امریکہ سے تشریف لائے چندرشیکھر پانڈے ’افروز‘کے شعری مجموعہ کا جے این یو میں اجرا ء

امریکہ میں ہماری مشترکہ تہذیب اور اردو کے نمائندہ ہیں چندرشیکھر پانڈے : پروفیسر انور پاشا

چندر شیکھر پانڈے جیسے عاشقانِ اردو کی بھرپور پذیرائی ہونی چاہئے : پروفیسر خواجہ اکرام

\"photo_Pandey_ji_book_release_2\"

نئی دہلی (اسٹاف رپورٹر) جواہر لعل نہرو یونیورسٹی(نئی دہلی) کے ہندوستانی زبانوں کے مرکز میںچندر شیکھر پانڈے ’’افروز ‘‘کے اولین شعری مجموعے ’درخشاں ‘ کا اجرا عمل میں آیا۔ چندر شیکھر پانڈے پیشے سے انجینئر ہیں اور گزشتہ چالیس برسوں سے امریکا میں مقیم ہیں۔ وہ بہار کے تاریخی شہر موتیہاری کے ایک علم پرور برہمن خاندان میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم موتیہاری میں حاصل کی اور انجینئرنگ کی تعلیم کے لئے محض اٹھارہ سال کی عمر میں امریکا چلے گئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت میں اردو کا بڑا عمل تھا۔ اپنی ملازمت کے سلسلے میں وہ امریکا کے علاوہ جاپان، انڈونیشیا ، انگلینڈ، فرانس ، میکسیکو اور کئی دیگر ملکوں میں رہے۔ لیکن انھوں نے ہمیشہ ہندوستان کی مٹی اور اردو کو اپنے سینے سے لگائے رکھا۔
جواہرلعل نہرو یونیورسٹی کے ہندوستانی زبانوں کے مرکز کے سابق چیئر پرسن ، مشہور ناقد پروفیسر انور پاشا نے چند شیکھر پانڈے کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے انھیں امریکا میں اردو کا نمائندہ قرار دیا۔ پروفیسر پاشا نے کہا کہ اردو محبت کی زبان ہے ، یہ ہماری مشترکہ تہذیب کی علامت ہے۔انھوں نے شعری مجموعہ ’’ درخشاں ‘‘ کے ناشر ڈاکٹر اظہار احمد ندیم کو بھی مبارکباد پیش کی۔ پروفیسر انور پاشا نے زور دے کر کہا کہ چندر شیکھر پانڈے افروز کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ بعد میں کیا جائے گا۔ ان کی شاعری کے محاسن بعد میں بیان کیے جائیں گے۔ یہ وقت مبارکباد پیش کرنے کا ہے کہ وہ وطن سے دور امریکا میں رہتے ہوئے اردو کی شیرینی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اور جب شعری مجموعہ شائع کرانے کا خیال آیا تو اپنے وطن ہندوستان آئے اور اردو میں شعری مجموعہ کی اشاعت ہوئی۔
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (NCPUL)کے سابق ڈائریکٹر اور ممتاز ناقد پروفیسر خواجہ اکرام نے کہا کہ چندر شیکھر پانڈے جیسے عاشقان اردو کی بھرپور پذیرائی ہونی چاہئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سود و زیاں سے بے نیاز ہوکر اردو سے محبت کرتے ہیں۔ پروفیسر خواجہ اکرام نے اردو کی نئی بستیوں کے حوالے سے بہت اہم نکات کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے اپنے تجربات کی روشنی میں کہا کہ یورپ ، کناڈا اور امریکا میں بیٹھ کر اردو ادب تخلیق کرنا بہت آسان کام نہیں ہے۔ اس لئے جو لوگ دیار غیر میں بیٹھ کر اردو کی خدمت کر رہے ہیں ان کی بھرپور حوصلہ افزائی ہونی چایئے۔ فارسی زبان و ادب کے استاداور شاعر پروفیسر اخلاق آہن نے چندر شیکھر پانڈے کا اردو دنیا میں استقبال کرتے ہوئے کہا کہ پانڈے جی جیسے لوگ جب اردو دنیا میں داخل ہوتے ہیں تو تازہ ہوا کے جھونکے کا احساس ہوتا ہے۔وہ نئی آب و تاب کے ساتھ آئے ہیں ، دیار غیر سے نئے موضوعات بھی لائے ہیں۔ اب ہم اردو والوں کی ذمہ داری ہے کہ کھلے دل سے ان کا استقبال کریں۔ ڈاکٹر محمد توحید خان نے چندر شیکھر پانڈے کے اردو سیکھنے کی لگن کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پانڈے جی جس طرح اردو کے ایک ایک لفظ پہ غور و فکر کرتے ہیں ، ڈکشنری اور اردو کی ویب سائٹس کی مدد لیتے ہیں اس سے اردو کے تئیں ان کی محبت صاف جھلکتی ہے۔ ڈاکٹر شفیع ایوب نے کہا کہ چندر شیکھر پانڈے کو اردو زبان سے ہمیشہ لگائو رہا ہے، لیکن باسٹھ (۶۲) سال کی عمر میں انھوں نے باقائدہ اردو سیکھنا شروع کیا۔ وہ انگریزی میں بھی شاعری کرتے تھے اور ہندی زبان سے بھی واقف ہیں لیکن جب دل کے جذبات کو شعری پیکر میں ڈھالنے کی بات آئی تو چندر شیکھر پانڈے نے اردو کا انتخاب کیا۔ انھوں نے اپنی شاعری میں رومانی موضوعات کو بھی برتا ہے اور کافی گہرے فلسفیانہ موضوعات پر بھی طبع آزامائی کی ہے۔ ان کی شاعری میں قدرت ، محبت ، مظلومیت، خلائی سفر اور مختلف سائنسی نظریات پر مبنی خیالات ملتے ہیں۔

Leave a Comment