مائینارٹیز ٹریننگ سینٹر اور شعبہ عربی و فارسی ،الہ آباد یونیورسٹی کے اشتراک سے ’’اسلامک آرٹ اینڈ آرکیٹکچر ‘‘عنوان سے لیکچر کا انعقاد
الہ آباد(اسٹاف رپورٹر)الہ آباد یونیورسٹی کے مائینارٹیز ٹریننگ سینٹر اور شعبہ عربی و فارسی نے مل کر ایک لیکچر کا انعقاد کیا ۔جس کا عنوان ’’ اسلامک آرٹ اینڈ آرکیٹکچر ‘‘ تھا۔مقرر خاص کی حیثیت سے پروفیسر جی۔ایس ۔خواجہ نے شرکت کی ۔شعبہ کی سربراہ اور مائینارٹیز ٹریننگ سنٹر کی کو آرڈینیٹر ڈاکٹر صالحہ رشید نے مہمانوں کا استقبال کیا اور لکچر کے موضوع پر روشنی ڈالی۔پروفیسر جی۔ ایس ۔خواجہ کا تعارف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ موصوف نے انسائیکلوپیڈیا آف اسلامک آرکیٹکچر،تین جلدوں میں لکھا ہے اس کے علاوہ آرکیٹکچر پر آپ کی چار کتابیں ہیں جو بی۔ آرک۔کے نصاب میں شامل ہیں۔وہ نیشنل میوزیم، رام پور رضا لائیبریری اور دی انسٹیٹیوٹ آف آرکیالوجی ، دہلی کی ایکزیکیٹو کائونسل کے رکن ہیں۔انھوں نے سعودی عربیہ، ایران، افغانستان اور سیریا وغیرہ ممالک میں فن خطاطی کی نمائش میں ہندوستان کی نمائندگی بھی کی ہے۔خواجہ غلام السیدین نے اپنی تقریر کے دوران کہاکہ اسلام نے ایسے علوم و فنون ہندوستان کو دئے جن کا تعلق مہذب دنیا سے ہے۔زبان، فلسفہ، مذہب، اچھی رسومات ، شاعری، موسیقی، خطاطی، قالین بافی، شیشہ سازی، جلد بندی اور نہ جانے کتنے فن۔تعمیرات میں گنبد،طاق اور میناریں دیں۔شاہان خلجی جب ہندوستان آئے تو انھیں عبادت کے لئے مسجد کی ضرورت پڑی۔وہ اپنے ساتھ انجینیر تو لائے تھے پر معمار ہندوستانی تھے۔اسی لئے جب پہلی مسجد قوت الاسلام تعمیر ہوئی تو اس میں ہندوستانی آرٹ نمایاں ہے۔جو مندر کا آرکیٹکچر تھا وہ نادانستہ طور پر مسجد کی تعمیر میں شامل ہو گیا۔اسلامی فنون نے ہندوستان کو آرائش کے اسباب مہیا کرائے۔ سیدھی سپاٹ ستونوں اور چھتوں کی جگہ محرابیں اور مقرنس نظر آنے لگے۔آگے چل کر ہندوستانی کمل کا پھول عمارتوں کی آرائش و زیبائش کا حصہ بنا۔اس طرح آپس میں خلط ملط ہو کر ایک بے انتہا خوبصورت فن تعمیر وجود میں آیا جس کی بہترین مثال ہمایوں کا مقبرہ اور تاج محل ہیں۔ان کی خوبصورتی اور دلکشی میں اضافہ فن خطاطی نے کیا ۔عمارتوں کی پیشانیاں ،ستون ، دروازے، چھتیںخطاطی کے بہترین نمونوں سے مزین کئے جانے لگے۔خواجہ غلام السیدین کے مطابق جو قومیں تہذیب یافتہ ہیں ، ان کے ہر کام میں ان کا عکس نظر آتا ہے۔اسلامک آرٹ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں سلیقہ جھلکتا ہے اور یہ متناسب ہے۔اسی لئے بیحد دلکش ہے۔ ڈاکٹر صالحہ رشید نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ اتنی عظیم الشان تہذیب خاموشی سے برباد ہو رہی ہے اور کوئی اس کا مرثیہ خواں نہیں ہے۔نئی نسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بیش قیمت ورثہ کی حفاظت کرے۔اس جلسے میں مائینارٹیز ٹریننگ سنٹر اور شعبہ عربی و فارسی کے اساتذہ و طلبا کے علاوہ ڈاکٹر نزہت ، حمیدیہ گرلز ڈگری کالج، ڈاکٹر حفیظ راجرشی ٹنڈن اوپن یونیورسٹی اور دیگر شعبوں کے طلبا نے شرکت کی۔فلم اینڈ تھئیٹر ڈپاٹمنٹ نے پروگرام کے انعقاد میں خصوصی تعاون پیش کیا۔