اقبالؒ کا تصورِ الٰہ۔۔۔۔۔۔فکر و وجدان کے آئینے میں

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؔ کی یوم ولادت پر خصوصی پیش کش

٭ڈاکٹر عروبہ مسرور صدیقی
اسسٹنٹ پروفیسر اردو
لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی، لاہور۔
Email:- aroobasiddiqui@hotmail.com

\"iqbal_day_1\"

زندگی کیا ہے ؟ زندگی کا راز کیا ہے ؟ کائنات کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کو کیسے سمجھا جا سکتا ہے ؟ انسان کی حقیقت کیا ہے ؟ وہ اس دنیا میں کیوں آیا ہے؟ خدا کیا ہے؟ کون ہے؟ کہاں ہے اور کب سے ہے ؟ وقت کا تسلسل کس طرح سے برقرار ہے ؟خدا، انسان اور کائنات اور دیگر مظاہر کی حقیقت کے بارے یہ سوالات ہر فلسفی اور غور وفکر کرنے والے شخص کے ذہن میں اٹھ سکتے ہیں، اور وہ ان کا جواب کسی نہ کسی ذریعے سے جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ اقبال ؒ بھی ایک مفکر اور فلسفی کی طرح یہ سوال اٹھا تے ہیں اورقاری کو ان کا جواب تلاش کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ گو، اُن کی فکر کا مآخذ قرآن و سنت ہے اور وہ اپنے ہر سوال کا جواب انھی مآخذ میں تلاش کر لیتے ہیں، اس کے باوجود بعض اوقات وہ کائنات اور اس کے اسرار کے بارے میں مستفسر اور متعجّب نظر آ تے ہیں۔ ایک مفکرکی طرح یہ سوالات انھیں شش و پنج میں مبتلاکر تے ہیں:
یہ مہر و مہ، یہ ستارے ، یہ آسمانِ کبود

کسے خبر کہ یہ عالم عدم ہے یا کہ وجود؟
نہ پوچھ مجھ سے کہ عمرِ گریز پا کیا ہے؟

کسے خبر کہ یہ نیرنگ و سیمیا کیا ہے؟
ہوا جو خاک سے پیدا، وہ خاک میں مستور

مگر یہ غیبت صغریٰ ہے یا فنا! کیا ہے؟
غبارِ راہ کو بخشا گیا ہے ذوقِ جمال

خرد بتا نہیں سکتی کہ مدعا کیا ہے
دل و نظر بھی اسی آب و گِل کے ہیں اعجاز

نہیں، تو حضرتِ انساں کی انتہا کیا ہے؟
جہاں کی روحِ رواں لا الٰہ الا ھو

مسیح و میخ و چلیپا، یہ ماجرا کیا ہے؟۱؎
حیرت کا یہ سلسلہ تا دیر بر قرار نہیں رہتا اور یوں محسوس ہو تا ہے کہ اقبال ؒ یہ سوالات محض قاری کی فکری سطح کو بلند کرنے کے لیے اٹھا تے ہیں۔وہ جب ان کا جواب دینے سے قاصر ہو تا ہے توعلامہ خود اس کا جواب تلاش کر تے ہیں اور اس تلاش کے عمل سے قبل وہ ہر بات پر مذہب کی حد عائد کر دیتے ہیں۔ہر شے کا علم دو راستوں سے ممکن ہے: عقل اور عقیدہ۔ یعنی ایک فلسفہ ہے، دوسرا مذہب۔فلسفہ کائنات میں فطری وحدت تلاش کرتا ہے ۔ وہ وحدت کسی بھی شے میں اگر نظر آ جائے تو اس کو اُسی ’’ایک‘ ‘میں شمار کرتا ہے۔مثال کے طور پر اگر دیمقراطیس مادی اشیا کے ذرّات یعنی اجزائے لا یتجزٰی میں وہ وحدت پاتا ہے تو اُسے کائنات کا ہر ظواہر ، ذرّوں کا مجموعہ دکھائی دیتا ہے اور یوں ہر شے اُسی وحدت سے جُڑی معلوم ہوتی ہے ۔ یا طالیس اگر اس وحدت کو پانی میں دیکھتا ہے تو پھر کائنات کی ہر وہ شے جس میں پانی ہے، اُسے وحدتِ کاملہ کا ایک جز دکھائی دیتی ہے۔دوسری شے جو علمِ خدا(الٰہیات)میں معاون ہے وہ شعورِ مذہبی ہے جو کائنات کی وحدت کو مذہب کے ذریعے سے دیکھتا ہے۔ وحدتِ مذہبی کا ہر شے میں ہونا ہی ضروری نہیں بل کہ اس کی ایک اپنی حقیقت کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ یعنی اپنی صفاتِ کاملہ کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ایک ذات یا حقیقت بھی رکھتی ہو۔ اس حقیقت کی نشان دہی صرف مذہب کرتا ہے ، فلسفہ نہیں۔ بقول ڈاکٹر برہان احمد فاروقی :
’’شعورِ نظری کو اس امر پرذرا بھی اصرار نہیں کہ وحدت کی ماہیت کیا ہو۔ علم منظّم کا نصب العین حاصل ہو سکے تو شعورِ نظری ممکن ہے۔ اس کے لیے سب یکساں ہے چاہے وہ وحدت پانی ہو یا ہوا یا جزو لا یتجزٰی ہو یا تصوّر مادہ ہو یا روح ذی شعور ہو یا غیر ذی شعور اور اس کی ضرورت میکانی ہو یا غائی ۔ چاہے وہ کسی صفت سے متصف ہو یا نہ ہو حتیٰ کہ وہ بے صفت ہو۔ صرف ایک صفت جو وحدتِ نظری کے لیے درکار ہے وہ یہ ہے کہ اس سے کثرت کو متنزع کیا جا سکے۔ شعورِ نظری کو اس پر بھی مصر نہیں کہ وہ وحدت عددی ہی ہو۔ چاہے وہ تعداد میں واحد ہو یاکثیر، شعورِ نظری صرف وحدتِ نوعی کا طلب گار ہے۔ لیکن شعورِ مذہبی اس شدت پر مُصر ہے کہ وحدت کی حقیقت کیا ہو۔‘‘۲؎
شعورِ نظری چوں کہ وحدت کو کثرت سے ماورا دیکھنے کی بجائے ، کثرت میں جاری و ساری دیکھتا ہے اس لیے وہ بالآخر اپنی امثلہ میں بالکلّیہ ختم ہو جاتی ہے ۔ یعنی کثرت سے ماورا اس کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے نظری شعور کی بنیاد محض ایک تصوّر یا خیال ہے، (افلاطون نے اس وحدت کو ’’خیال‘‘ کہا تھا)حقیقت نہیں ہے حقیقت کا ذکر مذہب کرتا ہے۔ اور حقیقت اپنا ایک الگ اور جداگانہ وجود رکھتی ہے ۔ کثرت ہو یا نہ ہو ، حقیقت موجود رہے گی ازل تا ابد(اوّل تا آخر)اب اگر حقیقت ہے ، تو اس کا وجود بھی ہے اور وجود ہے تو اس کی صفات بھی ہیں۔اقبال ؒ کائنات کا جوہر عشق کو قرار دیتے ہیں اور عشق کے لیے جو شے لازم ہے، وہ ایمان ہے، اور ایمان کا تعلق مذہب سے ہے۔مذہب کے بارے میں وہ اپنے خطبے ’’علم اور مذہبی شعور‘‘ میں لکھتے ہیں:
\”The essence of religion, on the other hand, is Faith; and faith, like the bird, sees its \’trackless way\’ unattended by intellect…Religion is not a adepartmental affair; it is neither mere thought, nor mere feeling, nor mere action; it is an expression of the whole man. \” 3
یعنی اقبالؒ کا فلسفہ مذہب کی اساس پر قائم ہے۔ لیکن علامہ مذہب کو عقلی بنیادوں پر ثابت کرنا ہی افضل سمجھتے ہیں ، بلکہ ان کے خیال میں صرف مذہب ہی میں یہ استطاعت ہوتی ہے کہ وہ اشیا کو عقلی بنیادوں پر پرکھ سکے۔ سائنس(فلسفہ) صرف اشیا کے ظاہرسے مطالعہ کرتی ہے ، وہ عقلی مابعدالطبیعیات کے بغیر بھی کام چلالیتی ہے۔لیکن مذہب اپنے اصولوں حتی کہ عقائد کو بھی عقلی بنیادوں پر قائم کرنا ناگزیرسمجھتا ہے۔ علامہ کہتے ہیں کہ اسلام بہ نسبت دوسرے مذاہب کے، زیادہ اس بات کہ قریب ہے کہ فطرت کو عقلی حوالے سے دیکھا جائے۔ اس کی دلیل میں وہ رسول اللہ ﷺ کی ایک مسنون دعا کا حوالہ دیتے ہیں:ربی ارنی الاشیاء کما ھی۔۔علامہ فرماتے ہیںکہ اشیا کو ان کے حقیقی تناطر میں دیکھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وجدان کو، جو مذہبی و روحانی شے ہے، فکر ہی کی ترقی یافتہ شکل قرار دیتے ہیں۴؎۔ان کے نزدیک معرفت یا حقیقتِ اولیٰ کی تلاش عقیدے کے بغیر ناممکن ہے اور عقیدہ مذہب کے راستے آتا ہے، اس کا عقل سے کوئی واسطہ نہیں۔ڈاکٹر عبد الخالق اپنی کتاب \”Problems of Muslim Mysticism\” میں لکھتے ہیں کہ انسان کو تمام موجودات میں اس لیے سب سے اعلیٰ درجہ حاصل ہے کیوں کہ وہ نہ صرف مادہ ہے، نہ صرف حیات، نہ صرف نفسی شعور، بل کہ اس کی سب سے اعلیٰ صفت جو اور کسی وجود میں نہیں پائی جاتی، اخلاقی تجزیہ کرنے کی صلاحیت ہے، غلط اور درست کو جانچنے کی حس اسے باقی تمام موجودات سے افضل بناتی ہے۔۵؎
علامہ کے خیال میں یہ اخلاقی اور تجزیاتی شعور انسان کو مذہب ہی عطا کرتا ہے۔ ان کے خیال میں عقلِ محض اشیا کا علم تو فراہم کر سکتی ہے لیکن اشیا کی حقیقت کو نہیں پا سکتی ، اس کے لیے مذہب کی لامحالہ ضرورت پیش آئے گی ۔ ما بعد الطبیعی حقائق کا پر دہ چاک کر نے سے عقل قاصر ہے ۔ خواہ افکار کتنے ہی بلند ہوں، عقل کتنی ہی رسا ہو، ان حقائق کا ٹھوس جواز تلاش نہیں کر سکتی کیوں کہ اس کی پرواز محدود ہے۔ یہی وہ بات ہے جو اقبال ؒ کی پوری فکر کا احاطہ کر تی ہے کہ وہ روح کو جسم پر ، دل کو عقل پر اورنظر کو خبر پر فوقیّت دیتے ہیں۔ قلب و نظر کی بدولت تمام معمّے حل کیے جا سکتے ہیں۔لہٰذا انھی سوالات کے بعد وہ اس کا جواب دیتے ہیں کہ زمان و مکان کے یہ سارے معمے قلب و نظر(عشق)سے حل کیے جا سکتے ہیں:
غمیں مشو کہ بہ بندِ جہاں گرفتاریم طلسم ہاشکندآں دلے کہ ما داریم! ۶؎
خدا کے وجود کو بھی اقبالؒ مذہبی شعور سے ہی ثابت کرتے ہیں ۔ خدا حقیقتِ مطلق ہے اور اس کی ہستی کے اثبات کے لیے کسی بھی عقلی یا فلسفیانہ دلیل کی ضرورت نہیں۔فقیر سیّد وحید الدین اپنی کتاب روز گارِ فقیرمیں لکھتے ہیں کہ ایک بار ایک ملا قاتی نے اقبال ؒ سے یہ سوال کیا کہ کیا آپ خدا کے وجود کو فلسفیانہ دلائل سے ثابت کر سکتے ہیں ؟ علّامہ نے اس کے جواب میں ’’ نہیں‘‘ کہا ۔ ملا قاتی نے کہا کہ جب یہ بات ہے تو پھر آپ کے نزدیک خدا کی حقیقت قابلِ تسلیم کیوں کر ہوئی ؟ علّامہ نے فرمایا۔ یقیناً، خدا کی ہستی ناقابل ِانکارحقیقت ہے، اس کے لیے مجھے کسی فلسفیانہ دلیل کی ضرورت نہیں، میرے نزدیک اللہ تعالیٰ کے وجود پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ میرے پیغمبر ﷺ نے ، جن کے متعلق ان کے دشمن بھی کہتے تھے کہ انھوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ، جب فرمایا کہ خدا مجھ سے ہم کلام ہو تا ہے ،تو خدا کی ہستی یقینا ہے۷؎۔اسی طرح پروفیسر ممتاز حسن بیان کر تے ہیں کہ ایک روز آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کے سلسلے میں روشنی کی رفتار کا ذکر آیا تو میں نے کہا :’’عجیب بات ہے، اب تک خلا میں روشنی سے زیادہ تیز رفتار اور کوئی چیز دریافت نہیں ہوئی اور ایسا معلوم ہو تا ہے کہ روشنی بجائے خود طبیعیاتی نقطہ ٔ نگاہ سے ایک قدرِ مطلق ہے ۔‘‘علّامہ نے نہایت متانت سے میرا سوال سُنا اور فرمایا:’’کیا تمھیں قرآن حکیم کی وہ آیت یاد نہیں: اللہ نور السمٰوات والارض ۸؎۔ممتاز حسن سے اسی ملا قات کے دوران اُن کے ایک سوال کے جواب میں اقبال ؒ نے فرمایا:
\”I have seen Him. \”There are moments in a man\’s life when he can experiance God…Such moment are, however rare…very rare…No one is shut out but he who wants the experience has to wait for it.\”9
ان واقعات اور بیانات سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ اقبال ؒ کا تصوّر خدا ایک طرف سائنسی بھی ہے لیکن اصل میں وہ اس سائنٹیفک تصوّر کو بھی مذہبی اور قرآنی نقطہ نظر سے ہی دیکھتے ہیں۔ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کا یہ کہنا بجا ہے :’’اقبال طبیعی سائنس میں بھی ایک قسم کی روحانیت پا تے ہیں اور کائنات کے متعلّق تحقیق و تجسّس کو عبادت کی قسم قرار دیتے ہیں۔‘‘۱۰؎۔’’Knowledge and Religious Experience ‘‘میں اقبال ؒ خود فرما تے ہیں کہ فطرت کا علم چوں کہ خدا کے وجود کو جاننے کا علم ہے ،اس لیے یہ بھی ایک قسم کی عبادت ہے ۔ کیوں کہ فطرت کے مشاہدے کے دوران ہم خدائے مطلق کے قریب تر ہو جا تے ہیں۔شاعری یا فلسفے پر مذہب کی برتری اس وجہ سے ہے کیوں کہ یہ انسان کو انفرادیت سے اجتماعیت کی طرف بڑھاتا ہے۱۱؎۔ غالباً اسی وجہ سے عشرت حسن انور لکھتے ہیں کہ اقبال ؒ کے لیے مذہبی صداقتیں از بس ضروری ہیں اور اقبال ؒ انھی کا اثبات کرنا چاہتے ہیں۱۲؎۔بنیادی طور پر ان کا نقطہ نظر قرآنی ہے اس لیے وہ یہ تصوّر بھی براہ راست قرآن سے لیتے ہیں جس میں ’’سورۃ الاخلاص‘‘ کے اندر خدا کے وجود کا بڑا واضح تصوّر پایا جا تا ہے جسے جامع القرآن بھی کہا جا تا ہے۔ پہلی آیت میں صرف ذات کی انفرادیت و یکتائی و وحدانیت کا ذکر ہے۔ آخری تینوں آیات میں ذات کے ساتھ صفات بھی شامل ہیں۔ بے نیازی اللہ کی صفت خاص ہے۔ اللہ نہ ذاتی، نہ صفاتی طور پر کسی کے مماثل ٹھہرایا جا سکتاہے ۔ گویا اللہ کے لیے کوئی مثال نہیں لا ئی جا سکتی۔ وہ آپ اپنی مثال ہے۔اس کے علاوہ اسلامی تصوّر خدا میں جو نکات نہایت اہم ہیں :
خدا واحد اور منفرد ہے(ھو اللہ احد)۔بے مثل ہے(لیس کمثلہ شیی)۔خدا ابدی ہے ، لا فانی ہے(کلّ من علیھا فان و یبقیٰ وجہ ربک ذو الجلال و الاکرام) ۔خدا قادرِ مطلق ہے ، با اختیار اور طاقت ور ہے۔( ان اللہ علیٰ کلّ شیئٍ قدیر)۔خدا عالم الغیب و الشھادۃ ہے( عالم الغیب والشھادۃ ھو الرحمٰن الرحیم)۔عقلِ کل ہے(یعلم ما تسرون وما تعلنون)۔خود مختار اور فاعل ہے(سبحٰنک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلی العظیم)۔خدا خالق کل اور مصور ہے(ھو اللہ الخالق الباری المصوّر)۔خدا انائے مطلق (کامل خودی)ہے(ھو الاول والآخر والظاھر والباطن) ۔اقبالؒ کہتے ہیں کہ خدا کائنات کا خالق و مالک ہے، کائنات اور اس کے تمام مظاہر اُس کے حکم کے تابع ہیں اور دراصل اسی کی ملکیت ہیں، انسان اُس کا محض ایک نمائندہ ہے اور باقی مظاہراس کی دیگر تابع دار مخلو قات ہیں۔ انسان خدا کو پہچان سکتا ہے ، حقیقت کو دریافت کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے اُسے پہلے اپنے آپ کو دریافت کرنا ہو گا ، اپنی حقیقت سے آگاہ ہو کر ہی انسان خدا کو پہچانتا ہے ۔ ’’ حضور عالمِ انسانی ‘‘کی ذیل میں لکھتے ہیں :
اگر خواہی خدا را فاش بینی

خودی را فاش تر دیدن بیاموز ۱۳؎
اقبال کی فکر کا مرکزی نقطہ خودی ہے جو ان کے ہر تصور اور نظریے کی بنیاد ہے ۔ ’’خودی‘‘ جو عمل اور تحرک اور غور و فکر سے پروان چڑھتی ہے، در اصل قرآن ہی سے غذا حاصل کر تی ہے۔ وہ اپنے ایک مکتوب بنام ابو محمد مصلح (بانی تحریک قرآن)میں لکھتے ہیں :’’اس زمانے میں قرآن کا علم ہندوستان سے مفقود ہو تا جا تا ہے۔ ضرورت ہے کہ مسلمانوں میں نئی زندگی پیدا کی جائے ۔‘‘ ۱۴؎
تصوّر خدا سے متعلق اقبال ؒ کے نظریات با قاعدہ طور پر ان کے خطبے ’’Conception of God and the Meaning of Prayerـ‘‘ میں ملتے ہیں ۔علامہ خدا کو مطلق اور اس کی خودی کو’’ کامل خودی ‘‘۱۵؎(Perfect Ego) قرار دیتے ہیں۔ اپنے ۱۹۰۹ء کے ایک مضمون’’The Doctrine of Absolute Unity as Expounded by Al-Jilani‘‘میں علامہ لکھتے ہیں کہ خدا فرد ہے، اکیلا و یکتا ہے، لیکن اس کی انفرادیت انسان کی انفرادیت جیسی نہیں ہے۔ وہ احد ہے اور ’احد‘ نہ ایک ہے ، نہ دو، نہ تین۔۔۔۔ نہ صفر ۔ اس کا کوئی پیمانہ نہیں، نہ ہی اس کا تعیّن کیا جا سکتا ہے ۔ کیوں کہ جب انفرادیت سے وہی معنے مراد لیے جائیںجو انسان بطور ایک فرد کے ہیں تو اس سے ذاتِ الٰہیہ پر متناہیت کا قیاس ہو گا۔ حالاں کہ وہ لا متناہی ہے۔ اس لیے ذاتِ الٰہیہ کی لا متناہیت کا قیاس مکانی اور عالمِ دنیا کی لا متناہیت پر نہیں کرنا چاہیے۔ ذاتِ حقیقی زمان و مکان سے ماورا ہے۱۶؎۔ اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ یہی بات الجیلی نے اپنی کتاب ’انسان کامل ‘ میں لکھی ہے کہ وجود خالص کا پہلا درجہ ’احد‘ (Oneness) ہے جو مطلق سے ایک قدم دور ہے یہاں وجود خالص تمام صفات اور اعتبارات سے ماورا ہے۱۷؎۔ یہ خدا کا توحیدی تصوّر ہے اور اسلام کے نظریہ توحید کا بہترین مآخذ ’’سورۃ الاخلاص‘‘ ہے ۔ جس کا آغاز ہی ’’ احد یت‘‘ سے ہوتا ہے۔سورۃ اخلاص کی اس اصطلاح’’احد‘‘ سے علامہ خدا کی ذات کی انفرادیت کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔کیوں کہ علما کے نزدیک احدیت بطورصفت ایسا لفظ ہے جو صرف خد اہی سے مخصوص کی جاسکتی ہے۱۸؎۔برگساں بھی یہی کہتا ہے کہ انفرادیت کے اظہار کے لیے ضروری ہے کہ جو ہستی منفرد ہے، اس کے جسم کا کوئی حصہ اس سے جداہو کر قائم نہ رہ سکے۱۹؎ ۔
جب ہم خدا کی انفرادیت کو مان لیتے ہیں تو اس کے لیے مزید کوئی مثال نہیں لا سکتے۔ اسی لیے علامہ فرماتے ہیں کہ سورۃ نور کی جن آیات میں اللہ کی مثال نور سے واضح کی گئی ہے، اور صوفیا نے جس کی بنیاد پر بڑی بڑی بحثیں کی ہیں، اگر اس تصور کو مان لیا جائے، تو یہ وحدۃ الوجودی تصورات کو مہمیز دیتا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ فارنیل نے اپنے خطبات میں خدا کو نور ہی کی اصطلاح سے واضح کیا ہے، جو کہ غلط ہے۲۰؎۔علامہ فرماتے ہیں کہ صوفیا اور فلاسفہ نے قرآن کی اس آیت کی مکمل تعبیر نہیں کی۔اور نور سے مثال کو لے کر خدا کی ہمہ گیریت پر زور دیا ہے جب کہ جدید سائنس کے مطابق نور ایسی شے ہے جس کی رفتارہمیشہ ایک جیسی ہی رہتی ہے خواہ دیکھنے والا کوئی بھی ہو، اس لحاظ سے نور کی مثال دے کر اللہ نے اپنی مطلقیت یا انفرادیت کا اظہار کیا ہے نہ کہ ہمہ گیریت کا، جیسا کہ وجودیوں نے سمجھ لیا ہے۲۱؎۔ قرآن کا تصورِ الہ توحیدی ہے اور توحید کے مطابق خدا منفرد، یکتا، کامل اور بے مثل ہے۔ لفظ’’احد‘‘ اس کی انفرادیت کا اظہار کرتا ہے۔اسی لیے علامہ،انائے مطلق کو اللہ کی صفت قراردیتے ہیں۔
یونانی تصوّرالٰہ کے مطابق خدا فاعل نہیں ہے کیوں کہ فعل انجام دینے والے کے ذہن میں فعل کا تصوّر آنا ضروری ہے۔ اگر خدا فاعل ہے تو لازماً فعل کا پہلے تصوّر کیا ہو گا۔ اس طرح خدا نے جو فعل انجام دیا وہ حقیقی نہ ہوا بل کہ ثانوی درجے کا ہوا یا خیالی ۔ان کے خیال میںچوں کہ مطلق کبھی غیر خالص نہیں ہو سکتا اس لیے مطلق فاعل ہی نہیں ہے۔یہی وہ تصور ہے جس نے مادیت کو فروغ دیا کہ کائنات از خود وجود میں آگئی ، اس کا کوئی فاعل نہیں ہے۔ اب جب کوئی ذات ایسی نہیں جس نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہو، چناں چہ اس کا کوئی مقصد بھی نہیں ہے۔اقبال ؒ اس تصور کے قطعاً خلاف ہیں،ان کے نزدیک خدا فاعلِ مطلق ہے۔ قرآن بار بار خدا کی فعلیّت اور ارادے کا ذکر کر تا ہے۔ انہ ھو یبدیٔ ویعید۔فعال لما یرید(سورۃ بروج۔ آیات:۱۳،۱۶) ۔قصّہ تخلیقِ آدم سے ہی خدا کے ارادے کا اظہار؛ اس کی چاہت ،فعل اور مقصد کا اقرارہو تا ہے۔واِذ قالَ ربُّک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفہ(سورۃ البقرۃ ۔آیت:۳۰)۔ اس ایک آیت کریمہ سے بہ یک وقت خدا کی جن صفات کا اظہار ہو تا ہے ،وہ یہ کہ خد ا خالق ہے، ارادہ کر تا ہے ، کلام کرتا ہے ، فاعل ہے اور اس کی فعلیت ( تخلیق )با مقصد ہے۔ (لفظ ’’خلیفہ ‘‘ سے مقصد کا اظہار ہو تا ہے )۔اقبال ؒ بھی اسی نظریے کے حامی ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ خدا کی مطلقیت اس کے ہر فعل اور صفت میں پائی جاتی ہے ،وہ اعلیٰ اور عظیم ہے۔ خدا نے نہ صرف یہ کہ کائنات کو تخلیق کیا ہے۔ بل کہ کائنات کے ہر مظہر ، ہر شے اور ہر عمل کا فاعل انائے مطلق ہے۔ زبورِ عجمکی ایک غزل میں اقبال ؒ نے انھی خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:
مُرغِ خوش لہجہ و شاہینِ شکاری از تُست

زندگی را روشِ نوری و ناری از تُست ۲۲؎
دل کی بیداری ہو ، خاک کی مٹھی میں حرکات ہوں، کائنات کا مشاہدہ ہو یا چاند کی چاندنی، سب خدا کے افعال ہیں۔ فکرِ انسان کا فاعل خدا ، دل کے درد کا فاعل خدا، سمندر سے موتی کا نکلنا یا نہ نکلنا خدا کے باعث ہے۔ انسان تو محض مٹی کا ایک ڈھیلا ہے، بے جان مادہ ہے۔ اس میں جان اور حرکت اللہ کی وجہ سے ہے۔ گلستان کے پھو لوں کی بہار اور رونق،بہار کے بادل کی نمی کا سبب بھی اللہ ہی ہے۔انسان کے ہر فعل اور ارادے اور فکر و خیال کا فاعلِ اولیٰ اللہ کی ذات ہے ۔ بلا شبہ انسان اپنے ارادوں اور افعال کا ذمّہ دار ہے لیکن اس کے ارادوں پر خد ا کا ارادہ فوقیّت رکھتا ہے ۔ کائنات کی تخلیق خدا کا فعل ہے چناں چہ وہ فاعلِ مطلق ہے:۔
نقش پردازِ توئی ما قلم افشانیم

حاضر آرائی و آیندہ نگاری از تُست
گلہ ہا داشتم از دل بزبانم نرسید

مہر و بے مہری و عیاری و یاری از تُست ۲۳؎
زبورِ عجم ہی کی ایک اور غزل میں فرماتے ہیں :
ز سلطان کنم آرزوے نگاہے

مسلمانم از گِل نسازم الٰہے۲۴؎
اقبال ؒ کا خدا مٹیّ کا بنا ہوا نہیں ہے۔ اُن کے تصوّرِ الٰہ میں خدا کا وجود روحانی ہے۔ جیسا کہ وہ ایک مکتوب میں فرماتے ہیں کہ حقیقت اپنی کُنہ میں محض ’’روح‘‘ ہے۲۵؎۔ اللہ جب اپنے ارادے یا فعل کا اظہار کر تا ہے تو وہ روحانی طور پر ہو تا ہے۔ قرآن کریم میں خدا کے ارادے کا اظہار لفظ ’’کُن‘‘ ۲۶؎سے ہوا ہے۔کائنات کی ہر شے کا خالق خدا ہے۔ وہ بے جان کو جاندار اور جان دار کو بے جان بنا نے پر قادر ہے۔ کور چشم کو دلِ بینا عطا کر سکتا ہے اورصاحبِ بصارت کو کور باطن بنا دیتا ہے۔ زمین، دریا، پہاڑ، آسمان اور اجرام فلکی ، سمندر، دشت، جنگل ، بیابان، میدان ، چرند پرند ، جانور، انساں، غرض ہر شے کو اس نے متحرک کیا ہے اور جب چاہے اپنے ایک اشارے یا قول(کُن ) سے ان کو ساکن کر دے۔ اسی نے دریا کی موج کو یہ احساس فراہم کیا ہے کہ وہ مو تی اور ٹھیکری میں فرق روا رکھّے:
نمی دانم کہ داد ایں چشمِ بینا موجِ دریا را

گہر در سینۂ دریا خزف بر سا حل افتاد است ۲۷؎
دریا کی لہروں میں یہ بصیرت خود بخود پیدا نہیں ہو گئی بلکہ یہ بصیرت خدا کی عطا کر دہ ہے کہ وہ سمندر سے موتی کو اُچھال کر ساحل پر پھینک دیتی ہیں۔ قرآن میں اللہ ارشاد فرماتا ہے :کائنات میں کوئی ذرّہ اُس کی مشیّت کے بغیر حرکت نہیں کر تا تو ہر حرکت کا فاعلِ اولیٰ، اللہ کی ذاتِ اقدس ہے :واللہ الذی ارسل الریح فتثیر سحابا فسقنٰہ الیٰ بلدِِ میت فاحییتنا بہ الارض بعد موتھا کذلک النشور(سورۃ فاطر:آیت:۹)۔ دلوں اور روحوں میں پیدا ہو نے والے احسا سات کا فاعل بھی خدا ہی ہے۔ خدا ہر شخص کے قریب تر ہے ۔وہ رگِ حیات سے بھی زیادہ قریب ہے۲۸؎۔ گویا ہر وہ خیال جو ذہن میں اُٹھے ، ہر وہ جذبہ یااحساس جو دل میں پیدا ہو ، اللہ کی رضاسے ہے۔سقراط کا کہنا تھا کہ کوئی غیبی آواز یا سر گوشی ہے جو اس پر اثر انداز ہو تی ہے۲۹؎۔ اسی سے اس نے نتیجہ نکالا تھا کہ اصل شے وہ غیبی آواز ہے اور باقی سب دیو تا اور ان سے منسوب داستانیںمن گھڑت ہیں۔اللہ فرماتا ہے: واذا سالک عبادی عنی فانی قریب (سورۃ بقرۃ: آیت:۱۸۶)۔ اقبالؒ بندے سے خدا کی قربت کا ذکرجاوید نامہکی مناجات میں گلے کے انداز میں کرتے ہیں کہ کہنے کو اللہ نے اتنی قربت کا اظہار کیا ہے۔ در حقیقت مٹی کا بنا کر اسے ہجر سے دوچار کیا ہے:
زیرِ گردوں خویش را یابم غریب

ز آں سوئے گردوں بہ گو، ’اِنّی قریب ‘ ۳۰؎
خدا ایک بابصر ، خلّاق ہستی ہے۔ اس کی فعلیّت ، حکمت اور شعور سے جُڑی ہے، مبہم اور بے مقصد نہیں ہے۔ ذات نہیں، لیکن اس کی فعلیتِ مطلقہ میں حرکت اور تغیّر پایا جا تا ہے، جو زمان کے تسلسل سے ظاہر ہے۔ یہیںاقبال ؒ کا نظریہ ٔ وقت، بر گساں کے نظریے سے مختلف ہو جا تا ہے۔ برگساں حرکت اور تغیّر کو ہی حقیقت مطلقہ سمجھ لیتاہے،چناں چہ وہ اُسے محض انائے مطلق کہہ کر کائنات کی روح میں جاری و ساری(ellan vital ) قرار دیتا ہے۔جب وہ خدا کی انفرادیت کے بارے یہ کہتا ہے کہ اس سے مزید کوئی ہستی کا اظہار نہیں ہوسکتا تو دراصل وہ وجودی نقطہ نظر کی ترجمانی کرتا ہے ،جس کے مطابق خدا ہی موجود ہے۔ اگر اس نقطے کو مان لیا جائے تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ خدا کچھ بھی تخلیق کرنے سے مفلوج ہوجاتا ہے۔جیسا کہ خود برگساںنے لکھا ہے :
\”For the individuality to be perfect, it would be necessary that no detached part of the organism could live separately. But then reproduction would be impossible\”. 31
چناں چہ برگساں اس نتیجے پر پہنچتاہے کہ منفرد ہونے کے باوجود خدا نے اپنے ہی گھر اپنا دشمن(دیگر انائیں) پال رکھا ہے۳۲؎۔علامہ برگساں کی اس بات کی حمایت نہیں کرتے کہ مزید اناؤں کی تخلیق سے اس نے اپنا دشمن پال رکھا ہے۳۳؎۔ بلکہ اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ اللہ کی ذات توالد و تناسل سے بالاتر ہے، یہی قرآن کا نقطہ نظر ہے جو بار بار اللہ کی اسی انفرادیت کا اظہار کرتا ہے۔ (لم یلد ولم یولد)(اخلاص:۳)۔(سبحنہ ان یکون لہ ولد)(آل عمران:۱۷۱)۔(ام جعلوا للہ شرکآء خلقوا کخلقہ فتشبہ الخلق علیھم(الرعد:۱۶)۔لو اراد اللہ ان یتخذ ولدا(الزمر:۴)۔لھٰذا جب اقبال ذاتِ الٰہیہ کا توحیدی نقطہ نظر پیش کرتے ہیں تو وہ خودی کو برگساں کی طرح عین ذات نہیں بلکہ خدا کی صفتِ اعلی قرار دیتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اکثر شارحینِ اقبال ؒ نے اسرارخودی کے باب اوّل میں خودی کی شان سے متعلق لکھے گئے اشعار کی شرح کر تے ہوئے خودی کوعین ِذات قرار دیا ہے۔ جیسا کہ خواجہ عبد الحمید یزدانی نے اسرار و رموز کی شرح کرتے ہوئے خدا کی ذات کوخودی مطلق بتایا ہے ۔ اسی طرح ڈاکٹر جاوید اقبال زندہ رود میں لکھتے ہیں کہ اقبال کے ہاں خدا ،خودی مطلق ہے اور چوں کہ وہ انسان سے خدا تک پہنچے ہیں اس لیے خدا بھی اُن کے نزدیک ایک ایسی شخصیّت ہے جو کائنات و حیات کی طرح متحرک ہے۳۴؎۔علی عباس جلال پوری ۳۵؎ اور الطاف احمد اعظمی۳۶؎ نے بھی علامہ کے خطبات کی شرح انھی خیالات کے تحت کی ہے اور علامہ کے مطالعۂ قرآن کو ناقص قرار دیا ہے۔علی عباس علامہ کے تصورِ خودی سے اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انائے مطلق سے اقبال کی مراد ذاتِ الہی ہے۳۷؎۔اقبال ؒ نے خدا کی ذات کو خودی مطلق کہا ہے یا خودی کو خدا کی ایک شان؟،اس کا جائزہ اسرارخودی کے انھی اشعار سے لیا جاسکتا ہے جہاں اقبال ؒ نے خودی کی یہ صفات بیان کی ہیں کہ:کائنات کا وجود خودی کا اثبات کر رہا ہے ،خود کو خودی کے ذریعے سے پہچانا جا سکتا ہے،اس میں سیکڑوں جہان پوشیدہ ہیں،وہ اپنا غیر پیدا کر کے اپنا اثبات کر تی ہے،وہ مسلسل ارتقا کی طرف گامزن رہتی ہے اورجب وہ کچھ بر باد کر تی ہے تو اس سے مقصود تعمیرِ نو ہے۔
بظاہر ان تمام افعال و صفات کو خدا کے افعال و صفات سے جوڑا جا سکتا ہے اور یوںلگتاہے کہ خودی، خدا ہی ہے۔ لیکن ایسا محض اس وجہ سے ہوا ہے کہ ان اشعار کی تشریح کر تے ہوئے براہِ راست قرآن کو مآخذ بنا نے کی بجائے مغربی فلسفے اور تصوّف کے اہم نظریے وحدت الوجودی فکر کا سہارا لیا گیاہے۔شارحین نے صوفیہ کے معروف قول۳۸؎ :من عرف نفسہ فقد عرف ربہٗ۔، جس کوعموماً حدیثِ قدسی سمجھا جاتا ہے،سے جوڑ کر اقبال کے اس مصرعے (خویشتن راچون خودی بیدار کرد)کوغلط معنی پہنایا گیا ہے ۔ اس قول کا مفہوم اقبالؒ کے اس مصرعے پر صادر نہیں آتا۔ اقبال یہاں ’’خودی ‘‘ کی صفات کا ذکر کر رہے ہیں ،خدا کی ذات کا نہیں۔خدا کی ذات کو کسی بھی مثال سے نہیں سمجھا جا سکتا(لیس کمثلہ شی)۔ دوم ،علامہ کے اس شعر:(در جہاں تخمِ خصومت کاشت است۳۹؎)کی تشریح کرتے ہوئے خواجہ حمیدیزدانی لکھتے ہیں:’’اپنی ذات سے غیروں کا وجود (کائنات) تیار کرنا گویا اپنا ہی دشمن پیدا کرنا ہیں، جن سے بر سرِ پیکار رہ کر ہی انائے مطلق کا اثبات بھی ہوتا ہے اور لذتِ پیکار سے اسے جلا بھی ملتی ہے‘‘ ۔۴۰؎یہ تصوّر بھی مغربی فلسفہ کے زیر اثر اسلامی تصوّف میں در آیا ہے۔ شارحین نے برگساں کے اس قول کو مدنظر رکھا ہے کہ انائے مطلق نے اپنا غیر خودپیدا کر رکھا ہے، حالآں کہ اپنے خطبے’’خدا اور تصورِ دعا‘‘ میں علامہ نے برگساں کی اسی بات سے اختلاف کیا تھا۔ اگر خدا کو اپنا غیر بنا کر ہی اپنے وجود کا اثبات کروانا ہو تا تو ابلیس کے شیطان بننے سے پہلے کی کائنات اور زمان یا عرصہ بے مقصد اور بے کارہو جا تاہے۔ جب کہ کائنات آدم کی تخلیق سے قبل بھی قائم تھی۔ یہ در اصل ہیگل کا’’ نظریۂ اجتماعِ نقیضین‘‘ ۴۱؎ہے کہ چیزیں اپنے غیر سے پہچانی جا تی ہیں۔ ہیگل کی یہ بات کائنات اور اس کے لوازم پر تو منطبق کی جا سکتی ہے ، خدا کے وجود پر نہیں۔ شارحین نے اس فکر کو خدا کے وجود (ذات)پر بھی لاگو کر دیا ہے۔ چناں چہ وہ کہتے ہیں کہ خدا ، خودی مطلق ہے۔
سوم، چوں کہ خودی مسلسل ارتقا پذیرہے اور جب خودی اپنی انتہائی شکل(مطلقیت) میں خدا ہی ہوئی تو پھر خدا بھی ارتقا پذیر ہو گیا۔ یہ سب سے بڑا ظلم ہے جو خدا کی ذات کے ساتھ ہوا ہے۔ کیوں کہ اگرذاتِ خداوندی کو ارتقا پذیر مان لیا جائے تو خدا قدیم نہیں رہتا، حادث ہو جا تاہے۔ لہٰذاخدا اور خودی کو ایک قرار نہیں دے سکتے۔ خودی کی سب سے اعلیٰ صفت یہ ہے کہ وہ متغیّرہے اور مسلسل ارتقا کی طرف گامزن رہتی ہے۔اقبال ؒ خدا کے وجود کا اثبات مذہب کے ذریعے کر تے ہیں۔اقبال فرما تے ہیں کہ بندہ خواہ کتنا ہی اعلیٰ مقام پا لے، خدا سے نہیں جا ملتا۔ یہ فرق ملحوظ رہنا چاہیے ۔ چناں چہ خودی بندے کی صفت ہے اورخدا کی ایک شان ہے جو بندے میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ ضربِ کلیمکے یہ اشعار اسی تفریق کو واضح کر تے ہیں:
تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود

مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا
وجود کیا ہے، فقط جوہرِ خودی کی نمود

کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا ۴۲؎
علامہ کے مطابق خودی مطلق ایک شان ہے جس سے خدا اپنا اظہار کرتا ہے، خدا کی ذات کا حصہ نہیں۔ خودی مطلق کو عین خدا قرار دینے کی وجہ سے ہی صوفیا کرام کے یہاں قطرے اور سمندر کی مثال سامنے آتی ہے کہ ہر فرد کی انفرادی خودی، اور پھر یہ تمام خودیاں مل کر ایک خودیِ مطلق میں ضم ہو جائیں۔ اقبالؒ اس ضمن میںحجۃ الاسلام امام غزالی ؒ سے ہوتے ہوئے قرآن ہی کا نظریہ اپناتے ہیں۔ اقبال ؒ فرما تے ہیں کہ حرکت اور تغیّر ، حقیقت مطلق نہیں بلکہ حقیقتِ مطلقہ کی شانیں (آیات) ہیں۔ ابن مسکویہ بھی مادہ اور روح کی بات کرتے ہوئے اپنی کتاب الفوز الاصغرمیںکہتا ہے کہ روح ، مادے کا وظیفہ نہیں ہوسکتی۔ وہ روح کو غیر مادی قرار دیتا ہے اور خدا کو غیر متغیر، لہٰذا خدا روح ہے مادہ نہیں اور جب خدا مادہ نہیں تو اس کا کوئی بھی تصور قائم کرنا محال ہے۴۳؎۔ خودی مختلف مدارج رکھتی ہے، مختلف مراحل سے گزرتی ہے بل کہ ہر دم رواں رہتی ہے ۔تغیر اس کی خو ہے تو خودی خدا نہیں ہو سکتی البتہ وہ خدا کی ایک صفت ہے ، اس کی ایک شان ہے۔ (کل یوم ھو فی شأن۔)۔البتہ یہ بات اہم ہے کہ خدا کی صفات، ارادہ، خودی، مقصد اور فعل، انسانی مقصد و ارادہ و فعل و صفت و خودی سے مختلف ہیں۔ غزالی ؒ نے بھی تہافت الفلاسفۃمیں یونانی حکما پر یہی حکم لگایا تھا کہ خدا کا ارادہ، انسانی ارادے سے مختلف ہے۔خدا کی ذات متغیّر نہیں ہے۴۴؎۔ اللہ فرما تا ہے : ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلاً۔(سورۃ الاحزاب:آیت:۶۲)۔مراد یہ ہے کہ اللہ اپنا راستہ یا طریق یا رنگ نہیں بدلتا وہ ثابت، محکم اور مسلّم ہے ،تغیّرات وحوادث انسان اور دیگر ظواہر کی فطرت کا خاصہ ہیں۔ خدا چوں کہ قدیم ہے اس لیے غیر متغیّر ہے۔ چناں چہ خدا کی ذات خودی نہیں، بل کہ وہ اس کی کامل صفت ہے۔اور جیسے اللہ کی دیگر صفات میں مطلقیت ہے، اسی طرح اس کی خودی بھی خودی مطلق ہے،جو اپنی صفات میں نہایت اعلیٰ ،غیر متغیر اور کامل ہے۔علامہ فرماتے ہیں کہ انائے مطلق اللہ کی صرف ایک شان ہے اور اس شان سے انا ہی کا ظہور ہو سکتا ہے۴۵؎۔یہی خودی کائنات کی دیگر اناؤں کی علت ہے،عالم کے نظام کی وجہ ہے، حیات کا تسلسل خودی ہی کے استحکام سے ہے۔علامہ فرماتے ہیں کہ وہ، جو حبل الورید سے بھی قریب تر ہوتی ہے وہی انائے مطلق ہے۴۶؎۔اسی لیے علامہ خودی کی صفات بیان کرتے ہوئے اسرارِ خودی میں لکھتے ہیں:
پیکرِ ہستی ز اسرارِ خودی است

ہر چہ می بینی ز اسرارِ خودی است
خویشتن را چوں خودی بیدار کرد

آشکارا عالمِ پندار کرد
صد جہاں پوشیدہ اندر ذاتِ او

غیرِ او پیداست از اثباتِ او ۴۷؎
انائے مطلق کی اس صفت کو قرآن کے تصورِ زمان سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ اللہ قرآن میں زمانے کی قسم کھاتا ہے۴۸؎۔ اور رسول اللہ سے ایک صحیح حدیث بیان ہوتی ہے کہ زمانے کو برا مت کہو کیوں کہ خدا ہی زمان ہے۴۹؎۔امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ یہاں دہر سے مراد اللہ کی ایک شان ہے۔ وہ صبح شام، دن رات ، حادثات، واقعات کو چلاتا اور بناتا اور فاعل ہے۔لہٰذا جب حادثات کو گالی دیں گے تو گویا اس کے فاعل کو گالی دیں گے۵۰؎۔علامہ اقبال ؒ اپنے خطبے ’’Conception of God & Meaning of Prayer‘‘ میں’ دہر‘ کا ذکر کرتے ہوئے، اسے خدا کی ایک صفت ہی قرار دیتے ہیں، نہ کہ خود زمان۵۱؎ ۔ آگے چل کر علامہ فرماتے ہیںکہ زمان وہ شے ہے، جو مسلسل تبدیل ہوتی اور تکمیل کے مراحل طے کرتی رہتی ہے۔اس لیے ہم خدا کی ذات کے لیے زمان کا وہ خارجی تصور نہیں لا سکتے جو عموما کیا جاتا ہے،اور جو اشاعرہ نے پیش کیا تھا۵۲؎۔زمان خدا کی وہ صفت ہے جس سے انائے مطلق ظہور میں آئی ہے، بل کہ ہر زمان اپنے باطن میں خودی لاتا ہے، زمان کی صفتِ تغیر کی وجہ سے ہی خودی متغیر ہے۔یعنی ذات میں صفات زمان کی وجہ سے ہیں۔نظم’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کے پہلے بند میں زمان کا یہی تصور پیش کیا ہے۵۳؎۔لیکن خودی کامل کی طرح خدا کا زمان بھی کامل اور دوامی ہے۔قرآن کی یہ آیت کہ اللہ کے طریق میں بدلاؤ نہیں،سے یہی مراد ہے۔ اسی دوام یا ازل کو قرآن نے ’’لوحِ محفوظ‘‘ کہا ہے۔یہ خدا کا زمان ہے۔مادی اشیا کا زمان ماضی، حال اور مستقبل رکھتا ہے، روحانی اجسام کا زمان تیز رفتار ہے،خدا کا زمان اس ترتیب یا تسلسل سے مبرا ہے۔خودی زمانِ ابدی میں بھی ہے اور عصرِ رواں میں بھی۵۴؎۔ اسی لیے اقبال ؒنے عشق کے زمان کو عقل کے زمان سے مختلف اورتیز رو قرار دیا ہے:
تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رَو

عشق خود اک سیل ہے، سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا

اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام۵۵؎
عشق ہی کی طاقت ہے کہ وہ لامکان تک پہنچا دیتا ہے۔ رسول اللہﷺ عشق ہی کی طاقت سے معراج پر تشریف لے گئے ان کی روحانیت کی ترقی کی انتہا تھی کہ زمانِ عقل سے نکل کرروح کے زمان اور پھر اسے بھی پرے زمانِ دوام (خدا کا زمان جس میں حرکت نہیں، وقت کی قید نہیں)میں سفر کیا۔علامہ لکھتے ہیں:
\”Rising higher and higher in the scale of meterial beings we reach Divine Time__Time which is absolutely free from the quality of passage, and consequently does not admit of divisibility, sequence and change…The priority of God is not due to the priority of time, on the other hand, the priority of time is due God\’s priority.\”56
تو اے اسیرِ مکاں ، لامکاں سے دور نہیں

وہ جلوہ گاہ ترے خاک داں سے دور نہیں
وہ مرغ زار کہ بیمِ خزاں نہیں جس میں

غمیں نہ ہو کہ ترے آشیاں سے دور نہیں۵۷؎
دیگر صفات کی طرح خدا کا زمان ، انسان کے زمان جیسا نہیں۔غزالی ؒ ہی کی طرح علامہ بھی اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہم حقیقتِ مطلقہ سے اگر صفات اور افعال کو منسوب کر تے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی وہی حیثیت ہے جو انسانی صفات و افعال کی ہے۔ یا حقیقتِ مطلقہ اگر بابصر اور خلاق مشیت ہے تو اس کی خلاقی اور بصارت کی کیفیت وہ نہیں جس کا اطلاق ذاتِ انسانی پر ہو تا ہے۵۸؎۔اقبال ؒ مغربی مفکرین کی اس بات سے اتفاق نہیں کر تے کہ اگر خدا سے ارادے یا غایت کو منسوب کیا جائے گا تو اس سے اُس کے اختیا رات میں شرکت لازم آ تی ہے۔وہ قرآنی فکر کے مطابق خدا سے فعلیّتِ ارادہ کو تسلیم کرتے ہیں۔ خدانا صرف ارادہ کر تا ہے(فعالُ لما یرید) بلکہ اس کا ارادہ با مقصد اور پُر حکمت ہو تا ہے ۔ تاہم خدا کا ارادہ یا فعل ، انسانی شعور سے بالا تر ہے۔ انسانی عقل یا فہم اس کا ادراک نہیں کر سکتی۔ وہ فاعلِ تقدیر و قدر ہے۔گوکہ جو کچھ ہے ’’لوحِ محفوظ‘‘ میں مقرّر ہوچکاہے تاہم اس کی غایت ڈھلی ڈھلائی بھی نہیں۔ ( آ رہی ہے دما دم صدائے کُن فیکون ) سے مُراد ہی یہ کہ اس کی تخلیقی فعلیت(اس کا ارادہ و اختیار)مسلسل ارتقا کی طرف گامزن ہے اور یہ ارتقا اس کی ذات میں نہیں بل کہ صفات میں جاری و ساری ہے۔
اسرارِ خودی کے تمہیدی حصے میں اقبال ؒ نے تصادم کا ذکر کیا ہے کہ حقیقتِ مطلقہ ایک کُل ہے اور یہ کُل تصادم کی صورت نہیں اختیار کر رہا بلکہ بہت سارے حقیقی اجزا ایک دوسرے سے تصادم کی صورت میں ’کُل ‘ کی صورت اختیار کر نے کی سعی کر رہے ہیں۵۹؎۔ لیکن ناقدین نے اکثر یہاں خدا (حقیقتِ اولیٰ) یا ’کُل‘ کا تصادم مراد لیا ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ ان اشعارمیں خودی مطلق کو ’بذاتہ خدا ‘ قرار دیتے ہیں اور ایسا اس وجہ سے ہوا ہے کہ وہ اقبال ؒ کو سمجھتے ہوئے قرآن کو ماخذ بنا نے کی بجائے ہیگل کا تصادم کا نظریہ اور مسولینی کی کلیّت کا تصوّر پیش نظر رکھتے ہیں اور نتیجے کے طور پر علامہ کو وجودی قرار دینے پر مُصر ہیں۶۰؎۔اقبال ؒ اس حقیقی اجزا کے تصادم کا لازمی نتیجہ بقائے دوام قرار دیتے ہیں اس لیے اس تصادم کو مثبت معنوں میں لیتے ہوئے اسے بقائے شخصی کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔ اس کے برعکس نطشے سرے سے شخصی بقا کا ہی منکر ہے۔ اور بقول اقبال ؒ’’ حصولِ بقا کے آرزو مندوں کو وہ زمانے کی پشت کا بوجھ قرار دیتا ہے۔‘‘ ۶۱؎
خدا کا وجود ثابت ہے ۔ وہ واجب الوجود ہے، قدیم ہے، غیر متغیّر ہے، اس کی ذات میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔یہ نظریہ خدا اور انسان میں بہت بڑا فرق قائم کرتا ہے ۔ خدا کی خودی کو انسان کی خودی سے سمجھنے کی کوشش درست نہیں ۔ اگر دونوں کو ایک ہی سمجھ لیا جائے تو اپنی آخری انتہا پر جا کرخدا اور بندے کے مابین فرق ختم ہو جا تا ہے، اور دونوں ایک ہی بن جاتے ہیں۔یہ قرآنی فلسفے کے خلاف ہے اور اقبالؒ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے ۔ بیسویں صدی کے اوائل میں لکھی جانے والی علامہ کی تحریریں (مکاتیب/ مضامین)اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ وہ اس یونانی تصورِ خدا کے خلاف تھے،جو ایک مقام پر بندے اور خدا کو ایک ہی ذات میں ڈھال دیتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ بندے کو بندہ اور خدا کو خدا ہی رہنا چاہیے : مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خدا وندی۶۲؎۔وہ اپنے مقالے فلسفۂ عجم میں ابن سینا کا تصورِ الہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابن سینا حقیقتِ مطلقہ کو حسنِ ازل قرار دیتا ہے۔ لہٰذا کائنات کے مظاہر کا مشاہدہ کرنے سے یہ معلوم ہوگا کہ ہر شے میں اسی کی جھلک ہے۔ یہ تصور خالص عربی فکر کی پیداوار ہے، اور خدا کو حسن کامل سمجھنا کسی لحاظ سے غیر اسلامی نہیں۔لیکن اس تصور میں اختلاف اس وقت پیدا ہوا جب حسنِ کامل سے اتصال اور کائنات کے تمام مظاہر میں حسن ازلی کو دیکھنے کا رواج ہوا ۔ اقبالؒ کہتے ہیں کہ یہ قریب قریب وہی تصور ہے جو قدیم ایران میں زرتشت مذہب میں پایا جاتا تھا، اسی لیے پہلے پہلے اسلام میں یہ تصور ایرانی النسل صوفیا ،معروف کرخی اور با یزید بسطامی کے ذریعے ہوا، جس کی انتہا منصور حلاج پر ہوئی۔ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ یہ ویدانت کی طرح ایک غیر شخصی خدا کا تصور ہے۔ یہ تصور انسان کے اندر ایک احساسِ ہجر و فراق پیدا کرتا ہے، اور انسان کے اندرحسنِ کامل سے اتصال کی خواہش اجاگر کرتا ہے۔ یہ کہ انسان ، حسنِ ازل کی ایک شبیہ ہے ، اس کی معراج یہ ہے کہ وہ اس حجاب کو پھاڑ ڈالے اور اصل سے الحاق کر کے خود کو مکمل کر لے۔ا ور ایک زمانے تک اسی شے(حسنِ کامل سے الحاق) کو معرفت یا علم اولیٰ یا علمِ حقیقی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ۶۳؎
اقبال ؒ کے نزدیک خدا کی ایک صفت جلال ہے تو دوسری جمال ۔ وہ خدا کا صفاتی تصوّر پیش کر تے ہوئے اُسے حُسن مطلق قرار دیتے ہیں۔ ایما ویگے ناسٹ کے نام ایک خط میں وہ موت کا فلسفہ بیان کر تے ہوئے اُسی حقیقتِ اولیٰ کو دائمی ُسن قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:’’۔۔۔آپ کو یاد ہو گا کہ گوئٹے نے اپنی زندگی کے لمحۂ آخر یں میں کیا کہا۔۔۔’’مزید روشنی‘‘ ۔موت ہمارے لیے ایسے باب وا کر تی ہے اور ہمیں ان منزلوں تک پہنچا تی ہے جہاں ہم دائمی حسن و صداقت کے روبرو ہوتے ہیں ۔‘‘۶۴؎۔عبد اللہ قریشی کے مطابق اقبال ؒ نے نطشے سے جو اخذ کیا ہے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اُس کے تصوّر خدا سے متاثر تھے ، جو اُن کے اپنے تصوّر خدا سے مماثلت رکھتا تھا۶۵؎۔تاہم اس سے یہ مُراد نہیں کہ اقبال ؒ کے تصوّر خدا کی تشکیل میں نطشے کے تصوّر یزداں کا کوئی اثر تھا جیسا کہ عموماً سمجھا جا تاہے ۔اسی طرح وہ اپنے ایک خط بنام نکلسن میں اس بات کا اعتراف کر تے ہیں کہ الٰہیات کے متعلق انھوں نے الگزنڈر کے خطبات دیکھے ہیں۶۶؎۔ اس اعتراف سے بھی یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ انھوں نے الگزنڈر سے کچھ اخذ کیا ہے۔ مکتوب ھذا میں آ گے چل کر وہ الگزنڈر کے بعض خیالات کی تر دید بھی کر تے ہیں اور یہاں پر اپنا عقیدہ واضح کر تے ہیں :’’میرا عقیدہ یہ ہے کہ کائنات میں جذبہ الو ہیت جاری و ساری ہے لیکن میں الگزنڈر کی طرح یہ نہیں مانتا کہ یہ قوّت ایک ایسے خدا کے وجود میں جلوہ آرا ہو گی ، جو وقت کے تابع ہو گا۔ اس باب میں میرا عقیدہ یہ ہے کہ یہ قوت ایک اکمل و اعلیٰ انسان کے پیکر خاکی میں ظاہر ہو گی۔ ‘‘۶۷؎۔در اصل اقبال جب بھی کسی یورپی ، جرمن یا مشرقی مفکّر کے کسی فلسفے کا ذکر یا تائید کر تے ہیں تو اس لیے کہ وہ ان کے اپنے فلسفہ (جو قرآن سے آیا ہے ) سے میل کھا تا ہے ۔ اس لیے یہ کہنا کہ مثنویات یا دیگر کلام اقبالؒ نے یورپی فلسفیوں سے اثر لیتے ہوئے لکھی ہیں، سرا سر غلط ہے۔ کیوں کہ خود اقبال ؒ اس کا رد کر تے ہیں۔وہ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں :’’شاید ان کو یہ معلوم نہیں کہ جو خیالات میں نے ان مثنویوں میں ظاہر کیے ہیں ان کو برابر ۱۹۰۷ ء سے ظاہر کر رہا ہوں ۔ اس کے شواہد میری مطبوعہ تحریریں، نظم و نثر انگریزی و اُردو موجود ہیں۔ ‘‘۶۸؎
خدا کی صفات سے ابن عربی نے کائنات کی دیگر اشیا کا ہوناقرار دیا ہے۔ ابن عربی خدا کو ’’حقیقت الحقائق ‘‘ کہہ کر پکا رتے ہیں ۶۹؎۔کیوں کہ خدا ہر شے کا مبدا ہے ۔لہٰذا ابن عربی کے مطابق ’’ذات/ وجود‘‘ صرف حقیقت مطلق (خدا)ہے باقی کوئی شے ’’ذات‘‘کہلا نے کے لائق نہیں ۔ وجود صرف خدا کا ہے باقی سب لا موجود (لا موجود الا اللہ)ہے، سب کچھ خدائی صفات کا ظہورہے ، کسی نہ کسی روپ میں(ماخوذ از’’فصوص الحکم)۔ اقبال اس خیال کی تائید نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک خدا حقیقتِ اولیٰ ضرور ہے، وہ حقیقت الحقائق بھی ہے، لیکن اس حقیقت سے جن حقائق کا صدور ہوا ہے وہ بھی اپنا وجود اور مقام رکھتی ہیں۔ ان میں آدم سرِفہرست ہے جو اپنا ایک وجود رکھتا ہے ۔ ابن عربی اشیا کو ’’وجود(ذات ِالٰہی)‘‘ کا ایک مرتبہ قرار دیتے ہیں عین وجود نہیں کہتے،اور کہتے ہیں کہ ان مراتب میں سب سے افضل آدم ہے اور آدم میں سب سے افضل رسول اللہ ﷺ ہیں۷۰؎۔ جب کہ اقبال ؒ ،آدم کو محض ایک مرتبہ یا شے کہنے کی بجائے ایک مبین ’’وجود‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اقبالؒ نہ صرف انسان کے وجود کو حقیقی تسلیم کرتے ہیں، بل کہ اس کے ہونے کو کائنات کے ہونے کی وجہ قرار دیتے ہیں۔
حافظ عباد اللہ فاروقی اپنے مضمون’’ علامہ اقبال اور وحدت الوجود‘‘میں لکھتے ہیں کہ جس زمانے میں اقبالؒ وحدت الوجودیوں کے تصورِ فنا سے بیزار ہوکر فلسفۂ خودی پیش کر رہے تھے، اسی زمانے میں امام ربانیؒ کے مکتوبات کی اشاعت ہوئی، جس میں وحدت الوجود کی تردید کرکے وحدت الشھود کا نظریہ پیش کیا گیا تھا۔ حافظ عباد اللہ فاروقی لکھتے ہیں کہ علامہ کو یہ نظریہ قدرے بھایا، کیوں کہ یہ ان کے تصورِ خودی کے مطابق ہو نہ ہو، فنائیت کے تصور کے خلاف ضرور تھا۷۱؎۔ دوسرا یہ کہ امام ربانیؒ نے آیاتِ قرآنی کے ذریعے وحدت الوجود کے نظریے کی نفی کی۔ یہ طریقِ کار خوداقبالؒ کے طریقے کے مطابق تھا۔اس عرصے کے مکاتیب گواہ ہیں کہ وہ ابن عربیؒ کے اکثر تصورات سے بیزار نظر آتے ہیں۔ گو کہ ان کی تردید نہیں کرتے تاہم ان ’’عقائد کی پیروی‘‘ کرنے سے انکار کرتے ہیں۔مزید برآںامام ربانی ؒنے شیخ اکبر ؒ کے عین ذات و صفات کے تصور کی بھی تردید کی تھی اور فرمایا کہ صفات عین ذات نہیں بلکہ زائد علی الذات ہیں۔اللہ اپنی ذات میں افضل و کامل ہے اور صفات کی حاجت سے بے نیاز ۔ صفات اللہ کے وجود کے تعینات یا ظلال ہیں۷۲؎۔ قرآن میں اسی کو لفظ ’’آیت‘‘ (نشانی) سے واضح کیا گیا ہے۔اس نظریے کی رو سے کائنات معدوم کی بجائے ’’موجود‘‘ ٹھہرتی ہے۔لہٰذا شیخ اکبرؒ کا کائنات یا آدم ہی کو خدا کہنا قرآن کے نظریے کے خلاف جاتا ہے۔ بقول حافظ عباد اللہ:’’حضرت مجدد ذاتِ حق کو وراء الوراء تسلیم کرتے ہیں ، جب کہ شیخِ اکبرؒ کائنات ہی کو خدا مانتے ہیں۔ـ‘‘۷۳؎۔
علامہ اقبالؒ بھی بہ اعتبارِ ذات خدا تعالی کی ماورائیت کے قائل ہیں۔ اللہ وحدہ لا شریک ہے۔ اور ذات اور صفات کے حوالے سے نہ ہی اس کی کوئی مثال لائی جا سکتی ہے، نہ ہی کوئی اس میں شریک ہو سکتا ہے۔وجودی، خدا کی ذات میں شرک لاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ علامہ، امام ربانی ؒ کے وحدت الشھود کے نظریہ ظِل کے بھی قائل نہیں، کہ انسان یا کائنات خدا کا ظلی وجود ہے کیوں کہ اس طرح صفات میں شرک لازم آتا ہے ۔ در حقیقت اقبالؒ ہر اس فلسفے کے خلاف ہیں، جو قرآن کے تصورات سے ٹکراتا ہے، جس پر یونانی فلسفے کی بنیاد کھڑی ہے۔ اس کے لیے خواہ ابن عربیؒ ہوں، یا امام ربانیؒ؛ الجیلی ہوں یا امام غزالیؒ، ہر وہ شخص جس کا کوئی ایک بھی نظریہ توحید کے خلاف ہو، علامہ اس کی تردید کرنے سے نہیں ہچکچاتے ،اور اس کی وجہ وہ خود یوں بیان کرتے ہیں:
زمانہ کہنہ بتاں را ہزار بار آراست

من از حرم نگذشتم کہ پُختہ بنیاد است۷۴؎
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے

حکمراں اک وہی، باقی بتانِ آزری۷۵؎
۱۲ مارچ ۱۹۳۷ء کے ایک خط بنام آل احمد سرور میں علامہ نظریہ اسلام(توحید) کی ہمہ گیریت و اجتماعیت پر زور دیتے ہوئے اسے عالمِ انسانی کی نجات کا واحدحل قرار دیتے ہیں۷۶؎۔جہاں تک خدا کی خلّاقی کی بات ہے تو اقبال ؒ فرما تے ہیں کہ کائنات ، مادہ اور دیگر عناصر و ظواہر خدا کی تخلیقی فعالیت کی تعبیریں ہیں۔ جو فکر نے اپنے اپنے رنگ میں کی ہیں، ان کا کوئی مستقل وجود نہیں، یہ محض عقلِ انسانی کے تعینات ہیں جن کے ذریعے ہمیں جہاتِ الٰہیہ کا ادراک ہو تا ہے۷۷؎۔اقبال ؒ کا نظریہ ہے کہ خدا کی ذات کا ادراک تو انسان کسی صورت نہیں کر سکتا لیکن اس کی صفات کو پایا جا سکتا ہے اور اس کا صفاتی مشاہدہ بھی کر سکتا ہے ، ایسا ایک ہی روحانی قوّت کے ذریعے ممکن ہے جو خودی کی ترقّی سے حاصل ہو تی ہے ۔ اقبال ؒ اسے وجدان کا نام دیتے ہیں۔ وجدان کا لفظ اقبال ؒ سے پہلے بر گساں کے یہاں بھی ملتا ہے،لیکن برگساں نے اسے ذہنی کیفیت کا نام دیا تھا۔ اقبال ،وجدان کو خالصتاً قلبی و روحانی تجربہ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وجدان، قلب کی مخصوص صفت یا خاصیت ہے جو ہمیں حقیقتِ مطلقہ کے اس پہلو سے آشنا کراتا ہے جہاں حسّی ادراک (فکر) کی رسائی نہیں۔ فکر سے حاصل ہو نے والا علم اضافی ، چناں چہ ہمیشہ مجازی یعنی مظاہر کا علم ہو تا ہے۔ لیکن وجدان، جو ایک کیفیت قلبی ہے، کے ذریعے ہم اپنی ذات سے ما ورا ہو کر ، اپنی ذات اور کائنات کو تسخیر کر کے حقیقتِ مطلقہ تک پہنچ سکتے ہیں۔ اقبال ؒ کے نزدیک بقا ، انسان کی ایسی متاعِ گراں مایہ اور بلند ترین آرزو ہے جس کے حصول پر اسے تمام قوّتیں مرکوز کر دینی چاہئیں۔۷۸؎
اقبال ؒ کے خیال میں حقیقتِ مطلقہ سے مسلسل تخلیق کا ظہور ہو تا رہتا ہے (کل یومِِ ھو فی شان)۔گویا وہ اپنی صفت میں حرکی اور با مقصد فاعل ہے ۔ حقیقت کے حرکی اور با مقصد فعال ہو نے کا اظہار اقبال ؒ ، برگساں اور رومی کے یہاں ملتا ہے ۔ تاہم اقبال ؒ اور رومی ؒ کا راستہ اپنے آخری مقام پر آ کر برگساں سے الگ ہو جا تا ہے ، جہاں حقیقت مطلقہ کا معادی تصوّر سامنے آ تا ہے۔ برگساں حقیقت ِ مطلقہ کو کائنات کی رگ و پے میں جاری و ساری قرار دیتا ہے لیکن اس کی سمت اور مقصد کا تعیّن نہیں کر تا۔ برگساں یہ کہتا ہے کہ جوشِ حیات (Ellen Vital ) کسی منزل کی جانب گامزن نہیں۔عملِ ارتقا میں ایک تشویق پہلے سے ہی پائی جاتی ہے جو اسے اپنی منزل پر رواں دواں رکھتی ہے۔ اس کے لیے کسی ارداے یا مقصد کی ضرورت نہیں۔گویاحقیقت ایک بے مقصد رو ہے، بے منتہا ہے۔ اقبالؒ اس تصور کو قطعاً تسلیم نہیں کرتے ، ان کے نزدیک حقیقتِ اولیٰ ایک با مقصد و با ارادہ،تخلیقی فعلیت ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: کیا انھوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے کائنات کو بے مقصد ہی تخلیق کر دیا؟ اقبال اور رومی ؒحقیقت کے نہ صرف معادی پہلو کا ذکر کر تے ہیں بلکہ وجدانی تجر بے کا اصل مقصد یہی قرار دیتے ہیں۔ تاہم برگساں جب یہ کہتا ہے کہ انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جو صاحبِ اختیار ہے۷۹؎۔ تو اقبالؒ اس کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ اسی نظریے کو انسانی ارتقا کی دلیل بھی بناتے ہیں ۔خدا وہ حقیقتِ مطلقہ ہے جو لازوال اور لا مکان و لا زمان ہے ، اس کی کوئی حد، کوئی کنارہ نہیں۔ وہ سراپا جمال و کمال و جلال ہے۔ خدا اپنے حُسن اور جلال کو صفات کے پر دے میں ظاہر کر کے بندے کو ان صفات کا تابع دیکھنا چاہتا ہے۔ بندے میں صفاتِ خدا وندی پیدا ہونے سے خدا کی صفات میں کوئی کمی نہیں آئے گی کیوں کہ وہ مطلق اور اٹل اور ما ورائے کائنات و العقل ہیں۔ البتّہ بندے کی ذات اور رُتبے میں بلندی و الو ہیت پیدا ہو گی اور یہ خود بندے ہی کے لیے خیر ہے۔ خدا کسی خیر یا فائدے کا محتاج یا طلب گار نہیں ۔ خدا لا فانی اور باقی سب فانی ہے۔ انسان کی زندگی کی جو چند سانسیں ہیں، وہ بھی اُدھار ہیں، عارضی ہیں، خدا کی امانت ہیں۔اقبال ؒ جہاں ایک طرف خدا کی ابدیت، لا متناہیت اور عظمت کا ذکر کر تے ہیں، تو ساتھ ہی انسان کی عظمت اور بقائے دوام کا بھی اعتراف کر تے ہیں۔ ان کے نزدیک انسان کی عظمت اس وجہ سے بھی ہے کہ وہ آزمائشیں سہتا ہے ، موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہتا ہے اور غم و اندوہ سہتا ہوا مقامِ بقا حاصل کر تا ہے۔ جاوید نامہ کی مناجات میں وہ اسی فنا سے بقا کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں:ـ
تو فروغِ جاوداں ما چوں شرار

یک دو دم داریم و آں ہم مستعار
ای تو نشناسی نزاعِ مرگ و زیست

رشک بر یزداں برد ایں بندہ کیست؟
آنیم من جاودانے کن مرا

از زمینے آسمانے کن مر۱ ۸۰؎
حقیقتِ مطلقہ یا ذاتِ باری کے وجود کوصرف وجدان کے ذریعے سے سمجھا جا سکتا ہے جو سرا سر روحانی، ما ورا الطبیعی اور مذہبی شے ہے۔ انسان کا مقصد اولیٰ اس وجدان کو پا کر ذاتِ الٰہی کا ادراک کرنا ہے ۔

دل چسپی کی بات یہ ہے کہ اقبالؒ کے بقول یہ تجربہ ہر شخص کر سکتا ہے لیکن صاحبِ وجدان ہر شخص نہیں ہو سکتا۔ یہ وہی بات ہے جو اقبال سے قبل کے صوفیہ اور مسلم مفکرین کہتے آئے ہیں لیکن اقبال ؒ کا کمال یہ ہے کہ وہ دیگر صوفیہ یا فلاسفہ کی طرح وجدان کی ابتدائی حالت حقیقتِ مطلقہ کا ادراک قرار نہیں دیتے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ پہلے اپنے نفس کو پہچانو اس کے بعد خدا کی ذات کو پہچانواور اس خیال کو انھوں نے اس آیتِ کریمہ سے ماخوذ کیا ہے :وفی انفسکم افلا تبصرون(سورۃ الذاریات،آیت:۲۱)۔ خدا چوں کہ انسان کی رسائی سے ہر لحاظ سے ماورا ہی ہے اس لیے انسان کبھی مکمل طور پر حقیقتِ مطلقہ کی ماہیت کو نہیں پا سکتا ۔ وہ اگر اس کا یہ عارضی تجربہ کر بھی لے تو اس کی بقا اور عظمت اسی میں ہے کہ وہ اس مقامِ حضوری سے عالمِ دنیا میںواپس آ جائے ۸۱؎۔(واقعۂ معراج اس کی سب سے بڑی دلیل ہے) ۔ اقبالؒ کو اپنے آدم ہونے پر کوئی شرمندگی نہیں ، بلکہ وہ اس مقام و مرتبے، جو رب کریم نے اسے ’’احسنِ تقویم‘‘ اور ’’خلیفۃ الارض‘‘ بنا کر عطا کیا ہے، فخر کرتے ہیں۸۲؎۔وہ اپنے اس بشریت کے مقام کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے۔
چناں پابندگی در ساختم من

نہ گیرم گر مرا بخشی خدائی ۸۳؎
خدائی اہتمام خشک و تر ہے

خداوند! خدائی دردِ سر ہے
ولیکن بندگی؟ استغفراللہ!

یہ دردِسر نہیں ، دردِجگر ہے ۸۴؎
الجیلی اور اقبال ؒ کے تصوّر میںفرق یہ ہے کہ الجیلی انسانِ کامل کا آخری رُتبہ فنا فی اللہ (اسم ’’اللہ ‘‘ میں گم ہو جانا ) قرار دیتا ہے۔ اقبال ؒ اس کے قائل نہیں ۔ وہ انسان کے ہر شے سے بے نیاز ہو جا نے کے بعد خدا کی ’’رضا‘‘ میں گم ہو جا نے کو افضل قرار دیتے ہیں نہ کہ خدا کے ’’وجود‘‘ میں گم ہو جانے کو ۔ انسان آخری درجے میں خدا کی رضا میں اپنی رضا کو گم کر کے بقائے دوام حاصل کر لیتا ہے اوراسی پر نائبِ الٰہی کا مقام پا تاہے جو تخلیقِ آدم کا مقصدِ اولیٰ تھا کہ اللہ نے فرمایا کہ میں آدم کی تخلیق کر رہا ہوں تاکہ زمین پر اپنا نائب بناؤں۸۵؎ ۔’’Conception of God…‘ میں علامہ، تخلیقِ آدم اور اس کو جنت سے نکال کر زمین پر بھیجے جانے کا مقصد ہی خدا کا بندے پر اعتماد قرار دیتے ہیں، اللہ نے بندے کو علم ، اختیار اور خودی عطا کر کے اس کو نیابت کے لائق سمجھا ہے تو انسان کاحق ہے کہ وہ اس اعتماد کا جواب اس شر کے خلاف لڑ کر دے، جس نے اس کو اس کی جنت سے نکلوایا تھا۸۶؎۔علامہ لکھتے ہیں:
\”The only way to correct this tendency(to eat the forbidden fruit) was to place him in an environment which, however painful, was better suited to the unfolding of his intellectual faculties… And the experience of a finite ego to whom several possibilities are open expands only by method of trial and error.\” 87
چناں چہ وہ امانت جس کو اٹھانے سے ہر شے نے انکار کیا، خودی ہی تھی۔’’ تمہیدِ آسمانی ‘‘میں وہ لکھتے ہیں کہ انسان اسی امانت(خودی) سے بے خبر ہے، تاہم اپنے ہی وجود پر نگاہ ڈال کر وہ اس کو پہچان سکتا ہے۔
اے امینے از امانت بے خبر

غم مخور، اندر ضمیرِ خود نگر
روزہا روشن ز غوغائے حیات

نے ازاں نورے کہ بینی در جہات ۸۸؎
یہی نکتہ حکیم سنائی ؒ کی زبان سے ادا کیاہے:
ہر زماں تدبیر ہا دارد رقیب

تا نگیری از بہارِ خود نصیب
بر درونِ شاخِ گل دارم نظر

غنچہ ہا را دیدہ ام اندر سفر!۸۹؎
اقبال ؒ کہتے ہیں کہ الجیلی نے انسانِ کامل کے افضل ترین درجے میں اس کو اسم’’ اللہ‘‘ میں گم اور فنا اس لیے کر دیا ہے کیوں کہ وہ ’’صفات ‘‘ اور ’’حقیقت‘‘ میں امتیاز بر قرار نہیں رکھ سکا۹۰؎۔ (خطبہ ۱۹۰۹ء ،ص:۸۲،۸۳)وہ مزید لکھتے ہیں کہ الجیلی جسے شناختِ ’’صفات اور حقیقت‘‘ کا نام دیا تھا، اس نظریے نے ہیگل کے \”Thought & Being\” کو بنیاد فراہم کی ۹۱؎۔ الجیلی کی ’’عالمِ صفات ‘‘ کی اصطلاح جو وہ ’’عالمِ مادی ‘‘ کے لیے لا تے ہیں قدرے گمراہ کُن ہے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ حقیقت اور صفت کا اختلاف صرف خارجی ہے اور یہ اشیائے فطرت میں اپنا وجود نہیں رکھتا ، یہ صرف ہمارے ذہن کا خیال ہے جس سے ہم مادی دنیا کو سمجھتے ہیں ، حقیقی نہیں ہے۹۲؎ ، تو اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ الجیلی ’تجر باتی سوچ‘ کی سچائی(The Truth of Empirical Idealism) کو تو پہچانتا ہے لیکن اختلا فات کی مطلقیت(The absoluteness of distinction) کو نہیں مانتا۹۳؎۔ حقیقت مطلق کو سمجھنے کے لیے حقیقت اور صفت میں امتیاز رکھنا ضروری ہے ۔ اسی فرق کی شناخت کر نے سے انسان اُس الوہی مقام کو پا تا ہے، جسے الجیلی نے روحانی خود مختاری کہا ہے۹۴؎۔ لہذا اقبالؒ جب خدا کے ذات و صفات پر بات کرتے ہیں تو اس کو مذہبی شعور کے آئینے میں دیکھتے ہیں، جسے انھوں نے وجدان کا نام دیا ہے۔اس وجدان میں سائنسی اور مذہبی دونوں تجربات موجود ہیں۔ اس لیے اقبالؒ کے وجدان کو برگساں کے وجدان سے الگ ہی سمجھنا چاہیے۔
انسان یا تو اپنے حواس ظاہری و باطنی سے علم حاصل کر تاہے، یا وہ عقل و شعور کے ذریعے سے۔فطرت پرست یا مادہ پرست صرف ظاہری حواس ( باصرہ، سامعہ ، لامسہ، لوامہ، شامہ ) تک محدود رہتاہے۔عرفِ عام میں اسے سائنس دان کہا جا تا ہے جس کا علم ہاتھی کی مثال تک محدود رہتاہے۔دوسرا ذریعہ عقل و شعور ہے، جس کے دو مدارج ہیں: درجۂ اول فلسفی کاہے ۔فلسفی علمِ ظاہری کے ساتھ ساتھ عقل و شعور کا بھی استعمال کر تاہے۔ وہ غور و فکر کر تا ہے، کائنات اور اجزائے کائنات کو عقل و شعور کی کسو ٹی پر پرکھتا اور نتائج اخذ کر تاہے۔ علم کے حصول کا یہ ذریعہ بھی محدود ہے۔ درجۂ دوم اس سے اعلیٰ تر ہے جو حصولِ علم کا ذریعہ بنتا ہے وہ درجۂ اول ہی کی ترقّی یافتہ شکل ہے ،یہ وجدان ہے۔علامہ کے مطابق وجدان ہی کے ذریعے معرفت ممکن ہے اور اگروجدان کے مراتب کو سمجھ لیا جائے تو اعلیٰ اور حقیقی علم حاصل ہو تا ہے ۔بالِ جبریل کی ایک غزل میں لکھتے ہیں:
عالمِ آب و خاک و باد ! سرِّ عیاں ہے تو کہ مَیں

وہ جو نظر سے ہے نہاں، اُس کا جہاں ہے تُو کہ مَیں
تُو کفِ خاک و بے بصر، مَیں کف خاک و خودِ نگر

کِشتِ وجود کے لیے آبِ رواں ہے تُو کہ مَیں۹۵؎
سوال یہ پیدا ہو تاہے کہ وہ سرِّ عیاں ، وہ زندگی اور وہ آبِ رواں جو انسان کوخود نگری سکھاتا ہے اور اُس کی خودی کی نمود و پرورش کر تاہے ، کیا ہے ؟۔مذکورہ غزل کی تشریح کرتے ہوئے لفظ ’’ مَیں ‘‘ سے عموماً انسان مراد لیا جاتا ہے۔ خواجہ حمید یزدانی۹۶؎ ـا ور غلام رسول مہر۹۷؎نے بھی اس سے انسان ہی مراد لیا ہے۔نیزشارحین نے اس لیے یہاں ’’ میں ‘‘ سے مرادآدم لیا کیوں کہبالِ جبریلکی اکثر نظموں کا موضوع عظمت آدم ہی ہے لیکن اس شعر کو اگر اس حوالے سے دیکھا جائے کہ یہاں اقبال ؒ عالمِ آب و خاک (مادی کائنات)سے مخاطب ہوکر اس کا سرّ عیاں(جوہر)، وجدان کو قرار دے رہے ہیں۔ یعنی ’’مَیں ‘‘ سے ان کی مراد وجدان اور روح ہے تو مفہوم بہتر طورپر واضح ہو تاہے۔ وجدان ایک سرِّ عیاں ہے ، خود نگر اور آبِ رواں کی طرح ہے اورکائنات کا پوشیدہ راز وجدان ہی ہے،جو انسان کی صفت اور اس کی روح کا جوہر ہے۔وجدان ہی وہ روحانی صفت ہے جس کی بنا پر انسان تمام رازوں کو دریافت کر تا ہوا اپنی معرفت اور پھر اس کے بعد خدا کی معر فت حاصل کر لیتاہے ۔ لہٰذا کلامِ اقبال ؒ میں اُن کے تصوّرِ وجدان کو بہت اہمیّت حاصل ہے ۔ وجدان وہ قلبی و روحانی طاقت ہے جو کائنات کے اسرار کو عیاں کر تی ہے ۔ یہ انسان کے وجود میں ایک مسلسل بہتے پانی کی طرح ہے جو وجود کی کشتی کو حرکت میں رکھتا ہے۔ روح، انسان کے جسم کو جس طرف چاہے بہا کر لے جائے ، جسم اُس کے زیرِ نگیں ہو تا ہے۔ آدم کی اہمیت اسی صفتِ وجدان کی وجہ سے ہے ۔یہ انسان کی پو شیدہ طاقت ہے جس کو پر وان چڑھا نے اور اُسے دریافت کر نے پر علامہ نے بہت زور دیا ہے۔وزیر الحسن عابدی لکھتے ہیں :
’’جب اقبال ؒ لذّتِ دیدار کو صورت پر ، شوخیِ رفتار کو پا ے کبک پر اور بلبل کی سعیِ نوا کو منقار پر تقدیم دیتے ہیں تو ایسا اس لیے ہے کہ وہ مادے کی بجائے انسان کے وجود (روح ) کو مقدّم سمجھتے ہیں ۔ یعنی معلو ل پر علّت کی تقدیم ۔ اور ایسا وہ رومی ؒ کے تتبّع میں کر تے ہیں کیوں کہ رومی ، روح کو مادے پر ترجیح دیتے ہیں۔ ‘‘ ۹۸؎
وجدان، اقبال ؒ کے یہاں ایک ’’نور‘‘ کی طرح ہے جو حواس و ادراکات کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کا وظیفہ یہ ہے کہ زندگی کے لگا تار اور آ گے بڑھتے ہوئے سفر میں ایک نقطہ ٔ نور مہیّا کرے۔ یہ نور حیا تیاتی ارتقا کے لیے از بس ضروری ہے ۔ اس کے حدود متعیّن نہیں ہیں اور یہ عملی طور پر آزاد ہے اس لیے اسے مادی اعمال میں شمار نہیں کرنا چاہیے۹۹؎۔ارتقا کے اس عمل میں وہ عقل و شعور کو سراسر فراموش نہیں کر دیتا بل کہ اسی ناقص شے کو کامل بنانے کی تگ و دو کرتا رہتا ہے۔اقبال ؒ وجدان کو ایک قلبی و روحانی صفت قرار دیتے ہیں جو ادراک، فکر اور شعور کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ شعور اور وجدان دونوں ایک دوسرے کے مماثل ہیں ،شعور ہی وہ کیفیت یا نور ہے جو حقیقت مطلقہ تک رسائی رکھتا ہے۔ تاہم یہ ادراک اور فکر سے کئی درجے آگے کی شئے ہے۔ بر گساں کے نزدیک بھی وجدان سے حقیقت اولیٰ تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے لیکن بر گساں وجدان کو عقل کی بلند ترین سطح قرا ر دیتا ہے۔ جب کہ اقبال ؒ کے نزدیک وجدان خالصتاً روحانی کیفیت ہے بلکہ وہ اسے حقیقت کا حضوری تجر بہ قرار دیتے ہیں جس میں حقیقت کا بلا واسطہ ادراک ہو تاہے، اور اس کا ادراک یا احساس صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو روحانی صفات سے مالا مال ہو گا۔ بر گساں کے نزدیک وجدان ’’ذہنی ہم خیالی یا ہم دردی ‘‘ ہے۔وہ ؒ اپنے خطبے’’Knowledge and Religious Experience‘‘ میں لکھتے ہیں کہ برگساں وجدان کی اصل ماہیت کو نہیں سمجھ سکا بلکہ وہ صرف اس کی بیرونی سطح تک ہی رہا ہے۔ تاہم دیگر صوفیہ کی طرح اقبال عقل کو قطعاً رد نہیںکر تے ہیں بلکہ وہ اُسے وجدان یا شعور کی ایک کم ترحالت قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک فکر اور وجدان عضویاتی طور پر ایک دوسرے سے منسلک ہیں۱۰۰؎۔ اس حوالے سے وہ فکر کے حامی کانٹ اور وجدان کے حامی غزالی ؒ دونوں کے تصوّرات کو نا کافی خیال کر تے ہوئے فرماتے ہیں کہ غزالی ؒ اس نقطے کو نہیں سمجھ سکے کہ فکر اگر نا رساہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ زمانِ متسلسل سے وابستہ ہے۱۰۱؎۔ غزالیؒ کے خیال میں فکر کی مجبوری ہے کہ وہ حقیقتِ اولیٰ تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔ اقبال ؒ اس خیال کی تر دید کر تے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ علم کے ہر عمل میں فکر اپنی متناہیت سے تجاوز کر جا تا ہے۔ فکر لامتناہی اور لا یتجزّٰی تک پہنچ سکتی ہے کیوں کہ وہ اپنی ماہیت میں متحرک ہے،طبعی طور پر حدود سے آزاد ہے اور اپنی ہی ذات کے تنگ دائرے میں قید نہیں رہ سکتی:
\”In the wide world beyond itself nothing is alien to it. It is in its progressive participation in the life of the apparently alien that thought demolishes the walls of its finitude and enjoys its potential infinitude.\” ۱۰۲
فکر متحرک ہے اور اس کی حرکت اسی وقت ممکن ہو سکتی ہے جب وہ متناہی سے لا متناہی کا سفر کرے جو اس کے اندر ایک شعلہ جلائے رکھتی ہے۔لہٰذا فکر کو نارسا یا متناہی قرار دینا سرے سے ہی غلط ہے۔اقبال ؒ کا ماننا ہے کہ فکر کی بلندی ہی شعور و وجدان کی اعلیٰ سطحوں سے روشناس کراتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے بار بار تفکّر پر زور دیا ہے۔ خلیفہ عبد الحکیم اقبال ؒ کے اسی خیال کی تائید کر تے ہوئے فکرِ اقبالؒمیںلکھتے ہیں :
’’اگر انسان کی تنگ نظری اس کے عمل کو محدود نہ کر دے تو تفکر اسی حکمت تک پہنچا سکتا ہے جسے قرآن میں خدا نے خیر کثیر کہا ہے۔ غلط قسم کے متصوّفانہ عقائد کی وجہ سے بعض لو گوں نے عقل و فکر کو بے کار سمجھ کر بر طرف کر دیا۔ اور خالی تاثرات سے اسرارِ حیات کی گرہ کشائی چاہی۔ اقبال ؒ نے اس کے جواب میں صحیح تفکر کی ماہیت، اس کی قوتِ تسخیر اور حقیقتِ مطلقہ تک اس کی رسائی کو واضح کیا ہے ۔‘‘۱۰۳؎
تفکّر جب عالمِ محسو سات اور عالمِ مادی سے ماورا ہو کر قلبی واردات کی شکل اختیار کر تاہے تو وہ وجدان یا شعور کہلا تا ہے۔ اور وجدان کوئی ذہنی صفت نہیں ،ایک طاقتِ روحانی ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین لکھتے ہیں :’’وجدان بنیادی طورپر نا قابلِ ابلاغ ہو تاہے کیوں کہ وہ احساس ہے اور احساس کو دوسروں تک نہیں پہنچایا جا سکتا کیوں کہ وہ غایت درجہ شخصی ہو تا ہے۔ ‘‘۱۰۴؎۔ اقبال ؒ فرما تے ہیں کہ وجدان کی ایک صفت اس کی نا قابلِ تجزیہ کُلیّت ہے ۔ اس میں کُل ایک نا قابلِ تقسیم وحدت نظر آ تاہے ۔ حتی کہ تجر بے کا موضوع ، یعنی صاحبِ تجربہ خود بھی اسی وحدت میں غرق ہو جا تا ہے۔ حلّاج اور اس مکتبہ فکر کے دیگر صوفیہ کرام کا یہ ماننا ہے کہ یہی معراجِ انسانیت ہے۔ اقبال ؒ یہاں آ کر ٹھہر نہیں جا تے بلکہ وہ انسان کو اعلیٰ تر مقام پر اُس وقت پہنچا تے ہیں جب وہ اس کیفیّت(تجربۂ حضوری) سے باہر نکل کر بندے اور خدا کے مابین فرق کو پہچا ن لے ،یہی اس کی بقا ہے۔ وجدانی تجر بات چوں کہ ایک خاص موڈ اور مزاج رکھنے والے اشخاص پر ہی کار گر ہو تے ہیں اس لیے یہ صاحب تجربہ کی پوری شخصیّت کو بدل ڈالتے ہیں۔ اقبال ؒ فرماتے ہیں :’’(اس میں ) ایغو کی قو توں کو مرتکز کر نے اور اس طرح سے اُسے ایک نئی شخصیّت عطا کر نے کی صلاحیت ہو تی ہے۔‘‘۱۰۵؎۔شعور، ہماری ذات کا ادراک ہے اور وہ داخلی نوعیت رکھتا ہے جو واضح اور عمیق تر ہو گا جب کہ دیگر اشیا کا ادراک سطحی اور خارجی نوعیت کا ہو تا ہے۔ وہ شے جس میں شک و شبے کی کوئی گنجائش نہیں، ہمارا شعور ہی ہے اور یہی واضح شے ہے جو حقیقتِ مطلقہ تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۱۰۶؎۔پھر وہ فرما تے ہیں کہ جتنا کسی کاشعور ذات گہرا ہو گا اتنا ہی مدارجِ حقیقت میں اس کا درجہ بلند ہو گا۱۰۷؎۔ یہ شعور یا وجدان ہی ہے جو خاک کے اس پتلے میں تجلی کا ذوق پیدا کرتی ہے :
ہے ذوقِ تجلّی بھی اسی خاک میں پنہاں

غافل! تُو نِرا صاحبِ ادراک نہیں ہے۱۰۸؎
ڈاکٹر یوسف حسین خان کے بقول ’’ اقبالؒ کے نزدیک عقلِ کُلی میں ادراک کی صلاحیت کے علاوہ ذوقِ تجلی بھی موجود ہے اسی واسطے اس میں اور وجدان میں فرق باقی نہیں رہتا۔‘‘۱۰۹؎ ۔ یہ تجلیّ ،جسے قرآن میں’’ خیر کثیر ‘‘(حکمت) کہا گیا ہے،خدا کی عطا ہے ۔لیکن اس حکمت کا اہل بننے کے لیے اول انسان کا آمادہ ہونا ضروری ہے۔ جبھی فیضانِ حق نازل ہوگا۔محمد عبدالرحمن اپنے مضمون’’اقبال کا فلسفۂ خودی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ وجدان کی صلاحیت عبادات سے تقویت پکڑتی ہے۱۱۰؎ ۔یہی وجہ ہے کہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ اگر خرد کو جنون کی قبا پہنا دی جائے تو بندۂ مومن قیامت برپا کر دیتا ہے۔ کیوں کہ مومن عشق سے ہے اور عشق مومن سے۔ اور وجدان عشق ہی سے ارتقا حاصل کرتا ہے۔مثنوی ’پس چہ باید کرداے اقوامِ شرق‘ کا آغاز ہی وہ حرم پر خرد کی بغاوت سے کو روکنے کے لیے عشق کی مملکت سے تازہ سپاہ پیش کر کے کرتے ہیں:
زمانہ ہیچ نداند حقیقتِ او را

جنوں قباست کہ موزوں بہ قامتِ خرد است
گماں مبر کہ خرد را حساب و میزاں نیست

نگاہِ بندۂ مومن قیامتِ خرد است۱۱۱؎
برگساں اور اقبالؒ دونوں کا یہ ماننا ہے کہ ارتقا کے عمل کے لیے عقل وادراک کو جب تک وجدان (روحانی تحریک)کی مہمیز نہیںلگائی جائے گی وہ ارتقا کے مدارج طے نہیں کرسکتی۔ نیز یہ کہ مکمل و اعلیٰ انسانی درجہ اسی شخص کا نصیب ہے جو وجدان(حکمت) میں تیز تر ہے۔علامہ کے خیال میں حکمت وہ شے ہے جس کا تعلق انسان کی ذاتی کوشش سے ہے۔غوروفکر کی عادت ، مشاہدۂ کائنات اور تجرباتِ روحانی سے حکمت پروان چڑھتی ہے۔تاہم حکمت کی بھی دو اقسام علامہ نے بیان کی ہیں۔پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرقمیں وہ ’’حکمت کلیمی ‘‘ اور’’ حکمت فر عونی ‘‘ کے درمیان فرق کو واضح کر تے ہوئے فرما تے ہیںکہ مردِ قلندر کی عقل ، جنون کی پیدا وار ہو تی ہے اور اسی کی اطاعت میں رہتی ہے جب کہ فلسفی کی عقل ہر وقت ما دیت میں جکڑی رہتی ہے ۔ اسی لیے خوف زدہ اور بے بس ہو تی ہے ۔ حکمتِ کلیمی اس کے برعکس ہر قسم کے خوف سے پاک ہو تی ہے اس کا کلمہ ہی ’’لا خوف علیھم‘‘ ہو تا ہے ، وہ بے کلاہ و بے سپاہ ہے، ہر طرح کی قید سے اور تقلید سے آزاد ہے:
من نمی دانم چہ افسوں می کند

روح را در تن دگرگوں می کند
صحبت او ہر خزف را دُر کند

حکمتِ او ہر تہی را پُر کند
بندۂ درماندہ را گوید کہ خیز

ہر کہن معبود را کُن ریز ریز ۱۱۲؎
پھر وہ مردِ حق کو ان تقلید کے بندھنوں اور زنجیروں کو توڑنے کا کہتے ہیں :
مردِ حق افسونِ ایں دیرِ کہن

از دو حرف ربّی الاعلیٰ شکن ۱۱۳؎
جب مردِ حق اپنی ذات کے اندر گم ہو کر حقائق کو پا لیتا ہے تو پھر اس کا وجود ایک نمود حاصل کر تا ہے جو اسے لا فانی اور دائمی بنا دیتی ہے ۔ ’’حکمتِ فرعونی ‘‘ کو اقبال ؒ ’’حکمتِ اربابِ کیں‘‘۱۱۴؎ کہہ کر پکارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکمت کلیمی رکھنے والے کا کلمہ ’’اللہ بس‘‘ تھالیکن ’’حکمتِ فرعون کے حامل انسان کا کلمہ ’’ مکرو فن‘‘ ہے۱۱۵؎۔ وہ منطقی انداز اختیار کر کے اور دوسروں کو اپنی منطق کے الجھاؤ میں گرفتار کر کے خاموش کر ا دیتا ہے لیکن در اصل وہ خود اندر سے بے چین اور بے یقین ہو تاہے یہ ’’مکر و فن ‘‘ تعمیر کے بجائے روح کی بربادی کا سامان بنتاہے ۔ یہ وہ عقل ہے جو دین سے دور ہے ، اس کا مکتب لو گوں کو حاکم بنا نے کی بجائے محکوم بنا تا ہے آقا بنا نے کی بجائے غلام بنا تا ہے ؛ وہ دوسروں کے بنا ئے ہوئے راستوں اور تدبیروں کو اختیار کر تا ہے اور نتیجے کے طور پر تعمیر کی بجائے تخریب کاری سامنے آ تی ہے۔ اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ جب وہ صاحبِ نظر ہی نہیں ہے تو اپنے آپ سے کیسے با خبر ہو گا اور جب خود سے بے خبر ہے تو کیسی حکمت اور کیسی عقل؟ یہ تو بس نام کا حکیم و فلسفی ہے ، پوری دنیا کو جاننے کا دعویٰ کر تا ہے لیکن خود سے بے خبر ہے۔یہ ایسا شخص ہے جس کی روح اُس کے جسم میں مُردہ ہو چکی ہے ۔ اس میں قبر کی مٹی کی طرح بد بُو اور تعفّن ہے، حبس آلود ہے ، اس میں کوئی تازگی اور نمو نہیں ہے۱۱۶؎۔ اقبال ؒ ایسی حکمت سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں جو انسان کو اور قوموں کو مُردہ اور مادیت پرست بنا دیتی ہے۔ اقبال ؒ ’’ہر کہن بُت خانہ را باید شکست‘‘کا درس دیتے ہیںـ :
در جہانِ بے ثبات او را ثبات

مرگ او را از مقاماتِ حیات ۱۱۷؎
جاوید نامہمیں اس نکتے کو یوں بیان فرماتے ہیں :
پیکرِ فرسودہ را دیگر تراش

امتحانِ خویش کن ’موجود‘ باش ۱۱۸؎
ان کے یہاں افکار ،قلب و نظر کی آزادی کی بہت اہمیّت ہے لیکن آزادی سے اُن کی مراد مادر پدر قسم کی آزادی نہیں بل کہ یہ تقلید کی روش سے آزادی ہے ۔ یہ عقل و دل کو بندھے بندھائے اصولوں اور بنے بنائے ترا شیدہ راستوں پر چلنے کی بجائے اپنے لیے کُھلی سانس کے ساتھ نئی دُنیا ، نئے اصول اور نئی شاہراہیں تلاش کر نے کا درس دیتی ہے۔ ایسا نفس یا ایسی روح جو معاشرتی بندھنوں سے آزاد ہو کر اپنے بنائے ہوئے شہروں میں قدم رکھے ۔ اقبال ؒ کے یہاں وہی لائق ستائش اور حیات ابدی کا صحیح حق دار ہے ۔ ذہنی و جسمانی طور پر رسوم و رواج اور قانون و قواعد کا پابند شخص اقبال ؒ کے یہاں محکوم وغلام ہے ۔وہ خوف کا شکار ہے اسی لیے کچھ نیا نہیں کر تا ۔ ایسے شخص کی دنیائے اقبال ؒ میں کوئی جگہ نہیں، جس کی روح مر دہ و افسردہ ہے ، جومحنت سے گھبراتا ہے ، جدّت سے کتراتا ہے۔ــ’’ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کی بیاض‘‘ محکوم افراد کا نوحہ اور مردانِ حُر کا نغمۂ آزادی ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں :
آزاد کی رگ سخت ہے مانند رگِ سنگ

محکوم کی رگ نرم ہے مانندِ رگِ تاک
محکوم کا دل مُردہ و افسردہ و نومید

آزاد کا دل زند و پُر سوز و طرب ناک
آزاد کی دولت دلِ روشن نفسِ گرم

محکوم کا سرمایہ فقط دیدہ ٔ نم ناک
محکوم ہے بے گانہ ٔ اخلاص و مروّت

ہر چند کہ منطق کی دلیلوں میں ہے چالاک
ممکن نہیں محکوم ہو، آزاد کا ہم دوش

وہ بندہ ٔ افلاک ہے، یہ خواجۂ افلاک۱۱۹؎
شکوہِ عبد کا منکر نہیں ہوں میں لیکن

قبولِ حق ہیں فقط مردِ حُر کی تکبیریں
حکیم میری نواؤں کا راز کیا جانے

ورائے عقل ہیں اہلِ جنوں کی تدبیریں۱۲۰؎

چہ کافرانہ قمارِ حیات می بازی

کہ با زمانہ بسازی بخود نمی سازی
د گربہ مدرسہ ہائے حرم نمی بینم

دل جنیدؒ و نگاہِ غزالیؒ و رازیؒ
بحکم مفتی اعظم کہ فطرتِ ازل یست

بدینِ صعوہ حرام است کارِ شہبازی
ہماں فقیہہ ازل گفت جُرّہ شاہیں را

با آسماں گردی باز میں نہ پروازی
منم کہ تو بہ نہ کردم ز فاش گوئی ہا

زبیمِ ایں کہ بسلطاں کنند غمّازی۱۲۱؎
مسافر میں مرد حُر کے بارے لکھتے ہیں کہ وہ اپنے افکار میں آزاد، اعمال میں خود مختار اور خوددار ہوتا ہے۔ وہ ہر قسم کے خوف سے بے نیاز رہتا ہے اور تازہ افکار و اشیا کے لیے خود کو تیار رکھتا ہے۔ اس کا ضمیر ’’لا الہ‘‘ کے کلمے سے روشن رہتا ہے ، خدا کے سوا وہ کسی کی اطاعت قبول کرنا اپنی خودی کے شایانِ شان نہیں سمجھتا۔ ’’مردِ حُر‘‘ کے بارے میں فرما تے ہیں :
تا نہ پنداری کہ از خاک است او

از بلندی ہائے افلاک است او ۱۲۲؎
حضور رسالت مآب ﷺ سے وہ بلندی افکار اور تازہ خیالات سے کائنات کو منوّر کر دینے کے خواست گارہیں۔
سوختی لات و مناتِ کہنہ را

تازہ کردی کائناتِ کہنہ را ۱۲۳؎
مثنوی’’مسافر‘‘ میں فرماتے ہیں :
در گذر از رنگ و بو ہائے کہن

پاک شو از آرزو ہائے کُہن
ایں کہن ساماں نیرز دبادو جَو

نقش بندِ آرزوئے تازہ شو ۱۲۴؎
انسانِ کامل وہ ہے کہ جب ایک شے خستہ حال اور کُہنہ ہو جا تی ہے تو انھیں نئی شے کو قبول کر نے میں کوئی مشکل نہیں در پیش آتی بلکہ وہ ہر دم آئینِ نو کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ان کا ذوق انھیں پرانی اور گھسی پٹی اشیا سے بے زار کر دیتا ہے اور وہ تقلید کی روش پر چلنا تو دور کی بات اس کو جلا کر خاکستر کر دیتے ہیں ۔ روز اپنے لیے ایک نیا دفترِ حساب جاری کر تے ہیں:
چوں جہاں کہنہ شود پاک بسوزند او را

وز ہماں آب و گل ایجاد جہاں نیز کنند ۱۲۵؎
غلام محض مادی و عقلی وسائل و دلائل پرقناعت کرتا ہے جب کہ آزاد مرد، جس کی خودی بیدار اور وجدان زندہ ہے، ناممکنات کو ممکنات میں بدل دیتا ہے۔ عقل و خرد محض ذہنی کیفیات ہیں اس لیے وہ نئی اشیا کی خبر تو لا سکتی ہیں، معلومات میں اضافہ کر سکتی ہیںلیکن ان معلومات کی کثرت سے پیدا ہو نے والے مسائل کا حل نہیں تلاش کر سکتی۔ اس کا حل صرف وجدان کے پاس ہے جس کے لیے خرد نہیں بل کہ ِ نظر و حکمت درکار ہے:
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں۱۲۶؎
یہ نظرروحانی تجر بے سے ہی حاصل ہو تی ہے ۔ اور اس کے حصول کے لیے قلبی کیفیّات اور واردات کا اظہار میں لانا ضروری ہے۔ یہ طاقت صرف قلب کو حاصل ہے کہ وہ حقیقتِ مطلقہ کی نہ صرف خبر دے بلکہ انسان کو صاحبِ وجدان کر کے حقیقتِ مطلقہ کا حضوری تجربہ بھی کروائے۔ چناں چہ اس تجر بے اور واردات سے جو علم حاصل ہو گا وہ نا قابلِ تر دید اور حق الیقین کے درجے تک لے جائے گا۔’’Knowledge and Religious Experience‘‘ میں فرماتے ہیں کہ صوفیانہ تجربات یا فوق العادۃ اشیا بھی قلبی یا وجدانی طاقت کا نصیب ہیں، حواس اُس کو نہیں پا سکتے۔ قلب ایک اندرونی بصیرت، یا وجدان یا مولانا روم کے الفاظ میں ایک نورِ آفتاب ہے جس کی بدولت ہم حقیقتِ مطلقہ تک پہنچ سکتے ہیں اور حقیقتِ مطلقہ کے اُن پہلو ؤں سے اتصال پیدا کر لیتے ہیں جو ادراک بالحواس سے ماورا ہیں۔منصور حلّاج بھی وجدان کی اسی صلاحیّت کا معترف تھا کہ یہ حقیقتِ مطلقہ کا براہِ راست ادراک کر نے پر قادر ہے ۔۱۲۷؎:
یہ عقل جو مہ و پرویں کا کھیلتی ہے شکار

شریکِ شورشِ پنہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں۱۲۸؎
یوسف حسین خان کے بقول:’’ اقبالؒ عقل کو انسان کی خدمت کا وسیلہ خیال کرتا ہے۔ وہ اس کا مخالف نہیں، وہ صرف اس کی کوتاہیوں کو سمجھنا اور دوسروں کو سمجھانا چاہتا ہے۔‘‘ ۱۲۹؎
نوا مستانہ در محفل زدم من

شرارِ زندگی بر گل زدم من
دل از نورِ خرد کردم ضیا گیر

خرد را بر عیارِ دل زدم من ۱۳۰؎
اور پھر یہ نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ یہ تجلّی اُس وقت ظاہر ہو تی ہے جب صاحبِ وجدان اپنے تجر بہ ٔ حضوری کے ما تحت اپنے اور خدا کے مابین ایک پر دہ ٔ خفیف کا اعتراف کر لیتا ہے ۔ یہ مستوری ہی عین تجلّی ہے۔ خدا کا بندے پر تجلّی کو ظاہر کرنا وجدان و معرفت کی انتہا نہیں بلکہ اپنی کم و قعتی اور بندگی کی عاجزی کا اعتراف ہو جانا کہ تجلّی تو عین مستوری ہے ، وہ اپنا اظہار کبھی نہیں کرے گی، یہی معرفتِ انسانی ہے۔ بالِ جبریلکی ایک غزل میں فرماتے ہیں :
حکیم و عارف و صوفی، تمام مستِ ظہور

کسے خبر کہ تجلّی ہے عین مستوری ۱۳۱؎
اسی بات کو وہ ’’حصّہ دوم‘‘ کی غزل میں یوں بیان کر تے ہیں :
لبا لب شیشہ ٔ تہذیبِ حاضر ہے مئے ’لا‘ سے

مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانۂ ’اِلّا‘ ۱۳۲؎
ایسی حضوری جس سے انسان اپنے آپ کو پہچان لے، اپنے رازق کو پہچان لے اور اس کے بعد بقائے دوام حاصل کر لے، یہی اصل میں زندگی کی علامت ہے اور اقبال ؒ ہمیشہ کی زندگی کو ہر شے پر ترجیح دیتے ہیں۔ اُن کا فلسفہ زندگی ، ارتقائے مسلسل، جذبِ پیہمِ اندرون اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ و تابندہ رہنے کا فلسفہ ہے۔ وہ موت ، نا امیدی، افسر دگی، فنا، پژمر دگی، ٹھہرا ؤ اور ثبات کو مر دِ کامل کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹیں قرار دیتے ہیں۔ مردِ کامل کی یہی بقا ئے دوام کی خواہش اُسے حضوری کے تجر بے سے آشنا کر کے معرفت کے اعلیٰ تر مقام ( یعنی حقیقتِ اولیٰ کا ادراک ) سے آشنا کر دیتی ہے:
عقل گو آستاں سے دور نہیں

اُس کی تقدیر میں حضور نہیں
بے حضوری ہے تیری موت کا راز

زندہ ہو تُو تو بے حضور نہیں۱۳۳؎
اقبالؒ کے خیال میں وجدان کے حصول کے لیے فیضانِ حق یا عطیۂ خداوندی اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن اس میں انسان کے اپنے ارادے کا بھی بہت دخل ہے۔ اقبالؒ کبھی بھی انسان کو قدرت کے ہاتھ میں محض ایک کھلونا یا کٹھ پُتلی نہیں سمجھتے۔ انسان کا ہونا ان کے لیے بہت اہم ہے، اور اس کاہونا یہی ہے کہ وہ اپنے ارادے اور فکر اور عمل کا اظہار کرے ۔ محمد عبدالرحمٰن اپنے مضمون ’’ اقبالؒ کا فلسفۂ خودی ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اقبالؒ، وجدان کو عطیۂ خداوندی تسلیم نہیں کرتے بلکہ ان کا قول یہ ہے کہ خودی کو فیضانِ الٰہی کا مستحق بننے کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے، یہ عطیۂ خداوندی نہیں بل کہ اسی جدوجہد کا انعام ہے۱۳۴؎۔خود اقبالؒ فرماتے ہیں:
’’ جو خودی ترقی یافتہ اور مستعدبیدار حالت میں ہواس میں فیضانِ الٰہی کے لیے مقناطیسی کشش پیدا ہو جاتی ہے، چناں چہ وہ اسے اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ لیکن ترقی کے لیے خود اقدامی کی صلاحیت خود ی کے اندر سے اُبھرنی چاہیے اور یہی صلاحیت اس کی انفرادیت کا پیمانہ ہے۔ــ‘‘۱۳۵؎
اقبالؒ کہتے ہیں کہ صوفیانہ تجربے کے دوران ہونے والا احساس قطعاً ذاتی اور نا قابلِ ابلاغ ہو تا ہے۔ اسی لیے صوفیانہ تجر بات کا تجزیہ بھی نہیں کیا جا سکتا۱۳۶؎۔ اس کی ایک بڑی وجہ اقبال ؒ یہ بتا تے ہیں کہ وہ تجربے کے دوران ایک لمحہ ہوتا ہے جس سے صوفی آشنا ہو تا ہے اور آنِ واحد میں وہ ایک واحد و یکتا ہستی سے گہرے اتحاد کا تجر بہ حاصل کر تا ہے ، اس آن میںصاحبِ تجربہ کی اپنی شخصیت شعوری طور پر کالعدم ہو جا تی ہے۔ وہ اُس دوران شعور سے لا شعور میں داخل ہو تا ہے ، اس لیے اس لا شعور ی حلاوت کو بیان نہیں کر سکتا۱۳۷؎۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس اتحّاد سے مُراد انسان کا خدا کی ذات میں مدغم ہونا (حلول ) نہیں ہے بل کہ یہ صرف ایک لمحاتی کیفیت ہے جس سے صوفی یا صاحبِ وجدان شخص باہر نکل آ تاہے۔ وہ اس حالت سے واپس آ کر حقیقت کے اُس براہ راست مشاہدے کے چند جزئیات تو بیان کر دیتا ہے لیکن من و عن اپنے تجر بے کی کیفیت کو منتقل نہیں کر سکتا۱۳۸؎۔ نبی یا پیغمبر کا حال ، صوفی کے حال سے البتّہ مختلف ہو تا ہے ۔ اقبال ؒ فرما تے ہیں :
\”Both the mystic and the prophet return to the normal levels of experience, but with this difference that the return of the prophet, as i will show later, may be fraught with infinite meaning for mankind.\” ۱۳۹
جدید دور میں شعور کے مراتب پر نفسیات دانِ مغرب کا ذکر کر تے ہوئے اقبال ؒ کہتے ہیں کہ جن مراتبِ شعور کا مغربی نفسیات دان آج ذکر کر رہے ہیں، کئی صدیاں پیش تر مسلمان مفکّر ابن خلدون شعور کے ان خفیہ خانوں کو دریافت کر چکا تھا۱۴۰؎۔وہ منصور حلاج کے نعرہ ’’انا الحق ‘‘ کو بھی شعور کے مراتب کی اسی روشنی میں دیکھ کر یہ اخذ کر تے ہیں کہ وہ نعرہ بھی ایک شعوری پہلو کا اظہار تھا۔رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی لڑکے ابن صیاد کے انھی شعوری مراتب کی اصل تک پہنچنے کے لیے اس سے سوال کیاتھا۱۴۱؎ ۔ جدید سائنس میںسگمنڈفرائڈ کے ’’تحت الشعور‘‘ کی دریافت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ،جس سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ ہمارے شعور کے بعض مراتب ایسے بھی ہیں جن سے ہم خود بے خبر ہو تے ہیں۱۴۲؎۔ موجودہ دور میں تحلیل نفسی اور سائنسی مراقبوں کا طریقِ کا ر اصل شعور کے انھی خفیہ گو شوں کو سامنے لانے کی کوشش ہے ۔ تاہم بقول اقبال ؒ جدید نفسیات ابھی تک صوفیانہ شعور( وجدان ) کے مراتب کو دریافت نہیں کر سکی۱۴۳؎۔اس کی ایک اہم وجہ بر گساں اپنی کتاب ’’An Introduction to Meta-Physics‘‘ میں بیان کر تاہے کہ نفسیات دان جب ایک معمول کا نفسی تجزیہ کر تا ہے تو وہ مادے کو نظر انداز کر تا ہی نہیں۔ نہ ہی وہ ظاہری زمان و مکان سے باہر ہی نکل پا تاہے۔ لھٰذا وہ معمول کی ’’انا‘‘ (ایغو؍ خودی) تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ اس کی وہ عینک ہے جو مادے سے بنی ہے۱۴۴؎۔ ۔چناں چہ اقبال ؒ اس نتیجے پرپہنچتے ہیں :
’’ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے اس قسم کے احوال و مشاہدات کی تحقیق علمی نہج پر کی جائے، مثلاً جو حلاج کو پیش آئے اور جو اگر علم کا ایک سر چشمہ ہیں بھی تو ہم اُن سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ ‘‘ ۱۴۵؎
اقبالؒ ، اپنے ہم عصر فلسفی برگساں کے نظریۂ ارتقا سے اسی وجہ سے بہت متاثر ہوئے کیوں کہ یہ ان کے وجدانی تصورات ، جن میں اعلیٰ تر مقام خودی کو حاصل ہے کے لیے معاون ثابت ہوا۔برگساں کا نظریۂ ارتقا ہو یا فرائیڈ اور اس کے شاگرد کا اجتماعی شعور کا نظریہ، دونوں اقبالؒ کے نظریۂ خودی کے لیے مہمیز کا کام دیتے ہیں۔ بشیر احمد ڈارکے بقول برگساں انسانی شعور کی زیادہ گہری سطحوں کا پُر زور حامی تھا، یعنی وہ حیاتِ انسانی کے روحانی پہلو کی حرکیت کا بڑا قائل تھا اور یہی وہ بات تھی جس نے اقبالؒ کو برگساں کا فریفتہ کیا تھا۔وہ لکھتے ہیں:’’ دراصل یہ مشرق ہی کی صدائے بازگشت تھی جو مغرب کے کافر کے دل میں گھر کر رہی تھی، اقبالؒ نے اسی تشویق کو قبضے میں کیا اور اسے وسعت دی۔‘‘۱۴۶؎ ۔اقبالؒ نے اس تصور کو نہ صرف وسعت دی بلکہ انھوں نے اس میں ایک اہم اضافہ یہ کیا کہ انھوں نے رومی اور برگساں کی طرح عقل کو قطعاً فراموش نہیں کیا، نہ ہی اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا۔بلکہ ان کے نزدیک عقل اور فکر وجدان کی اولین سیڑھیاں ہیں ، جن سے گزر کر ہی ذاتِ الٰہی کی معرفت ممکن ہے۔

حوالہ جات

۱۔محمد اقبال،علامہ :کلیاتِ اقبال اردو،لاہور: اقبال اکادمی ،اشاعت ششم،۲۰۰۴ء ،ارمغانِ حجاز،ص:۷۲۳،۷۲۴
۲۔ برہان احمد فاروقی ،ڈاکٹر:حضرت امام ربانی ؒ کا نظریہ توحید، لاہور: آئینہ ادب،اشاعت چہارم، ۱۹۷۴ء، ص: ۵۱، ۵۲
3. Muhammad Iqbal, Allama: Reconstruction of Religios Thought in Islam,M. saeed Sheikh(Ed): Lahore: Institute of Islamic Culture, 2011, Pg:01,02
4. Ibid. Pg: 2
5. Abdul Khaliq,Dr: Problems of muslim Mysticism, Lahore:Iqbal Academy Pakistan,2012, 1st.Ed, Pg:16
۶۔ارمغانِ حجاز،ص:۷۲۵
۷۔فقیرؔ،سید وحید الدین : روزگار فقیر ، لاہور: مکتبہ تعمیر انسانیت ، ۱۹۶۳ء ، جلد دوم، ص: ۲۶۹
۸۔ایضاً،ص: ۲۶۹
۹۔ایضاً،جلد دوم،ص:۲۳۰
۱۰۔رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر: اقبال کا تصوّر زمان و مکان اور دوسرے مضامین، لاہور: بزمِ اقبال، ۱۹۷۳ء ،طبع اول، ص :۸۴
11. Reconstruction of Religious Thought in Islam,Pg:1
۱۲۔عشرت حسین انور، ڈاکٹر:اقبال کی ما بعد الطبیعیات،ص :۴ ۰
۱۳۔ارمغانِ حجاز، ص: ۹۹۱
۱۴۔ ابو محمد مصلح :قرآن اور اقبال،حیدر آباد دکن: ادارہ عالم گیر تحریک قرآن مجید، ۱۳۵۹ ھ، ص: ۱۵
51. Reconstruction, pG:50
16. Muhammad Iqbal, Allama: Latif Ahmed Sherwani (Ed): Speeches, Writings & Statements of Iqbal, Lahore: Iqbal Academy Pakistan,5th Edition, 2009,Pg:81
17. Ibid
۱۸۔اصفہانی،امام راغب :المفردات القرآن،باب الف
19. Bergson,H.Louis: Arthur Mitchel (Trans): Creative Evolution, London,1911,pg:13
20. Ibid, Pg:15
21. Ibid, Pg:15,16
۲۲۔محمد اقبال،علامہ:کلیاتِ اقبال فارسی،لاہور: شیخ غلام علی اینڈ سنز، ۱۹۷۷ء ،زبورِ عجم، ص:۴۲۶
۲۳۔ایضاً۔
۲۴۔ زبورِ عجم، ص:۴۶۶
۲۵۔محمد اقبال، علامہ:نذیرنیازی(مترجم):ـ تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، لاہور:بزمِ اقبال،اشاعت پنجم،۲۰۰۰ء، ص: ۸۲
۲۶۔سورۃ یٰسین، آیت نمبر:۸۲
۲۷۔زبورِ عجم،ص:۴۹۵
۲۸۔سورۃ قٓ،آیت نمبر:۱۶
۲۹۔افلاطون:محمد رفیق چوہان(مترجم):مکالماتِ افلا طون،اسلام آباد:م۔ن، ۱۹۸۷ء ، ص: ۸۶
۳۰۔محمد اقبال،علامہ:کلیاتِ اقبال فارسی،لاہور: شیخ غلام علی اینڈ سنز، ۱۹۷۷ء،جاوید نامہ،ص:۵۹۸
31. H.Louis.Bergson: Arthur Mitchell, (Trans): Creative Evolution, London, 1911,pg:13
32. Ibid
33. Reconstruction,Pg:51
۳۴۔زندہ رود، ص: ۱۰۶۵
۳۵۔اقبال کا علم الکلام،ص:۷۴
۳۶۔خطباتِ اقبال ایک مطالعہ،ص:۱۰۴ تا۱۰۶
۳۷۔اقبال کا علم الکلام، ص:۷۵ تا ۷۷
۳۸۔یہ ایک غیر مستند روایت ہے، حوالہ: جلال الدین السیوطی: الحاوی للفتویٰ،(الفتاوی الصوفیا) دار الفکر للطباعۃ والنشر،۲۰۰۴ء ص:۲۸۸۔صوفیا کی کتب اس قول سے بھری ہوئی ہیں کہ یہ حدیثِ قدسی ہے، جب کہ ابن تیمیہ ؒکے مطابق یہ موضوع حدیث ہے، امام نوویؒ کے مطابق اس کی سند میں اشتباہ ہے۔ابن سمعانی کا کہنا ہے کہ پہلی بار اس حدیث کو یحییٰ معاذ رازی نے بیان کیا ہے۔
۳۹۔ محمد اقبال،علامہ:کلیاتِ اقبال فارسی،لاہور: شیخ غلام علی اینڈ سنز، ۱۹۷۷ء،اسرارِ خودی،ص۱۳
۴۰۔یزدانی،خواجہ حمید :شرح اسرارورموز،لاہور: سنگِ میل پبلیکیشنز،۲۰۰۴ء،ص:۲۶
۴۱۔عبد الرؤف ملک:مغرب کے عظیم فلسفی،ص: ۲۵۷،۲۵۸
۴۲۔محمد اقبال،علامہ:کلیاتِ اقبال اردو،لاہور:اقبال اکادمی،۲۰۰۴ء، ضرب کلیم، ص: ۵۴۶
۴۳۔فلسفۂ عجم، ص:۵۹ تا ۶۲
۴۴۔امام غزالی ؒ: محمد حنیف ندوی(مترجم): تہافۃ الفلاسفۃ،لاہور: ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ،،۱۹۷۴ء ،ص :۱۸
45- Reconstruction,Pg:57
46- Reconstruction,Pg:57
۴۷۔اسرارِ خودی،ص:۱۲،۱۳
۴۸۔سورۃ عصر،آیت نمبر:۱
۴۹ ۔صحیح بخاری، کتاب الادب،جلد چہارم، حدیث:۵۸۲۸/صحیح مسلم۔باب النھی عن سب الدھر،جلد۴،حدیث:۱۷۶۲
۵۰۔سنن البیھقی الکبری، جلد:سوم، ص:۳۶۵، حدیث:۶۲۸۳
51- Reconstruction,Pg:58
52- Reconstruction,Pg:60
۵۳۔کلیاتِ اقبال اردو، لاہور: اقبال اکادمی ، اشاعت ششم، ۲۰۰۴ء،بالِ جبریل، ص:۴۱۹
54- Reconstruction, Pg:61
۵۵۔ بالِ جبریل، ص:۴۲۰
56- Reconstruction, Pg:60
۵۷۔بالِ جبریل، ص:، ص:۳۸۰
58- Reconstruction, Pg:62
۵۹۔کلیاتِ مکا تیب اقبال،جلد دوم، ص: ۱۶۴
۶۰۔پڑھئیے: علی عباس جلال پری، یوسف سلیم چشتی،الطاف احمد اعظمی،خواجہ حمید یزدانی،ڈاکٹر برہان فاروقی
۶۱۔کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم، ص: ۱۶۴
۶۲ ۔بال جبریل،ص:۳۵۲
۶۳۔محمد اقبال،علامہ:میر حسن الدین (مترجم)فلسفۂ عجم،حیدر آباد دکن: نفیس اکیڈمی،تیسرا ڈیشن، ۱۹۴۴ء ،ص:۱۵۴ تا۱۵۶
۶۴۔مظفر حسین برنی،سید: کلیاتِ مکاتیبِ اقبال،لاہور: ترتیب پبلیکیشنز، جلد اول، ص:۲۳۶
۶۵۔عبداللہ قریشی:اقبال یورپ میں،لاہور: ، ص: ۸۸
۶۶۔کلیاتِ مکا تیبِ اقبال، جلد دوم، ص: ۱۶۰
۶۷۔کلیاتِ مکاتیب اقبال، جلددوم، ص: ۱۶۰، ۱۶۱
۶۸۔کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم ، ص: ۹۷
۶۹۔ عبد القدیر صدیقی:فصوص الحکم، دیباچہ
۷۰۔ایضاً۔
۷۱۔اقبالیات کے سو سال، ص: ۴۴۰
۷۲۔ایضاً۔
۷۳۔ ایضاً، ص: ۴۴۳
۷۴۔ محمد اقبال،علامہ :کلیاتِ اقبال فارسی،لاہور: شیخ غلام علی اینڈ سنز، ۱۹۷۷ء،پس چہ باید کرد، ص:۸۶۰
۷۵۔بانگِ درا،ص: ۲۹۰
۷۶۔کلیاتِ مکاتیبِ اقبال، جلد دوم، ص:۴۵
۷۷۔تشکیل جدیدالٰہیات اسلامیہ، ص: ۱۱۸، ۱۱۹
۷۸۔ایضاً
۷۹۔فلسفۂ اقبال، مرتبہ: بزمِ اقبالؒ ، لاہور: ۲ کلب روڈ، طبع دوم، مارچ ۱۹۸۴ء، ص: ۱۲۳
۸۰۔ علامہ محمد اقبال،شیخ:کلیاتِ اقبال فارسی،لاہور: شیخ غلام علی اینڈ سنز، ۱۹۷۷ء، جاوید نامہ ،ص:۵۹۸
81- Reconstruction, Knowledge and Religious Experiance, Pg:18
82- Reconstruction, Pg:66 to 68
۸۳۔ علامہ محمد اقبال،شیخ:کلیاتِ اقبال فارسی،لاہور: شیخ غلام علی اینڈ سنز، ۱۹۷۷ء،ارمغانِ حجاز، ص:۸۹۷
۸۴۔ بالِ جبریل، ص:۴۱۳
۸۵۔ سورۃ بقرہ، آیت نمبر:۳۰
86- Reconstruction, Pg:69
87- Reconstruction, Pg:69
۸۸۔ علامہ محمد اقبال،شیخ:کلیاتِ اقبال فارسی،لاہور: شیخ غلام علی اینڈ سنز، ۱۹۷۷ء،جاوید نامہ، ص:۶۰۲
۸۹۔ علامہ محمد اقبال،شیخ:کلیاتِ اقبال فارسی،لاہور: شیخ غلام علی اینڈ سنز، ۱۹۷۷ء،مثنوی مسافر،ص:۸۶۶
90- Latif Ahmed Sherwani: Speeches, writings and statements of Iqbal, Lahore: Iqbal Academy, 5th Edition, 2009, Pg: 83
۹۱۔ ایضاً،ص:۸۲،۸۳
۹۲۔ ایضا،ص:۸۳
۹۳۔ ایضا،ص:۸۴
۹۴۔ فلسفۂ عجم۔حیدر آباد دکن: نفیس اکیڈمی، اکتوبر ۱۹۴۴ تیسرا اڈیشن، ص:۵۱
۹۵۔ بال جبریل،ص:۳۶۵
۹۶۔ خواجہ حمید یزدانی:شرح بالِ جبریل،لاہور: سنگ میل ۲۰۰۵ ، ص ۴۳
۱۹۷۔ غلام رسول مہر:مطالب بال جبریل،لاہور: غلام علی اینڈ سنز، ۱۹۹۹ ء، ص ۵۵
۹۸۔ وزیر الحسن عابدی ،سید:اقبال کے شعری مآخذ ،لاہور: مجلس ترقی ادب ، طبع اوّل، ۱۹۷۷ ء، ص: ۰۹
۹۹۔ خطبات نیازی۔ ص ۸۵
۱۰۰۔ تشکیلِ جدید،ص :۰۲
۱۰۱۔ تشکیل جدید ، ص: ۰۵
102- Pg: 05
۱۰۳۔ خلیفہ عبد الحکیم:فکرِ اقبال،لاہور: بزمِ اقبال، جولائی ۱۹۹۲ء، ص ۳۸۹
۱۰۴۔ عشرت حسین انور:اقبال کی ما بعد الطبیعیات ، مترجم: ڈاکٹر شمس الدین صدیقی ،لاہور: اقبال اکادمی پاکستان ، ۱۹۷۷ ء، ص: ۲۱
105- Reconstruction,Pg:06
۱۰۶۔ خطبات نیازی۔ ص :۱۲۵
۱۰۷۔ ایضاً
۱۰۸۔ بال جبریل،ص:۳۶۹
۱۰۹۔ یوسف حسین خان،ڈاکٹر:روحِ اقبالؒ، دہلی: مکتبۂ جامعہ، طبع ثالث، ۱۹۵۲ء ،ص: ۵۸
۱۱۰۔ فلسفۂ اقبال، مرتبہ بزمِ اقبالؒ،لاہور: ۲ کلب روڈ، طبع دوم، مارچ ۱۹۸۴ء ، ص: ۳۰۴
۱۱۱۔ پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق،ص:۸۰۱
۱۱۲۔ ایضاً،ص:۸۰۹
۱۱۳۔ ایضاً،ص:۸۰۹
۱۱۴۔ایضاً،ص:۸۱۱
۱۱۵۔ ایضاً،ص:۸۱۱
۱۱۶۔ ایضاً،ص:۸۱۱
۱۱۷۔ ایضاً،ص:۸۲۳
۱۱۸۔ جاوید نامہ،تمہیدِ زمینی،ص:۶۰۸
۱۱۹۔ ارمغانِ حجاز، ص:۷۴۴
۱۲۰۔ ارمغانِ حجاز، ص:۷۴۷
۱۲۱۔ ارمغانِ حجاز، ص:۷۴۴
۱۲۲۔ پس چہ باید کرد،ص: ۸۳۰
۱۲۳۔ پس چہ باید کر د،در حضور رسالت مآبﷺ،ص:۸۴۴
۱۲۴۔ خطاب بہ اقوامِ سرحد،ص:۸۵۶
۱۲۵۔ زبور عجم،ص:۴۶۳
۱۲۶۔ بال ِ جبریل ،ص:۳۷۸
۱۲۷۔ تشکیلِ جدید ۔ نیازی ، ص: ۵۳
۱۲۸۔ ضرب کلیم، ص:۵۴۷
۱۲۹۔ یوسف حسین خان، ڈاکٹر:روحِ اقبالؒ، دہلی: مکتبۂ جامعہ، طبع ثالث، ۱۹۵۲ء ،ص: ۶۰
۱۳۰۔ پیامِ مشرق، ص:۲۴۱
۱۳۱۔ بال جبریل، ص:۳۷۵
۱۳۲۔ بال جبریل، ص:۳۶۱
۱۳۳۔ بال جبریل، ص:۳۷۵
۱۳۴۔ فلسفۂ اقبال، مرتبہ بزمِ اقبالؒ،لاہور: ۲ کلب روڈ، طبع دوم، مارچ ۱۹۸۴ء ، ص: ۳۰۴
۱۳۵۔ عبدالرحمن: اقبال کا فلسفۂ خودی، مشمولہ: فلسفۂ اقبال، مرتبہ بزمِ اقبالؒ،لاہور: ۲ کلب روڈ، طبع دوم، مارچ ۱۹۸۴ء ، ص: ۳۰۴
۱۳۶۔ تشکیلِ جدید،ص:۱۶
۱۳۷۔ ایضاً،ص:۱۵
۱۳۸۔ ایضاً،ص:۱۶
139- Reconstruction, Pg:07
۱۴۰۔ تشکیلِ جدید ،ص: ۱۴
۱۴۱۔ صحیح بخاری،کتاب التقدیر، حدیث:۶۲۵۰
۱۴۲۔ خطبات نیازی، ص: ۱۵۵
۱۴۳۔ تشکیلِ جدید۔ ص:۱۴
144- An Introduction to Meta-Physics, Chapter One
۱۴۵۔ خطبات نیازی،ص ۱۵۵
۱۴۶۔ بشیر احمد ڈار: اقبالؒ اور برگساں، مشمولہ: فلسفۂ اقبال،مرتبہ :بزمِ اقبالؒ ، لاہور: ۲ کلب روڈ، طبع دوم، مارچ ۱۹۸۴ء، ص: ۱۰۳

Leave a Comment