افسانہ’’بڑے گھر کی بیٹی ‘‘ایک تجزیاتی مطالعہ

٭ڈاکٹر محمد محسن
کروڑی مل کالج، یونیورسٹی آف دہلی، دہلی
پریم چند نہ صرف اردو کے بنیاد گزار افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں بلکہ وہ اردو افسانے میں حقیقت نگاری کے بھی موجد کہلاتے ہیں ۔ ان کا پہلا افسانہ ’’ دنیا کا سب سے انمول رتن ‘‘ ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے اردو کو لاتعداد افسانے دیے ۔ ان کے افسانوں کی فہرست کافی طویل ہے ۔ افسانوں کی اس فہرست میں ان کا ایک طویل افسانہ ’’ بڑے گھر کی بیٹی ‘‘ ہے ۔ یہ افسانہ کسی تحریک یا ازم کی وکالت نہیں کرتا بلکہ اس افسانے میں افسانہ نگار اصلاحی پیغام دیتا ہوا نظر آتا ہے ۔ عام طور پر بڑے گھر کی لڑکیوں کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے خیالات ہوتے ہیں ۔ لوگ ان کو کھلے ذہن ، ماڈرن اور اسی طرح کے دوسرے ناموں سے یاد کرتے ہیں ۔ البتہ پریم چند نے اس افسانے کے ذریعے بالکل اس کے برعکس دکھانے کی کوشش کی ہے ۔ اس افسانہ میں افسانہ نگار نے ’’ مادھو سنگھ ‘‘ نامی کردارجو کہ ایک گائو ں گوری پور کا نمبر دار ہونے کے ساتھ ساتھ وہاں کا ایک بڑا زمیندار بھی ہے ۔ ان کے دو بیٹے ہیں ایک ’’ سری کنٹھ ‘‘ اور دوسرے ’’ بہادر سنگھ ‘‘ ۔ دونوں پڑھے لکھے تھے البتہ دونوں کا مزاج ایک دوسرے سے مختلف تھا ۔ سری کنٹھ انگریزی معاشرت کے بجائے گائوں اور دیہات کی زندگی کو زیادہ پسند کرتے تھے جبکہ لال بہادر سنگھ جو چوبیس گھنٹے آیور ویدک دوائوں کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے میں لگے رہتے تھے ۔
سری کنٹھ کی شادی گائوں کی ایک امیر زادی سے ہو گئی ۔ جو عالی شان محل میں رہنے کی عادی تھی ۔ جن کے گھر میں ہاتھی ، گھوڑے ، سپاہی ، شکاری کتے ، ملازم وغیرہ سب کچھ میسر تھا ۔ وہ اپنے باپ کی چوتھی بیٹی تھی ۔ اس کی تین بہنوں کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہو چکی تھی ۔ اس کی شادی بھی اسی زور و شور سے ہوئی ۔ البتہ اس وقت آنندی کے والد اس تذبذب میں تھے کے کہیں قرض کا بوجھ بڑھنے یا کسی مجبوری کے باعث ’’ آنندی ‘‘ اپنے آپ کو بد قسمت نہ سمجھے ۔ آخر کار عالی شان محل میں پلنے والی آنندی کی شادی جس گھر میں ہوئی اس کا نقشہ افسانہ نگار نے کچھ اس طرح ابھارا ہے ؛
’’ آنندی دیوی اپنے نئے گھر آئیں تو یہاں کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہی دیکھا ۔ جن دلچسپیوں تفریحوں کی وہ بچپن سے عادی تھی ان کا یہاں وجود بھی نہ تھا ۔ ہاتھی گھوڑوں کا کیا ذکر کوئی سجی ہوئی خوبصورت بلی بھی نہ تھی ۔ریشمی بیلیں ساتھ لائی تھیں مگر یہاں باغ کہاں ۔ مکان میں کھڑکیاں تک نہ تھیں ۔ نہ زمین پر فرش ، نہ دیواروں پر تصویریں ۔ یہ ایک سیدھا سادھا دہقانی مکان تھا ۔ ‘‘
(افسانہ:بڑے گھر کی بیٹی )
اگر چہ سری کنٹھ کے گھر میں وہ سب چیزیں میسر نہ تھیں لیکن ان کا گھر خوشحال تھا ۔ غم کی اس گھر میں کوئی جگہ نہ تھی پورے گائوں میں یہ گھرایک مثال کی طرح تھا البتہ اس گھر میں اس وقت طوفان آیا جب لال بہادر سنگھ دو مرغیاں لے کر آیا اور اپنی بھابی یعنی سری کنٹھ کی بیوی کو ان کو پکانے کے لئے کہا ۔ اور جب کھانا تیار ہوا تو دال میں گھی نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی بھابی کے ساتھ لڑنے کے لئے تیار ہو گیا ۔ یہ لڑائی اس حد تک بڑھ گئی کہ لال بہادر سنگھ نے کھڑائو اٹھا کر بھابی کے اوپر زور سے پھینکی اور اچھی خاصی تلخ کلامی بھی ہوئی ۔ آنندی دیوی کا شوہر یعنی سری کنٹھ شنبہ کو اپنے گھر آیا تو باپ اور بھائی نے بہو کے طور طریقے اور زبان درازی کے بارے میں شکایت کی ۔ لال بہادر سنگھ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ؛
’’ لال بہاری ۔ وہ بڑے گھر کی بیٹی ہیں تو ہم لوگ بھی کوئی کرمی کمہار نہیں ہیں ۔
سری کنٹھ ۔ آخر بات کیا ہوئی ؟
لال بہاری ۔ کچھ بھی نہیں ، یوں ہی آپ ہی آپ الجھ پڑے ۔ میکے کے سامنے
ہم لوگوں کو تو کچھ سمجھتی ہی نہیں ۔‘‘
(افسانہ : بڑے گھر کی بیٹی )
لال بہاری کی باتیں سن کر جب سری کنٹھ ’’ آنندی ‘‘ کے پاس آیا اور پھر اسے اس واقعے کے بارے میں پوچھا اور انہوں نے اس کا جو قصہ سنایا اس کو سن کر سری کنٹھ آگ بھگولہ ہو گئے ۔ وہ لال بہاری کی کھڑائوں پھینکنے والی حرکت پر سخت ناراض ہوا اور مادھو سنگھ جو کہ اس کا باپ ہے، اس کے پاس جا کر کہا کہ ’’ میں اس گھر میں نہیں رہ سکتا ہوں ۔‘‘ جہاں عورتوں کی عزت نہ ہو ۔ اس گھر میں یا تو اب میں رہوں گا یا لال بہادر سنگھ رہے گا ۔ میں آج سے اس کو اپنا بھائی نہیں مانتا ہوں ، مجھے اس سے نفرت ہو گئی ہے ۔ اس کا چہرہ بھی میں آج سے نہیں دیکھنا چاہتا ہوں ۔ اگر چہ باپ نے سری کنٹھ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسا مت کہو ۔ گھروں میں یہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ گھر چھوڑ کر چلے جائو گے یا اپنے بھائی کو گھر چھوڑنے کے لئے مجبور کرو گے۔ آخر کار وہ تمہارا چھوٹا بھائی ہے ۔ لیکن سری کنٹھ ایک بھی نہ مانا اور یہ معاملہ اتنا گرم ہوا کہ ان کے پڑوسی بھی گھروں سے باہر نکل کر ان کی باتیں سننے لگے ۔ الگ الگ بہانے کر کے لوگ ان کے پاس آنے لگے تا کہ ان کی باتیں قریب سے سن سکیں ۔ دراصل وہ اس گھر کی تباہ حالی پر اندر ہی اندر خوش ہو رہے تھے لیکن مادھو سنگھ لگا تار کوشش کرتا رہا کہ وہ کسی بھی صورت میں پڑوسیوں کو خوش ہونے نہیں دے گا ، وہ اپنے گھر کو برباد نہیں ہونے دیں گے ۔ البتہ اس کا اپنے بیٹے کے سامنے کچھ بھی نہ چل پایا پھر جب لال بہاری نے بھی اپنے بھائی کو اس طرح کہتے ہوئے سنا تو وہ گھر چھوڑنے کے لئے تیار ہو گیا ۔ وہ اپنے بھائی کو جواب میں کچھ بھی نہ کہہ سکا کیونکہ وہ ان کا بے حد احترام کرتا تھا ۔ لہذا، اس نے بنا کچھ کہے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور روتے روتے اپنی بھابی کے کمرے کے دروازے پر آکر کہنے لگا ؛
’’ بھابی !بھیا نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ میرے ساتھ اس گھر میں نہ رہیں گے وہ اب میرا منہ نہیں دیکھنا چاہتے ، اس لیے اب میں جاتا ہوں انہیں پھر منہ نہ دکھائوں گا ، مجھ سے جو خطا ہوئی ہے اسے معاف کرنا ۔
یہ کہتے کہتے لال بہاری کی آواز بھاری ہو گئی ۔‘‘
(افسانہ : بڑے گھر کی بیٹی )
لال بہاری کے آنسوں نے آنندی کو پگھلا دیا ۔ اب اس کو اپنے کئے پر پچھتاوا ہو رہا تھا کہ میں نے سری کنٹھ کو یہ سب باتیں کیوں بتائیں ۔ وہ لال بہاری سے بہت پیار کرتی تھی ۔ وہ اس کو اپنے بھائی کا درجہ دیتی تھی ۔ مگر تھوڑی سی تیز کلامی کی وجہ سے دونوں میں اختلاف ہوا ۔ آنندی کو اس بات کا اندازہ بالکل بھی نہ تھا کہ یہ بات یہاں تک پہنچ جائے گی ۔
لال بہاری جب گھر چھوڑنے کے لئے تیار ہوا تو آنندی ، سری کنٹھ سے کہنے لگی کہ لال بہاری کو روک لو وہ گھر چھوڑ کر جا رہا ہے ۔ لیکن سری کنٹھ بیوی کے کہنے کے باوجود بھی اپنے فیصلے پر قائم تھے ۔ لال بہاری کو جب لگا کہ اس کے بھیا اس کو روکنے سے منع کر رہے ہیں تو وہ گھر سے باہر جانے لگے تو آنندی خود اس کو روکنے لگی مگر وہ نہیں مانے تو آنندی نے اس کو اپنی قسم دی کہ رک جائو مگر وہ یہ کہہ کر چلنے لگا کہ ؛
’’ لال بہاری ۔ جب تک مجھے یہ یقین نہ ہو جائے گا کہ بھیا کے دل میری
طرف سے صاف ہو گیا ہے تب تک میں اس گھر میں ہر گز نہ رہوں گا ۔‘‘
(افسانہ : بڑے گھر کی بیٹی )
آنندی نے پھر ایک بار اور قسم کھا کر کہا کہ میرے دل میں تمہارے لئے کوئی میل نہیںتم رک جائو ۔ لیکن وہ پھر بھی نہ رکا ۔ البتہ جب سری کنٹھ نے دیور اور بھابی کے اس پیار و محبت کو دیکھ لیا تو اس کا دل بھی پگھل گیا اور اس نے اپنا فیصلہ واپس لیا ۔ اس نے لال بہاری کو روک لیا اور پھر اس کو اپنے گلے لگایا ۔ اس طرح یہ خوش حال گھر برباد ہونے سے بچ گیا اور ان پڑوسیوں کے گالوں پر بھی ایک زوردار تماچا لگا جو اس گھر کو برباد ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے ۔
آنندی نے اپنے تجربات سے اس گھر کو برباد ہونے سے بچا لیا کیونکہ وہ ایک بڑے گھر کی بیٹی تھی ۔ صیحح اور غلط میں فرق کرنا جانتی تھی ۔ اس طرح یہ واقع پورے گائوں میں پھیل گیا کہ بہو نے مادھو سنگھ کے گھر کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچا لیا ۔ آنندی نے اپنے عقل کے ذریعے ان لوگوں کے ذہنوں میں ایک ایسی مثال قائم کی جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ رہ گئی ۔ اور جس کا ذکر افسانہ نگار نے اپنے افسانے کے آخر میں کیا ہے ۔ جو اس طرح ہے ؛
’’ بڑے گھر کی بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہیں ۔ بگڑتا ہوا کام بنا لیتی ہیں ۔‘‘
گائوں میں جس نے یہ واقعہ سنا ان الفاظ میں آنندی کی فیاضی کی داد دی ؛
’’ بڑے گھر کی بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہیں ۔‘‘
(افسانہ : بڑے گھر کی بیٹی)
اس اقتباس میں ’’ بڑے گھر کی بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہیں ۔ بگڑتا ہوا کام بنا لیتی ہیں ۔‘‘ یہ بہت ہی جاندار سطر ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ پورے افسانے کی روح ہے ۔
اس افسانے کی ماہیت کو مانتے ہوئے ڈاکٹر جعفر رضا لکھتے ہیں کہ؛
’’اس میں آنندی نے علاحدگی سے بچنے کے لیے جو طریقہ استعمال کیا ہے، اس سے کردار میں مثالیت اور قلبِ ماہیت کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے ۔ اس سے ڈاکٹر گنگا پرشاد ومل نے نتیجہ نکالا ہے کہ ’’ بڑے گھر کی بیٹی ‘‘ میں مشترکہ خاندان کے سامنتی ڈھانچے کے ٹوٹنے کی علامتیں ہیں ۔‘‘

(پریم چند ؛کہانی کا رہنما ،ڈاکٹر جعفر رضا ،رام لعل بینی مادھو ،۲،کٹرہ روڈ، الہ آباد ،۱۹۴۹،ص۔۲۰۰)
پریم چند ہر افسانہ سماج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے لکھتے ہیں ، اور جس کا بجا طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے سماج کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے تھے ۔ وہ اپنی ہر تحریرکے ذریعے سماج کے بدلنے کا نظریہ پیش کرتے ہیں ۔یہ افسانہ بھی پریم چند کے اسی خیال کی ترجمانی کرتا ہے ۔ ہمارے سماج میں امیروں کو ہمیشہ سے ہی آرام و آسائش کا پیروکار سمجھا جاتا رہا ہے ۔ لیکن یہ لوگ اس بات کو بھول گئے تھے کہ ہر انسان کی فطرت ایک جیسی نہیں ہوتی ۔ پریم چند کا یہ افسانہ اس بات کا ترجمان ہے کہ ہر انسان کی فطرت الگ ہوتی ہے ۔ اچھی تربیت کی پہچان ، زیادہ تر مشکل وقت میں ہی ہوتی ہے اور جس میں ’’آنندی پوری طرح کامیاب ہوئی ۔اور یہ اسی تربیت کا نتیجہ تھا جو اس نے ایک امیر گھر میں پائی تھی ۔

Leave a Comment