صغیر افراہیم کے برسوں پرانے افسانوں کو پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ اُن کی ذہنی پرورش ایک نیم متوسط خاندان کے کیپسول میں ہوئی۔افراد خانہ پڑھے لکھے روشن خیالی سے معمور ان کے تشکیلی دور میں اُن کی رہنمائی اور پذیرائی کے لیے موجود تھے۔ یہ ساز گار ماحول اُن کے ادبی شعور کو جگانے اور تخلیقات کو صیقل کرنے میں معاون ہوا۔ تو اُن کے افسانے اسی کیپسول میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ پھر پھیل کر کیپسول کو توڑتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بڑے کیپسول آفتاب ہال میں (بہ لفظِ دیگر علی گڑھ کا وسیع ادبی معاشرہ) اُن کے افسانے تکمیل کے مراحل طے کرتے ہیں۔ یہاں کیپسول تو وہی تھا مگرSemi-feudalحصار ابھی تک مکمل طور پہ ٹوٹا نہیں تھا آثار باقی تھے۔ اساتذہ میں خلیل الرحمن اعظمی اور قاضی عبدالستار دو ایسے تخلیق کار دانشور موجود تھے جن سے طلباء کا ایک بڑا ادبی گروہ متاثر تھا۔ صغیر افراہیم بطور خاص قاضی عبدالستار سے متاثر تھے۔ بہر حال تقریباً چالیس پچاس سال قبل ایک حسّاس نوجوان جس نوع کے افسانے خلق کر سکتا تھا ویسا ہی کیا۔ نیم رومانی اور نیم حقیقت پسندی کی آمیزش سے افسانے رقم کیے۔ بیشتر افسانے خواتین کی بے چارگی، زن و شو کے رشتے، عورتوں کی منزلت اور مرتبت کے گرد گھومتے ہیں۔مرد کردار جہاں بھی وارد ہوتے ہیں راکشش نظر آتے ہیں۔ حالانکہ اس وقت تک اردو ادب نے تانیثیت اورWomen empowermentجیسے موضوعات کی نشان دہی نہیں کی تھی۔ مرد اساس سماج کا تذکرہ ضرور تھا۔
صغیر افراہیم کے ان افسانوں کی بُنت، مرصع اور غیر مرصع زبان کی آمیزش، پلاٹ کے اچنبھے پن قابل توصیف تو ضرور ہیں مگر کم عمری کی چھاپ اور تقلیدی عناصر اُن کے اسلوب اور تکنیکی طرز کار اُن کے فن پاروں پر اپنی پرچھائیاں ضرور چھوڑ تے دکھائی پڑتے ہیں۔ مگر یہ کوئی غیر فطری نہیں ہیں بلکہ تشکیلی دور کے مظاہر ہیں۔ ان سے کسی فن کار کو مفر نہیں۔ بہر حال اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اُن کے افسانوں کے دو اہم صفات ہیں۔ موضوعات کا تنوع اور اختصار۔ اس دور کے جن موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے وہ سلگتے موضوعات تھے۔ جن کے مسائل آج بھی حل طلب ہیں۔ گویا ان کی معنویت ہنوز برقرار ہے۔ اختصار کا یہ عالم ہے کہ افسانے ڈیڑھ دو پنّوں میں اکثر سمٹ گئے ہیں۔ مگر قاری کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ بات نا مکمل رہ گئی۔ ان کے یہاں بھلے ہی کوئی ہیئتی تجربہ یا اسلوبیاتی انفراد نہ رہا ہو مگر فکری تہ رسی اور سماجی مسائل کی سمجھ کا فقدان نہیں۔ سماجی بالخصوص نسائی مسائل سے اُن کا سروکار اُس زمانے میں بولڈ سمجھا جانا چاہیے۔ بعد کو بھلے ہی تانیثی ادب کے رہ روایان نے ان افسانوں کو در خور اعتنا گردانا ہو مگر پہل تو پہل ہوتی ہے۔’’نیا راستہ‘‘، ’’جگ سُونا تیرے بغیر‘‘، ’’گھر جنّت‘‘، ’’خوابیدہ چراغ‘‘ جیسے افسانے اس رجحان کی نمائندگی کرتے ہیں۔دیگر افسانوں میں کچھ افسانےHeart touchingہیں۔ ان دل چھو لینے والی تخلیقات میں ’’بے نام رشتہ‘‘ اور ’’منزل‘‘ایسے ہی افسانے ہیں۔ ’’بے نام رشتہ‘‘ میں لاجو ایک مزدور پیشہ عورت ہے جس کو ایک بس کچلتی ہوئی چلی گئی۔ فرقان تیزی سے دوسری طرف بھاگا۔ راہ گیر عورت نے نیم بے ہوشی کی حالت میں اسے ایسے دیکھا کہ وہ بے قرار ہو گیا۔ وہ اُسے آپریشن تھیٹر لے گیا۔ داہنا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ جب اُسے ہوش آیا تو اُس نے سب سے پہلے فرقان کو دیکھا اور اپنا بایاں ہاتھ اُس کے سر پہ پھیرا۔ فرقان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں۔وہ اسپتال میں بلا ناغہ لاجو کی تیمار داری کرتارہا۔ آفس کے لوگوں میں طرح طرح کی چہ مگوئیاں تھیں۔ اب اس کی کرخت مزاجی خوش مزاجی میں بدل گئی تھی۔ لاجو اچھی ہو گئی۔ فرقان اُسے گھرلے گیا۔ ایک رفیق کار نے کہا ’’عورت کو گھر میںجگہ دینا دل میں نہیں۔‘‘انداز تکلم مضحک آمیز اور طنزیہ تھا۔ فرقان تلملا گیا۔ ’’دل خود ایک گھر ہے، اپنی تڑپتی ماں کو وہ نہ بچاسکا تھا۔ لاجو کو پاکر اسے ایسا لگا کہ اُس نے اپنی تڑپتی ماں کو بچا لیا۔‘‘
افسانہ ’’منزل‘‘ ایک Alcohalicکی کہانی ہے۔ باپ نشہ خور تھا۔ اس لت نے اسے ختم کر دیا۔ بیٹا مکینک بن گیا۔ وہ بھی بری عادت کا شکار ہوا۔ ماں اُسے روکتی، ٹوکتی گزر گئی، ماں کی موت نے اُسے بہت رُلایا۔ ندامت کی آگ میں جھلس کر بد حواسی میں خود کشی کو اپنی منزل مان لیتا ہے۔ ’’میں اپنی زندگی کا مالک ہوں جب چاہے اسے مٹا سکتا ہوں۔‘‘ وہ پُل سے چھلانگ لگانے ہی والا تھا کہ کسی کے ہاتھوں نے اس کا دامن تھام لیا۔ ایک ننھی سی بچی پریشان اُسے ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی۔کیا بات ہے۔ اس نے سرخ آنکھوں سے اُسے دیکھا۔ اُس کے لہجے میں کڑواہٹ تھی۔ لڑکی سہمے ہوئے انداز میںبولی ’’بھوک لگی ہے بابا‘‘۔ لبوں پر لفظ بابا کی فریاد نے اُسے خود بابا کے دو زانوپر بٹھا دیا۔‘‘۔ انجانے میں اس کا ہاتھ امینہ کے سر پہ چلا گیا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔۔۔۔۔۔ مسجد کی میناروں سے مغرب کی اذان بلند ہوئی۔ امینہ کی بھولی بھالی باتوں نے اسے یک لخت سکون بخش دیا۔ اس نے دائیں جانب نظر اٹھائی۔ آم کے باغ میں بور آیا ہوا ہے۔ اس نے سوچا اللہ کے کرم سے فصل اچھی۔۔۔۔۔بہت اچھی ہوگی‘‘ قلب ماہیت یا کتھارسس کا عمل یہی کہلاتا ہے۔ ان دونوں افسانوں میں ’ماں‘ ہی وہ ہیروئن ہے جو سبب بنتی ہے بچوں کے قلبی Transformationکا۔ تانیثیت شاید ماں/ عورت کی اسی قوت کا نام ہے۔ اس قوت کو بلا تخصیص مرد و زن سبھی رائٹرز نے اپنے فن کا حصہ بنایا ہے۔ مطلب یہ کہ صرف خاتون رائٹرس کا اس موضوع پر قلم اٹھانا ضروری نہیں بلکہ تانیثیت کے مہاروں میں مرد قلم کار بھی یکساں طور پہ شامل ہیں۔ صغیر افراہیم کے یہ دونوں افسانےMotherhood forceکی مثالیں ہیں۔ ایسی فلمیں بھی ہمیں گاہے گاہے دیکھنے کو مل جاتی ہیں جن کے ڈائریکٹر اور پروڈیو سر مرد ہوتے ہیں۔ محبوب کی ’’مدر انڈیا‘‘ بھی ایسی ہی ایک فلم تھی۔ آج T.V.سیریل (saps)جو بیشتر فیملی ڈرامے ہوتے ہیں ان میں Women empowermentکو سبقت حاصل ہے۔ صغیر افراہیم بیس تیس برس پہلے بھی غیر شعوری طور پہ ایسے افسانے رقم کر رہے تھے۔ ممکن ہے وہ ایسی فلموں سے بھی متاثر رہے ہوں۔
متفرق موضوعات پر بھی جو افسانے خلق ہوئے ہیں کم و بیش آج کے مسائل کو ہی نشانے پر رکھا ہے۔ مثلاً ’’وہ اچھا لڑکا نہیں ہے‘‘اس افسانے میں وہ لڑکانشہ آور دواؤں کے اسمگلروں سے بھڑتا نظر آتا ہے۔ جب کہ اچھا لڑکا اس برائی کی بیخ کنی کے بارے میں سوچتا بھی نہیں۔ یہ ہمارے سماج کی hipocricyپر گہرا طنز ہے۔ اچھائی اور برائی کی تعریف (Definition)مطلق نہیں ہو سکتی ہے۔ بلکہ یہ اضافی یا نسبتی(Relative)ہے۔ مثلاً Aکے لیے Bبرا ہو سکتا ہے مگر C کے لیےBا چھا ہو سکتا ہے۔قدروں کیABCکو بھی صغیر افراہیم نے اپنے افسانوں میں ملحوظ رکھا ہے۔ ایک اور افسانہ ’’شجر سایہ دار‘‘ قابلِ ذکر ہے۔ ہر چند کہ نیم کے پیڑ کی چھاؤں اتنی گھنی نہیں ہوتی جتنی کہ برگد، پیپل، پاکر یا مہوے کے پیڑ کی ہوتی ہے۔ حقیقت جو بھی ہو یہ ایک استعاراتی افسانہ ہے۔ جس میں نیم کے پتوں، شاخوں اور جڑوں کے طبی فوائد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ شجر سایہ دار بالکل ہی نہیں ایس بھی نہیں۔ پیڑ ہے تو چھاؤں بھی ہے۔ ’’کوٹھی کے گیٹ کے برابر کھڑا بلند و بالا نیم کا پیڑ کاٹا گیا تو مجھے یوں لگا جیسے شہر میں قتل کی واردات ہو گئی ہو۔ اور ہمارے سر سے کسی بزرگ کا سایہ اٹھ گیا ہو۔ یہ المیہ صرف کہانی کی شہہہ کردار کا ہی نہیں بلکہ ہمارے اطراف کا بھی ہے۔ افسانہ نگار نے لا شعوری طور پر Eco-balanceکی طرف اشارہ کر دیا ہے۔ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ درخت نہ کاٹے جائیں اور شجر کاری کا اہتمام کیا جائے۔ نیم کا پیڑ گھر کا ایک بزرگ فرد تھا۔ رضیہ کی ساس کو یہ احساس تھا۔شوہر کے جانے کے بعد نیم کا پیڑ ہی اُس کے سر پہ سایہ کی مانند تھا۔ اُس کا کٹنا دل کا کٹنا تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔ امریکہReturnedاُس کے لڑکے نے اُسے کٹنے نہ دیا۔ رضیہ نے صرف تجویز پیش کی تھی۔ نیم کے پیڑ کے کٹنے کو اپنے ذہن میں قتل کی واردات کے مترادف سمجھ بیٹھی تھی۔ افسانے کے اختتام سے یہ لگتا ہے کہ صغیر افراہیم نے یہ افسانہ آل انڈیا ریڈیو کی فرمائش پر لکھا ہوگا کیونکہ سنجے گاندھی کے s-pointپروگرام میںafforestatia(شجر کاری)کا ایک مُدّا یہ بھی تھا۔ مگر اس افسانے کو پڑھتے ہوئے کسی پروپیگنڈے کا احساس نہیں ہوتا۔ یہی افسانے کی کامیابی ہے۔
ایک بہت نیا اور اچھوتا خیالMotel cultureیا مقامی اصطلاح میں ڈھابہ کلچر سے متعلق ہے۔ زرّے سے لے کر آفتاب تک افسانہ کسی موضوع پر لکھا جا سکتا ہے۔ تو شاہراہوں پر speed breakrersکی مانند اُٹھے ڈھابہ کلچر پر کیوں نہ لکھا جائے۔ کئی ڈھابے ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں کھانے پینے کے علاوہ عیش و عشرت کے سامان بھی ہوتے ہیں۔ حبّومیاں نے ڈھابے کی مالکن حمیدہ کے ساتھ شادی رچا رکھی تھی۔ مگر حمیدہ کی پہلوٹی بیٹی شادی کے تین ماہ بعد ہی تولد ہوئی۔ بقیہ اولاد بھی کچھ ایسے ہی دنیا میں آئیں۔ حبّو میاں حمیدہ کی محبت میں گرفتار رشتہ بنھاتے رہے مگر سدھر نے کی کوئی صورت نہ دیکھ کر اپنے شہر واپس آگئے۔افسانہ نگار نے Marriage Institutionکی لایعنیت پر نشانہ سادھا ہے۔ برٹنڈرسل نے بھی شادی کو Contract Prostitutionکہا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں اب اس کی بھی کوئی قید نہیں۔Living togetherکا تصور عام ہے۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ نے بھی اسے تسلیم کر لیا ہے کہ ایسے رشتوں سے تولد شدہ بچے بھی والدین کی ملکیت کے وراثین ہوں گے۔ ’’سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے‘‘، حمیدہHigh way cultureکی ایک نمائندہ کردار ہے جو منفی نتائج سے دو چار ہوتی ہے۔Moral Degenerationحبّو میاں کے معاشرے کے لیے بہت سارے سوالات کھڑا کرتا ہے۔
اسی طرح ’’بے بسی کی قطار‘‘آج بھی بے رحم دیوار کی طرح کھڑی ہے۔ اسے مسمار کرنا ہمارے بس کا نہیں۔ ’’سفر ہے شرط‘‘ پیام حیات ہے۔ عموماً ریٹائر منٹ کے بعد سبکدوش شخص خود کو بے کار محض سمجھنے لگتا ہے۔ صغیر افراہیم نے اپنے اس افسانے میں سبکدوشی کو زندگی کی دریافتِ نو(Rediscovery) کا سنہرا موقع قرار دیا ہے۔تیس چالیس برس ملازمت کو زندگی دی، اب زندگی کو زندگی دینے کے حسین لمحات میسر آئے ہیں۔ اس کا استقبال مسکراہٹوں سے ہونا چاہیے۔ وہ ساری مسرتیں اور تمنائیں دقتِ وقت کی بنا پر جو پوری ہونے سے رہ گئیں ہوں انھیں پوری کرلینا چاہیے۔ چند افسانے ایسے بھی ہیں جنھیں ہم Pessimistic(قنوطی) کہہ سکتے ہیں۔ مثلاً ’’نیا راستہ‘‘ جو بظاہر خود کشی کی ترغیب دیتا ہے مگر ختم رجائی نوٹ پہ ہوتا ہے۔ ’’ہار جیت‘‘ میں زن و شوہر کے درمیان جھگڑے اور تنازعات کے نتیجے میں بچوں کی Custodyکے مسائل زیر بحث آتے ہیں۔ یہاں بھی بیوی کو Custodyملتی ہے اور شوہر شکست خوردہ اور مفتوح نظرآتا ہے۔ کم و بیش ہر افسانہ کوئی نہ کوئیSocial Massageضرور رکھتا ہے۔ شاید وہ اپنی افسانوی تحریر میں \”Medium is the Message\”کے قائل ہیں۔ کسی نظریاتی دباؤ یا حاوی رجحان کی پیروی نہیں کرتے۔ برسوں پہلے لکھے گئے ان نیم رومانی اور نیم اصلاحی افسانوں کو مصنف کا غیر مشروط رویہ آج بھی انھیں تازہ اور Releventبنائے رکھنے کی قوت عطا کرتا ہے۔
صغیر افراہیم تحقیق و تنقید کے میدان میں اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ اعتبار و معیار کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔ سمیناروں میں اُن کی شمولیت کا اعلان سمینار کی کامیابی کو یقینی بنانے کا امکان پیدا کرتا ہے۔ افسانوں اور دیگر اصناف ادب پر ان کی کتابیں ایک سے زیادہ ایڈیشنوں کو پار کر چکی ہیں۔ نصابی اور درسی کتابوں کا بھی یہی حال ہے۔ افسانہ نگاری کاTagاب اُن کی ادبی شخصیت کے لیے باعث افتخار و اعجاز نہیں وہ تو بس یونہی——ان کی محبت میں:
نہ تجھ کو دیکھتے ایک شب خراماں
نہ ہوتے اس قدر دلدادۂ شب
یعنی ’’میری اہلیہ ڈاکٹر سیما صغیر جنھیں میرے افسانے (نوجوانی سے) پسند ہیں۔ شاید ان کے تانے بانے ماضی کی بازیافت میں معاون ہوتے ہیں اور خوشگوار جھونکوں کا احساس دلاتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے ان کو یکجا کرکے میری رسوائی (سرخ روئی) کا سامان مہیا کر دیا ہے۔ لیکن اس رسوائی پر بھی ناز ہے کہ شریکِ سفر کو میری یہ افسانوی تحریریں پسند ہیں۔‘‘Hats off to \’inspirer\’ اور صغیر صاحب کو اس دفینے کی بر آمدگی کی ڈھیر ساری بدھائیاں۔
انیس رفیع
Ex Director, Door Darshan
AH-141, Salt Lake
Kolkata, 700091
Ph. 9432646374
OO