افسا نہ نمک کا داروغہ۔منشی پریم چند

\"\"
منشی پریم چند افسانوی ادب کے وہ درخشندہ ستارہ ہیں جس کی چمک رہتی دنیا تک قائم رہنے والی ہے۔ 31 جولائی 1880 کو وارانسی کے لمہی گاؤں میں منشی عجائب رائے کے گھر میں پیدا ہوئے دھن پت رائے عرف پریم چند کو ان کے افسانوں میں شامل حقیقت پسندی کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ خود کہتے ہیں کہ ’’ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو، آزادی کا جذبہ ہو، تعمیر کی روح ہو، زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو۔ جو ہم میں حرکت، ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے… سلائے نہیں، کیوں کہ اب زیادہ سونا موت کی علامت ہوگی۔‘‘ آپ جب پریم چند کے افسانوں کو پڑھیں گے تو اُن کے دور کی حقیقی تصویر آپ کے سامنے آ جائے گی۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی جھلک آپ بخوبی ان کے افسانے ’بڑے گھر کی بیٹی‘، ’عیدگاہ‘، ’شطرنج کی بازی‘، ’پوس کی رات‘ اور ’سوا سیر گیہوں‘ وغیرہ میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں ہم اپنے قارئین کے لیے ان کے شاہکار افسانوں میں سے ایک ’نمک کا داروغہ‘ پیش کر رہے ہیں۔ اس میں چہار جانب پھیلی بدعنوانی اور رشوت خوری کے درمیان ایک نوجوان (جو نمک کا داروغہ ہے) کی فرض شناسی اور بدعنوان عدلیہ کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔ یہ افسانہ موجودہ دور میں بھی اتنا ہی اہم اور معنی خیز معلوم ہوتا ہے جتنا گزشتہ دور میں تھا۔

جب نمک کا محکمہ قائم ہوا اور ایک خدا داد نعمت سے فا ئدہ اٹھانے کی عام ممانعت کر دی گئی تو لوگ دروازۂ صدر بند پا کر روزن اور شگاف کی فکر کرنے لگے۔ چاروں طرف خیانت ، غبن اور تحریص کا بازار گرم تھا۔ پٹوارگری کا معزز اور پر منفعت عہدہ چھوڑ چھوڑ کر لوگ صیغۂ نمک کی برقندزای کرتے تھے اور اس محکمہ کا دروغہ تو وکیل کے لئے رشک کا باعث تھا۔ یہ وہ زنانہ تھا جب انگریزی تعلیم اور عیسائیت مترادف الفاظ تھے۔ فارسی کی تعلیم سند افتخار تھی۔ لو گ حسن اور عشق کی کہانیاں پڑھ پڑھ کراعلی ترین مدارج زندگی کے قابل ہو جاتے تھے۔ منشی دھر نے بھی زلیخا کی داستان ختم کی اور مجنوں و فر ہاد کے قصۂ غم کو دریافت امریکہ یا جنگ نیل سے عظیم تر واقعہ خیال کرتے ہوئے روزگار کی تلاش میں نکلے۔ ان کے باپ ایک جہاندیدہ بزرگ تھے سمجھانے لگے۔’’ بیٹا! گھر کی حالت ذرا دیکھ رہے ہو قرضے سے گر دنیں دبی ہوئی ہیں ، لڑکیا ں ہیں وہ گنگا جمنا کی طرح بڑھتی چلی آرہی ہیں ۔میں کگارے کا درخت ہوں نہ معلوم کب گر پڑوں ، تمہیں گھر کے مالک و مختار ہو۔ مشاہرے اور عہدے کا خیال نہ کر نا ۔ یہ تو پیر کا مزار ہے ، نگاہ چڑھاوے اور چادر پر رکھنی چاہیے ۔ ایسا کام ڈھونڈجہاں کچھ بالائی رقم کی آمد ہو۔ ماہوار مشاہرہ پورنماشی کا چاند ہے جو ایک دن دکھائی دیتا ہے اور پھر گھٹتے گھٹتے غائب ہو جاتا ہے ، بالائی رقم کا بہتا ہوا سوتا ہے جس سے پیاس ہمیشہ بجھتی رہتی ہے۔مشاہرہ انسان دیتا ہے اس لئے اس میں بر کت نہیں ہو تی ، بالائی رقم غیب سے ملتی ہے اس لئے اس میں برکت ہو تی ہے اور تم خود عالم و فاضل ہو تمہیں کیا سمجھاؤں یہ معاملہ بہت کچھ ضمیر اور قیافے کی پہچان پر منحصر ہے۔ انسان کو دیکھو !اس کی ضرورت کو دیکھو، موقع دیکھو اور خوب غور سےکام لو ۔ غرض مند کے ساتھ ہمیشہ بے رحمی اور بے رخی کر سکتے ہو لیکن بے غرض سے معاملہ کرنا مشکل کام ہے۔ ان باتوں کو گرہ میں باندھ لو، میری ساری زندگی کی کمائی ہیں ۔‘‘
بزرگانہ نصیحتوں کے بعد کچھ دعائیہ کلمات کی باری آئی ۔ بنسی دھر نے سعادت مند لڑکے کی طرح یہ باتیں بہت توجہ سے سنیں اور تب گھر سے چل کھڑے ہوئے۔ اس وسیع دنیا میں جہاں اپنا استقلال ،اپنا رفیق، اپنی ہمت ، اپنا مددگار اور اپنی کوشش اپنا مربی ہے۔ لیکن اچھے شگون سے چلے تھے، خوبی قسمت ساتھ تھی ، صیغۂ نمک کے دروغہ مقرر ہوئے مشاہرہ معقول ، بالائی رقم کاکچھ ٹھکانہ نہ تھا ۔ بو ڑھے منشی جی نے خط پایا تو باغ باغ ہو گئے۔ کلوار کی تسکین وتشفی کی سند لی، پڑوسیوں کو حسد ہوا اور مہاجنوں کی سخت گیر یاں مائل بہ نرمی ہو گئیں۔
جاڑے کے دن تھے ۔ رات کا وقت ۔نمک کے برقنداز چوکیدار شراب خانے کے دربان بنے ہوئے تھے۔ منشی بنسی دھر کو ابھی یہاں آئے ہوئے چھ ماہ سے زیادہ ہوئے تھے لیکن اس عرصے میں ان کی فرض شناسی نے افسروں کا اعتبار اور پبلک کی بے اعتباری حاصل کر لی تھی۔ نمک کے دفتر سے ایک میل پورب کی جانب جمنا ندی بہتی تھی اور اس پر کشتیوں کی ایک گزر گاہ بنی ہو ئی تھی۔ دروغہ صاحب کمرہ بند کئے ہوئے میٹھی نیند سو ئے ہو ئے تھے یکا یک آنکھ کھلی تو ندی کے میٹھے سہانے راگ کے بجائے گا ڑیوں کا شور و غل اور ملاحوں کی بلند آوازیں کان میں آئیں ۔ اُٹھ بیٹھے ، اتنی رات گئے کیوں گاڑیاں دریا پار جاتی ہیں ،اگر کچھ دغا نہیں ہے تو اس پر دۂ تاریک کی ضرورت کیوں ؟ شبہ کو استدلال نے تر قی دی۔ وردی پہنی ، طمنچہ جیب میں رکھا اور آن کی آن میں گھوڑا بڑھاتے ہوئےدریا کے کنارے آپہنچے۔ دیکھا تو گاڑیوں کی ایک لمبی قطار زلفِ محبوب سے بھی زیادہ طولانی پل سے اتر رہی ہے۔ حاکمانہ انداز سے بولے۔
’’کس کی گاڑیاں ہیں؟۔‘‘
تھوڑی دیر تک سناٹا رہا، آدمیوں میں کچھ سر گو شیاں ہو ئیں تب اگلے گاڑی بان نے جواب دیا۔
’’ پنڈت الو پی دین‘‘
’’کون الوپی دین؟‘‘۔
’’داتا گنج‘‘
منشی بنسی دھر چونکے ۔ الوپی دین اس علاقے کا سب سے بڑا اور ممتاز زمیندار تھا، لاکھوں کی ہنڈیاں چلتی تھیں ۔ غلے کا کاروبار الگ ۔ بڑا صاحب اثر، بڑا حکام رس، بڑے بڑے انگریز افسر اس کےعلاقے میں شکار کھیلنے آتے اور اس کے مہمان ہو تے۔ بارہ مہینے سدا برت چلتا تھا۔ پوچھا کہاں جائیں گی۔ جواب ملا کہ کانپور۔ لیکن اس سوال پر کہ ان میں ہے کیا ؟ ایک خاموشی کا عالم طاری ہو گیا اور دروغہ صاحب کا شبہ یقین کے درجے تک پہنچ گیا۔ جواب کے ناکام انتظار کے بعدذرا زور سے بولے ۔’’کیا تم سب گو نگے ہو گئے ۔ ہم پوچھتے ہیں ان میں کیا لدا ہے؟‘‘
جب اب بھی کوئی جواب نہ ملا تو انھوں نے گھوڑے کو ایک گاڑی سے ملا دیا اور ایک بورے کو ٹٹولا ۔ شبہ یقین سے ہم آغوش تھا ۔ یہ نمک کے ڈھیلے تھے۔
پنڈت الوپی دین اپنے سجیلے رتھ پر سوار سوتے جاگتے چلے آرہے تھے کہ کئی گھبرائے ہوئے گاڑی بانوں نے آکر جگایا اور بولے ۔’’مہاراج دروگا نے گاڑیاں روک دیں اور گھاٹ پر کھڑے آپ کو بلاتے ہیں ۔‘‘
پنڈت الوپن دین مبلغ علیہ السلام کی طاقت کا پورا پورا عملی تجربہ تھا ۔ وہ کہا کر تے تھے کہ دنیا کا ذکر ہی کیا دولت کا سکہ بہشت میں بھی رائج ہے۔ اور ان کا یہ قول بہت صحیح تھا۔ قانون اور حق و انصاف یہ سب دولت کے کھلونے ہیں جن سے وہ حسب ضرورت اپنا جی بہلا یا کر تی ہے۔ لیٹے لیٹے امیرانہ بے پر وائی سے بولے ۔ اچھا چلو ہم آتے ہیں۔ یہ کہہ کر پنڈت جی نے بہت اطمینان سے پان کے بیڑے لگائے اور تب لحاف اوڑھے ہوئے دروغہ جی کے پاس آکر بے تکلفانہ انداز سے بولے۔’’ بابو جی آشیر باد! ہم سے کیا ایسی خطا ہو ئی کہ گاڑیاں روک دی گئیں ۔ ہم برہمنوں پر تو آپ کی نظر عنایت ہی رہنی چاہیے۔‘‘
منشی دھر نے الوپی دین کو پہچانا ۔ بے اعتنائی سے بولے۔’’سرکاری حکم‘‘
الوپی دین نے ہنس کر کہا۔ ’’ہم سرکای حکم کو نہیں جانتے اور نہ سرکار کو ۔ ہمارے سرکار تو آپ ہی ہیں ۔ ہمارا اور آپ کا تو گھر کا معاملہ ہے کبھی آپ سے باہر ہو سکتے ہیں ۔آپ نے ناحق تکلیف کی یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ادھر سے جائیں اور گھاٹ کے دیوتا کو بھینٹ نہ چڑھائیں میں خود آپ کی خدمت میں حاضر ہو تا ۔‘‘
بنسی دھر پر دولت کی شیریں زبانیوں کا کچھ اثر نہ ہوا۔ دیانتداری کا تازہ جوش تھا۔ کڑک کر بولے ۔’’ ہم ان نمک حراموں میں نہیں ہیں جو کو ڑیوں پر اپنا ایمان بیچتے پھرتے ہیں ۔ آپ اس وقت حراست میں ہیں ۔ صبح کو آپ کا باقاعدہ چالان ہو گا۔ بس مجھے زیادہ باتوں کی فر صت نہیں ہے۔ جمعدار بدلو سنگھ!تم انھیں حراست میں لے لو ، میں تمھیں حکم دیتا ہوں۔‘‘
پنڈت الوپی دین اور اس کے ہو اخواہوں اور گاڑی بانوں میں ایک ہل چل سی مچ گئی۔ یہ شاید زندگی میں پہلا موقع تھا کہ پنڈت جی کو ایسی ناگوار باتوں کے سننے کا اتفاق ہوا۔بدلو سنگھ آگے بڑھا لیکن فرط رعب سے ہمت نہ پڑی کہ ان کا ہاتھ پکڑ سکے۔ الوپی دین نے بھی فرض کو دولت سے ایسا بے نیاز اور ایسا بے غرض کبھی نہ پایا تھا۔ سکتے میں آگئے، خیال کیا کہ ابھی طفلِ مکتب ہے دولت کے ناز و انداز سے مانوس نہیں ہوا، الھڑہے، جھجکتا ہے، زیادہ ناز بر داری کی ضرورت ہے۔ بہت منکسرانہ انداز سے بولے۔ ’’بابو صاحب ایسا ظلم نہ کیجئے ۔ ہم مٹ جائیں گیں، عزت خاک میں مل جائے گی۔ آخر آپ کو کیا فائدہ ہوگا؟ بہت ہوا تھوڑا سا انعام و اکرام مل جائےگا۔ ہم کسی طرح آپ سے باہر تھوڑے ہی ہیں ۔‘‘
بنسی دھر نے سخت لہجے میں کہا۔’’ہم ایسی باتیں سننا نہیں چاہتے۔‘‘
الوپی دین نے جس سہارے کو چٹان سمجھ رکھا تھا وہ پاؤں کے نیچے سے کھسکتا ہو ا معلوم ہوا۔ اعتماد نفس اور غرور ِ دولت کو صدمہ پہنچا لیکن ابھی تک دولت کی تعداد قوت کا پورا بھروسہ تھا۔ اپنے مختار سے بولے۔’’لالہ جی ایک ہزار کا نوٹ بابو صاحب کی نذر کرو، اس وقت بھوکے شیر ہو رہے ہیں۔‘‘
بنسی دھر نے گرم ہو کر کہا۔ ’’ہزار نہیں مجھے ایک لاکھ بھی فرض کے راستے سے نہیں ہٹا سکتا۔‘‘
دولت، فرض کی خام کارانہ جسارت اور اس زاہد انہ نفس کشی پر جھنجھلائی۔ اور اب ان دونوں طاقتوں کے درمیان بڑے معرکہ کی کش مکش شروع ہوئی۔ دولت نے پیچ و تاب کھا کر مایوسانہ جوش کے ساتھ کئی حملے کیے۔ ایک سے پانچ ہزار تک ، پانچ ہزار سےدس ہزار تک، دس ہزار سے پندرہ ہزار، پندرہ سے بیس ہزار تک نوبت پہنچی ۔ لیکن فرض مردانہ ہمت کے ساتھ اس سپاہ عظیم کے مقابلے میں یکہ و تنہا پہاڑ کی طرح اٹل کھڑا تھا۔
الوپی دین مایوسانہ انداز سے بولے ۔ ’’ اس سے زیادہ میری ہمت نہیں ۔آئندہ آپ کو اختیار ہے۔‘‘ بنسی دھر نے اپنے جمعدار کو للکارا۔ بدلو سنگھ دل میں دروغہ کو گالیاں دیتا ہوا الوپی دین کی طرف بڑھا۔ پنڈت جی گھبرا کر دو تین قدم پیچھے ہٹ گئےاور نہایت منت آمیز بے کسی کے ساتھ بولے ۔ ’’بابو صاحب ایشور کے لئے مجھ پر رحم کیجئے میں پچیس ہزار پر معاملہ کر نے کو تیار ہوں۔‘‘
’’غیر ممکن‘‘
’’تیس ہزار‘‘
’’غیر ممکن‘‘
’’کیاچالیس ہزار بھی ممکن نہیں؟‘‘
’’چالیس ہزار نہیں چالیس لاکھ بھی غیر ممکن۔ بدلو سنگھ! اس شخص کو فوراً حراست میں لے لو۔ اب میں ایک لفظ بھی سننا نہیں چاہتا۔‘‘
فرض نے دولت کو پاؤں تلے کچل ڈالاالوپی دین نے ایک قومی ہیکل جوان کو ہتھکڑیاں لیے ہوئے دیکھا، چاروں طرف مایوسانہ نگاہیں ڈالیں اور تب غش کھا کر زمین پر گر پڑے۔
دنیا سوتی تھی مگر دنیا کی زبان جاگتی تھی۔ صبح ہوئی تو یہ واقعہ بچے بچے کی زبان پر تھا اور ہر گلی کوچے سے ملامت اور تحقیر کی صدائیں آتی تھیں گویا دنیا میں اب گناہ کا وجود نہ رہا۔ پانی کو دود ھ کے نام سے بیچنے والے حکام سرکار، ٹکٹ کے بغیر ریل پر سفر کرنے والے بابو صاحبان اور جعلی دستاویزیں بنانے والے سیٹھ اور سہوکار یہ سب پارساؤں کی طرح گردنیں ہلاتے تھے اور جب دوسرے دن پنڈت الوپی دین کا مواخذہ ہوا اور وہ کانسٹبلوں کے ساتھ شرم سے گردن چھکائے ہوئے عدالت کی طرف چلے۔ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، دل میں غصہ و غم، تو سارے شہر میں ہل چل سی مچ گئی۔ میلوں میں بھی شاید شوق نظارہ ایسی امنگ پر نہ آتا ہو، کثرتِ ہجوم سے سقف و دیوار میں تمیز کرنا مشکل تھا۔
مگر عدالت میں پہنچے کی دیر تھی۔ پنڈت الوپی دین اس قلزم ناپیدا کنار کے نہنگ تھے، حکام ان کے قدرشناس عملے، ان کے نیاز مند، وکیل اور مختاران کے نازبردار اور اردلی، چپراسی اور چوکیدار تو ان کے درم خرید غلام تھے۔ انہیں دیکھتے ہی چاروں طر ف سے لوگ دوڑے۔ ہر شخص حیرت سے انگشت بدنداں تھا۔ اس لیے نہیں کہ الوپی دین نے کیوں ایسا فعل کیا بلکہ وہ کیوں قانون کے پنجے میں آئے۔ ایسا شخص جس کے پاس محال کو ممکن کرنے والی دولت اور دیوتاؤں پر جادو ڈالنے والی چرب زبانی ہو ، کیوں قانون کا شکار بنے۔ حیرت کے بعد ہمدردی کے اظہار ہونے لگے۔ فوراً اس حملے کو رو کنے کے لیے وکیلوں کا ایک دستہ تیار کیا گیا۔ اور انصاف کے میدان میں فرض اور دولت کی باقاعدہ جنگ شروع ہو گئی۔ بنسی دھر کھڑے تھے۔ یکہ و تنہا سچائی کے سوا کچھ پاس نہیں۔ صاف بیانی کے سوا اور کوئی ہتھیار نہیں۔ استغاثہ کی شہادتیں ضرور تھیں لیکن ترغیبات سے ڈانواڈول۔ حتیٰ کہ انصاف بھی کچھ ان کی طرف سے کھچا ہوا نظر آتا تھا۔ یہ ضرور سچ ہے کہ انصاف سیم وزر سے بے نیاز ہے لیکن پردے میں وہ اشتیاق ہے جو ظہور میں ممکن نہیں۔ دعوت اور تحفے کے پردے میں بیٹھ کر دولت زاہد فریب بن جاتی ہے۔ وہ عدالت کا دربار تھا لیکن اس کے ارکان پر دولت کا نشہ چھایا ہوا تھا۔ مقدمہ بہت جلد فیصل ہو گیا۔ ڈپٹی مجسٹریٹ نے تجویز لکھی۔ پنڈت الوپی دین کے خلاف شہادت نہایت کمزور اور مہمل ہے۔ وہ ایک صاحب ثروت رئیس تھے یہ غیر ممکن ہے کہ وہ محض چند ہزار کے فائدے کے لیے ایسی کمینہ حرکت کے مرتکب ہو سکتے۔ داروغہ صاحب نمک منشی بنسی دھر پر اگر زیادہ نہیں تو ایک افسوسناک غلطی اور خام کا رانہ سرگرمی کا الزام ضرور عائد ہوتاہے۔ ہم خوش ہیں کہ وہ ایک فرض شناس نوجوان ہیں لیکن صیغۂ نمک کی اعتدال سے بڑھی ہوئی نمک حلالی نے اس کے امتیاز ادارک کو مغلوب کر دیا ہے، اسے آئندہ ہوشیار رہنا چاہیے۔
وکیلوں نے یہ تجویز سنی اور اچھل پڑے، پنڈت الوپی دین مسکراتے ہوئے باہر نکلے، حوالیوں نے روپے برسائے سخاوت اور فراخ حوصلگی کا سیلاب آگیا اور اس کی لہروں نے عدالت کی بنیادیں تک ہلا دیں۔ جب بنسی دھر عدالت سے باہر نکلے نگاہیں غرور سے لبریز، توطعن اور تمسخر کی آواز چاروں طرف سے آنے لگیں۔ چپراسیوں اور برقندازوں نے جھک کر سلام کیے لیکن اشارہ اس وقت اس نشۂ غرور پر ہوائے سرد کا کام کر رہا تھا، شاید مقدمے میں کامیاب ہو کر وہ شخص اس طرح اکڑتا ہو انہ چلتا۔ دنیا نے اسے پہلا سبق دے دیا تھا۔ انصاف عمل اور پنچ حرفی خطابات اور لمبی داڑھیاں اور ڈھیلے ڈھالے چغے ایک بھی حقیقی عزت کے مستحق نہیں ۔
لیکن بنسی دھر نے ثروت اور رسوخ سے بیر مول لیا تھا۔ اس کی قیمت دینی واجبی تھی۔ مشکل سے ایک ہفتہ گذرا ہوگا کہ معطلی کا پروانہ آ پہنچا۔ فرض شناسی کی سزا ملی۔ بیچارے دل شکستہ اور پریشان حال اپنے وطن کو روانہ ہوئے۔ بوڑھے منشی جی پہلے ہی سے بد ظن ہو رہے تھے کہ چلتے چلتے سمجھایا تھا مگر اس لڑکے نے ایک نہ سنی۔ ہم تو کلوار اور بوچڑ کے تقاضے سہیں، بڑھاپے میں بھگت بن کر بیٹھیں اور وہاں بس وہی سوکھی تنخواہ۔ آخر ہم نے بھی نوکری کی ہے اور کوئی عہدہ دار نہیں تھے لیکن جو کام کیا دل کھول کر کیا اور آپ دیانتدار بننے چلے ہیں۔ گھر میں چاہے اندھیرا رہے مسجد میں ضرور چراغ جلائیں گے۔ تف ایسی سمجھ پر، پڑھانا لکھانا سب اکارت گیا۔ اسی اثنا میں بنسی دھرخستہ حال مکان پر پہنچے اور بوڑھے منشی جی نے توروداد سنی تو سر پیٹ لیا اور بولے۔ ’’ جی چاہتا ہے اپنا اور تمہارا سر پھوڑ لوں۔‘‘ بہت دیر تک پچھتاتے اور کفِ افسوس ملتے رہے۔ غصے میں کچھ سخت و سست بھی کہا اور بنسی دھر وہاں سے ٹل نہ جاتے تو عجب نہ تھا کہ یہ غصہ عملی صورت بھی اختیار کر لیتا۔ بوڑھی اماں کو بھی صدمہ ہوا، جگن ناتھ اور رامیشور کی آرزوئیں خاک میں مل گئیں اور بیوی نے کئی دن تک سیدھے منہ بات نہیں کی۔
اس طرح اپنے بیگانوں کی ترش روئی اور بیگانوں کی دل دوز ہمدردیاں سہتے سہتے ایک ہفتہ گزر گیا۔ شام کا وقت تھا بوڑھے منشی رام نام کی مالا پھیر رہے تھے کہ ان کے دروازے پر ایک سجا ہوا رتھ آکر رُکا۔ سبز اور گلابی رنگ کے پردے، پچھائیں نسل کے بیل ان کی گردنوں میں نیلے دھاگے سینگ پیتل سے منڈے ہوئے۔ منشی جی پیشوائی کو دوڑے۔ دیکھا تو پنڈت الوپی دین ہیں، جھک کر سلام کیا اور مدبرانہ درافشانیاں شروع کیں۔ آپ کو کون سامنہ دکھائیں منہ میں کالک لگی ہوئی ہے مگر کیا کریں لڑکا نالائق ہے ناخلف ہےورنہ آپ سے کیوں منہ چھپاتے، ایشور بے چراغ رکھے مگر ایسی اولاد نہ دے۔ بنسی دھر نے الوپی دین کو دیکھا مصافحہ کیا۔ لیکن شانِ خودداری لیے ہوئے۔ فوراً گمان ہوا یہ حضرت مجھے جلانے آئے ہیں۔ زبان شرمندۂ معذرت نہیں ہوئی۔ اپنے والد بزرگوار کا خلوص رواں سخت ناگوار گزرا۔ یکایک پنڈت جی نے قطع کلا م کیا۔ ’’ نہیں بھائی صاحب ایسا نہ فرمائیں۔‘‘
الوپی دین نے کسی قدر جوش سے کہا۔ ’’ فخر خاندان اور بزرگوں کا نام روشن کرنے والا ایسا سپوت لڑکا پاکر پرماتما کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ دنیا میں ایسے کتنے انسان ہیں جو دیانت پر اپنا سب کچھ نثار کرنے کو تیار ہوں۔ داروغہ جی! اسے زمانہ سازی نہ سمجھیے۔ زمانہ سازی کے لیے مجھے یہاں تک تکلیف کرنے کی ضرورت نہ تھی۔اس رات کو آپ نے مجھے حکومت کے زور سے حراست میں لیا تھا آج میں خود بخود آپ کی حراست میں آیا ہوں۔ میں نے ہزاروں رئیس اور امیر دیکھے، ہزاروں عالی مرتبہ حکام سے سابقہ پڑا۔ لیکن مجھے زیر کیا تو آپ نے، میں نے سب کو اپنا اور قیمتی دولت کا غلام بنا کر چھوڑ دیا۔ مجھے اجازت ہے کہ آپ سے کوئی سوال کروں؟‘‘
بنسی دھر کو ان باتوں سے کچھ خلوص کی بو آئی۔ پنڈت جی کے چہرے کی طرف اُڑتی ہوئی مگر تلاش کی نگاہ سے دیکھا۔ صداقت کی گاڑھی گاڑھی جھلک نظر آئی۔ غرور نے ندامت کو راہ دی۔ شرما تے ہوئے بولے۔ ’’ یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے، فرض نے مجھے آپ کی بے ادبی کرنے پر مجبور کیا ورنہ میں تو آپ کی خاکِ پا ہوں جو آپ کا ارشاد ہوگا بحدِ امکان اس کی تعمیل میں عذر نہ کروں گا۔‘‘
الوپی دین کی التجا آمیز نگاہوں نے اسے دیکھ کر کہا ۔’’ دریا کےکنارے آپ نے میرا سوال رد کر دیا تھا لیکن یہ سوال پورا کرنا پڑے گا۔‘‘
بنسی دھر نے جواب دیا۔’’ میں کس قابل ہوں لیکن مجھ سے جو کچھ ناچیز خدمت ہو سکے گی اس میں دریغ نہ ہوگا۔‘‘
الوپی دین نے ایک قانونی تحریر نکالی اور اسے بنسی دھر کے سامنے رکھ کر بولے۔ ’’ اس مختار نامے کو ملاحظہ فرمائیے اور اس پر دستخط کیجیے۔ میں برہمن ہوں جب تک یہ سوال پورا نہ کیجیے گا دروازے سے نہ ٹلوں گا۔‘‘
منشی بنسی دھر نے مختار نامے کو پڑھا تو شکریہ کے آنسو آنکھوں میں بھر آئے۔ پنڈت الوپی دین نے انہیں اپنی ساری ملکیت کا مختارِ عام قرار دے دیا تھا۔ چھ ہزار سالانہ تنخواہ، جیب خرچ کے لیے۔ روزانہ خرچ الگ، سواری کے لیے گھوڑے، اختیارات غیر محدود، کانپتی ہوئی آواز سے بولے۔ ’’پنڈت جی میں کس زبان سے آپ کا شکریہ ادا کروں کہ مجھے آپ نے بیکراں عنایات کے قابل سمجھا لیکن میں آپ سے سچ عرض کرتا ہوں کہ میں اتنے اعلیٰ رتبے کے قابل نہیں ہوں۔‘‘
الوپی دین بولے۔ ’’اپنے منہ سے اپنی تعریف نہ کیجیے۔‘‘
بنسی دھر نے متین آواز میں کہا۔ ’’ یوں میں آپ کا غلام ہوں آپ جیسے نورانی اوصاف بزرگ کی خدمت کرنا میرے لیے فخر کی بات ہے لیکن مجھ میں نہ علم ہے نہ فراست نہ تجربہ ہے جوان خامیوں پر پردہ ڈال سکے۔ ایسی معزز خدمات کے لیے ایک بڑے معاملہ فہم اور کارکردہ منشی کی ضرورت ہے۔
الوپی دین نے قلمدان سے قلم نکالا اور بنسی دھر کے ہاتھ میں دے کر بولے۔ ’’مجھے نہ علم کی ضرورت ہے نہ فراست کی نہ کارکردگی کی اور نہ معاملہ فہمی کی۔ ان سنگ ریزوں کے جو ہر میں بار بار پرکھ چکا ہوں۔ اب حُسن تقدیر اورحُسن اتفاق نے مجھے وہ بے بہا موتی دے دیا ہے جس کی آپ کے سامنے علم اور فراست کی چمک کوئی چیز نہیں۔ یہ قلم حاضر ہے زیادہ تامل نہ کیجیے، اس پر آہستہ سے دستخط کیجیے۔ میری پرماتما سے یہی التجا ہے کہ آپ کو سداوہی ندی کے کنارے ولا بے مروت، سخت زبان، تند مزاج لیکن فرض شناس داروغہ بنائے رکھے۔
بنسی دھر کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔ دل کے تنگ ظروف میں اتنا احسان نہ سما سکا۔ پنڈت الوپی دین کی طرف ایک بار پھر عقیدت اور پرستش کی نگاہ سے دیکھا۔ اور مختارنامے پر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے دستخط کر دیے۔ الوپی دین فرطِ مسرت سے اچھل پڑے اور انہیں گلے لگا لیا۔
٭٭٭٭٭

Leave a Comment