( اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے )
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؔ کی یوم ولادت پر خصوصی پیش کش
٭ڈاکٹرعبدالحی
جے این یو،نئی دہلی۔
اقبال کی مشہور و معروف نظم ’خضر راہ‘ سے لیا گیا یہ مصرع اپنے آپ میں گہرے اور وسیع مفاہیم رکھتا ہے۔ یہ مصرع اور اس طرح کے سینکڑوں مصرعے اقبال کی نظموں ، غزلوں میں بکھرے پڑے ہیں۔ شاعر اور حضرت خضر کے درمیان ہونے والے مکالمے پر مشتمل یہ نظم ہمیں زندگی میں جدو جہد کرنے اور کوشش کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ہمیں دوسروں کے بھروسے نہیں رہنا چاہیے بلکہ اپنی دنیا خود پیدا کرنی چاہیے، اگر ہمیں کامیابی حاصل کرنی ہے تو قوت عمل سے کام لینا ہوگا۔
آل احمد سرور نے اسی نظم کے حوالے سے کہا تھا کہ اقبال کا فن پہلی دفعہ اپنی بلندی پر نظر آتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ اس نظم کو اردو شاعری کا عہد نامہ جدید کہتے ہیں وہیں مسعود حسین خاں نے اسے اردو شاعری کی حیات آفریں اور مثبت آواز سے تعبیر کیا ہے اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اقبال کا یہی انداز سخن ہے جس کے بارے میں سجاد انصاری نے لکھا تھا کہ اگر قرآن اردو میں نازل ہوتا تو اقبال کی نظم یا ابوالکلام کی نثر کا پیرایہ اختیار کرتا۔حالانکہ کلیم الدین احمد کو اسی نظم میں ڈھیر ساری کمیاں بھی نظر آئیں لیکن عبدالمغنی نے اپنی کتاب میں کلیم الدین احمد کی اس تنقید کا مفصل اور بھرپور جواب دیا ہے۔
اقبال کے اولین شعری مجموعے ’بانگ درا‘ میں آٹھ طویل نظمیں ہیں جن میں ’خضر راہ‘ ایک ہے۔ ( دیگر نظمیں یہ ہیںتصویر درد، گورستان شاہی، شکوہ، جواب شکوہ، شمع اور شاعر، والدہ مرحومہ کی یاد میں، طلوع اسلام)
ان تمام نظموں میں اقبال قوم و ملت کو سنوارنے اور انھیں سیدھی راہ پر لانے کی کوشش میں زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں، جس طرح کے استعارے اور تشبیہات انھوں نے استعمال کیے ہیں انھیں پڑھ کر کسی بھی شخص کے خون میں روانی پیدا ہو جائے گی۔
علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعہ نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ ساری دنیا میں پھیلے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو قرآن پاک اور احادیث نبوی کی تعلیمات دی ہیں۔ اقبال کا کمال فن یہ ہے کہ وہ ایک مصرعے میں ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جس پر پوری کتاب بھی کم پڑ جائے۔ علامہ قبال بر صغیر ہی نہیں بلکہ دنیا میں پیدا ہونے والے اہم مفکرین میں سے ایک ہیں۔ ان کے تمام فکری اور علمی موضوعات کا احاطہ کسی ایک شخص کے بس کی بات نہیں۔ اقبال کی شاعری اور ان کی فکر کے حوالے سے مختلف شخصیات نے اپنے اپنے انداز میں اقبال کو سمجھنے کی کوشش کی ہے لیکن کوئی بھی اقبال کی فکر کو مکمل طور پر سمجھنے اور اس کی تفہیم کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
اقبال کی فکر کی صحیح اور حقیقی تفہیم تب ہی ممکن ہے جب اقبال کی شاعری کو پڑھنے والے مشرق و مغرب کے مختلف علوم و فنون سے آشنا ہوں کیوں کہ اقبال کی شاعری میں ان علوم و فنون کا جا بجا ذکر ملتا ہے۔ اقبال جب کوئی شعر کہتے ہیں تو وہ محض ایک شعر نہیں ہوتا بلکہ ایک جہان معنی اس کے پس منظر میں موجود رہتا ہے۔ ان کی شاعری اوران کی فکر کا محور قرآن و حدیث ہوتے ہیں۔ وہ بھلے ہی دنیا کے کسی فلسفی، شاعر، مفکر کا حوالہ دیں لیکن قرآن و حدیث ہی ان کے پیش نظر رہتے ہیں۔ اقبال یہ بھی چاہتے ہیں کہ دنیا کی دیگر اقوام نے جس طرح ترقی حاصل کی ہے اسی طرح مسلم قوم بھی عروج کی نئی داستان رقم کرے۔ اس لیے اقبال دوسری تہذیبوں اور مذاہب کی تعلیمات دیتے ہوئے نہیں گھبراتے کیوں کہ حضور اکرم ؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ تمھیں اچھائی اور نیکی جہاں سے ملے حاصل کرو۔
انسانی زندگی حرکت و عمل کا دوسرا نام ہے۔ ہمارا مذہب اسلام بھی حرکت و عمل کی دعوت دیتا ہے۔ علامہ اقبال نے بھی اسلام کی اس بنیادی روح کو سمجھتے ہوئے ملت اسلامیہ کو حرکت و عمل کی دعوت دی۔ اسلامی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جب بھی ملت اسلامیہ نے اپنے زور بازو اور خدا سے بھروسہ توڑا ہے اسے نقصانات و ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاتاریوں کا حملہ ہو یا پھر مغربی ممالک کی پیش قدمی۔ تاتاریوں کے حملے نے اسلام کی مرکزی اکائی کو ختم کر دیا۔ مسلمانوں کے کتب خانوں کو ان کی کتابوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ لاکھوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ لیکن اس کے بعد بھی مسلمانوں میں وہ بنیادی تعلیمات موجود تھیں جس نے روم ،مصر اور اندلس کو فتح کرایا تھا۔ ان حملوں سے ایک سبق لیتے ہوئے دنیا بھر کے مسلمانوں نے ایک ہو کر پھر سے اسلام کا پرچم بلند کیا لیکن 18ویں صدی تک آتے آتے اسلام کی یہ اکائی بھی دم توڑ گئی کیوں کہ مغربی معاشرہ، صنعتی و سرمایہ دارانہ انقلاب اور سائنسی رویوں نے ایک ساتھ مل کر عالم اسلام کو دنیا کے مختلف حصوں میںنقصان پہنچانے کی کوشش کی اور اس میں اسے کامیابی ملی۔ تاتاریوں نے ظلم و بربیت کا ننگا ناچ تو کیا لیکن وہ اسلام کی روح کو نقصان نہ پہنچا سکے لیکن مغربی معاشرے نے وہ کام کر دیا جو تاتاریوں کی تلوار نہ کر سکی۔ ان تمام صورتحال نے مسلمانوں کو مایوسی اور نا امیدی کی گہری دلدل میں دھکیل دیا۔ اس صورتحال سے مسلمانوں کو باہر نکالنے میں اردو ادب کے حوالے سے پہلا نام سر سید احمد خاں کا آتا ہے۔ انھوں نے مغربی تہذیب و تمدن کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا اور مسلمانوں کو پھر سے ترقی یافتہ بنانے کی کوشش کا آغاز کیا۔ سر سید کی ان کوششوں کا ذکر یہاں بے محل ہوگا۔ مختصر یہ کہ سر سید نے مغربی تہذیب کی یلغار سے نکلنے کی یہ صورت بتائی کہ مسلمانوں کو جدید تعلیم اور سائنس کی طرف راغب کیا جائے اور اس کوشش میں وہ مذہب کو بھی سائنسی کے تناظر میں دیکھنے لگے جس سے مسلمانوں میں خلفشار پیدا ہوا اور خود ان پر کفر کے فتوے لگے۔
بیسویں صدی پوری دنیا میں نئے ہنگامے اور نئے انقلابات لے کر آئی۔ دنیا کے سیاسی نقشے میں کئی ردو بدل ہوئے اور دنیا نے پہلی جنگ عظیم کا سامنا کیا۔ ہندوستان بھی نئی تبدیلیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ان تبدیلیوں اور نفسا نفسی کے عالم میں اقبال وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے ان رویوں کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی اور مسلمانوں کی بے بسی اور گمراہی کو دور کرنے کی کوشش کی اور فلسفہ خودی ، عشق و عقل، مرد مومن ،حرکت و عمل جیسے تصورات پیش کیے اور قرآن و احادیث کی روشنی میں مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل تلاش کیا اور ایک نئی تعبیر پیش کی۔پہلی جنگ عظیم کے بعد ہندوستان میں رولٹ ایکٹ،گاندھی جی کی عدم تعاون کی تحریک، جنرل ڈائر کا مارشل لا اور قتل عام جیسے واقعات سے ملک میں افراتفری کا ماحول تھا اور ایسے وقت میں ہی اقبال نے یہ نظم تحریر کی اور ہمیں خواب خرگوش سے جگانے کی کوشش کی۔خضر راہ کے حوالے سے راشد حمید لکھتے ہیں :
علامہ اقبال نے اپنے تخلیقی رویوں کا اظہار شاعری کے ذریعے کیا اور ابتداً وہ مروج اصول و ضوابط کے مطابق شعر کہتے رہے لیکن بہت جلد وہ اس سلسلے کو خدا حافظ کہہ آئے اور نئے رنگ اور نئی تخلیقی اپج کے ساتھ سامنے آئے۔ خضر راہ علامہ اقبال کے انقلاب آفریں فلسفے کا بنیادی نکتہ ہے۔ انھوں نے اس نظم میں اسلام کے حرکی کردار پر گفتگو کی۔ علامہ اقبال اس حوالے سے غور و فکر کرنے اور نتائج نکالنے میں یوں کامیاب او ر کامگار ٹھہرے کہ انھوں نے تاریخ کا جو تہذیبی مطالعہ کر رکھا تھا اور اسلام کے جس تصور تاریخ سے وہ آگاہ تھے، اس کے پس منظر میں انھوں نے ایک نیا زاویۂ نگاہ وضع کیا اور اس کی تدوین اور ترتیب و تہذیب کی بنا پر وہ کچھ ایسے نئے رویے سامنے لائے کہ جن کے مسلم امہ پر نہایت دور رس اثرات مرتب ہوئے۔(بحوالہ : اقبال کا تصور تاریخ۔ راشد حمید)
اسلامی تعلیمات گواہ ہیں کہ اس مذہب میں کس قدر رواداری اور وسعت ہے۔ تعصب اور تنگ نظری کی اسلام میں کبھی کوئی گنجائش نہیں۔یہاں تک کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں پر بھی لعن طعن کی سخت ممانعت کی گئی ہے لیکن خود اسلام کے پیروکار ہی اپنے دینی بھائیوں سے تعصب رکھنے لگے تو اقبال کو شکوہ کرنا پڑا۔
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلماں بھی ہو
اور جب مسلمان ذاتی مفادات میں اس قدر محو ہو جاتے ہیں مطالب قرآن کو بھی ذاتی مفاد کے رنگ میں ڈھال لیا تو اقبال کہتے ہیں ۔
خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
بیسویں صدی میں جہاں دنیا ترقی کے نئے ذینے چڑھ رہی تھی، وہیں مذہب اسلام میں نئے قصے سر اٹھا رہے تھے۔ ہر کوئی اپنی فکر کو صحیح ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا۔ مذہب جیسے ذاتی جاگیر بن کر رہ گیا تھا۔ ان حالات میں اقبال فرماتے ہیں۔
تعصب چھوڑناداں دہر کے آئینہ خانے میں
یہ تصویر بھی ہیں تیری جن کو سمجھا ہے برا تو نے
اقبال ایک بالغ نظر شاعر ہیں۔ انھوں نے نہ صرف مشرق کی تعلیمات اور فلسفے کو پڑھا ہے بلکہ فلسفہ مغرب بھی ان کے دل و دماغ میں بھی ہوا ہے۔ وہ علم کو مضامین یا علاقائیت سے پرے سمجھتے ہیں اور جہاں اس سے انھیں کچھ بھی حاصل ہوتا ہے وہ لے لیتے ہیں۔ وہ تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ فلسفہ ان کے حافظے میں ہے۔ اقتصادیات سے انھیں گہرا شغف ہے۔ دنیا کے نئے رجحانات و ریوں سے بھی واقفیت ہے، جمہوریت، اشتراکیت، شہنشاہیت غرض ہر طرز حکومت سے وہ آشنا ہیں۔ یہی نہیں قدیم ہندوستانی ، چینی، یونانی، فلسفہ و نظریات سے بھی واقف ہیں۔ انھوں نے دنیا کی مختلف اقوام کا مشاہدہ کر کے جو نتائج بر آمد کیے ہیں اسے شاعری کے سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری صرف غزل، قصیدہ یا مرثیہ نہیں ہے بلکہ انسان کے دکھوں کا مداوا کرنے کا ایک حل ہے، انسان کی آزادی خوشی اور طمانیت ان کی شاعری کا مقصد ہے۔ اقبال اپنے علم، تجربے اور تدبر کی مدد سے ایک راہ عمل ترتیب دیتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ انسان کی تمام پریشانیوں کا حل اس کے عمل میں پنہاں ہے۔ اگر انسان سچے دل سے کوشش کرے تو منزل مقصود کو پا سکتا ہے۔ بس اسے اپنے عمل کے تئیں خود اعتماد رہنا ہوگا۔ اپنے زور بازو پر یقین کامل رکھنا ہوگا اور اللہ پر پورا بھروسہ رکھنا ہوگا۔پھر چاہے پہاڑ ہوں یا بحر ظلمات سبھی جگہ فتح و کامرانی ہمارے قدم چومے گی۔ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں :
’’اقبال کو اس بات پر بھی یقین ہے کہ جب تک اس جہان نو کی امامت و قیادت مرد مومن کے ہاتھوں میں نہیں آتی اس وقت تک یہ انسانیت ان فرنگی مقامروں کے ہاتھوں ہلاکت و بربادی سے دو چار ہوتی ہی رہے گی۔ ضرورت ہے کہ مرد مومن اٹھے اور ایک جہان نو کے بانی کی حیثیت سے موجودہ بیمار انسانیت کے دکھوں کا مداوا بن کر اٹھے ایک نئی زندگی اور توانائی عطا کرے۔‘‘( نقوش اقبال۔ علی میاں ندوی، ص۔132)
خضر راہ کے اس مصرع کے حوالے سے علامہ قبال کا یہ پیغام ہے کہ اگر انسان فنا ہو جانا چاہے تو بے لگام زندگی گزارے اور اگر انسان چاہتا ہے کہ باقی رہے تو اصول اورقاعدے کے تحت زندگی بسر کرے۔ اسی میں انسان کی بھلائی ہے۔ زندگی کا دوسرا نام عمل ہے اور اگر انسان کو زندہ رہنا ہے تو اسے اپنی دنیا آپ پیدا کرنی ہوگی اور اس دنیا کے لیے عمل ضروری ہے۔ اور عمل ہی انسان کو حیات بخشتا ہے۔میں اپنے اس مضمون کا اختتام عزیز احمد کے ان جملوں پر کرتا ہوں۔
اقبال کا سارا کلام پڑھنے کے بعد ایک سیدھی سادی بات جو ایک عام آدمی کی سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو پہچانے اور ان سے کام لے۔ خدا اور اس کے رسول ؐ سے عشق رکھے۔ اسلامی تعلیمات کی حرکی روح کو سمجھے اور اس پر عمل کرے تو وہ حقیقت میں خدا کا جانشین بن سکتا ہے اور اپنی تقدیر کا آپ مالک بن سکتا ہے۔ (عزیز احمد)، کلیات اقبال، اقبال اکادمی۔
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی
رستہ بھی ڈھونڈ ، خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں ہے
vvv
عبدالحی، روم نمبر252 پیریار ہاسٹل، جے این یو، نئی دہلی