اردو ہندی زبانوں کے درمیانی ہم آہنگی ۔۔لسانیاتی ادبی رشتے

٭ڈاکٹر محمد یوسف خان
۴۳۔کھیڑا کھال، تعلقہ۔ بگلی
ضلع، دیواس۔ ایم۔ پی (۴۵۵۲۲۷)

بسیط کا ئنات میں واقع ہمارا کرۂ ارض انواع و اقسام کی ذی حیات مخلوقات سے آباد ہے جن میں ایک مخصوص نوع۔ انسان بھی ہے جسے قدرت نے عقل و شعور و ادراک و احساس و جذبات و قوت گویائی کی نعمتوں سے نوازا ہے۔ کرۂ ارض پر ہوااور منزل شعور میں قدم رکھنے کے بعد انسان نے خود کو نا مساعد حیات ارضی حالات و مصائب و مشکلات کے درمیان تنازعہ للبقاء میںمبتلا پایا تو اپنی و نوع کی بقا۔ حفاظت اور سہولیات حیات کے لئے اپنے ہم جنسوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کی عادت اختیار کرلی اور سماجی جاندار بنا۔ سماج میں رہنے ہوئے اسے ایک دوسرے کے خیالات حالات و غیرہ جاننے سمجھنے کی ضرورت پیش آئی تو اس نیاپنی فطرت منھ کی آوازوں کو مرتب و منظم کرکے ان کو معا نی و مفہوم عطا کرکے زبان ایجاد کی اور بولنا سیکھا ۔ اور حیوانِ ناطق یعنی بولنے والا جاندار کہلایا۔ زبان وہ نعمت ہے جو قدرت کے صرفت انسانوں کو ہی بخشی ہے۔ دنیا کے دیگر جاندار اس سے محروم ہیں۔
ماہرین لسانیات کی رائے ہے کے جب کسی زمانہ میں کسی مقام پر کسی گروہ انسانی نے بولنا سیکھا ہوتا تو کوئی ایک زبان و جود میں آئی ہوگی۔ لیکن جب انسانی آبادی بڑھی پھیلی تو تفرق زماں و مکاں کے باعث اس زبان میں اختلاف و تفریق پیدا ہوتی گئی ۔ رفتہ رفتہ دنیا کے مختلف علاقوں مختلف نسلوں قوموں میں مختلف زمانوں میں مختلف زبانیں وجود میں آتی گئیں اور رفتہ رفتہ دنیا بے شمار چھوٹی بڑی زبانون کا نگار خانہ بن گیا ہے۔ دنیا کی زبانوں میں گئی زبانیں تو ایک دوسرے سے مماثل ہیں ۔ لیکن کئی بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ماہرین لسانیات نے ان کی یکسانیت تو ملحوظ رکھ کر ان کی مماثلت کی بنا پر ان کے گروہ مقررکئے ہیں جن کو گروپ یالسانی خاندان کہاجاتاہے۔دنیاکے مختلف علاقوں کی براعظموں میں مختلف خاندانِ النسریا Liguistic Dinestiesملتے ہیں۔دنیا کے لسانیاتی خاندانوں میں سب سے بڑا خاندان ال۔۔آریائی خاندان السنہ ماناجا تا ہے۔
علماء تاریخ کے مطابق تقریباً ۵ ہزار سال قبل وسط ایشیاء کی ایک قوم جو اپنے آپ کو آریہ(یعنی خالص) کہتی تھی ۔ اپنی روزی روٹی اور اپنے مویشیوں کے لئے چارہ پانی کی لاش میں جوق در جوق اپنے وطن سے نکلی اس کی ایک شاخ یورپ کی طرف گئی ۔ ایک نے ایران کا رخ کیا اور ایک درۂ خیبر کی راہ سر زمین ہند میں داخل ہوئی ۔ یہ لو اپنے ساتھ اپنا مذہب تہذیب اور زبان لے گئے۔ انہوں نے اپنے نام پر ہی یورپ ۔ ایران رکھا اور شمالی ہند کا نام آریہ وات رکھا۔ ان کی اصلی زبان سے ہیں یورپ اور ایران ووسط ایشیائی ممالک کی زبانیں نکلیں ۔ ہندوستان میں ان لوگوں کو اصلی آریائی زبان نے مقالی اثرات کے تحت قدیم سنسکرت زبان کی شکل میں ظہور کیا جس میں وید پران و رامائن مہابھارت وغیرہ گر نتھ لکھے گئے مرور ایام کے ساتھ ہندوستان میں سنسکرت سے پراکرت زبانیں جیسے پالی۔ ماگدھی ۔ شورسین وغیرہ نکلیں اور ان سے کچھ اُپبھرنش بولیاں نکلیں اور پھرانہیں سے موجودہ۔ ہندوستانی زبانیں ۔ بنگالی ۔ بہاری بھوج پوری۔ مشرقی ہندی کھڑی بولی۔ پنجابی سندھی گجراتی۔ مرہٹی وغیرہ ۔ موجودہ ہندوستانی بولیاں اور زبانیں نکلیں اور ہندوستان مختلف زبانوں بولیوں کا نگار خانہ بن گیا۔
دسویں گیارہویں صدی عیسویںتک ہندوستان میں مختلف بولیاں اور زبانیں مروج تھیں کہ اس کے بعد ہندوستان میں ایک نئی زبان کا پودا رونما ہوا۔ دسویں گیارہویں صدی میں شمالی مغرب کی جانب سے سبک نگین و محمود غزنوی کی سرکردگی میں مسلمان ترک۔ افغان ایرانی ترکی فارسی بولتے ہندوستان میں داخل ہوئے۔ پنجاب سلطنت غزنی کا صوبہ بنا ۔ مسلمان سپاہی افسر تاجر اہلِ علم و ادب وہاں آنے بسنے لگے۔ ان کے روابط ہندوستانی باشندوں سے ہوئے۔ جو پنجابی ہر یانوی راجستھان برج وغیرہ بولتے تھے۔ ان لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت و خواہش پید اہوئی تو ان کی زبانوں کا آپس میں میل جول ہونے لگا اور رفتہ رفتہ ایک نئی بولی افہام و تفہیم ترسیل و ابلاغ خیالات کے مقصد سے وجود میں آنے لگی ۔ جس کا کوئی نام نہ تھا۔ پھر جب انسان نے اپنی باتیں غیر موجود انسانوں تک پہنچانے کے لئے تحریر ایجاد کی تو مختلف زبانوں کے لئے مختلف رسم خط بھی ایجاد ہوئی۔
اس کے بعد ۱۲۹۲ء میں غور کے سلطان شہاب الدین غوری نے ترائن کی جنگ میں دہلی اجمیر کے راجپوت راجہ پرتھوی راج چوہان کو شکست دے کر دہلی اجمیر پر قبضہ کرلیا اور اپنے غلام قطب الدین ایبک کو غائب بنا کر واپس چلا گیا۔ ۱۲۰۶ء میں قطب الدین ایبک نے خود مختاری کا اعلان کرکے غلام خاندان اور سلطنت دہلی کی بنیاد ڈالی جو ۱۵۲۶ء تک قائم رہی اور جس میں مختلف خاندانوں کے حکمرانوں نے حکومت کی ۔
سلطنت دہلی کے قیام کے پنجاب کے لوگ دہلی و نواح میں اگر بسنے لگے ۔ یہ لوگ اپنے ساتھ نوخیز زبان لائے۔ اس زمانہ میں دہلی ونواح میں ہندی زبان کی ایک شا خ مغربی ہند ی یا کھڑی بولی مروج تھی۔ پنجاب سے آئی نوخیز زبان کا جوسیال حالت میں تھی کھڑی بولی سے میل ہوا تو اس نے مستحکم ہوکر ہندوی یادہلوی کی شکل اختیار کرلی۔ پھر اس نے بولی سے بڑھ کر ترقی کی اور تحریر کے لئے فارسی سے رسم خط مستعار لئے فارسی سے تحریر و ادبی فنون مستعار لینے کا بڑا سبب یہ تھا ک فارسی حاکمان وقت کی زبان تھی اور اسکا شعر و ادب بے حد ترقی یافتہ ہوچکا تھا۔ اس زبان کے ابتدائی نمونے حجرت خواجہ شیخ فرید گنج شکر۔ اور حضرت امیر خسرو سے منسوب کلام میں ملتے ہیں۔ اس کے بعد یہ زبان عہد خلجی و تغلق میں دہلی کے لوگوں کے ساتھ گجرات پہنچ کر گجری اور دکن پہنچ کر دکنی کی شکل میں مروج ہوئی آخری مغلوں کے عہد میں یکساں شکل اختیار کرکے ملک بھر میں مروج ہوئی ۔ اور آزادی کے بعد ہندوستان پاکستان میں مروج ہے۔ اس کا شعری و نثری ادب ہم اقسام و اصناف ادب ہر محتوی ایک نہایت وسیع و عظیم ادب مانا جاتا ہے۔ یہ زبان برصغیر کے لوگوں کے ساتھ دنیا کے کئی ممالک میں بھی پہنچی ہے۔ اس تمام عرصہ میں ہندی زبان بھی ترقی کی منازل طے کرتی رہی ۔ اس کی دو بڑی شاخیں مشرقی ہندی اور مغربی ہندی ہیںَ جن میں اس کی کئی اور قسمیں مروج ہیں۔
۱۸۰۰ء سے قبل جو ہندی یا ہندی کی مختلف قسمیں مروج تھیں۔ و ہ طرز قدیم کی مانی جاتی ہیں ۔ بھاکا۔ برج بھاشا۔ اودھی ۔ بھوج پوری۔ ماگدھی وغیرہ میں ہندی زبان کا ادب شاعری اور نثری ادب مروج تھا۔ ماہرین لسانیات کی رائے ہے کہ جدید ہندی کا آغاز فورت ولیم کالج میںللو جی لال کوی کی کتابوں پر یم ساگر راج ۔۔وغیرہ ۔ کے اثرات سے ہوا جو صاف کھڑی بولی ۔ اور عام فہم زبان میں تھیں ۔ مشہور مورخ اردو زبان و ادب حامد حسن قادری نے داستان زمان اردو میں لکھا ہے کہ للو لال جی نے پریم ساگر میں سنسکرت زبان کا عنصر کم کرکے آسان زبان میں اسے لکھا۔ یہ پریم ساگر موجود ہندی لٹریچر کی بنیاد ہے۔ (ص۔ ۱۳۱۔ ۱۹۶۶ء ایڈیشن ۔ لکشمی نرائن اگروال آگری)
اس طرح للو لال جی پہلے شخص ہیں جنہوں نے پریم ساگر میںروزمرہ و سہل کھڑی بولی کا استعمال کرکے موجودہ ہندی ادب کی بنیاد ڈالی ۔ تب سے موجودہ ہندی زبان و ادب کا عام رواج ہونے لگا۔ ہندی زبان کے لئے ابتدا سے ہی دیوناگری رسم خط کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ اردو نے ہندوی دور میں فارسی سے رسم خط مستعار لیا اور اس میں ہندی آوازوں کا اضافہ کیا۔
علم لسانیات کے مطابق ہندی اردو دونوں کی اصل ہندوستانی ہے۔ دونوں ہندوستان میں پیدا ہوئیں ۔ اور علم لسانیات کے لحاظ سے دونوں کا تعلق آریائی خاندان السنہ سے ہے ۔ آریائی خاندان اس۔۔دوتین ۔۔میں منقسم ہے۔ یورپی آریائی خاندان۔ (یہ انہیں آریائی خاندان اور انڈو آریائی خدان السنہ ۔ جس میں ہندوستان کی موجودہ زبانیں ( سوائے چند دراوڑی یا مشرقی علاقوں کی قبائلی زبانوں کے ) تمام ہند آریائی خاندان السنہ کی زبانیں مانی جاتی ہیں۔
اردو اور ہندی دونوں ہندوستان زبانیں ہیں۔ ہندوستان ہی میں پیدا ہوئیں۔ بڑھیں پھیلی پھولی ہیں۔ اگر کسی انصاف پسند شخص سے دونوں میں مماثت اور فرق کے بارے میں دریافت کیا جائے تو یہی جواب ہوگا۔ کہ دیو ناگری رسم خط میںلکھی جانے والی زبان جس میں سنسکرت کے الفاظ زیادہ ہوں۔ کچھ آوازوں اور قواعد زبان کا فرق ہوگا۔ وہ ہندی ہوگی۔ اور فارسی رسم خط میں جس میں فارسی عربی کے الفاظ و آوازیں ہوں ۔ قواعد زماں و مزاج میں کچھ فرق ہو وہ اردو ہوئی۔ ماہرین لسانیات انہیں جڑواں بہنیں کہتے ہیں۔ جن کی ماں ایک ہیں۔اردو نے لسانی لحاظ سے موجود ہ منزل تک پہنچنے تک ایک لمبا سفر طے کیا ہے۔
ہندوستان زبانوں کا گہوارہ رہا ہے۔ قدیم ادی باسیوں کی زبانوں کے بارے میں تو زیادہ معلومات ہیں ۔ زمانہ تاریخ میں سب سے پہلے یہاں درواڑآئے اور اپنی زبان ساتھ لائے جس سے موجودہ دکن کی دراوڑی زبانیں قابل تلگو کنڑ ملیالم نکلیں ۔ اس کے بعد آریا آئے اپنی زبان ساتھ لائے ۔ جس سے ہندوستان میں پہلے قدیم سنسکرت نکلی پھر اس سے پراکرتیں پالی پراکرات۔ مہاراشٹر پراکرات۔ شو۔۔ پراکراکت ۔ ماگدھی پراکرت۔ اردھ ماگدھی۔پراکرت وغیرہ نکلیں۔ ان سے اپ بھرنس زبانیں نکلیں شوریسنی اپ بھرنش سے جو بولیاں نکلیں ان میں کھڑی بولی ۔راجستھانی۔ برج ۔ اودھی بہاری ہیں۔
مغربی ہندی مدھیہ پردیش کی زبان تھی ۔ مغربی ہندی کی پانچ بولیاں ہیں جن میں دوگروہ میں اُو کو ترجیح دینے والی زبانیں بر بھاشا بندیل کھنڈکوترجیح دینے والی ہریانوی کھڑی بولی۔
ان میں کھڑی بولی سے ہندی یا اردو زبان نکلی ۔ اردو کو ابتدا میں ہندوی۔ ہندوستانی کیا گیا ۔ اردو نام بہت بعد میں دیاگیا۔
اگر ہم اردو ہندی کا لسانیاتی مقابلہ کرلی تو دونوں میں یکسانیت و تفریق کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
(۱) بلحاظ بناوٹ:اردوہندوی میں رسم خط کے لحاظ سے یہ فرق ہے کہ ہندی دیوناگری لیپی میں لکھی جاتی ہے۔ اور اردو کے لئے فارسی رسم خط مستعار لیا گیا ہے۔ لیکن اس میں ہندی آوازوں کا اضافہ کیاگیا ہے۔ اس طرح اس میں عربی ۔فارسی اور ہندی آوازیں یکجا ہوگئی ہیں۔ اردو میں ۔ ث۔ خ۔ ذ۔ ز۔ ص۔ ظ۔ ف۔ ق۔ فارسی عربی سے اردو میں آئے۔ ٹ۔ڈ۔ڑ۔بھ۔ پھ۔ڈھ۔نھ وغیرہ ہندی سے آئے۔
باقی دونوں میں مشترک ہیں ۔۔۔کی آواز کے لئے اردو میں ن ڑ کو ملا کر لکھنے کا رواج سے جیسے۔۔۔آج اردو رسم خط تقریباً ہر قسم کی آوازیں ادا کرنے پر قادر ہے جب کہ ہندی والے عربی فارسی کی۔ آوازیں ۔ اص ل کے مطابق نہیں ادا کر سکتے۔ وہ ق۔ خ۔ ذ۔ض۔ ظ۔ غ۔ کو پوری طرح ادا نہیں کرسکتے ۔
(۲) گرام : قواعد زبان ۔ اردو گرامر آریائی ۔ ہندوستانی گرا م ہے۔ ہندی اردو کا گرام مشترک ہے۔ صوتی ۔ حرفی و غوی۔ سطح پر یکسانیت دونوں زبانوں کے بہ۔۔ پردلالت کرتے ہیں۔
رسم کی مختلف حالتوں کے اظہار کے لئے قاعدے اشیاء کی تعداد جنس۔ تذکیر و تائیث یکساں ہیں۔
ضمائر میں میں ہم تو ۔ تم ۔ وہ میں یکسانیت ہے۔ پہلے اردو ۔۔وہ کی جمع غائب وے بولتے تھے۔ مذکرو مونث میں بھی دونوں میں یکسانیت ہے۔ لڑکا لڑکی۔ کتاکتیا۔ گائے ۔ بیل ۔ ہاتھی ۔گھوڑا ۔گھوڑی۔ چڑیا چڑا۔ بیٹا بیٹی وغیرہ ۔دونوں زبان والے بولتے ہیں۔ پانی تیل مذکر ہیں۔ روٹی دال مونث ہے۔
دونوں زبانوں میں افعال جنس کے لحاظ سے بد لتے ہیں۔ گھوڑا دوڑتا ہے۔ گھوڑی دوڑتی ہے۔ پانی آتا ہے۔ روٹی پکتی ہے۔
افعال کے لحاظ سے بھی دونوں میں یکسانیت ہے۔ ہندی کی علامت مصور نا ہے جو فارسی یہاں تک کہ غالب نے اپنے کلام کو ہندی کلام کر۔۔ اسے اردو نام مغلوں کے آخری دور میں دیا گیا۔
علامت مصدر دن تن سے الگ ہے۔ آنا جانا کھانا پینا دونوں میں مشترک ہے۔ اردو میں تو یہ علا مت عربی فارسی الفاظ پر بھی لگادی جاتی ہے۔ جیسے (غنانا۔بخش۔ حروف کے لحاظ سے دیکھئے تو یہاں بھی یکسانیت نظر آتی۔
حرف عطف ۔ اور نہ ۔ حرف تحفیص۔ ہی بھی ۔ حرف فجائیہ ۔اے ۔او۔ ارے۔
گنتی کے لحاظ سے اعداد یکساں بھی ۔ ایک دو تین چار پانچ ۔سیکڑہ ۔ ہزار لاکھ کروڑ اسم کے لحاظ سے دونوں میں یکسانیت ہے۔
مقامات۔ کٹیا۔ گھر۔ جھونپڑا۔ گھو نسلہ۔ اعضا کے نام ۔ آنکھ ۔ ناک ۔ کان ہاتھ پاؤں رشتہ داروں کے نام ۔ ماں باپ۔ دادا۔ بھائی ۔ بہن چچا ۔ تایا بیٹا بیٹی۔ دھاتوں کے نام ۔ لوہا ۔تانبا۔ سونا چاندی۔ پیشہ وروں کے نام ۔ چوراہا۔ دھوبی۔ سنار۔ اشیائے بے شمار نا۔ چولہا۔ کنواں ۔ کھیت۔ ناگر۔ ۔۔سورج چاند۔ راجا۔ رانی ۔ بعض اوقات ۔فارسی بندی نام ایک ساتھ ملا دئے جاتے ہیں۔ بے جوڑ۔ امام باڑہ۔ باغ باڑی۔ گھر داماد۔
کئی سابقوں لاحقوں کو اردو ہندی دونوں میں یکساں استعمال کیا جاتا ہے۔
اچھوت۔ ان پڑھ۔ ان بن۔ پردیس۔ ترپھلا۔ چوبارہ۔ مہاراجا۔ شرمیلا وغیرہ ۔
مرکب الفاظ آرام کرسی۔ بارہ دری۔ آپ بیتی ۔۔۔
بے شمار محاورات و امثال یکساں ہیں۔
ہتھیلی پر سرسوں جمانا۔ آسمان سر پر اٹھانا منھ کی کھانا ۔ پانی پانی ہونا۔ گلے کا ہا ر ہونا۔ بھڑاس نکالنا۔ ایڑی چھوٹی کا زور لگانا۔
کہاوتوں کا یہی حال ہے۔ نہ پائل ہوگی نہ رادھا ناچے گی۔ ۔۔میں ہر ایک باون گز کا تیل دیکھو ۔۔کی دھار د۔۔اب پچھتا ئے کا ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت۔جس کا ۔۔جس کی لاٹھی اس کی بھنس۔
تلمحیات بھی کافی مشترک ہیں۔ بن باس ہونا۔ سونے کی لنکا۔ مہابھارت۔۔ستیاں ساوتری۔۔راجہ بھوج گنگا تیلی ۔ رادھا کرشن ۔ رام بان وغیرہ ۔ مولوی سید احمد نے فرہنگ آصفیہ میں لکھا ہے کہ یہ لغت ۵۴ ہزار الفاظ پر مشتمل ہے۔ اس میں پچاس فی صد ہندی الفاظ ہیں۔۱؍۲۔ ۲۵فی صد عربی ترکی فارسی کے ۲۳۔۱؍۲ فی صد۔ تینوں زبانوں کے میل سے بنے ہیں۔ اور ایک فی صد دوسری زبانوں سے اس طرح ہندوستانی الاصل الفاظ کی تعداد ۔ ۱؍۲۔۷۳ فی صد بنی ہے۔ ایسی حالت میں یہ کہنا کہ اردو غیر ملی زبان ہے۔ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔ کتنا غلط ہے۔ اس کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
دراصل ہندی اردو دونو ں کی اصل ایک ہے اور دونوں جڑواں بہنیں ہیں ۔ ادبی لحاظ سے بھی دونوں زبانوں میں کافی مماثلت ملتی ہے۔
حضرت امیر خسرو سے منسوب کلام کا بڑا حصہ ایسا ہے جودونوں زبانوں کا مشترک سرمایہ کہاجاسکتا ہے۔ ان کی پہلیاں کہہ کر ۔۔گیت۔ بابل وغیرہ ۔ دونوی زبانوں کا سرمایہ ہیں۔
کاہے کو دینی پردیس سے سکھی بابل مورے۔ اور گوری سووے سیج پر مکھ پر ڈارے ۔۔
یا ان کے یہ اشعار کہ کھیرپکائی جتن سے چرخا دیا جائے۔ آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجائے وغیرہ ۔ یا ان کی وہ غزل ریختہ جس کا نصف شعر فارسی اور نصف ہندو ی میں ہے۔ اس کی مثال ہیں ۔ کھڑی بولی ہندی۔ جس کی بنیاد پر آج ہندی کھڑی ہے۔ قدیم ہندی نظم کے نمونے کبیر جاگتی ۔تلسی داس وغیرہ کے ہاں ملتے ہیں۔ جو مشرقی زبانوں اور اودھی میں ہیں۔
سنت نامدیو مرہٹی سنت اور کوی تھے ان کا کلام ہندوی گروگرنتھ صاحب میں محفوظ ملتا ہے۔
وہ کہتے ہیں۔
مانی نہ ہوتی۔۔نہ ہوتا۔ کرم نہ ہوتا کا یا۔
ہم نہیں ہوتے تم نہیں ہوتے ۔ کون کہاں تے آیا۔
چند ر نہ ہوتا سوریہ نہ ہوتا۔ پانی پون ملا یا۔
شاسترنہ ہوتا۔ نیہ نہ ہوتا۔ کرم کہاتے آیا۔
کبیر کلام میں بھی دونوں زبانوں کے مشترکہ عناصر ملتے ہیں۔ چلتی چکی دیکھ کر دیا کبیر اردئے دوپاٹن کے بیچ ثابت گیانہ کوئی ۔ چلکی۔سب کہیں کھیلا کہے نہ کئوی۔ جو کھیلے سے لگ رہا تو بال نہ بانکا ہوئے۔
افضل پانی پیتی کے بارہ ماسے میں ملی جلی زبان کا استعمال ہوا ہے۔
دکن میں شعرا نے بکثرت ہندی الفاظ تراکیب تلمیحات استعمال کی ہیں۔
شاہ تراب کے منا چے اشکوک وغیرہ بھی مشترک زبان کی شاعری نمونہ ہیں۔
انیسویں صدی کی ابتدا سے ہندی اردو دونوں کی موجودہ قسم کی شاعری و نثر نگاری کا آغاز ہوا۔
فورٹ ولیم کالج کی کتابیں مشترک زبان میں دونوں لکھا دنوں میں شائع ہوئی تھیں۔ ہندی شاعروں نے کچھ اس طرح کی شاعری شروع کی ۔ ایودھیا سنگھ لہری اودھ کے اشعار دیکھئے ۔
بوند گر تے دیکھ کر یوں مت کیو۔ آنکھ تیری گرد گئی یا ل۔
جو سمجھتے ہونہیں تو جب رہو۔ کرکری اس آنکھ میں ہے پڑگئی۔
آج ۔۔کچھ اس طرح کی زبان بھی استعما ل کررہے ہیں۔
زمیں بولتی نہ آسما ں بولتا۔ جہاں دیکھ کر مجھے نہیں زبان کھولنا۔
آج ساقی کو پلا ئی جائے بس یہی اس کو سزا دی جائے گی۔
اور اردو میں بھی شاعری کچھ اس طرح ہوتی ہے۔
سمند ر ہے تیرا میرا پیار۔ میں ہوں شبنم تو چاندنی کی پھوار۔
میرے گیسوں کے موہن مکھڑے تیری جھانجھ کی مدھ بھری جنکار۔
دیکھ وہ گھر رہی ہے کالی گھٹا۔ ڈار اس پیڑپر تو جھولا ڈار۔
آج کچھ لوگ اردو ہندی کو ایک دوسرے کا مد مقابل بنا کر ان میںجھگڑا پیدا کر رہے ہیں۔ آزادی کے بعد ہندوستان میں ہندی کو سرکاری زبان بنادیا گیا اور اردو کی پہلی حیثیت ختم سی کردی گئی ۔ کٹر پنتھی لوگ۔جوتعصب کی عینک لگا کر ہر شے کو ہند و مسلم تفریق کی نگاہ سے دیکھے ہیں۔ اردوکو صرف مسلمانوں کی غیر ملکی مصنوعی وغیرہ زبان کہہ کر اسے مٹانے کے درپے ہیں۔ ایسی ہندی کو فروغ دینے کے لئے کوشں ہیں جس میں سنسکرت الفاظ کی بھر مار ہو۔
فلموں میں بیشتر شعرانے چاہے ہندی کے ہنوی چاہے ارد و کے عام فہم مشترک زبان میں گیت نگاری کی سعی کی ہے۔ لیکن کچھ لوگوں نے ایسی جذباتی زبان استعمال کی ہے کہ جن کو عام انسان سمجھ نہیں پاتا ۔پریم سری بھری آپ ہمیں آویش۔۔کریں تو ہم پیار کاسری گنیش کرو۔
ترے چکشو مدھ کے پیالے ہیں۔ وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔
لیکن فلموں میں ایسے ہی گیت مقبول ہوئے جو عام فہم عوامی زبانوں میں تھے۔اردو شاعر ایسے بھی گیت لگتا ہے۔
یہ دھرتی یہ جیون ساگر۔ یہ سنسار ہما راہے۔
دکھ بندھن کٹ جائیں گے۔ سکھ کا سندیسا آئے گا۔
مٹی اب سونار گلے گی۔ باد ل رین برسائے گا۔
محنت پر ہے جس کا بھروسہ محنت کا پھیل پائے گا۔
یہ دھوتی یہ جیون ساگر یہ سنسار ہماراہے
پگھلا ہے سونادورگگن پر پھیل رہے ہیں شام کے سائے
خاموشی کچھ۔بول رہی ہے۔ بھید انوکھے کھول رہی ہے۔
پنکھ بکھیرے سوچ میں گم ہیں۔ پیڑ کھڑے ہیں سیس نوائے۔ پگھلا ہے سونا ۔
ایسی بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ جن سے اردو ہندی کی یکسانیت مماثلت ثابت ہوجاتی ہے۔ رسم خط کچھ قواعد زبان ۔ کچھ الفاظ وغیرہ کی تفریق کے علاوہ دونوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔
ہمیں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جب بلا مذہبی یا علاقائی تفریق۔ لوگوں کے اردو اور ہندی دونوں میں شعر و ادب تخلیق کیا ہے۔
اردو میں بے شمار غیرہ مسلم شعرا ۔ ادبا۔ آپ بیتی نگار۔ سفرنامہ نگار۔ ناول افسانہ ۔ ڈرامہ نگار۔ تحقیق و تنقید نگار اور ادب کے شعبوں کے خدمت کاروں کی تخلیقات ملتی ہیں اور کئی مسلم ہندی میں لکھتے نظر آتے ہیں۔ اور کئی ادبی شخصیتیں دونوں زبانوں میں ملتی نظر آتی ہیں ۔ پریم چند نے دونوں زبانوں میں لکھاراہی ۔۔۔دونوں زبانوں میں لکھا۔ مہابھارت بھی لکھی اور دیگر چیزیں بھی۔
ان تمام مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہندی اور اردو نوں کی اصل ایک ہے۔ دونوں کی لسانیات بنیاد ایک ہے۔ دونوں ہنر آریائی خاندان کی زبانیں ہیں۔ ان کی بناوٹ میں یکسانیت ہے۔ مزاج و تہذیب میں یکسانیت ہے۔ فرق صرف رسم خط۔ نجی الفاظ۔ و اصطلاحات وادبیات وغیرہ میں ہے۔ بول چال میں یکسانیت ہے۔ ادبیات میں ہم آہنگی ہے۔

Leave a Comment