اقبال۔ بھوپال اور پروفیسر آفاق احمد

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؔ کی یوم ولادت پر خصوصی پیش کش

\"me-faroqui\"
٭ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
صدر شعبہ اردو
گری راج کالج نظام آباد تلنگانہ اسٹیٹ۔

\"iqbal_day_1\"

ہندوستان میں دہلی اور لکھنو کے بعد جن دبستان ادب کو شہرت ملی ان میں دبستان رامپور دبستان حیدرآباد اور دبستان بھوپال مشہور ہوئے ۔ بھلے ہی ان تین شہروں کو دبستان دہلی اور دبستان لکھنو کی طرح شہرت نہ ملی ہو لیکن ان دبستانوں نے بھی فروغ اردو میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بھوپال کو نوابوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ آزادی سے قبل یہاں کے نوابوں نے اردو زبان و ادب کی جو سرپرستی کی تھی اس کے اثرات آزادی کے بعد بھی جاری رہے۔ بھوپال میں اردو زبان اور اردو تہذیب کے کئی تہذیبی نقوش ہیں۔ غیر منقسم ہندوستان میں اردو کے نامور شاعر علامہ اقبال نے اکثر بھوپال کا دورہ کیا اور وہاں بغرض علاج اور دیگر وجوہات کی بنا کافی عرصہ قیام بھی کیا۔ اہل بھوپال نے اقبال کی مہمان نوازی میں کوئی کثر نہیں چھوڑی اور ان کی یادوں کو مختلف انداز میں ادب کی تاریخ میں محفوظ کرتے رہے۔ آزادی کے بعد بھوپال میں اردو زبان و ادب کو فروغ دینے اور اقبالیات کو عا م کرنے میں جس شخصیت نے اپنا نام روشن کیا وہ پروفیسر آفاق احمد ہیں۔ وہ ایک نامور محقق ‘ نقاد‘افسانہ نگار‘شاعر ‘ادیب‘ صحافی‘ ماہر اقبالیات ‘ اردو کی اہم کتابوں کے مرتب اور اردو طلبا کے ہردلعزیز استاد گذرے ہیں۔
آفاق احمد ۳۰۔ جولائی ۱۹۳۲ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے۔ ان کی ساری تعلیم اور ملازمت بھوپال میں ہی ہوئی۔ مقامی اسکول میں ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد انہوں نے حمیدیہ کالج بھوپال سے ایم اے کیا۔ ان کے اساتذہ میں صفیہ اختر‘گیان چند جین‘ڈاکٹر ابو محمد سحر‘ڈاکٹر سلیم حامد رضوی وغیرہ شامل ہیں۔ سرکاری ملازمت میں آنے سے قبل انہوں نے مقامی اخباروں کے علاوہ قومی آواز‘ملاپ‘خلافت اور بھوپال میں نامہ نگاری کے فرائض بھی انجام دئے۔آفاق احمد کو ایم اے کے فوراً بعد محکمہ اعلیٰ تعلیم حکومت مدھیہ پردیش نے اسی کالج میں ۱۹۵۹ء میں لیکچرر بنادیا۔ ایم اے کے بعد جب انہیں ملازمت مل گئی تو انہیں پی ایچ ڈی کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ۱۹۷۲ ء میں وہ پروفیسر ہوئے اور ۱۹۹۲ء میں وظیفہ پر سبکدوش ہوئے۔پروفیسری کے بعد ان کی خدمات ایم ایل بی گرلز کالج بھوپال یونیورسٹی میں رہیں۔پروفیسر آفاق احمد ہمدرد اور شفیق استاد اور اردو کے سچے خدمت گذار تھے۔ دوران طالب علمی وہ ہاکی کے اچھے کھلاڑی تھے اور سری لنکا کے خلاف انہوں نے ٹیم کی قیادت بھی کی۔ پڑھنا لکھنا اور اردو زبان و ادب کا فروغ ان کا مشن تھا۔ انہوں نے علامہ اقبال ادبی مرکز بھوپال کے تحت مجلس اقبال کے نام سے چھ جلدیں مرتب کیں۔ جس میں بھوپال میں اقبال کے فکر و فن پر منعقد ہونے والے سمیناروں میں پیش کردہ مقالوں کو شامل کیا گیا ہے۔تحقیق و تنقیدکے موضوع پر ان کی کتاب’’ امانت قلب و نظر‘‘ مقبول ہوئی۔’’پرشور خاموشی‘‘ کے نام سے ان کے افسانوں کا مجموعہ شائع ہوا جس میں تقسیم ہند کے اثرات پر کامیاب افسانے شامل ہیں۔ وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ انہوں نے مدھیہ پردیش اردو اکیڈیمی کی معتمدی کی اور دوران خدمت اردو شعرا اور ادیبوں کی کتابوں کی اشاعت میںمعاونت کی۔ اکیڈیمی کا ترجمان خبر نامہ شائع کروایا۔ انہوںنے پی ایچ ڈی کے لئے کئی طلبا ء کی رہبری کی ان کے زیر نگرانی تیس طلبا نے اردو میں ڈاکٹریٹ کی تکمیل کی۔ وہ اردو کے مقبول محقق ونقاد رہے ۔ انہوں نے ملک و بیرون ملک کئی سمیناروں‘ادبی اجلاسوں اور کانفرنسوں میں شرکت کی۔ ان کی خدمات پر انہیں کئی اعزازات اور ایوارڈز دیے گئے۔دوستوں اور شاگردوں میں بے حد مقبول تھے۔انہیں فطرت سے بے حد لگائو تھا۔ ان کے گھر گلاب کے سو سے ذائد اقسام کے پودے تھے اس لیے انہوں نے اپنے گھر کا نام بھی ’’گل کدہ ‘‘ رکھا تھا۔ اردو زبان و ادب کی طویل دور تک خدمت کی۔ ۸۴ سال کی عمر پانے کے بعد مختصر سی علالت کے بعد ۳۰ مارچ ۲۰۱۶ ء کو انتقال ہوگیا۔انہیں جہانگیر آباد بھوپال کے قبرستان میں سپرد لحد کیا گیا۔ تدفین کے وقت شعرا ادیبوں‘اساتذہ ‘طلبا اور زندگی کے مختلف شعبہ جات کی اہم شخصیات موجود تھیں۔ ان کے انتقال پر دہلی میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے ایک تعزیتی نشست رکھی جس میں پروفیسر ارتضی کریم اور دیگر نے ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا ۔
پروفیسر آفاق احمد ماہر اقبالیات کے طور پر کافی مشہور ہیں۔ اقبال شناسی کے ضمن میں ان کا اہم کام مجلس اقبال کے نام سے کتابوں کی ترتیب ہے۔شہر بھوپال کو اقبال سے خاص مناسبت رہی تھی۔ اقبال پہلی بار 9مئی1931ء کو بھوپال تشریف لائے تھے۔ اور 31جنوری1935ء تا8اپریل1936ء تین مرتبہ انہوں نے بھوپال کا دورہ کیا تھا۔ اور اس دوران انہوں نے تقریباً چار ماہ اس شہر میں قیام کیا تھا۔ پہلی مرتبہ وہ ایک مشاورتی اجلاس کے ضمن میں بھوپال آئے تھے۔ اجلاس میں اقبال کے علاوہ مولانا شوکت علی اور دیگر شریک تھے۔ دوسری مرتبہ انہوں نے سر راس مسعود کی کوٹھی میں قیام کیا۔ بعد میں حمیدیہ ہاسپٹل میں بھی ان کے علاج کے سلسلے میں وہ یہاں آئے۔اقبال نے قیام بھوپال کے دوران کچھ نظمیں بھی کہی تھیں۔ جن میں نگاہ‘امید‘صبح اور مومن وغیرہ شامل ہیں۔
اہل بھوپال نے اقبال کی سرزمین بھوپال سے لگائو کو یادگار بنادیا چنانچہ پروفیسر آفاق احمد کے وطن بھوپال میں شاعر مشرق علامہ اقبال کے نام سے حکومت مدھیہ پردیش نے ’’ کل ہند علامہ اقبال ادبی مرکز‘‘ قائم کیا تھا۔ اس مرکز کے قیام کا اعلان12مارچ1982ء کو ہوا۔اس ادارے کے تاسیسی اراکین میں علی سردار جعفری ‘ماہر اقبالیات آل احمد سرور‘جگن ناتھ آزاد‘ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی‘قرۃالعین حیدر‘نثار احمد فاروقی‘شمس الرحمن فاروقی‘ابو محمد سحر اور پروفیسر آفاق احمد شامل تھے۔ اس ادارے کا مقصد اقبال پر تحقیقی کام کو فروغ دینا‘ہندوستانی زبانوں میں اقبال کے کلام کو منتقل کرکے شائع کرانا اور اقبال کے فن اور شخصیت پر ہر سال سمینار منعقد کرانا شامل ہے۔ ’’ کل ہند علامہ اقبال ادبی مرکز‘‘ بھوپال کے تحت ہر سال اقبال یادگاری سمینار منعقد ہوتے رہے اور ان سمیناروں میں پڑھے گئے مقالات کتابی شکل میں شائع ہوتے رہے۔ یہ خاص نمبر اقبال شناسی اور فکر اقبال کو عام کرنے اور اسے دوسری نسل تک پہونچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔پروفیسر آفاق احمد اور ان کے رفقا نے بھوپال میں اقبالیات یادگاری سمیناروں کے انعقاد کا ایک سلسلہ جاری رکھا اور دوسرا اہم کام یہ کیا کہ ان سمیناروں میں پڑھے گئے مقالات کو کتابی شکل میں شائع کرتے ہوئے اقبال شناسی میں اہم کردار انجام دیا۔ ذیل میں پروفسیر آفاق احمد کی جانب سے اقبالیات سمیناروں میں پڑھے گئے مقالوں کی مرتبہ کتابوں کا تعارف اور ان میں شامل مقالات کے عنوانات پیش کئے جارہے ہیں جن سے اقبال شناسی کے ضمن میں ان کتابوں میں محفوظ قیمتی مواد تک رسائی ممکن ہے۔
علامہ اقبال ادبی مرکز کے تحت منعقد ہونے والے ادبی سمیناروں میں پڑھے گئے مقالات کا پہلا مجموعہ بیابہ مجلس اقبال‘‘ کے نام سے 1990 ء میں شائع ہوا۔ ۱؎۔ اس مجموعے کو اقبال کے ایک پرستار ممنون حسن خان نے ترتیب دیا۔ بعد میں اسی نام سے دوسری جلد ممنون حسن خان نے اور تیسری جلد پروفیسر آفاق احمد نے ترتیب دی۔ اسی دوران اطلاع ملی کے پاکستان میں ڈاکٹر عبدالحمید یزدانی نے اسی نام سے کتاب شائع کی ہے تو ناموں کی یکسانیت بدلنے کی خاطر ممنون حسن خان اور پروفیسر آفاق احمد نے اتفاق رائے سے اقبال یادگاری سمیناروں میں پڑھے جانے والے مقالوں پر مبنی کتابوں کا نام صرف’’ مجلس اقبال‘‘ رکھا۔ اور اس نام سے مزید 6کتابیں منظر عام پر آئیں جسے یکے بعد دیگرے پروفیسر آفاق احمد نے مرتب کیا۔ پروفیسر آفاق احمد کی جانب سے مرتبہ کتابوں کا تعارف اس طرح ہے۔
بیابہ مجلس اقبال حصہ سوم
بیابہ مجلس اقبال حصہ سوم کے نام سے پروفیسر آفاق احمد کی مرتبہ تیسری کتاب مارچ1993ء کو اقبال ادبی مرکز بھوپال سے شائع ہوئی۔ کتاب کا انتساب ممنون حسن خان کے نام کیا گیا۔ جو بھوپال میں اقبال کے قریبی رفیق تھے۔بیابہ مجلس اقبال کی ابتدائی دو جلدوں کے مرتب ممنون حسن خان تھے۔حرف آغاز کے عنوان سے پروفیسر آفاق احمد نے مجلس اقبال کی اشاعت اور بھوپال میں اقبال مرکز کے قیام کی تفصیلات پیش کیں۔ پروفیسر آفاق احمد اس ضمن میں لکھتے ہیں:
’’اقبال صدی کے دوران برف پگھلی اور آزاد ہندوستان میں اقبال کے سلسلے میں جس بے اعتنائی اور تنگ دلی کا مظاہرہ کیاگیا تھا اس کے ازالے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسی زمانے میں بھوپال میں مدھیہ پردیش اردو اکیڈیمی کی تشکیل عمل میں آئی تو اس نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز اقبال کے نام پر ایک تاریخی مشاعرے اور پرشکوہ سمینار کی شکل میں کیا۔۔۔ مجھے اس بات پر ہمیشہ ناز رہے گا کہ ان دونوں تقریبات کی ترتیب و تہذیب کی پوری ذمہ داری مجھے سونپی گئی تھی۔۔۔ آخر میں اس سمینار کے مقالات کا مجموعہ ترتیب دینے کی ذمہ داری مجھے تفویض کی گئی۔12مارچ1982ء کو بھوپال میں اقبال شناسی کے ایک نئے دور کاآغاز ہوا جب مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ جناب ارجن سنگھ نے یہ تاریخ ساز اعلان کیا کہ صوبہ میں اقبال ادبی مرکز قائم کیا جائے گا۔ شیش محل کے اس حصہ میں جہاں اقبال نے قیام کیا اقبال میوزیم بنایا جائے گا۔اس کے سامنے کھرنی والا میدان کو اقبال کے نام سے موسوم کیا جائے گا۔۔ یہ تینوں تجویزیں عزیز قریشی صاحب کی تھیں جنہیں وزیر اعلی ارجن سنگھ جی نے نہ صرف قبول کیا بلکہ عزیز قریشی صاحب سے کہا کہ ان کی طرف سے وہی یہ خوشخبری جلسہ میں موجود لوگوں تک پہونچا دیں۔ بالآخر ادبی مرکز کا قیام عمل میں آیا اور ممنون حسن خاں صاحب اسکے چیرمین کے منصب پر فائز ہوئے۔‘‘ ۱؎
بیابہ مجلس اقبال جلد سوم میں کل 15مضامین شامل ہیں جن کے نام اور مصنفین کے نام اس طرح ہیں۔
1) اقبال اور پریم چند پروفیسر جگن ناتھ آزاد
2) کلام اقبال کی پیروڈی ڈاکٹر سیدہ جعفر
3) غالب اور اقبال کی مکتوب نگاری ڈاکٹر خلیق انجم
4) علامہ اقبال اور وحدت قومی ڈاکٹر نثار احمد فاروقی
5) اقبال کا نظام فن ڈاکٹر عبدالمغنی
6) کلام اقبال میں لفظ ومعنی کا ارتباط ڈاکٹر عبدالحق
7) اقبال کی صناعی ڈاکٹر امیر اللہ خان شاہین
8) سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر جناب شیخ سلیم احمد
9) اقبال کی فیضانی یادوں کے سائے جناب ممنون حسن خان
10) اقبال اور ابوالکلام آزاد پروفیسر عبدالقوی دسنوی
11) مکالمات اقبال ڈاکٹر سید حامد حسین
12) وطن۔اقبال کی نظر میں پروفیسر فضل تابش
13) تہذیب عصر حاضرقدروں کا بحران اور اقبال ڈاکٹر عزیز اندوری
14) اقبال کے اردو کلام کی تفہیم میں شرحوں کی اہمیت ڈاکٹر فرزانہ رضوی
15) اقبال کے اردو کلام میں ارضی مقامات کی اہمیت ومعنویت ڈاکٹر پری بانو
بیابہ مجلس اقبال جلد سوم کی ترتیب کے ضمن میں کتاب کے مرتب پروفیسر آفاق احمد لکھتے ہیں کہ:
’’ اس مجموعے میں وہ مقالات شامل ہیںجو اقبال مرکز کے زیر اہتمام منعقدہونے والی مختلف مجلسوں میں پڑھے گئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس مجموعہ کے ذریعے اقبال کی شاعری اور فکر و فلسفہ کے کتنے ہی گوشے سامنے آئیں گے۔ اور علامہ اقبال کو بھوپال سے اور بھوپال کو علامہ سے جو تعلق تھا اور مضبوط ہوگا۔ ۔۔ اس مجموعے میں موضوعات کا جو تنوع ہے وہ دامن دل کو ضرور کھینچے گا ۔‘‘ ۲؎
مجلس اقبال حصہ چہارم
مجلس اقبال کے نام سے پروفیسر آفاق احمد کی مرتبہ چوتھی کتاب1994ء میں بھوپال کے اقبال ادبی مرکز سے شائع ہوئی۔مجلس اقبال حصہ چہارم میں پروفیسر آفاق احمد نے کل گیارہ مقالے شامل کئے۔ مقالوں اور مقالہ نگاروں کے نام اس طرح ہیں۔
1) اقبال کے کلام میں خطابت اور شاعری پروفیسر جگن ناتھ آزاد
2) اقبال کی فطرت نگاری ڈاکٹر عبدالمغنی
3) اقبال اور تقسیم ہندوستان ڈاکٹر خلیق انجم
4) عصری بحران اور اقبال کی شاعری محترمہ زاہدہ زیدی
5) اقبال کی معنویت شہباز حسین
6) عورت اقبال کی نظر میں پروفیسر ظہیر احمد صدیقی
7) کلام اقبال میں عمرانی حرکیت ڈاکٹر ابن فرید
8) مثنوی اسرار خودی ایک مطالعہ ڈاکٹر عبدالباقی
9) مطالعہ اقبال کی ایک جہت ڈاکٹر مختار شمیم
10) علامہ اقبال اور آغا حشر کاشمیری ڈاکٹر محمد شفیع
11) علامہ اقبال اور بھرتری ہری ڈاکٹر محمد نعمان
مجلس اقبال جلد ششم
پروفیسر آفاق احمد کے زیر نگرانی مجلس اقبال جلد ششم کی اشاعت 1998ء میں عمل میں آئی۔اس کتاب میں حرف آغاز کے علاوہ آٹھ مقالات شامل ہیں ۔جن کے نام اور مقالہ نگاروں کے نام اس طرح ہیں۔
1) ڈاکٹر ذاکر حسین اور علامہ اقبال پروفیسر جگن ناتھ آزاد
2) اقبالیات:یورپ میں ڈاکٹر نثار احمد فاروقی
3) اقبال کو سمجھنے کے لئے ڈاکٹر شمیم حنفی
4) شعر اقبال کی اقداری جہات ڈاکٹر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی
5) اقبال اور اکبر ڈاکٹر صغری مہدی
6) بچوں کے شاعر اقبال ڈاکٹرمحمد صابرین
7) جبریل و ابلیس(ایک تجزیاتی مطالعہ) ڈاکٹر خالد محمود
8) ہم عصر زندگی میں اقدار کی شکست و ریخت اور اقبال۔پروفیسر نے دوبے
مجلس اقبال جلد ہفتم
پروفیسر آفاق احمد کی جانب سے مرتب کردہ مجلس اقبال جلد ہفتم کل ہند علامہ اقبال ادبی مرکز بھوپال سے یکم جنوری ۲۰۰۰ء کو شائع ہوئی۔ اس جلد میں پروفیسر آفاق احمد کے لکھے حرف آغاز کے علاوہ مختلف دانشوروں کے دس مضامین شامل ہیں جن کے نام اس طرح ہیں۔
1) اقبال صرف مسلمانوں کے شاعر پروفیسر جگن ناتھ آزاد
2) اقبال اور جگن ناتھ آزاد ڈاکٹر خلیق انجم
3) اقبال اور ذہن ہندی ڈاکٹر تنویر احمد علوی
4) علامہ اقبال اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ڈاکٹر صغری مہدی
5) فکر اقبال پر ہندوستانی فلسفے کے اثرات ڈاکٹر عبدالحق
6) شعر اقبال پر ہندوستانی فلسفے کے اثرات ڈاکٹر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی
7) سرسید احمد خان او ر ان کا ایک عقیدت مند اقبال پروفیسر عبدالقوی دسنوی
8) اقبال کا محدود اور لا محدود کے ساتھ معاملہ ڈاکٹر سید حامد حسین
9) اقبال۔اندلس کا غم اور مسجد قرطبہ پروفیسر حسن مسعود
10) اقبال کا نظریہ فن اور ہماری شاعری ڈاکٹر محمد نعمان خان
حرف آغاز کی ابتدا کرتے ہوئے پروفیسر آفاق احمد لکھتے ہیں:
’’ نئی صدی اقبال کے ترانہ ہندی کی بھی صدی ہوگی۔۱۹۰۴ء میں ’’ ہمارا دیس‘‘ کے نام سے جب پہلی بار یہ نظم شائع ہوئی تھی تو کسے معلوم تھا کہ جیسے جیسے وقت گذرتا جائے گا اس کی قدر و منزلت اور مقبولیت میں اضافہ ہوتا جائے گا اور کروڑوں ہندوستانیوں کو اس میں اپنا دل دھڑکتا محسوس ہوگا۔ ۲۰۰۴ء میں ترانہ ہندی کی تخلیق کو ایک صدی پوری ہوجائے گی۔ میرا یہ سوچا سمجھا خیال رہا ہے اور ایک سے زیادہ بار میں نے اس کا اپنی تقریروں اور تحریروں میں اظہار کیا ہیکہ جب ہم بڑے ادیبوں اور شاعروں اور رہنمائوں کی صدیاں مناتے ہیں تو کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ ہم ان عظیم تخلیقات کی بھی صدیاں منائیں جو زمانے کے سرد گرم سہنے کے باوجود نہ صرف زندہ ہیں بلکہ جن کی تابندگی میں اِضافہ ہوتا چلا گیا۔۔۔ اقبال کے ارادت مندوں کی خدمت میں نئی صدی کے تحفے کے طور پر مجلس اقبال کی ساتویں جلد اس وعدے کے ساتھ پیش خدمت ہے کہ عنقریب ان کے ہاتھوں میں آٹھویں جلد بھی ہوگی۔ اورآخر میں یہ کہوں گا کہ بیسویں صدی بھی اقبال کی تھی ان سے بڑا شاعر اس صدی میں کوئی دوسرا نہ تھا اور اکیسویں صدی بھی اقبال کی ہی ہوگی کہ ان کے کلام کی معنویت ہر گذرے لمحے کے ساتھ اجلی سے اجلی ہوتی جارہی ہے۔‘‘ ۳؎
مجلس اقبال جلد ہشتم
مجلس اقبال جلدہشتم کی اشاعت ۲۰۰۱ء میں عمل میں آئی۔ پروفیسر آفاق احمد نے اس جلد کو مرتب کیا۔ اس جلد میں جبل پور میں ۳۰ نومبر ۱۹۹۹ء کو منعقدہ سمینار اور بھوپال میں منعقدہ اقبال کے ۱۲۳ ویں یوم پیدائش سمینار میں پڑھے گئے منتخب مقالات شامل ہیں۔ جلد ہشتم میں کل دس مقالات شامل ہیں ۔ جن کی تفصیل اس طرح ہے۔
1) غالب اور اقبال ڈاکٹر خلیق انجم
2) مطالعہ اقبال کے تقاضے اور کلیم الدین احمد ڈاکٹر عتیق اللہ
3) علامہ اقبال اور علی گڑھ ڈاکٹر اصغر عباس
4) علامہ اقبال کا خطبہ الہ آباد(ایک تجزیہ) ڈاکٹر علی احمد فاطمی
5) شاعر کا اقبال نمبر( ایک جائزہ) ڈاکٹر حنیف نقوی
6) اقبال شاعر فطرت ڈاکٹر صغری مہدی
7) اقبال کی فکری جہات ڈاکٹر مختار شمیم
8) سیاسی اخلاق اور اشعار اقبال ڈاکٹر نریندر ویر منی
9) اقبال جمہوریت اور میں ڈاکٹر محمود شیخ
10) اقبال کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب کے عناصر۔انجینیر سلیم انصاری
مجلس اقبال جلد ہشتم کے حرف آغاز میں پروفیسر آفاق احمد نے جلد کی مشمولات کا تعارف پیش کیا اور مجلس اقبال کے تحت اقبال شناسی کے کچھ انوکھے پروگراموں کا بھی ذکر کیا اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں:
’’ اقبالیات کے فروغ کے لئے علامہ اقبال ادبی مرکز نے علمی و ادبی کارناموں کے ساتھ عوامی دلچسپی کے بہت سے کام کئے۔ جیسے اقبال کے کلام سے منور شاموں کو ساز سنگیت کے ساتھ آراستہ کرنا‘اقبال کے کلام پر مرکوز چاربیت جس نے چاربیت کی تاریخ میں ایک نئی روایت قائم کی۔ اور پھر نئی نسل کو نت نئے طریقوں سے اقبال کے کلام اور پیغام تک رسائی بہم پہونچانے کے نقطہ نظر سے اقبال کے دور ‘معاصرین زندگی‘شاعری اور سارے جہاں سے اچھا پر مرکوز اقبال کوئز اقبال پر بین جامعاتی تحریری مقابلہ اور مختلف درسگاہوں میں اقبال شناسوں کے ذریعے سمینار اور تقریری پروگرام بھوپال کی تاریخ میں بلکہ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے برصغیر کی تاریخ میں پہلی بار کسی شاعر کے کلام پر مشتمل مصوری کا مقابلہ مرکز کی ایسی پہل ہے جس پر وہ بجا طور پر ناز کرسکتا ہے۔‘‘ ۴؎
مجلس اقبال جلد نہم
مجلس اقبال جلد نہم کی اشاعت ۲۰۰۲ء میں بھوپال سے عمل میں آئی۔ اس جلد کے مرتب بھی پروفیسر آفاق احمد ہیں۔صدرنشین مجلس اقبال مرزافہیم بیگ نے پیش لفظ لکھا جس میں مجلس اقبال کے نام سے اقبال پر پڑھے گئے مضامین کو کتابی شکل میں پیش کرنے کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔پروفیسر آفاق احمد کے حرف آغاز کے علاوہ اس جلد میں کل دس مضامین شامل ہیں جن کی تفصیلات اس طرح ہے۔
1) اقبال کی غزل کا ابتدائی دور پروفیسر جگن ناتھ
2) تہذیب عصر حاضر میں قدروں کا بحران اور اقبال ڈاکٹر تارا چند رستوگی
3) علامہ اقبال اور عالمی ادب ڈاکٹر نثار احمد فاروقی
4) کلام اقبال کا طنزیہ پہلو(غزل کے حوالے سے) رفعت سروش
5) اقبال کی منظر نگاری سرسوتی سرن کیف
6) علامہ اقبال کی ابتدائی شاعری میں مذہبی رواداری ڈاکٹر توقیر احمد خاں
7) اقبال اور فیض(چند مطابقتیں) ڈاکٹر شفیق اشرفی
8) اقبال کی علمی جستجو(چند پہلو) مولانا حبیب ریحان ندوی
9) کلام اقبال کی نئی تفہیم(ایک معروف شعر کی روشنی میں) پروفیسر حیدر عباس رضوی
10) اقبال شناسی میں بھوپال کا حصہ ڈاکٹر صائمہ رفعت
علامہ اقبال ادبی مرکز کی کارکردگی بیان کرتے ہوئے پروفیسر آفاق احمد لکھتے ہیں:
’’علامہ اقبال ادبی مرکز کے قیام کو ۱۸ سال پورے ہوچکے ہیں۔ جب ہم مرکز کے ان گزرے برسوں میں اقبالیات کے فروغ کے لئے جو کارہائے نمایاں سرانجام دئے ان پر نظر ڈالتے ہیں تو طمانیت کا احساس ہوتا ہے کہ جن مقاصد کی بجاآوری کے لئے اقبال مرکز کا قیام عمل میں آیا تھامرکز نے اپنے محدود وسائل کے باوجود انہیں پایہ تکمیل تک پہونچانے میں مقدور بھر کوشش کی ہے اور علمی و ادبی کاموں کے ساتھ بہت سے ایسے کام بھی کئے ہیں جن کی وجہہ سے اقبال کو عام انسان خصوصاً نئی نسل سے روشناس کرانے میں مدد ملی ہے۔ ‘‘ ۵؎
مجلس اقبال جلد دہم
مجلس اقبال جلد دہم کی اشاعت ۲۰۰۳ء میں بھوپال سے عمل میں آئی۔ اس جلد میں شامل مضامین کی تفصیل اس طرح ہے۔
1) اقبال کی شاعری میں تمثال کا مطالعہ ڈاکٹر سید محمد عقیل
2) اقبال ایک نئی تعبیر ڈاکٹر شمیم حنفی
3) اقبال کی غالب شناسی ڈاکٹر عبدالحق
4) عورت کی آزادی اور تعلیم نسواں کے تئیں اقبال کا رویہ۔ ڈاکٹر مظفر حنفی
5) یہ وہ صدا ہے جسے قتل نہیں کرسکتے ڈاکٹر علی احمد فاطمی
6) فلسفی شاعر اقبال کا جہان تخلیق پروفیسر اکشے کمار جین
7) اقبال اور تصوف ڈاکٹر عبدالباقی
8) اقبال شخصیت اور حب انسان وآزادی ڈاکٹر نریندر ویر منی
9) کلام اقبال میں صناعی پروفیسر رحمت یوسف زئی
10) علامہ اقبال ادبی مرکز کی مطبوعات نوشابہ نسیم/ ممتاز خاں
مجلس اقبال کی دسویں جلد کا حرف آغاز لکھتے ہوئے پروفیسر آفاق احمد نے بھوپال ادبی مرکز کے زیر اہتمام ہوئے اقبال شناسی کے کام کا جائزہ لیا۔اس ضمن میں اظہار طمانیت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’آج سے ۲۰ سال قبل اقبال مرکز کا قیام جس مقصد کے لئے عمل میں آیا تھا۔ اس کی تکمیل میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا گیا۔ خاص طور ے جس طرح نئی نسل کو اقبال کے پیغام و کلام سے روشناس کرانے کی سعی کی گئی اور اس کے لئے اقبال کے اشعار پر مبنی مصوری کے مقابلے سے لے کر بین جامعاتی اقبال تحریری مقابلے اور اقبال کوئز تک جو پروگرام کئے گئے اور جس طرح وہ بے مثال کامیابی سے ہمکنار ہوئے وہ ہماری محنت کا بہترین صلہ تھے۔ اس کیعلاوہ اقبال اور ان کے معاصرین کے کلام سے منور موسیقی کی محفلوں کے ذریعے ہم نے اقبال اور ان کے معاصرین کے اشعار کو عام لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بنانے کی بھر پور کوشش کی اور ہم اس میں کامیاب رہے۔۔ ان معروضات کے ساتھ مجلس اقبال کی دسویں جلد آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر ہے۔۔۔ ہمیں یقین ہے کہ مجلس اقبال کی دسویں جلد بھی اقبال کے ارادت مندوں کی نظرمیں وقعت کی مستحق ٹہرے گی۔‘‘ ۶؎
مجلس اقبال اور آفاق احمد مجلس اقبال کی تمام جلدوں کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتاہے کہ پروفیسر آفاق احمد نے ان کتابوں کو مرتب کرتے ہوئے اقبالیات کے باب میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔ اقبال کی شاعری اور ان کی فکر و فن پر اردو کے ممتاز محققین ‘نقادوں اور دانشوروں کی آرا ان مضامین میں شامل ہے۔ اقبال کی فکر کو سمجھنے کے لئے یہ مضامین کار آمد ثابت ہوتے ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو مضامین کسی سمینار میں پڑھے گئے وہ کچھ لوگوں تک پہونچتے ہیں لیکن اگر انہیں شائع کیا جائے تو آنے والی نسلیں تک ان سے مستفید ہوسکتی ہیں۔
مجلس اقبال نامی کتابوں کی ترتیب کے علاوہ پروفیسر آفاق احمد نے’’ داستان سفر ‘‘کے عنوان سے تین جلدوں میں کل ہند علامہ اقبال ادبی مرکز بھوپال کی سرگرمیوں کو یکجا کیا ہے۔ داستان سفر کی پہلی جلد مئی 2000ء میں شائع ہوئی. دوسری جلد مارچ 2002 ء میں اور تیسری جلد جنوری 2004 ء میں شائع ہوئی. پہلی جلد کا حرف آغاز تحریر کرتے ہوئے پروفیسر آفاق احمد لکھتے ہیں ۔
’’مرکز جو اب پندرہ برس یا سولہ کا سن پار کر کے جواں سالی کے حدود میں داخل ہو چکا ہے جب اس کے اقبالیات کے فروغ کے لئے سر انجام دینے والے کاموں پر نظر ڈالی جاتی ہے تو طمانیت بلکہ کسی قدر فخر کا بھی احساس ہوتا ہے کہاس عرصے میں اپنے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے ہر پیمانے پر اس نے وہ کچھ کیا ہے کہ اقبال شناسوں کی نظروں میں ایک وقیع مقام کا مالک بن گیا ہے. اس میں کچھ کام مستقل نوعیت کے ہیں جیسے سمیناروں کا انعقاد اور ان کے مقالات پر مشتمل کتابوں کی اشاعت اقبال لائبریری ۔کچھ نوعیت کے کام یہ ہیں جیسے اقبال کے کلام سے منور شاموں کو ساز سنگیت کے ساتھ آراستہ کرنا یا اقبال کے کلام پر مرکوز چار بیت اور پھر حال ہی میں اقبال مرکز کے ذریعے طالب علموں میں اقبال سے شناسائی پیدا کرنے کے لیے اس کے دور اس کی سوانح اس کے کلام معاصرین اور سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا پر مرکوز اقبال کوئز کا انعقاد اقبال اور ہندوستان کے موضوع پر بین الجامعاتی تحریری مقابلہ اور مختلف درسگاہوں میں اقبال شناسوں کے ذریعے سمیناروں اور تقریروں وغیرہ کے پروگرام رکھنا… جب یہ کتاب آپ کی نظروں سے گزرے گی تو آپ خود اندازہ لگا سکیں گے کہ اقبالیات کے فروغ کے لئے مرکز سے جو امیدیں وابستہ کی گئی تھیں انہیں اس نے مقدور بھر پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘۷؎
داستان سفر جلد اول میں ممنون حسن خان نے اقبال کی بھوپال میں آمد اور قیام سے متعلق ایک مضمون دار الاقبال بھوپال میں اقبال کا ورود مسعود کے نام سے لکھا. انہوں نے لکھا کہ خود اقبال نے بھوپال کو دارالاقبال کہا تھا. اقبال کے بھوپال میں قیام کے تعلق سے ممنون حسن خان لکھتے ہیں.
’’اپنی مہتاب سے تابندہ تر زندگی کے آخری ایام میں جب اقبال 1935اور 1936 کے درمیان تین بار بھوپال بغرض علاج تشریف لائے اور ریاض منزل اور شیش محل میں قیام فرمایا. ان ہی کے الفاظ میں وہ آلام اور مصائب میں گرفتار تھے ایک طرف خطرناک علالت اور دوسری طرف ہر طرح کے تفکرات. راس مسعود کو ان باتوں کا شدید احساس تھا… اقبال بغرض علاج تین بار بھوپال تشریف لائے. پہلی بار انہوں نے ریاض منزل میں سید راس مسعود کے ساتھ قیام فرمایا تھا اور دوسری اور تیسری بار ان کا قیام شیش محل میں رہا تھا. اپنی علالت اور اپنے علمی اور شعری کاوشوں کے باوجود جس میں وہ علاج کے اوقات کو چھوڑ کر مشغول رہتے تھے حضرت علامہ بھوپال میں ہر اس شخص سے ملتے تھے جو ان کی خدمت میں حاضری دیتا تھا… اقبال کے دوران قیام بھوپال ان کیفیضانی مجلسوں میں بڑی عالمانہ باتیں ہوتی رہتی تھیں. تقریباً پچیس سال سے میں اس کوشش میں تھا کہ بھوپال میں اقبال کی یادگار قائم کرائی جائے آخر کار رب العزت کی بارگاہ سے یہ دعا قبول ہوئی بھوپال میں اقبال کے شایان شان یادگاریں قائم کی گئیں‘‘۔ ۸؎
داستان سفر جلد اول میں اقبال کے تعلق سے منعقد ہونے والے مختلف سمیناروں‘ادبی مقابلوں اور دیگر اجلاسوں کی روداد بھی شامل کی گئی ہے۔چنانچہ ادبی مرکز کے تحت منعقدہ سمینار کی روداد بھی شامل کی گئی۔ سمینار کا موضوع ’’ تہذیب عصر حاضر میں قدروں کا بحران اور اقبال‘‘ تھا۔
داستان سفر جلد دوم
کل ہند علامہ اقبال ادبی مرکز بھوپال کے خبر نامہ پر مشتمل دوسری کتاب داستان سفر جلد دوم کی اشاعت مارچ ۲۰۰۲ء میں عمل میں آئی۔ ابتدا میں حکومت مدھیہ پردیش کے ثقافتی وزیر اجے سنگھ کا پیغام شامل ہے جس میں ادبی مرکز بھوپال کے کاموں کی ستائش کی گئی ہے۔پروفیسر آفاق احمد نے جلد دوم کے حرف آغاز کی ابتدا میں لکھا کہ علی سردار جعفری اور آل احمد سرور ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ ان دونوں کی رحلت سے اقبال شناسی کے ایک دور کا خاتمہ ہوگیا۔ داستان سفر کے سلسلے کی دوسری کتاب معنون ہے ان دونوں عظیمفنکاروں کے نام جن کے دم بہ قدم سے اقبالیات کے راستوں میں اجالا تھا۔کلام اقبال پر مبنی مصوری مقابلوں کی روداد اس جلد میں شامل کی گئی۔ پروفیسر آفاق احمد نے لکھا کہ اقبال کے منتخب اشعار دے کر طلبا کے لئے مصوری کے مقابلے رکھے گئے۔ مقابلے کے لئے دئیے گئے چند اشعار اس طرح ہیں۔
اے ہمالہ! اے فیصل کشور ہندوستاں چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
جب دکھاتی ہے سحر عارض رنگیں اپنا کھول دیتی ہے کلی سینہ زریں اپنا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا
آگ بجھی ہوئی ادھر ٹوٹی طناب ادھر کیا خبر اس مقام سے گذرے ہیں کارواں کتنے ۹؎
داستان سفر جلد سوم
داستان سفر جلد سوم کی اشاعت جنوری ۲۰۰۴ء میں عمل میں آئی۔ سرورق پر اقبال کے اشعار پر مبنی تصویری مقابلے کی تصویر دی گئی ہے۔ جس میں سینکڑوں بچے ندی کے کنارے بیٹھے مصوری میں مشغول دکھائے گئے ہیں۔ اندرونی صفحہ پر اقبال کے خط میں لکھا ترانہ ہندی کا عکس دیا گیا ہے۔ اقبال نے اسے اشاعت کے لئے ۱۹۰۴ء میں زمانہ اخبار کو دیا تھا۔صفحہ آخر پر بچوں کی بنائی گئی تصاویر شائع کی گئی ہیں۔
مجلس اقبال کی تمام جلدیں اور داستان سفر کی تین جلدیں بھوپال میں اقبال کے حوالے سے ہونے والے کام کی تفصیلات پیش کرتی ہیں۔ اقبال کا قیام تو بھوپال میں مختلف اوقات میں چار ماہ کے قریب رہا۔ لیکن اہل بھوپال خاص طور سے ممنون حسن خاں اور پروفیسر آفاق احمد نے اقبال کی یاد میں سمینار‘ادبی مقابلے‘تصویری مقابلے کتابوںکی اشاعت اور اقبال کی یادگاریں قائم کرتے ہوئے شاعر مشرق سے اپنی اٹوٹ محبت کا اظہار کیا۔یہی وجہہ ہے کہ آج پروفیسر آفاق احمد ادب کی دنیا اپنی تحریروں سے زیادہ ماہر اقبالیات کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کتابوں کی وجہہ سے بہ حیثیت ماہر اقبالیات پروفیسر آفاق احمد ادب کی دنیا میںاہم مقام کے حامل بن جاتے ہیں۔ہر سال ماہ نومبر میں اقبالیات کے حوالے سے مختلف پروگراموں کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے اور فکر اقبال کے اہم گوشوں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ پیام اقبال کو عام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس سلسلے کی کڑی کے طور پر پروفیسر آفاق احمدنے اقبالیات کے ضمن میں بھوپال میں جو کچھ کام ہوا ہے جس طرح اسے محفوظ کیا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ برصغیر کے دیگر علاقوں میں اقبالیات پر جو کچھ تحقیق ہورہی ہے اسے کتابی شکل میں محفوظ کیا جائے اور اسے اردو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ آج نہ اقبال ہیں نہ ان کے چاہنے والے پروفیسر آفاق احمد لیکن ہم ان کی تحریروں سے روشنی حاصل کر رہے ہیں اور ان کے پیغام کو اگلی نسلوں تک پہونچارہے ہیں یہی اقبال اور آفاق احمد کو حقیقی خراج تسلیم کیا جائے گا۔
حواشی
۱؎ پروفیسر آفاق احمد۔ حرف آغاز۔بیابہ مجلس اقبال۔جلد سوم مرتبہ پروفیسر آفاق احمد ص ۲۰
۲؎ پروفیسر آفاق احمد۔ حرف آغاز۔بیابہ مجلس اقبال۔جلد سوم مرتبہ پروفیسر آفاق احمد ص ۲۲
۳؎ پروفیسر آفاق احمد۔ حرف آغاز۔ مجلس اقبال جلد ہفتم۔ ص۔۹۔۱۵
؎ ۴؎ پروفیر آفاق احمد۔ حرف آغاز۔ مجلس اقبال جلد ہشتم۔ ص۔۱۲
؎ ۵؎ پروفیسر آفاق احمد۔ حرف آغاز۔ مجلس اقبال جلد نہم۔ بھوپال ۲۰۰۲۔ ص ۔۱۲
؎ ۶؎ پروفیسر آفاق احمد۔ مجلس اقبال جلد دہم۔ بھوپال ۲۰۰۳ء ص ۱۵
۷؎ پروفیسر آفاق احمد. حرف آغاز. داستان سفر جلد اول۔مئی ۲۰۰۰۔ ص4
۸؎ ممنون حسن خان. داستان سفر جلد اول ص ۱۸۔۲۵
ٍ ۹؎ بحوالہ:داستان سفرجلد دوم خبر نامہ اقبالیات پروگرام بھوپال ۲۰۰۲
کتابیات
۱؎ آفاق احمد پروفیسر اقبال آئینہ خانے میں۔مرتبہ( اقبال پر مضامین کا مجموعہ )بھوپال ۱۹۷۸ء
۲؎ آفاق احمد پروفیسر داستان سفرجلد اول خبر نامہ اقبالیات پروگرام بھوپال ۲۰۰۰
۳؎ آفاق احمد پروفیسر داستان سفرجلد دوم خبر نامہ اقبالیات پروگرام بھوپال ۲۰۰۲
؎ ۴ آفاق احمد پروفیسر داستان سفرجلد اول خبر نامہ اقبالیات پروگرام بھوپال ۲۰۰۴
رسائل
۱؎ سہ ماہی انتساب سرونج پروفیسر آفاق احمد نمبر شمارہ نمبر ۸۶۔ ۲۰۱۲؁ء
مقالہ جات
۱؎ آفاق احمد کی علمی و ادبی خدمات ۔ازمحمد عبدالماجد۔ مخزونہ یونیورسٹی آف حیدرآباد ۲۰۱۶؁ء

Leave a Comment