٭شیبا کوثر
(برہ بترہ آرہ،بہار۔پن کوڈ802301)
وہ بھیکا رن پھر سامنے آ گئی تھی،جتنا اس سے بچنا
چاہتا ہوں اتنی ہی بار اس سے سامنا ہو جاتا ہے ۔کمبخت اس طرح چپکتی ہے جیسے نہاتے وقت بالوں میں صابن کا آخری ٹکڑا ۔جو چکناہٹ ختم ہو جانے پر بالوں میں ہی الجھ کر رہ جاتا ہے ،بالکل اسی طرح یہ بھیکا رن بھی بھیک لینے کے لئے بہت تنگ کرتی ہے اور کچھ نہ کچھ لے کر ہی ٹلتی ہے ۔اسے بھیک دینے کے بعد بھی دینے والے کو غصّہ آ جاتا ہے ۔اور جھپٹ کر لی ہوئی خیرات چھین لینے کو ہی طبیعت کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔اس لئے کہ کمبخت وہ کچھ ایسی ہی حرکت بھیک مل جائے کے بعد بھی کرتی ہے ۔
بس بیٹے کچھ اور دے ۔۔۔۔خدا تیرا بھلا کرے ۔۔۔۔۔؟\”
بس بیٹے دس روپے ۔۔۔۔۔میرے بچے ان دس روپے سے کیا ہوگا۔بیٹے،کچھ اور دے ،خدا تیرا بھلا کرے ۔\”
میں سوچتا ہوں کہ اس بھیکارن کی طینت ہی ایسی ہے اگر اسے دس روپے دو تو بیس روپے مانگے گی ،بیس دو تو سو روپے مانگے گی ،تو بھی وہ شاکی ہی رہیگی ۔اگر اس کے بس میں ہو تو وہ مرضی کے مطابق ہی خیرات حاصل کرے۔پتہ نہیں بھیکارن کی آنکھیں ٹھیک تھیں یا نہیں ۔یا وہ بہت ہی مکّار تھی کہ ابھی اس چور راستے پر بھیک حاصل کرنے کے بعد اگر آپ اتفاق سے دوسرے راستے پر مل گئے تو اسی شد د مد کے ساتھ پھر خیرات کے لئے ہاتھ بڑھا دیگی ۔
مجھے اپنے آ فس سے نکل کر اپنے ورکرس کے ساتھ ایک میٹنگ میں پہنچنا تھا اور اس وقت جبکہ میں آ فیس سے اتررہا تھا بوڑھی بھیکارن کچھ اس طرح سامنے آ گئی تھی
جیسے کسی وہمی کے سامنے بلی آ جاۓ ۔
بیٹے ۔۔۔۔۔۔میرے بچے ،خدا تیرا بھلا کرے،بہت دن ہو گئے ہیں میرے لال ۔۔۔۔۔۔۔!
مجھے غصّہ آ گیا کمبخت کی طرز ِمخاطب ہی نا گوار گزرتی تھی مجھے،جب دیکھو بیٹا ،بچے ،میرے لال کہا کرتی ہے ۔کل ہی بھیک لے گئی ہوگی ،لیکن یہی کہے گی کہ بہت دن ہو گئے ہیں میرے لال ۔۔۔۔۔؟
مجھے اپنے الیکشن کی فکر لگی ہوئی تھی ۔اس لئے اپنے تجارتی آفس پر توجہ دینا ان دنوں زرا مشکل ہو گیا تھا ۔اس وقت ایک میٹنگ میں پہنچنا تھا اور الیکشن کے لئے اپنا کام کر نا تھا جس قدر ممکن ہو ووٹس حاصل کرنے کے لئے تمام ممکنہ تدابیر اختیار کرنی تھی ۔۔۔۔۔ ۔مقابلہ پر مزید دو امیدوار تھے اور یہ سہ رخی مقابلہ نہایت سخت مرحلوں پر آ گیا تھا ۔
ایلکشن لڑ نا موجودہ صورتحال میں اپنے سر عذاب مول لینا ہے ۔یا تو اس قدر ہر دل عزیز بن جائے کہ لوگ آپ کو خود ووٹ دیں ۔۔۔۔۔!یا پھر سخت محنت کرو آپ ۔۔۔۔۔اور اپنا وقت اور دولت دونوں برباد کرو ،تب جاکر کامیابی کی توقع ہو۔ ۔۔۔۔۔ یا پھر غنڈہ گردی اور لوگوں میں دہشت پھیلا کر عوام کا ووٹ حاصل کئے جائیں ۔اگر آپ اچھی اور طاقتور پارٹی کی جانب سے بھی کھڑے ہوئے ہوں تو بھی کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کی ضرورت پڑتی ہے۔آج کل کی عوام بھی کچھ عجیب ہے ۔۔۔۔کہتی ہے نوٹ دو ۔۔۔۔۔۔ووٹ لو۔ ۔۔۔۔۔!فرض پہچاننے والے کم ہی ملیں گے ۔۔۔۔ زیادہ تر ورکرس مطلبی اور خود غرض ہی ملیں گے ۔۔۔۔۔۔آپ چاہے کسی پارٹی کی طرف سے کھڑے ہوئے ہوں ۔۔۔؟آزاد ووٹ دلانے کے بہانے آپکی جیبیں طرح طرح کے بہانے سے صاف کرتے رہیں گے ۔ہمارا بھی کام کرتے ہیں اور بعض اوقات در پردہ دوسرے امید وار کا بھی یا تو کام کرتے ہیں یا صرف چکّر ہی کاٹتے رہتے ہیں مجھے بھی جب تجربہ ہوا تو طبیعت صاف ہو گئی ۔لیکن الیکشن کا سارا معا ملہ اُمیدوار سے لیکر ورکر تک اکثر سا نپ کے منھ کے چھچھوندر بن کے رہ جاتا ہے نا اگلتے بنے نا نگلتے بنے ۔اس میدان میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ور کر س اور دیگر لوگ کامیابی کی اس قدر امیدیں بندھا تے ہیں کہ ان کے بتاۓ ہوئے حساب سے امید وار کامیابی کی بلندی پر کھڑا نظر آتا ہے اور مخالف امیدوار اپنی اپنی ضمانتیں ضبط کروا تے دکھائی دیتے ہیں ۔ریگزاروں میں شاید سراب سے بھی اسقدر دھوکے نہ ہوتے ہونگے ،جس قدر الیکشن میں کھڑے ہوئے امیدوار کو اپنے ورکر س اور اپنے ووٹروں کے دیکھا ئے ہوئے سبز باغوں سے ہوتے ہیں ۔مجھے ہر بات
کا بخوبی احساس تھا لیکن کیا کرتا پھانسی کے تختتے پر چڑھ چکا تھا اور خدا بھلا کرے گا کی تصبیح پڑھنے لگا ۔سچ ہے بعض شعبوں میں اپنے آپ کو عقلمند سمجھنے والا انسان بھی نہایت بےوقوف بن جاتا ہے۔
الیکشن کی میٹنگ ختم ہوئی دھوا ں دھار تقریریں کی گئیں ۔اپنا مینی فیسٹو بتا یا گیا اور اس کی افادیت ظا ہر کی گئی ۔وہی باتیں وہی جملے وہی پہلو جو ایک عرصہ دراز سے الیکشن میں جلسو ں میں کہے جا رہے تھے ۔دوسری جگہ پھر دوہرائے گئے ۔لوگ جلسے میں بیٹھے کم تھے۔کھڑے زیادہ تھےتقر یں سنیں اور الگ ہی الگ سے چلتے بنے ۔کچھ ہی لوگ ہوتے ہیں جو پاس آکر یا تو ہمّت بندھا تے ہیں یا کچھ سوالات کرتے ہیں اور پھر معاملہ ختم ۔۔۔۔۔!
اب الیکشن کاآخری مرحلہ تھا ۔ووٹر لسٹ دیکھکر اپنے ووٹرس کا صحیح صحیح اندازہ لگانا تھا کہ الیکشن کی صبح کن رائے دہندوں کے ووٹس پہلے ڈلوا ئے جائیں ،تاکہ ان سے جو خطرہ لگا ہوا ہے وہ دور ہو جاۓ ۔مرے ہوئے لوگ،دوسرے محلوں سے منتقل شدہ ووٹرس ترک مستقر کئے ہوئے اور شدید بیمار ووٹرس وغیرہ کے ناموں پر خصوصًا خصوصًا توجہ دینی تھی ۔اپنے ووٹرس کو پولنگ بوتھس پر چلنے کی ترغیب دلانے والے خاص ور کرس کو اچھی طرح ہدایت دینا تھا ۔اپنے کمزور مورچوں پر زور دار گشت لگانا تھا اور رائے دہندو ں کو آخری بار ہموار کرنا تھا ۔عبور پل کے علاقہ۔ میں میرے لوگوں نے کافی کام کیا تھا اور اور دو بڑے جلسے بھی کر ڈالے تھے ۔لیکن میں اس علاقے کے ایک مخصوص حصےّ میں دوڑ ٹو دوڑ نہیں جا سکا تھا ۔ایک پروگرام یہ بھی طےء کر لیاتھاکہ صبح صبح اس علاقے میں بذات خود ہر دروازے پر پہنچ کر رائے دہند گان سے ووٹس کیلئے درخواست کروں۔ علاقہ زیادہ بڑا نہیں تھا لیکن کافی ووٹر س رہتے تھے ۔محنت کش اور غریب طبقے کے لوگوں کی بستی تھی وہ ۔گو وقت بہت تنگ تھا اور سوچتا تھا کہ بس حالات پر چھوڑ دوں۔لیکن پھر یہ خیال ہوتا تھا الیکشن میں وقت بار بار نہیں ملتا ۔
ایک ایک ووٹ کی قیمت ہوتی ہے ۔اور عموماً ووٹ ڈالنے والے اسقدر نازک خیال ہوتے ہیں کیا کوئی اور ہوگا ۔اگر انہوں نے یہی سوچ لیا کہ واہ صاحب واہ ،امید وار ہمارے محلے میں کیوں نہیں آیا ؟کیا اپنے آپ کو لاٹ صاحب سمجھتا ہے اور ہمارے پاس آنا کسر شان سمجھتا ہے تو بڑی مشکل ہو جاۓگی ۔ایک دو گھنٹے اس بستی میں گھوم ہی لوں اور لوگوں سے ملاقات کر ہی لوں ۔
آدھی رات تک کام کرنے کے بعد صبح گجر دم بیدار ہوگیا ۔یونہی ذرا کمر سیدھی کی تھی ورنہ ان حالات میں نیند کہاں آتی ہے اور کسے آتی ہے ،اپنے ساتھیوں کو لیکر عبور پل کے پیچھے کی بستی میں پہنچ گیا ۔لسٹ کے مطابق نام دیکھتے دیکھتے ،آوازیں دے کر لوگوں کو بولاتے بولاتے اور انہیں اپنے لئے ووٹ دینے کیلئے کہتے سنتے جب ہم ایک جھونپڑی کے دروازے پر پہنچے ،جس پر ایک بوسیدہ اور تار تار ٹاٹ لٹکا ہوا دروازے کا کام دے رہا تھا تو میرے ایک ورکر نے کہا ۔۔۔۔۔۔ہم کئی بار اس جھونپڑی پر آئے ہیں ،لیکن ووٹر سے ملاقات ہی نہیں ہوئی ۔
کتنے ووٹر ہیں یہاں ۔۔۔۔۔؟
صرف ایک ہی ہے ۔
خیر آواز تو دو ،میں نے کہا ۔
غفورن ،او بی غفو رن۔۔۔۔۔میرے آدمی نے آواز دی ۔
اماں جی باہر آئے ۔میں نے بھی اندر کھٹکا پاکر ایک آواز لگائی ۔\”
ٹاٹ کا پردہ اٹھا اور غفورن بی جھک کر باہر آئ ،مگر اسے دیکھ کر وہ تمام خوشامد زدہ الفاظ میرے حلق میں ہی اٹک کر رہ گئے ۔اور ووٹ حاصل کرنے کیلئے قریب قریب بھیک مانگنے جیسی کوشش کا جیسے دم سا گھٹ کر رہ گیا ۔۔۔۔۔۔جھو نپڑی کے دروازے پر غفو رن بی مسکراتی ہوئی نمودار ہوئی ۔وہی منحوس بھیکا رن جسکی مسکراہٹ گویا کہ رہی ہو ،میرے بیٹے ،میرے بچے میرے لال ۔۔۔۔۔۔۔۔ہا ئے رے الیکشن ایک ایک ووٹ کی اہمیت ہوتی ہے۔ ۔۔۔۔ووٹس ضرور دیجئے اسکی اہمیت کو سمجھیئے آپ کا ووٹ بہت بیش قیمتی ہے ،انہیں یوں ضایعء نا کریں ۔۔۔!!
Sheeba kausar
Brah Batrah Arrah, Pin Code- 80230 (Bihar)
sheebakausar35@gmail.com
Mobile_6201624363