اقبال اورعصرحاضرکانظریاتی مُحاَربہ: توضیح وتعبیر

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؔ کی یوم ولادت پر خصوصی پیش کش

\"20799467_10155616832724399_7581555245326694455_n\"
٭پروفیسر ڈاکٹر شاہداقبال کامران

شعبۂ اقبال اسٹڈیز
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، اسلام آباد، پاکستان۔

\"iqbal_day_1\"

عصر حاضر میں مسلمانانِ عالم عام طور پر اور مسلمانانِ پاکستان خاص طور پر ایک ہمہ جہت ، تند خو اور بے لگام نظریاتی محاربے کا شکار ہیں۔ اس محاربے کا المناک پہلو یہ ہے کہ اس کے وقوع، اس کی حدود اور اس کی اغراض سے وہ دلچسپی، جو فریق ثانی کے طورپر مسلمانوں میں موجود ہونی چاہیے ،نظر نہیں آتی۔ جمود، تقلید اور تقدیر کے شکار معاشروں کی بدبخت اور بے سمت فراواں مخلوق کی طرح مسلسل ظلم سہنے میں لذت اور اس لذت کو اپنے مفاخر کا حصہ بنانے کے لیے عقل عیار کا بے محابہ استعمال ہمارا قومی شعار بن گیا ہے۔ آج ہم سب ایک تند خو اور بے لگام دہشت گردی کا شکار ہیں، خوفزدہ ہیں، مظلوم ہیں، ہمیں خود پر ترس تو آتا ہے لیکن رحم نہیں اور یہی وہ نقطہ ہے جہاں ہم اور ہمارے دشمن باہم متفق ہیں۔ہمارا اجتماعی ضمیر شاید یہ سوچ کر خود کو المناک حوادث کے حوالے کئے ہوئے ہے کہ شاید اس فانی دنیا کے مصائب جھیل کر ہم اس بہشت کے حقدار بن سکیں، جہاں پر محرومیوں کی تلافی کے لیے سارے سامان بہ افراط مہیا ہوں گے۔(1) کیا فرد اورمعاشرے کے طور پر ہمارے لیے یہ صورت حال بالکل نئی ہے؟ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں، بیسویں صدی کے اوائل میں بھی منظر کچھ ایساہی تھا۔ مسلمان غلام تھے،معاشی طور پر کمزور تھے۔ تعلیم میں اپنے مقابل طبقات سے پیچھے بلکہ بچھڑے ہوئے تھے ،ملک کی سیاست نہایت تیزی سے تبدیل ہو رہی تھی، قدرے پڑھے لکھے طبقے، مغرب کی نظریاتی چکا چوند سے بے طرح متاثر تھے اور خیال کرتے تھے کہ مغرب کی طرح اگروہ بھی اپنے مذہب کو اپنا نجی معاملہ قرار دے کر قومیت کے مغربی تصورات کو اپنا کر آگے بڑھیں تو تیز رفتار ترقی کرسکتے ہیں اور یہی وہ مقام تھا جب متحدہ قومیت کا عفریت برصغیر کے مسلمانوں کے اجتماعی وجود اور منفرد شناخت کو ہڑپ کرنے کے لیے بالکل تیاربیٹھا تھا۔ ایسے میں اقبال نے اسلام کو مسلمانانِ برصغیر کا حسب اور نسب بنا کر یعنی قومیت کی بنیاد قرار دے کر اُن کے اجتماعی وجود کی تقویت کا سامان کر دیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس قومیت کی بنیاد پر ایک علیحدہ آزاد اور خودمختار ریاست کا تصور پیش کرکے، اس کے لیے مدلل نظریاتی اساس فراہم کرکے، اس کے قیام کے امکان کو قوی تر کر دیا،ہماری اس ریاست(پاکستان) اور ہمارے نظریاتی مسائل کو کسی دوسری قومی ریاست کی مثال پر سمجھ سکنا دشوار معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً ایرانی اسلام کی آمد سے پہلے بھی ایرانی تھے۔ مسلمان ہو کر بھی قومی طور پر ایرانی اور مذہبی طور پر مسلمان ہوگئے۔ترکی کی مثال بھی ایسی ہی ہے،عرب، مسلمان ہو کر بھی عرب رہے۔ یہ صرف پاکستان ہے جہاں یعنی اشتراک عقیدہ کی بنیاد پر ایک قوم پہلے وجود میں آئی اور ملک بعد میں حاصل کیا۔ تو پاکستان بطور ایک ملک اور پاکستانی بطور قوم ایک انفرادیت اپنے اندررکھتے ہیں۔
برصغیر میں ایک علیحدہ اور آزاد مسلمان ریاست کا تصور اور تجویز اقبال کی اجتہادی سوچ کا ایک نمایاں مظہر ہے، اُس وقت کے علما، تقلید جن کی تربیت اور جمود جن کا چلن تھا،اس اجتہادی سوچ کو نہ سمجھ سکے اور اس تصور اورتجویز کی مخالفت پر اپنا سارا زور بیان صرف اور اپنی جملہ صلاحیتیں وقف کردیں۔ انہی علما کے وارث آج پاکستان میں اپنی پسند کا اسلامی نظام نافذ کرنے کو بے چین ہیں۔ تحریک پاکستان کے دوران عامتہ الناس نے ان علما کے سیاسی موقف کو رد کر دیا تھا۔ ملاّ کے پاس آخری حربہ تکفیر کا فتویٰ ہواکرتا ہے۔ سووہ بھی استعمال ہوا، لیکن تاریخ کی گرد نے ان تمام فتاویٰ کومحوکردیا۔آج سوال اسلام کا نہیں،سوال اسلام کی توضیح و تعبیر کا ہے وہ تعبیر و توضیح جو اقبال کرتے ہیں یا وہ جو سیاسی اور نظریاتی قدامت پن کا شکار روایتی علما؟ آج پاکستان میں یہ سوال ایک محسوس کی جاسکنے والی جنگ کا عنوان بن چکا ہے۔بعض ریاستی اداروں کی درپردہ سرپرستی سے تقویت حاصل کرنے والے متعدد ’’غیر ر یاستی‘‘ مسلح گروہ غیر مسلح اور پرامن عامتہ الناس کے خلاف ’’جہاد‘‘ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ پارلیمانی نظام سیاست و ریاست کے خلاف ہیں، وہ جدید تعلیم کے حامی نہیں۔ وہ خواتین کو محض نہایت ذاتی استعمال کی ’’شے‘‘ سمجھنے سے زیادہ کوئی مقام دینے پر آمادہ نہیں، خود ان کے مذہبی تفکر کا دائرہ اس قدر تنگ ہے کہ اس سے باہرموجود ہرمسلمان کووہ کافر خیال کرتے ہیں اور ان کافروں پر خود کش حملے کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے اور اب انتہا تو یہ ہے کہ ’’خود کش حملہ آور‘‘ رکھنا بجائے خود ایک طرح کی شان اور رتبے کا عنوان بن گیا ہے۔ کیا ہوا اگر آج پاکستان کے پرامن ، عافیت کوش اور صلح جُو دانشور ایسی سوچ، ایسے تصور مذہب اور ایسی بے مہار فرقہ واریت کو پھلتے پھولتے دیکھ کر خاموش ہیں۔ آج سے قریباً پون صدی پہلے بھی ملاّ کا چلن اسی طرح کا تھا اور اس وقت علامہ محمد اقبال نے اس انداز فکر کا نظریاتی سطح پر مقابلہ کیا تھا اور اُس دو رکے محاربے میں فتح یاب ہوئے تھے۔
پاکستان میں اس وقت’’ نفاذ اسلام ‘‘ کی متشدد اور مسلح جدوجہد اپنی جہت،طریقہ کار اور استدلال کے اعتبار سے اس قدر لغو اور بے بنیاد ہے کہ تاریخ میں اس طرح کی دوسری مثال نظرنہیں آتی، نفاذ اسلام کی اس مبارک جدوجہد میں مصروف کار مسلح گروہ مخالفین کواعلانیہ قتل کرنا بالکل جائز خیال کرتے ہیں، وہ ہر خودکش حملے،تباہ کن دھماکے اور تاک کر مارنے والی واردات کے بعد میڈیا پر کمال درجے کے فخروانبساط کے ساتھ واردات کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور ساتھ یہ بھی، کہ وہ مذاکرات کے لیے آمادہ و تیار ہیں ،جس کے بعد ریاستی ڈھانچے اور نشرواشاعت کے سانچے میں موجود ان کے ہم خیال و ہمنوا مذاکرات کی ضرورت و اہمیت پر اپنازوربیان صرف کرتے رہتے ہیں۔ ان جری بہادروں نے متعدد سیاست دانوںاور اختلاف رائے رکھنے والے علما کے خون سے ہاتھ رنگے ہیں اور انہی خون آلودہ ہاتھوں سے وہ پاکستان کو ’’سبز‘‘ کرنے کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
معاشرتی،نظریاتی اور ریاستی ساخت کے اندر اس قدر انتشار کی کوئی دوسری مثال سجھائی نہیں دیتی۔صاف دکھائی دیتا ہے کہ حکمت فرعونی اپنا اثر دکھا چکی ہے۔برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ’’مسلمان ہونا‘‘اپنے اندر خاص معنی رکھتا تھا،اور رکھتا ہے۔لیکن اس مذہبی تفکر کے دائرے کی تشکیل جدید کرنے کے عوض،اسے بے حد محدود کرکے رکھ دیا گیا ہے۔بے شک آج پاکستان جس طرح کا اور جوبھی کچھ ہے، اقبال کا ایک آزاد،خودمختار اور فلاحی ریاست کا تصور اس پاکستان سے بہت مختلف تھا۔ریاست پاکستان میںجاری اس نظریاتی مخمصے کو سمجھنے کے لیے مرتب و منظم غورو فکر کی ضرورت آج، پہلے سے کہیں زیادہ ہے ۔ بایں ہمہ عصر حاضر میں اس نظریاتی محاربے کی دو بڑی جہات ہیں:
اوّل: ایک ریاست کے اندر اس کی ہیت اور ترتیب کے اسلامی ہونے کا تصور
اور
دوم: عالمی سطح پر دہشت گردی کی جنگ کا شکار مسلمانو ں کی ہمہ پہلو بے توقیری
جہاں تک ریاست کے اسلامی ہونے کاتعلق ہے۔ اس کے بارے میں اقبال کا موقف بڑا واضح ہے۔ وہ پاکستان میں ملائیت یا تھیوکریٹک ریاست کا اجرا نہیں چاہتے۔اقبال نے علیحدہ اور آزاد مملکت کے قیام کا تصور خطبہ الہ آباد (1930) میں پیش کیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ معنوی طورپر اقبال کے خطبات تشکیل جدید( The Reconstruction Of Religious Thoughts In Islam) کو خطبہ الہ آباد کے مطالب کی تمہید خیال کرنا چاہیے۔اپنے ان معروف خطبات میں اقبال نے فلسفیانہ انداز میں اسلام کی مذہبی فکر یعنی تعبیر دین کی روش کی تشکیل جدید کے کام کا آغاز کیا تھا۔انہوں نے اپنے ان خطبات میں دیگرکے علاوہ جہاں اسلامی ثقافت اور اس کے متعلقات کو موضوع بنایا ہے وہیں اسلام کی ترکیب میں شامل اصول حرکت یعنی اجتہاد پر بھی سیر حاصل بحث کرتے ہوئے اجتہاد مطلق کی ضرورت پر زور دیا ہے ، انہوں نے اجتہاد مطلق کا حق کسی برگزیدہ فرد یا افراد کی بجائے عامتہ الناس کی منتخب کردہ پارلیمان کے حوالے کرنے کی تجویز پیش کی۔اقبال نے از راہ احتیاط ایک خاص وقت تک یعنی جب تک اس کی ضرورت باقی رہے، پارلیمان کے اندر رائے لینے کے لیے علما کے ایک بورڈ کے قیام کی تجویز پیش کی تھی۔لیکن اقبال علماء کی آمریت یا کسی فرد یا ادارے کی محض مذہب کے نام پرفوقیت یا برتری کے قائل نہیں تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ برملا کہتے تھے کہ اسلام میں کوئی کلیسا نہیں ہے، جس کے فرامین فرد اورمعاشرے کے لیے حکم کا درجہ رکھتے ہوں،وہ مذہب کے روایتی استبدادی تصور اور منصب سے بے زار تھے، اقبال مجوزہ ریاست کو ایک مثال کے طور پر قائم کرنے کے خواہاں تھے ،بلاشبہ اقبال مجوزہ ریاست کوایک ایسی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے کہ جہاں اسلام کو اس امر کا موقعہ ملے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہو کر جو عربی شہنشاہیت کی وجہ سے اب تک اس پر قائم ہیں اس جمود کو توڑ ڈالے جو اس کی تہذیب و تمدن، شریعت اورتعلیم پر صدیوں سے طاری ہے اس سے نہ صرف ان کے صحیح معنی کی تجدید ہوسکے گی بلکہ وہ زمانہ حال کی روح سے بھی قریب تر ہو جائیں گے۔(2)
اساسی طور پر اقبال کایہی مطالبہ خطباتِ تشکیل جدید کی علما اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے دیگر گروہوں کی مخالفت کا با عث بنا۔ روایتی ملاّ اقبال کو ایک عظیم شاعر تو تسلیم کرلیتا ہے اور بسا اوقات اس کے ولولہ انگیز اشعار کو سیاق سے ہٹ کر استعمال کرنے کا ہنر بھی جانتا ہے لیکن بس__؟ اس سے زیادہ نہیں۔(3) ملاّ کے اسی غیر منطقی اور جذباتی رویے کی وجہ سے اقبال اتا ترک مصطفی کمال پاشا کے علما کو عامتہ الناس کی عملی زندگی سے علیحدہ کرنے کے فیصلے کی تحسین کرتے ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ فقہ اسلام کی رو سے ایک مسلم ریاست کا امیر اس بات کا مجاز ہے کہ بعض شرعی اجازتوں کو منسوخ کر دے بشرطیکہ اس کویقین ہو جائے کہ یہ ’’اجازتیں‘‘ معاشرتی فسادپیدا کرنے کی طرف مائل ہیں۔ اقبال فرقہ واریت کے پیدا کردہ معاشرتی فساد کو ختم کرنے کے لیے علما کے لیے لائسنس حاصل کرنے کو بھی ضروری خیال کرتے ہیں۔
اقبال کہتے ہیں:
\”According to the law of Islam the Amir of a Muslim state has the power to revoke the \”permission\” of the law if he is convinced that they tend to cause social corruption. As to the licentiate ulema I would certainly introduce it in Muslim India if I had the power to do so. The inventions of the myth-making mulla is largely due the stupidity of the average Muslim. In excluding him from the religious life of the people the Ataturk has done what would have delighted the heart of an Ibn-i-Taimiyya or a Shah Wali Ullah. There is a tradition of the Holy Prophet reported in the Mishkat to the effect that only the Amir of the Muslim state and the person or persons appointed by him are entitled to preach to the people. (4)
اب دیکھیے ایک طرف اقبال کی یہ رائے اور دوسری طرف ریاست پاکستان کے اندر ملاّ کا کردار،معاشرتی ،معاشی اور عسکری رسائی اور اہمیت کس قدر زیادہ ہے اور یقینی طور پر اس کردار کو محدود کرنا بلکہ اسے لائسنس کا پابند بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اگر ایسا نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ فرقہ وارانہ فرق و امتیاز کا زہر ایک ناواجب خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلے گا۔
بایں ہمہ، عصر حاضر کااہم ترین نظریاتی محاربہ ایک ریاست کے اندرکی اس ہیت اور ترتیب کے اسلامی ہونے کا تصور اور اس تصور کی تشریح و توضیح ہے۔ریاست پاکستان میں اُس ملاّ کو کھلا چھوڑ دیا گیا جسے اقبال منصب پرست مسلمان زعما سے زیادہ ’’مضر‘‘ خیال کرتے تھے۔ یہ ملک سیاست دان ملائوں کے حوالے کر دیا گیا ،جو اقبال کی فکر کے کسی پہلو، یا کسی تجویز سے اتفاق کرنے پر آمادہ و تیار نہیں ہیں۔ عصر حاضر میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کو صرف اقبال کے فہم دین اور اس کے اطلاق سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ اسلام اورفہم اسلام کو تقلید کے حصار میں مقید علماء کے استدلال کے حوالے کرنے کی بجائے ،جدید علوم اور احوال کے تقاضوں کی روشنی میں اپنی فہم دین کی تشکیل جدید، اس نظریاتی محاربے کا کلیدی نکتہ ہے۔اقبال کہتے ہیں کہ:
\” It is high time to show to the people by a careful genetic study of Islamic thought and life what the faith really stands for and how its main ideas and problems have been stifled under the pressure of a hard crust which has grown over the conscience of modern Indian Islam. This crust demands immediate removal so that the conscience of the younger generation may find a free and natural expression.\” (5)
کیا ہم اس crust کو ختم کرسکتے ہیں، یا اسے فزوں تر کیا گیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے علماء کی جملہ سیاسی تحریکوں اور نظریاتی کاوشوں کا جائزہ یہ باور کراتا ہے کہ ہندوستانی اسلام پر جمے اس خول کو توڑنے کی بجائے مضبوط تر کر دیا گیا۔ وہ تمام نفوس قدسہ، جو خودمختار اسلامی ریاست /ریاستوں کے قیام کے تصور کو لغو اور بے بنیاد قرار دے کر برصغیر میں متحدہ قومیت کے داعی رہے تھے۔ ان کوترغیب آمیز اجازت دے دی گئی کہ وہ پاکستان میں تقلیدی تصور اسلام کو رائج کریں۔ایسا کیا گیا اور اب بات نظریاتی ریاست کی ساخت کے اندر انتشار تک جا پہنچتی ہے۔ کیایہ نظریاتی ماحول ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں کے ضمیر کی صحیح پرورش میں معاون ہو سکتا ہے۔ کیا ہم نے اسے اسلام کے حوالے سے عصر حاضر کے سامنے مجرم بنا کر کھڑا نہیں کر دیا؟ اب بھی وقت ہے کہ ریاست مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے سیاسی گروہوں کو حکماً روک دے اورپاکستانیوں کی اجتماعی زندگی کوان کم علم،نادان لیکن مکار مذہبی رہنمائوں کی ’’ بولہبی سیاست‘‘ سے محفوظ و مامون کرنے کا اہتمام کرے۔یاد رکھنا چاہیے کہ کلیسا کے بے لچک رویے اور مذہب کو اجتماعی شعور کے خلاف استعمال کرنے کی روش کے باعث مذہب کو ’’افیون‘‘ قرار دیا گیا تھا، اگر متشدد اور کم فہم و ناشناس ’’ملاّ‘‘ سے اسلام کو آزاد نہ کرایا گیا تو اب کی بار کوئی پولیٹیکل فلاسفر مذہب کو افیون کی بجائے ،زہر بھی قراردے سکتا ہے۔
عصر حاضر کے نظریاتی محاربے کا دوسرا پہلو عالمی سطح پر دہشت گردی کی جنگ کا شکار مسلمانوں کی ہمہ پہلو بے توقیری ہے۔ ان مسلمان ممالک میں جہاں کی حکومتیں روایتی طور پر ، کسی نہ کسی وجہ یا سہارے کی بنیاد پر امریکی مفادات کو بطریق احسن پورا کرنے سے معذور رہیں، وہاں مصنوعی طریقے سے ’’عوامی مزاحمت‘‘ کو تخلیق کیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں حکومتوں سے ناراض عناصر کو جدید ترین اسلحہ فراہم کرکے مسلح مزاحمت پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ آغاز، اپنے ٹرینڈ لوگ کرتے ہیں اور پھر بات پھیل کر پورے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ تیونس، مصر،یمن،لیبیا، بحرین اور اب شام کے واقعات کو کون نظرانداز کر سکتا ہے۔استعمار سفید کی مسلمان دنیا کے لیے اس تازہ حکمت عملی کی ہلاکت خیزیوں کا نشانہ خصوصی طور پر اسلامی دنیا بن رہی ہے۔ پاکستان تو ہر طرح کے نامناسب وناموزوں تجربات کی آماجگاہ ہے ہی ، لیکن ماضی قریب میں تیونس ، یمن ،مصر،لیبیا اور اب شام میں مقامی گروہوں کو مسلح و متحارب کرکے جس غار ت گری کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اسے میں کسی طور’’بہار عرب‘‘ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ یہ کیسی بہارعرب ہے جو صرف انہی عرب ملکو ں میں اتر رہی ہے جو کسی نہ کسی طور پر امریکہ یا مغرب کے لیے ’’آسان‘ نہ ہوں۔ یہ بہارسعودی عرب، اردن، قطر اور دیگرزیر دست عرب ریاستوں کا نصیب کیوں نہیں بن رہی؟ یہ بہار ملوکیت و شہنشاہیت کے خلاف کیوں نہیں ہے۔
جہاں تک اس عالمی دہشت گردی کے اصل محرک مغرب اور امریکہ کا تعلق ہے تو اُن کا ہاتھ صرف علم کی طاقت سے روکا جا سکتا ہے۔اقبال نے 1902ء میں یہ تصور پیش کیا تھا کہ تمام قومی عروج کی جڑ بچوں کی تعلیم ہے۔(6)۔ آپ بتائیے کہ ہم پاکستان میں بالخصوص اور دیگر اسلامی ممالک بالعموم تعلیم پر کس قدر خرچ کر رہے ہیں؟ 1904ء میں اقبال نے اقوام برصغیر کو جاپان کی طرح صنعتی تعلیم کی طرف توجہ دینے کی صلاح دی تھی، اپنے مضمون قومی زندگی میں اقبال لکھتے ہیں:
’’جاپانیوں کو دیکھو کس حیرت انگیز سُرعت سے ترقی کر رہے ہیں۔ابھی تیس چالیس سال کی بات ہے کہ یہ قوم قریباً مُردہ تھی،۱۸۶۸ء میں جاپان کی پہلی تعلیمی مجلس قائم ہوئی۔ اس سے چار سال بعد یعنی ۱۸۷۲ء میںجاپان کا پہلا تعلیمی قانون شائع کیا گیا اور شہنشاہ جاپان نے اس کی اشاعت کے موقع پر مندرجہ ذیل الفاظ کہے:۔
’ہمارا مدّعا یہ ہے کہ اب سے ملک جاپان میں تعلیم اس قدر عام ہو کہ ہمارے جزیرے کے کسی گائوں میں کوئی خاندان جاہل نہ رہے۔‘
غرض کہ ۳۶ سال کے قلیل عرصے میں مشرق اقصیٰ کی اس مستعد قوم نے جو مذہبی لحاظ سے ہندوستان کی شاگرد تھی،دنیوی اعتبار سے ممالکِ مغرب کی تقلید کی اور ترقی کرکے وہ جوہر دکھائے کہ آج دنیا کی سب سے زیادہ مہذب اقوام میں شمار ہوتی ہے اور محققین مغرب اس کی رفتارترقی کو دیکھ کر حیران ہو رہے ہیں۔جاپانیوں کی باریک بین نظر نے اس عظیم الشان انقلاب کی حقیقت کو دیکھ لیا اور وہ راہ اختیار کی جو اُن کی قومی بقاء کے لیے ضروری تھی۔افراد کے دل و دماغ دفعتاً بدل گئے اور تعلیم و اصلاحِ تمدّن نے قوم کی قوم کو اور اسے کچھ اور بنا دیا اور چونکہ ایشیا کی قوموں میں سے جاپان رموزِ حیات کو سب سے زیادہ سمجھا ہے۔اس واسطے یہ ملک دنیوی اعتبار سے ہمارے لیے سب سے اچھا نمونہ ہے۔ ہمیں لازم ہے کہ اس قوم کے فوری تغیرّ کے اسباب پر غور کریں اور جہاں تک ہمارے ملکی حالات کی رو سے ممکن و مناسب ہو ،اس جزیرے کی تقلید سے فائدہ اٹھائیں… اس وقت قومی زندگی کی شرائط میں جو حیرت ناک انقلاب آیا ہے،میری رائے میں اس کی سب سے بڑی خصوصیت صنعت و تجارت ہے۔ ایشیائی قوموں میں سے جاپانیوں نے سب سے پہلے اس تغیرّ کے مفہوم کوسمجھا اور اپنے ملک کی صنعت کو ترقی دینے میں ایسی سرگرمی سے مصروف ہوئے کہ آج یہ لوگ دنیا کی مہذب اقوام میں شمار ہوتے ہیں۔ اس امتیاز کی وجہ یہ نہیں کہ جاپانیوں میں بڑے بڑے فلسفی یا شاعر و ادیب پیدا ہوئے ہیں، بلکہ جاپانی عظمت کا تمام دارومدر جاپانی صنعت پر ہے… اس زمانے میں اگر کسی قوم کی قوت کا اندازہ کرنا مطلوب ہوتو اس قوم کی توپوں اور بندوقوں کا معائنہ نہ کرو بلکہ اس کے کارخانوں میں جائو اور دیکھو کہ وہ قوم کہاں تک غیر قوموں کی محتاج ہے اور کہاں تک اپنی ضروریات کو اپنی محنت سے حاصل کرتی ہے۔ ان حالات کومدنظر رکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہندوستانیوں اور خصوصاً مسلمانوں کو تعلیم کی تمام شاخوںسے زیادہ صنعت کی تعلیم پر زور دینا چاہیے۔واقعات کی رو سے میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جو قوم تعلیم کی اس نہایت ضروری شاخ کی طرف توجہ نہ کرے گی وہ یقیناً ذلیل و خوار ہوتی جائے گی۔ یہاں تک کہ صفحہ ہستی پر اُس کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے گا لیکن افسوس ہے کہ مسلمان بالخصوص اس سے غافل ہیں اورمجھے اندیشہ ہے کہ وہ اپنی غفلت کا خمیازہ نہ اٹھائیں۔میں صنعت و حرفت کو قوم کی سب سے بڑی ضرورت خیال کرتا ہوں۔‘‘(7)
ہم نے ان سنی کردی۔ اور آج ہماری غفلت نے اقبال کے خدشے کو امر واقعہ بنا دیا ہے ۔اقبال جانتے تھے کہ قوت کے بغیر مذہب محض ایک فلسفہ بن کر رہ جاتا ہے یعنی کوئی ’’کلیمی‘‘ اُس وقت تک کارِ بے بنیاد ہی رہتی ہے جب تک اس کے ساتھ ’’عصا‘‘ نہ ہوا۔ یعنی طاقت و قوت اور یہ طاقت و قوت صرف اورصرف علم کی بنیاد پر ہاتھ آتی ہے ۔یقین کرنا چاہیے کہ جس لحظے مسلمانوں نے علم وا یجاد کی دنیا میں سبقت حاصل کرلی، دنیا ان کی قیادت کو تسلیم کرلے گی اور دہشت گردی کی یہ عالمگیر جنگ ختم ہو جائے گی۔

حواشی/حوالے
.1 اس المناک استدلال کا بہترین اظہارلطیف پیرائے میں علامہ اقبال نے پیام مشرق کی نظم ’’قسمت نامہ سرمایہ دار و مزدور، میں کیاہے۔

قسمت نامئہ سرمایہ دار و مزدور
غوغاے کارخانہء آہنگری زمن
گلبانگِ ارغنونِ کلیسا ازانِ تو
نخلے کہ شہ خراج برومی نہد زمن
باغ بہشت و سدرہ و طوبا ازانِ تو
تلخابہ کہ دردِسر آرد ازانِ من
صہباے پاکِ آدم و حوّا ازانِ تو
مرغابی و تدرو و کبوتر ازانِ من
ظلِّ ہما و شہپرِ عَنقا ازانِ تو
ایں خاک و آنچہ در شکمِ او ازانِ من
وزخاک تا بہ عرشِ معلاّ ازانِ تو
.2خطبہ الہ آباد1930ء میں اقبال کے اس موضوع پر بڑی تفصیل سے اظہار خیال کیا ۔اس خطبے میں اقبال کہتے ہیں:
\”The truth is that Islam is not a Church. It is a state conceived as a contractual organism long before Rousseau ever thought of such a thing, and animated by an ethical ideal which regards man not as an earth-rooted creature, defined by this or that portion of the earth, but as a spiritual being understood in terms of a social mechanism, and possessing rights and duties as a living factor in that mechanism….I there fore demand the formation of a consolidated Muslim state in the best interests of India and Islam. For India it means security and peace resulting from an internal balance of power; for Islam an opportunity to rid itself of the stamp that Arabian Imperialism was forced to give it, to mobilise its law, its education, its culture, and to bring them into closer contact with its own original spirit and with the spirit of modern times.\”
Presidential Address Delivered at the Annual Session of the All-India
Muslim Conference, 21st March, 1932, Speeches and statements of
Iqbal.Compiled and edited by Latif Ahmad Sherwani (Lahore: Iqbal
Academy Pakistan, 5th edition, 2009) page 12,13
.3 عصر حاضر میں اس کی بہترین مثال ممتاز عالم ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی اقبال فہمی کے حوالے سے پیش کی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر موصوف اپنے بیان اور استدلال میں علامہ اقبال کے حوالے اور اشعار کو بکثرت استعمال کرتے تھے، لیکن انہیں اقبال کی ہر رائے اور ہر موقف حتیٰ کہ شعری اظہار کے سلیقے تک سے سخت اختلاف رہا۔حال ہی میں شعبہ اقبالیات میں’’ ڈاکٹر اسرار احمد کی اقبال فہمی کا توضیحی مطالعہ‘‘ کے زیر عنوان ایم فل سطح کا مقالہ لکھا گیا۔ اس کے نتائج حد درجہ چشم کشا اور مجموعی طور پر علما کے اقبال کے حوالے سے طریقہ کار کوسمجھنے کے لیے ایک موثر حوالہ ہیں۔
4. Islam and Qadianism by Iqbal, Speeches and statements of Iqbal.
Compiled and edited by Latif Ahmad Sherwani (Lahore: Iqbal
Academy Pakistan, 5th edition, 2009) page 233,234

5. Statement urging the creation of a chair for Islamic research,
published on 10th December, 1937 speeches and statement of
Iqbal(Lahore: Iqbal academy Pakistan, 5th edition, 2009)page,297
.6بچوں کی تعلیم و تربیت،مقالات اقبال ، مرتبہ عبدالواحد معینی(لاہور:آئینہ ادب، باردوم،1988ء)ص33
.7 قومی زندگی،مقالات اقبال مرتبہ عبدالواحد معینی(لاہور:آئینہ ادب ، باردوم،1988ء)ص99,98,86,85

Leave a Comment