی سمینار کے اختتامی اجلاس میں مقررین کا خطاب
\"\"

نئی دہلی: (اسٹاف رپورٹر) قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی اور گاندھی بھون کے اشتراک سے منعقدہ دو روزہ سمینار بعنوان ’مہاتما گاندھی اور نظریہ قومی زبان‘ کے دوسرے دن ملک کی مختلف یونیورسٹیوں اور اداروں سے آئے ہوئے ماہرین، پروفیسران اور دانشوران نے اپنے گراں قدر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستان کی ترقی و بہبود اور عوام کو جوڑنے کے لیے رابطے کی ایک زبان پر زور دیا۔
اختتامی اجلاس میں پروفیسر گریشور مشر نے کہا کہ زبان ملک کی پہچان اور وجود کا اٹوٹ حصہ ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہندی عوامی زبان ہےاسی لیے گاندھی جی نے سوچا کہ ہندی کے ذریعے ہم پورے ملک سے جڑ سکتے ہیں اور جوڑ بھی سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا ہندوستان کی تمام زبانیں قومی زبان کا درجہ رکھتی ہیں۔ پروفیسر گنگا پرساد ومل نے گاندھیائی نظریے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی زبانو ں کو جانے بغیر ہندی بھی ادھوری ہے۔ گاندھی جی نے ہندوستانی زبان کی بھرپور وکالت کی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ پورے ملک کو لسانی سطح پر جوڑنا چاہتے تھے۔
اس موقعے پر قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے تمام مہمانان اور گاندھی بھون کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ دو دنوں کے اس سمینار میں گاندھی جی کے نظّریات اور قومی زبان کے حوالے سے بہت ساری اہم باتیں اور اہم نکات سامنے آئے اور یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ ہمیں اردو کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی تمام علاقائی زبانوں کے فروغ پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اختتامی اجلاس سے قبل کے سیشن میں بھی مختلف دانشوروں نے مہاتما گاندھی اور نظریہ قومی زبان کےحوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس موضوع کے حوالے سے اہم جہتوں پر روشنی ڈالی۔
پروفیسر چاند کرن سلوجہ نے کہا کہ ہمارے یہاں علاقائی زبانوں میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جنھیں پڑھ کر آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ ہم تلسی داس، رابندرناتھ ٹیگور جیسے لوگوں کو پیدا نہیں کرسکتے مگر آنے والی نسلوں میں ایسی صلاحیتیں ضرور پیدا کرسکتے ہیں کہ وہ تلسی داس اور ٹیگو ربن سکیں۔ ڈاکٹر ظہیر حسن نے کہا کہ گاندھی جی کے لیے انگریزی ابتدائی دور میں ضروری تھی۔ اس لیے کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انگریزی میں ہر قسم کا مواد موجود ہے لیکن گاندھی جی اس سچائی کو سمجھتے تھے کہ ہندوستان کی تمام زبانوں کے فروغ کے بعد ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ پروفیسر اختر حسنین نے کہا کہ آج کے ہندوستان میں گاندھی جی خیالات پر عمل کرنا ناگزیر ہے تاکہ تمام ہندوستانی متحد رہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ قوموں کو جوڑنے کے لیے گاندھی جی نے عوامی زبان کی وکالت کی اور یہ عوامی زبان کوئی اور نہیں ہندوستانی زبان ہی تھی۔
شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ابن کنول نے پہلے سیشن کے صدارتی خطاب میں زبان کو سہل بنانے پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ رابطے کے لیے مشل الفاظ سے گریز کرنا چاہیے اور اپنی مادری زبان کو ترجیح دینی چاہیے۔ اس سیشن میں ڈاکٹر مظفر حسین سید، پروفیسر گوپیشور سنگھ، ڈاکٹر مکیش اور پرمود سینی وغیرہ نے اظہارِ خیال کیا۔
دوسرے سیشن میں سندھی کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر روی ٹیک چندانی نے کہا کہ ہندوستان کی زبانو ں کے ذریعے بھی روزگار حاصل کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہندی اردو اور سندھی سرحدوں سے آزاد ہیں توپنجابی، ملیالم اور دوسری زبانیں بھی سرحدوں سے آزاد ہوسکتی ہیں۔ سینئر صحافی زین شمسی نے کہا کہ کوئی بھی ملک اپنی مادری زبان میں ہی ترقی کرسکتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر اردو سے اس کا رسم الخط چھین لیا جائےتو اردو زبان ختم ہوجائے گی۔ محترمہ اسمتا جھا نے کہا کہ گاندھی جی کا خواب تھا کہ ہندی کو قومی زبان بنانا۔ لیکن ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تمام زبانوں کا احترام کیا جائے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تشریف لائے پروفیسر عبدالعلیم نے کہا کہ جو خواب گاندھی جی نے قومی زبان کے حوالے سے اس وقت دیکھا تھا وہ موجودہ دور حکومت میں شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تمام زبانوں کے لیے ایک رسم الخط طے کرنا ہوگا۔ ا سکے علاوہ دیگر شرکا نے بھی اس موقعے پر اظہارِخیال کیا۔
دو دن کے تمام اجلاسوں کی نظامت کے فرائض گاندھی بھون دہلی یونیورسٹی کے ڈائرکٹر پروفیسر رمیش بھاردواج نے بحسن و خوبی انجام دیے۔
\"\"

Leave a Comment