اقبال کی غزل میں پیکر تراشی

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؔ کی یوم ولادت پر خصوصی پیش کش

\"254014_163889340340253_5900937_n\"
٭ڈاکٹر سلیم محی الدین
ایسو سی ایٹ پروفیسر،صدر شعبۂ اردو
شیواجی کالج، پربھنی۔

\"iqbal_day_1\"

غزل کے زمانے تو لَد چکے تھے جب اقبال نے غزل کا دامن تھاما۔ انجمن پنجاب کی تحریک اپنے عروج پر تھی۔ حالی،ڈپٹی نذیر احمد اور محمد حسین آزاد نے غزل کی بیخ کنی میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی تھی۔ خود غزل میں یہ سکت باقی نہیں رہ گئی تھی کہ وہ اس پر کئے گئے شدید اعتراضات کا جواب دے سکے۔ غزل کے نام پر اگر کچھ باقی رہ گیا تھا تو وہ داغؔ اور داغؔ اسکول کے نام کا ’’داغ داغ اجالا‘‘ ۔اقبال خود اسی داغ اسکول کے چشم و چراغ رہے ہیں۔ خود اقبال کے پہلے مجموعے ’’بانگ درا‘‘ کی ستائیس۲۷ غزلیں گویا زبان حال سے اقرار کررہی ہیں کہ یہ داغؔ کبھی داغ مفارقت نہیں دینے والا۔
اقبال ایک فطری اور جنیئس شاعر ہیں اسی لئے انھیں اس رنگ سے چھٹکارہ حاصل کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ اقبالؔ نے روایت کے گہرے اثر سے دامن چھڑانے میں زیادہ دیر نہیں کی اسی لئے اردو غزل کو بروقت کمک بہم پہنچی اور وہ ایک نئی زبان، نئے مضامین اور نئے اسلوب سے متعارف ہوئی۔ ویسے غزل کی راہ سے کانٹے ہٹانے کا کچھ کام اپنے محدود دائرے میں خود حالیؔ بھی کرچکے تھے۔ حالیؔ کی جدید غزلوں کے گہرے مطالعے سے اقبال کے لہجے اور ڈکشن کی آہٹ کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ آل احمد سرورؔ کے مطابق اقبال نے داغ سے عاشقانہ چھیڑ چھاڑ اور لطف زبان سیکھی لیکن فکری و فنی سطح پر وہ حالی سے زیادہ قریب ہیں۔ اس جگہ پر و فیسر آل احمد سرورؔ کے اقبال کی غزل سے متعلق تاثرات میری گفتگو کے لطف میں اضافے کا باعث ہوسکتے ہیں۔ اقتباس
’’ اقبال کی غزل میں سوز بھی ہے اورمستی بھی۔ جمال بھی ہے اور جلال بھی۔ فکر کا مغز بھی ہے اور جذبے کا گودا بھی، دلوں کی کشاد بھی نشتریت بھی۔ ساز طرب بھی ہے فریاد کی ٹیس بھی۔‘‘(۱)
گویاایک ہی رات میں غزل کی گود بھر گئی۔ یاد رکھیں سرورؔ صاحب کے یہ تاثرات اسی اردو غزل کے متعلق ہیں جس پر ریزہ خیالی، معاملہ بندی اور فرسودہ مضامین کے استعمال کے شدید الزامات تھے اور یہ مان لیا گیا تھا کہ وہ اس دائرے کو شاید ہی توڑسکے۔ خود غزل کی تہذیب بھی دائروں کے توڑنے میں یقین نہیں رکھتی ہے لیکن روایت کے دائرے کو وسعت دی جاسکتی ہے اور اس دائرے کو وسعت عطا کرنے کی کوشش کرنے والا ہر شاعر غزل کے ارتقاء کی تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔
بقول شمس الرحمٰن فاروقی۔
’’ اگرچہ اقبال نے اردو غزل کی روایت میں کوئی اضافہ نہیں کیا کیونکہ اخلاقی، فلسفیانہ، بلند آہنگ لہجے والے مضامین تو اردو غزل میں پہلے سے موجود تھے لیکن پھر بھی انھوں نے غزل کی صنف کو ایک نیا موڑ ضرور دیا۔‘‘(۲)
اس اقتباس میں فارووقی صاحب کی ’’لیکن‘‘ بہت اہم ہے ۔ اس لیکن کی پرتیں ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی کے حوالے سے اس طرح کھولی جاسکتی ہیں ۔ اقتباس
’’ اردو غزل کی پوری روایت میں اقبال کی غزل جتنی مختلف ، منفرد اور روایتی لفظیات سے الگ اپنا مخصوص ڈکشن متعین کرتی ہے اس کے پس منظر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ لب و لہجہ، ڈکشن اور اس کے غیر مقلدانہ انداز کو سمجھا اور نشان زد کیا جائے اور یہ انداز لگانے کی کوشش کی جائے کہ اقبال کی غزل اپنے
اجتہادی طریق کار اور طرز گفتار کا تعین کن محرکات کے باعث اور کن بنیادوں کے حوالے سے کرتی ہے‘‘ (۳)
غزل میں اقبال کا اجتہاد فکری ، فنی اور لسانی تینوں سطح پر تھا۔ وہ زندگی اور کائنات کے متعلق صاف اور واضح نظریات کے حامل تھے۔ مذہب اور فلسفہ کے عمیق مطالعے کا ان کی ذہنی ترہین میں اہم کردار تھا۔ اقبال کے نزدیک ان کی فکر اور ان کے پیغام کی ترسیل ان کے لئے اولین ترجیح تھی ۔ جہاں تک فن کا تعلق ہے ان پر بے شمار اعتراضات کئے گئے۔ زبان کے معاملے میں بھی وہ فن ہی کی طرح آزادیوں کے طالب تھے۔ بقول اقبال ؎
’’ جو زبان ابھی بن رہی ہو اور جس کے محاورات اور الفاظ جدید ضروریات کو پورا کرنے کے لئے وقتا ًفوقتاً اختراع کئے جارہے ہوں اس کے محاورات وغیرہ کی صحت اور عدم صحت کا معیار قائم کرنا میری رائے میں محالات میں سے ہے ۔۔۔یہ ممکن نہیں کہ جہاں جہاں اس زبان کا رواج ہو وہاں کے لوگوں کا طریق معاشرت،ان کے تمدنی حالات اور ان کا طرز بیان اس پر اثر کئے بغیر رہے۔ علم السنہ کا یہ مسلمہ اصول ہے جس کی صداقت اور صحت تمام زبانوں کی تاریخ سے واضح ہوتی ہے اور یہ بات کسی لکھنوی یا دہلوی کے امکان میں نہیں کہ اس اصول کے عمل کو روک سکے۔‘‘ (۴)
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اقبال کے لئے فن اور زبان سے زیادہ اہم ان کی فکر اور ان کے پیغام کی ترسیل تھی۔ غزل کے باب میں داغ اسکول سے وابستگی، حالیؔ سے عقیدت، امیر مینائی سے رغبت اور غالب سے محبت کے باوجود اقبال، اقبال ہے اور اقبال کی غزل فکر کے بوجھ سے لدی ہونے کے باوجود شعری علائم و استعارات اور پیکر تراشی کا مرقع ہے۔
پیکر دراصل وہ لفظی تصویریں ہیں جو لسانی تہذیب اور صفحۂ قرطاس کے حوالے سے شاعر اور اس کے قاری کے ذہین میں ابھرتی ہیں ۔ پیکر شاعر کے مشاہدے، تجربے، احساس، تصور یا تخیل کا ایسا عکس ہے جو لسانی قالب کا حامل ہوتا ہے۔ بقول ڈے۔لیوس۔
’’ پیکر زیاب کی ایک مجازی شکل ہے ۔ وہ ایک تشبیہہ ہے۔ ایک استعارہ ہے۔ ایک صنعت ہے ۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ صنعتوں اور زبان کی وہ صورت ہے جو کسی دوسری شئے سے مطابقت رکھتی ہے۔ ہر پیکر کسی حد تک ایک استعارہ ہے جو ایک ایسے آئینے میں جھانکتا ہے جس میں چہرہ نہیں بلکہ چہرے کی کچھ سچائیاں دکھائی دیتی ہیں۔‘‘ (۵)
اقبال کا زندگی اور کائنات کا مطالعہ کافی وسیع اور مربوط تھا ساتھ ہی ان کے پیش نظر اپنی فکر اور پیغام کی ترسیل کا مقصد بھی تھا جس کے لئے پیکر تراشی عمل ایک فطری بلکہ لاشعوری انتخاب بھی ہوسکتا تھا۔ اقبال کی غزل میں پیکر تراشی کی تلاش کے لئے کسی عمیق مطالعے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان کے پیکر بہت واضح ، عیاں اور فوری متوجہ کرنے والے ہیں۔ ان پیکروں میں بصری ، سمعی، مخلوط، محسوساتی، تلمیحاتی پیکر نمایاں ہیں۔ اقبال کے پیکر نہ صرف ان کی غزل کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ تاثر کو بھی دوبالا کرتے ہیں۔ ان میں انسانی جذبات و نفسیات اور فکر کے جلوے ہیں۔
پردہ چہرے سے اٹھا انجمن آرائی کر
چشم مہر و مہ و انجم کو تماشائی کر

میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بت کدئہ صفات میں

پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کوپھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لب بام ابھی
یہ پیکر بظاہر تو بہت سادہ ہیں لیکن ہیں بڑی گہری معنویت کے حامل۔ اولاً تو یہ غزل کے روایتی استعاراتی نظام کا حصہ معلوم ہوتے ہیں لیکن ان کی ہر نئی قرأت ایک نئی معنوی پرت آشکار کرتی ہے اور اگر اسے اقبال کی فکر اور ان کے پیغام کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک نئے معنوی جہان کی سیر کراتے ہیں۔ اقبال کا اصل کمال یہ ہے کہ ان کی غزل میں پیکر کا استعمال نہایت فطری محسوس ہوتا ہے۔ ان کے پہلے مجموعہ کلام’’ بانگ درا‘‘ میں شامل پہلی غزل جومحض چار اشعار پر مشتمل ہے کا ہر شعر بصری پیکر تراشی کا خوبصورت نمونہ ہے۔
گلزار ہست وبود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ

مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ، مرا انتظار دیکھ
اک نہایت سادہ اور واضح بصری پیکر کی مثال دیکھیئے۔
برگ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی باد صبح
اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن
یہ شعر تو گویا لفظی تصویر کی عمدہ مثال ہے ۔ انسانی زندگی اور کائنات کا گہرا مطالعہ ہی کسی شاعر سے ایسے خوبصورت پیکر ترشوا سکتا ہے جیسے کہ ہمیں اقبال کے ہاں ملتے ہیں۔ غزل کے اشعار میں پیکر تراشی کے حوالے سے یہ فضا نامانوس ہوتے ہوئے بھی مانوس لگتی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں چند مزید بصری پیکر ۔
کبھی اے حقیقت منتظر، نظر آلباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں، مری جبینِ نیاز میں

عشق بھی ہو حجاب میں، حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو، یا مجھے آشکار کر

عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہِ کامل نہ بن جائے
تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
ترے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی
اقبال کی غزل میں بے شمار سمعی پیکر ملتے ہیں۔ یہ سمعی پیکر نری لفظی تصویریں نہ ہوکر انسانی زندگی، جذبات، احساسات، تخیل اور تصور کی اپنی کائنات تشکیل کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ کائنات اپنے آپ میں مکمل بھی ہے اور مربوط بھی۔
نالہ ہے بلبل شور یدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی

کیوں ساز کے پردے میں مستور ہولے تیری
تو نغمۂ رنگین ہے ،ہر گو ش پہ عریاں ہو

اب کیا جو فغاں میری، پہنچی ہے ستاروں تک
تونے ہی سکھائی مجھ کو یہ غزل خوانی

نہ کردیں مجھ کو مجبور نوا فردوس میں حوریں
مرا سوز دروں پھر گرمیٔ محفل نہ بن جائے
نالہ بلبل کا شوریدہ ہونا، نغمہ رنگیں کا ہر گوش پر عریاں ہونا، فغاں کا ستاروں تک پہنچنا اور سوز دروں کا گرمیٔ محفل ہونا سارے مضامین غزل کے داخلیت پسند مزاج کے برخلاف خارجیت کے رجحان کے حامل ہیں۔ یہی اقبال کی غزل کا امتیاز ہے ۔ اقبال کی غزل کا ایک اور امتیاز یہ بھی ہے کہ فکری عمق اور پیغام کی شمولیت کے باوجود اقبال کی غزل کی روانی، حسن اور تاثیر پر حرف نہیں آتا حرکت و عمل اقبال کے پیغام کا محور ہے اسی لئے ان کی غزل میں حرکیاتی پیکر تراشی بھی اپنے عروج پر نظر آتی ہے ۔ چند مثالیں۔
تو ابھی رہ گزر میں ہے، قید مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر، پارس و شام سے گزر

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ بھی نہیں
نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر، میر کارواں کے لئے
ایک سے زیادہ حواس کی لفظی تصویر کو مخلوط پیکر کہا جاتا ہے اقبال کی غزل میں مخلوط پیکر تراشی کی مثالیں بھی خوب پائی جاتی ہیں خود’’ بال جبرئیل‘‘ کے آغاز میں بھر تری ہری سے منسوب جو شعر دیا گیا ہے میری نظر میں وہ بھی مخلوط پیکر تراشی کی عمدہ مثال ہے ملاحظہ فرمائیں۔
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے، ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
مخلوط پیکر کی کچھ اور مثالیں ہیں۔
جمیل تر ہیں گل ولالہ فیض سے اِس کے
نگاہ شاعر رنگین نوا میں ہے جادو

پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن
شاعر کا جذبہ و احساس ہی اس کے فکر و فن کی تشکیل کرتے ہیں۔ ہر شعر شاعر کے محسوسات کا آئینہ ہوتا ہے ۔ محسوساتی پیکر تراشی شاعر کی فکری، فنی و لسانی دسترس کا مہظر ہوتی ہے۔ محسوساتی پیکر تراشی میں بھی اقبال کا انداز منفرد ہے۔
باغ بہشت سے مجھے اذن سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتطار کر

کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو
یا رب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو

من کی دنیا، من کی دنیا، سوز و مستی، جذب و شوق
تن کی دنیا، تن کی دنیا ، سود و سودا، مکر و فن
تلمیح اردو شاعر ی کی ایک اہم صنعت ہے ۔غزل میں اس کا استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔اقبال کے ہاں بھی تلمیحات کا استعمال بے حد دلکش اور خوبصورت طریقے سے کیا گیا ہے۔ تلمیح ایک طرف تو دریاکو کوزہ میں بند کرنے کا فن ہے تو دوسری جانب کم الفاظ میں موضوع کو اجالنے کا ہنر بھی ہے ۔ تلمیحاتی پیکر تراشی کی چند مثالیں ؎
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی

شوخی سی ہے سوالِ فکر میں اے کلیمؔ
شرط رضا یہ ہے کہ تقاضا بھی چھوڑ دے
نہ خدا رہا نہ صنم رہے، نہ رقیب دیر و حرم رہے
نہ رہی کہیں اسد للہی، نہ کہیں ابولہی رہی

دل بیدار فاروقی، دل بیدار کراری
مِسِ آدم کے حق میں کیمیا ہے دل کی بیداری
بعض الفاظ کا کثرت سے استعمال اور ہر بار ایک نیا پہلو تراشنے کا عمل بھی پیکر تراشی ہی کہلاتا ہے ۔ ان الفاظ کی مدد سے شاعر اپنا مطمع نظر بخوبی بیان کرپاتا ہے۔ ہر شاعر کے ہاں ایسے چند الفاظ پائے جاتے ہیں جو پیکر کا مرتبہ حاصل کرلیتے ہیں۔ اقبال کے ہاں’’ بجلی‘‘ بھی ایک ایسا ہی پیکر ہے۔
تو جو بجلی ہے تو یہ چشمک نہاں کب تک
بے حجابانہ مرے دل سے شناسائی کر

بجلی ہوں نظر کو ہ وبیاباں پہ ہے میری
میرے لئے شایاں خس و خاشاک نہیں ہے

تعمیر آشیاں سے میں نے یہ راز پایا
اہل نوا کے حق میں بجلی ہے آشیانہ

عزیز تر ہے متاعِ امیر و سلطاں سے
وی شعر جس میں ہو بجلی کا سوز و براقی
شاعری پیغمبری است۔ سنتے آے ہیں لیکن اگر شاعر اقبال کی طرح دور رس اور اپنے عہد سے آگے دیکھنے کی صلاحیت کا حامل ہو تو اس پر یقین کرنے کو بھی دل چاہتا ہے۔ اقبال کی غزل میں پیکرکی تلاش کے دوران میری نگاہ اس شعر پر پڑی۔ آج کی دنیا کے منظرنامے پر نظر دوڑایے اور یہ شعر پڑھیے
حیات ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی

اقبال کی غزل میں پیکر تراشی کا یہ ایک سرسری مطالعہ ہے ۔ ضرورت ہے کہ اس موضوع پر مزید بامعنی مطالعات کئے جائیں۔ نظم سے قطع نظر اقبال غزل کے بھی ایک اہم شاعر ہیں۔ اور غز ل میں ان کا اجتہاد انھیں غزل کی ارتقائی تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت کرتا ہے۔ وہ ایک ایسے موڑ پر ابھر کر سامنے آتے ہیں جہاں ایسا لگتا تھا کہ غزل جمود کا شکار ہو کر رہ گئی ہے اب اس سے آگے کا سفر اس کے لئے ممکن نہیں ہے اور یہ لکیر کی فقیر ہوکر رہ جائے گی۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اقبال کی غزل پیکر تراشی کے حوالے سے بھی غزل کا ایک اہم سنگ میل ہے۔
حوالاجات:
۱۔ آل احمد سرورؔ ۔ دانشور اقبال ص۴۲
۲۔ شمس الرحمٰن فاروقی ۔ اندازِ بیاں اور ص۱۵
۳۔ ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی ۔ شاعری کی تنقید ص۵۵
۴۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال ۔
۵۔ ڈے۔لیوس ۔

Dr.Saleem Mohiuddin
Asso.Prof. & Head,
Dept. of Urdu Shri Shivaji College,
Parbhani – 431 401(M.S.)
Email: saleempbn@gmail.com
Cell : 9923042739

Leave a Comment