٭ حقانی القاسمی
عہد بدلتا ہے تو تعینات اور ترجیحات میں بھی تبدیلی آجاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب معاشرے میں مادری نظام رائج تھا۔ ماں کی طرف ہی سارے سلسلے منسوب کئے جاتے تھے۔ عورت دیوی کی طرح قابل پرستش تھی۔ مگر وقت بدلاتو پدری نظام کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ عورت کی حاکمیت محکومیت میں بدلتی گئی اور پھر صنفی تعصبات کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ عورت ہر سطح پر کمزور ہوتی گئی۔ مساوات، احترام اور آزادی سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں اس کی شرکت کم ہوتی گئی۔ جب کہ قدیم سماج میں عورتوں کا رتبہ بہت بلند تھا۔ خاص طور پر ویدک عہد میں عورتوں کو مساوی حیثیت حاصل تھی۔ حتیٰ کہ انہیں اپنا شریک حیات منتخب کرنے کی بھی آزادی تھی۔ جسے اس وقت سویمبر کہا جاتا تھا۔ ہر شعبے میں خواتین کی ایک مضبوط شراکت ہوا کرتی تھی۔ اس زمانے میں لوپا مدرا، اپالا، میتری، گارگی،گھوشا اور وسو اوارا جیسی تعلیم یافتہ خواتین تھیں جو منتر اور نغمے لکھتی تھیں اور اس وقت کے رزمیوں کے نسائی کردار بھی تعلیم یافتہ تھے۔
گوتم بدھ کے عہد میں بھی عورتوں کی حیثیت مستحکم رہی۔ ان کا اپنا سنگھ تھا مگر رفتہ رفتہ بدلتے وقت کے ساتھ عورتوں کی حیثیت بھی تبدیل ہوتی گئی۔ عورتوں پر بہت ساری پابندیاں لگتی گئیں۔ عورت گھر کی چہار دیواری میں قید کر دی گئی۔ اسے تعلیم سے محروم کر دیا گیا۔ جب جبر و استحصال کا سلسلہ بڑھتا گیا تو عورتوں کی کمزور ہوتی حیثیت کو حساس اور بیدار طبقہ نے بھی محسوس کیا اور حقوق نسواں کے لئے مردوں نے آواز بلند کرنی شروع کردی ۔راجہ رام موہن رائے، کیشپ چندر سین، ایشور چندر ودّیا ساگر جیسے مصلحین سامنے آئے جنہوں نے عورتوں کی فلاح اور صلاح کے لئے کوششیں کیں۔ انہی کی کوششوں سے عورتوں کی حیثیت میں نمایاں تبدیلی آئی۔ پہلے جو ستی کی ایک ظالمانہ رسم تھی جس میں مرد کے ساتھ ساتھ عورت بھی جلادی جاتی تھی۔ اسے گورنر جنرل آف انڈیا Lord William Bentinck نے مذہبی شدت پسندوں کی مخالفت کے باوجود ایک قانون کے ذریعہ ختم کیا۔ اس کے علاوہ عقد بیوگان کے لئے بھی تحریک چلی۔ تعلیم نسواں پر بھی زور دیا گیا۔ عورتوں کے سماجی، سیاسی حقوق کے لئے بھی لڑائی لڑی گئی۔ عورتوں کے لئے تعلیمی ادارے قائم کئے گئے۔ اس طرح پھر عورتوں کی حیثیت میں تھوڑی سی تبدیلی آئی اور ا نہیں کچھ سماجی اور سیاسی حقوق بھی ملنے لگے۔ اس کے بعد تانیثیت کی تحریکیں شروع ہوئیں۔ ان تحریکوں سے بھی عورتوں میں بیداری آئی۔ مگر رفتہ رفتہ یہ تحریکیں غلط سمت اختیار کرتی گئیں اور مرد کو ایک متخالف قوت کے طور پر سمجھنے لگیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ معاشرے کے مرد حضرات ہی تھے جنہوں نے عورتوں کے حقوق کی لڑائی لڑی۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ 1848ء میں لڑکیوں کا پہلا اسکول کھولنے والا بھی مرد ہی تھا۔ جس کا نام تھا جیوتی راؤ پھولے۔ جس میں ان کی شریک حیات ساوتری بائی نے ساتھ دیا۔ مرد عورت کے درمیان عدم مساوات کو ختم کرنے میں مردوں کا کردار بہت اہم رہا ہے کہ جن تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کو داخلے کی اجازت تک نہیں تھی ان اداروں میں لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے لگیں۔ اس طرح عورت رفتہ رفتہ اپنے حقوق حاصل کرتی گئی۔ مگر اس معاملے میں شدت پسند خواتین کا رول بہت ہی منفی رہا کہ انہوں نے فیمنزم کی آڑ میں عورتوں کو ان کی منزل سے بھٹکا دیا۔جس کے نتیجے میں عورتیں استحصال کا شکار ہوتی گئیں۔ جنسی آزادی اور معاشی آزادی کی آڑ میں وہ اپنی مریادا بھولنے لگیں۔ انتہا پسند فیمنزم کی وجہ سے عورتوں کا وہ طبقہ وجود میں آیا جس نے جنسی آزادی کے لئے آواز اٹھائی اور اپنی آرزؤں اور خواہشات کی تکمیل کے لئے غلط راستوں کا ا نتخاب کیا۔
آج کی عورت یقینی طور پر آزاد ہے۔ اس کی اپنی راہیں اور منزلیں ہیں۔ انہیں بہت حد تک مساوی حقوق، مساوی احترام اور مساوی مواقع بھی حاصل ہیں۔عورتیں صدارت، وزارت اور سفارت کے اعلیٰ عہدوں پر بھی سرفراز ہوئیں۔ مگر آج بھی عورتوں کا ایک بڑا طبقہ ایساہے جو بنیادی حقوق سے محروم ہے۔ آج بھی عورتوں کی زندگی کے ساتھ بہت سے مسائل جڑے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر شرح خواندگی میں کمی۔ خانگی تشدد، جنسی استحصال، جنسی ہراسانی، دختر کشی، آنر کلنگ، جائیداد اور ورثہ سے محرومی۔ یہ وہ مسائل ہیں جن سے عورتوں کو ہنوز نجات نہیں ملی ہے۔ آج بھی بہت سے معاشرے میں عورت کو جنسی معروض یا تولید و تناسل کا آلۂ محض سمجھا جاتا ہے۔ صنفی تعصب کے خلاف عورتیں احتجاج اور مزاحمت تو کر رہی ہیں مگر ان کی راہ میں بہت سے سنگ گراں اور ہیں۔ احتجاج اور مزاحمت کے باوجود منزل ابھی دور ہے۔
فیمنزم اور تانیثی تحریک کی وجہ سے اب نئے مطالعات بھی سامنے آرہے ہیں۔ خاص طور پر تانیثی مطالعات کا ایک الگ شعبہ قائم ہے اور اب نئے نئے نظریات رجحانات بھی جنم لے رہے ہیں۔ صنفی تشخصات کے حوالے سے بھی نیا مکالمہ شروع ہو چکا ہے۔ جنسی میلانات کی بنیاد پر تقسیم یا درجہ بندی کی مخالفت بھی شروع ہو چکی ہے۔ صنف کی حیاتیاتی اور سماجیاتی شناخت کے حوالے سے بھی گفتگو ہو رہی ہے۔ بہت سے نئے نظریات سامنے آرہے ہیں جن میں ایک نیا نظریہ Queer Theory ہے جو تمام صنفی تشخصات کو مسترد کرتی ہے ۔Judith Butler نے اپنی کتاب Gender trouble:Feminism and the subversion of identity میں اس مسئلہ پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ دو جنسوں اور صنفوں کے مابین حیاتیاتی امتیازات سے الگ ہو کر سوچنے کی ایک روش پنپ رہی ہے اور صنفی کارکردگی کے حوالے سے تشخص کا مسئلہ بھی سامنے آرہا ہے۔ ایک طبقہ ایسا ہے جو جنسی اور ازدواجی رشتے کے لئے کسی صنف کی تشخیص نہیں کرتا۔ جب کہ Heteronormative کلچر میں اس طرح کے رشتے صرف صنف مخالف کے درمیان ہی ہو سکتے ہیں۔ بہر حال صنفی تشخصات کے حوالے سے نئے نئے نظریات سامنے آرہے ہیں اور ان سے معاشرے میں کنفیوزن بھی پیدا ہو رہا ہے۔ مستقبل میں بھی اس طرح کے اور نئے نئے تصورات ہمارے سامنے آتے رہیں گے۔ تانیثیت کے مسائل بہت ہی پیچیدہ ہیں۔ کھڑکیاں بہت سی کھلی ہوئی ہیں لیکن پیش منظر اور پس منظر دونوں ہی دھندلے ہیںاس لئے تانیثیت کو صحیح تناظر اور سیاق و سباق میں سمجھنا بہت مشکل ہے۔ ڈاکٹر سیدہ نسیم سلطانہ چونکہ تانیثیت پر تحقیق کر رہی ہیں اور انہیںتانیثی مسائل کا ادراک بھی ہے۔ وہ یہ جانتی ہیں کہ آج کے عہد کی عورت بہت حد تک بدل چکی ہے اور یہ بھی انہیں پتہ ہے کہ مرد عورتوں کے رشتوں کی نوعیت بدل چکی ہے۔ رشتوں میں پہلے جیسی تمازت، حدت اور گرمی نہیں رہی۔ دونوں کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ کسی شاعر نے خوب کہا ہے:
قرب بدن سے کم نہ ہوئے دل کے فاصلے
اک عمر کٹ گئی کسی ناآشنا کے ساتھ
انہیں عورتوں کے ماضی، حال اور مستقبل کا بھی ادراک ہے۔ وہ عورتوں کے بنیادی مسائل پر بہت ہی گہرائی کے ساتھ سوچتی ہیں اور لکھتی ہیں۔ ان کی ایک کتاب ’’خواتین کی احتجاجی شاعری‘‘ حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ جس میں انہوں نے عورتوں کے مقام، آزادیٔ نسواں کی تحریک، خواتین کے احتجاجی شعور کے علاوہ سماجی اور سیاسی احتجاج کے حوالے سے بڑی اہم گفتگو کی ہے۔ خاص طور پر کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، ترنم ریاض، پروین شاکر، سعیدہ گزدر، عشرت آفریں، زہرہ نگاہ، حمیدہ معین رضوی کو محور و مرکز بنا کر نسائی احتجاج کی مختلف صورتوں سے آگاہ کرایا ہے۔ اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آج کے عہد کی عورت اب خاموش رہنے والی نہیں ہیں۔ وہ اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کر رہی ہے۔ وہ اس قفس سے آزاد ہونا چاہ رہی ہے جس میں مردوں نے انہیں قید کیا ہوا ہے۔ ان کا یہ کہنا صحیح ہے کہ:
’’اب آن ملو سجنا، سیاں جی سے چھپکے چھپکے ہوئی کیا بات کا زمانہ گزر گیا ہے۔
آج کی عورت اپنے اصلی مسائل سے آگاہ ہے اور وہ اوڑھنی ،شلوار، چوڑی، کنگن اور جھمکے میں محصور نہیں ہے بلکہ اپنی آنکھیں کھول کر دنیا دیکھ رہی ہے اور اپنے حالات کا جائزہ لے رہی ہے اور اپنی محرومیوں کے خلاف آواز بھی بلند کر رہی ہے۔ حقانی القاسمی نے عورتوں کی موجودہ صورت حال اور مسائل کے حوالے سے ان سے گفتگو کی ہے۔ پیش ہیں ان کی گفتگو کے کچھ اقتباسات۔
س: آج کی عورت بہشتی زیور سے باہر آچکی ہے ۔ پھر بھی اس کے ہونٹوں پر بے بسی ‘ بے کسی اور مظلومیت کی فریاد کیوں ہے ؟
ج: آج کی تمام عورتیں ایسی نہیں جو بہشتی زیور سے با ہر آ چکی ہیں ۔ میں نے آج بھی ایسی کئی عورتیں دیکھیں جو ماں ، بہن، بیوی اور بیٹی کے روپ میں اپنے کردار کو بخوبی نبھارہی ہیں ۔ اگر وہ نسوانیت اور فطرت سے بغاوت کرتی ہیں تو باوجود آزادی کے فریادی ہی نظر آئیں گی ۔
س: کیا آپ کو نہیں لگتا کہ عورتیں مظلومیت کا فسانہ سناتے سناتے خود ظالم بنتی جارہی ہیں ؟
ج: اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت ظالم بھی ہے مظلوم بھی ، جنت بھی ہے جہنم بھی ، تعمیر بھی ہے تخریب بھی۔عورتوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو آزادیٔ نسواں کی فریب کاری کاشکار ہے ۔ عورت کا حد، دائرے اور پردے میں رہ کر کام کرنا اسلام سے ثابت ہے ، پردے سے میری مراد روح پر پردہ نہیں ۔ سب سے پہلی تاجر خاتون ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریؓ اور صدر اسلام کی دیگرخواتین اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ ،تاریخ گواہ ہے کہ عورتوں نے اپنے حدود میں رہ کر اسلامی جنگوں ، فنون لطیفہ ، سیاست اورجنگ آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا لیکن آج کی عورت آزادیٔ نسواں ، مساوات ، ملازمت یا ترقی کے نام پراپنی حدیں پھلانگ رہی ہے ، شوہر ، باب اور بھائی کے حقوق و فرائض ، مقام و مرتبے کو بھول رہی ہے تو یہاں وہ مظلوم سے ظالم بن جاتی ہے اورمرد بے چارہ’’ چکی کے دو پاٹوں میں پس جاتا ہے ‘‘ ۔
س: کیا عورت وجود کی جنگ لڑتے لڑتے عصمت و وقار کی جنگ ہار چکی ہے ؟
ج: عورت وجود کی جنگ لڑتے لڑتے عدم کی راہ پر گامزن ہوچکی ہے ۔ مغرب کی اندھی تقلید نے اسے دنیا کے ہر فریب سے ملا دیا ۔ اگر عورت اپنے وجود کو منوانے کے لئے اپنی حدوں سے تجاوز کر تی ہے تو اس کی عفت و عظمت اور وقار بھی خطرے میں پڑجاتا ہے ۔ ویسے عورت کے وقار عفت و عظمت کے آبگینے ہلکی سی ٹیس لگنے پر ہی چکنا چور ہوجاتے ہیں ، یہاں عورت کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔ حد اور دائرے میں رہ کر عورت کی بقا اور ترقی مشکل ہے لیکن نا ممکن نہیں ، آج بھی ایسی کئی با کردار اور پاکباز عورتیں ہیں جنہوں نے عصمت و وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے وجود کا لوہا منوایا ۔
س: مرد کی آوارگی اور بے راہ روی میں عورت کو کتنا حصہ دار مانتی ہیں ؟
ج: ــــ ممکن ہے کچھ عورتیں مرد کی بے راہ روی اور آوار گی کی ذمہ دار ہوں ،عورت اگر ایک مثالی اور ذمہ دار ماں بن کر اپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تر بیت کرتی ہے تو معاشرے میں سدھار آئے گا ۔ بچپن اور لڑکپن میں بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے اور یہ کام تنہا عورت سے ممکن نہیں ان ذمہ داریوں میں باپ بھی برابر شامل رہے ۔با شعور آوارہ مردو ں کو سدھار نے کا عورت نے ٹھیکہ نہیں لے رکھا ، ویسے ’’ گھر کی مرغی دال برابرـــ‘‘ ۔
س: فیمنزم سے عورتوں کو فائدہ ہوا ہے یا نقصان ؟
ج: فائدہ بھی ہوا ہے اور نقصان بھی ۔ میں اعتدال پسند فیمنزم کی علم بردار ہوں ، انتہا پسند فیمنزم سے عورت کو نقصان ہے ۔ بنیا دی طور پر فیمنزم کی تین قسمیں عام ہیں ۔ ۱۔ قدامت پسند۲۔ اعتدال پسند ۳۔ انتہا پسند
قدامت پسند فیمنسٹ : بنیاد پرست یعنی اپنی اصل پر قائم ،قدامت پسند فیمنزم کی حامی خواتین زندگی میں درپیش حالات ، واقعات اور مسائل کو تقدیر ، نصیب ، قسمت مان کرچپ سادھ لیتی ہیں ، گویا عورت کی حسیت اور حیثیت کو محدود مانتی ہیں ۔
اعتدال پسند فیمنسٹ: اعتدال پسند فیمنزم کی حامی خواتین عورتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم ، لڑکیوں کامادر رحم میں قتل ، عصمت دری ، چھیڑ چھاڑ ، بچپن کی شادی ، ذہنی اذیتیں ، طلاق ، گھریلو تشدد ، ملازمت ، روزگار ، تعلیم و ترقی کے میدان میںعورت کو نظر انداز کیے جانے اور کمتر مخلوق سمجھنے کے علاوہ ،سیاسی ، سماجی ، اقتصادی ، مذہبی تمام شعبوں میں مردوں کی اجارہ داری ، معاشرتی بالادستی، سماجی نا برابری ، عدم مساوات جبر و استحصال کے خلاف محاذ قائم کر تی ہیں۔ ان کا مقصد مردوں کے وجود سے انکار یا تصادم پر اتر آنا نہیں بلکہ وہ ایک ایسے صحت مند معاشرے کی تشکیل چاہتی ہیں جہاں ایک عورت کو سماج میں بناء کسی جبر و استحصال کے سر اٹھا کر عزت و ،وقار سے جینے کا حق دیا جا ۔
انتہاپسند فیمنسٹ: انتہا پسند فیمنزم کی حامل خواتین نے سماج میں عورت کی شناخت کو مسخ کردیا ہے ۔ آزدیٔ نسواں اور مساوات کی آڑ میں ، جھوٹی انا اور اپنے وجود کو منوانے کی خاطر، حد سے تجاوز کر گئیں ہیں ۔ آزادیٔ نسواں اور مساوات کے لیے انتہا پسند فیمنسٹوںکی اجتما عی جنگ انفرادی اور ذاتی جنگ میں تبدیل ہوچکی ہے گویا عورت اور مرد کی جنگ بن چکی ہے ۔ حد یہ کہ وہ مردوں کو اپنا رقیب سمجھتی ہیں یہاں تک کہ اُنھیں رشتہء ازدواج سے بھی انکار ہے ۔ 1960ء سے 1980ء تک جاری Women\’s Liberation Movement آزادیٔ نسواں کی تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے جنسی آزادی کے نام پر جسم فروشی کو با قاعدہ پیشہ مان کر اختیار کرتی گئیں اور اس کے لیے وہی حقوق مانگنے لگیں جو کسی بزنس کو دیے جاتے ہیں ۔ ہمارے ملک میںWomen\’s Liberation Movement، آج بھی سرگرم ہے ۔ اس تحریک سے وابستہ انتہا پسند فیمنسٹوں کا مطالبہ ہے کہ بغیر ازدواجی رشتے کے مرد کے ساتھ تعلق رکھنے کا حق دیا جائے اور ناجائز بچوں کو سماجی طور پر مسلمہ حیثیت اور پورے حقوق دیے جائیں ۔ اخلاقیات کا معیار گھٹتا گیا ، عورت کا تقدس پامال ہوا ، معاشرے میں کئی برائیاں گھر کرنے لگیں ، عورتوں میں شراب نوشی ، سگریٹ نوشی اور جنسی بے راہ روی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے ۔
س: کیا مرد کے بغیر عورت کے وجود کو مکمل مانتی ہیں ؟
ج:
حسن سے تکمیل عشق ، عشق سے تکمیل حسن
اک کمی تیرے بغیر اک کمی میرے بغیر
دو نوں ایک دوسرے کی تکمیل کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ـ’’ اگر آدم کے لیے حوا کو وجود میں لایا گیا ہے تو حوا کے بناء آدم کی جنت بے کار ہیـ‘‘۔
س: ازدواجی زندگی میں تلخیاں کیوں پیدا ہوتی ہیں ؟
ج: شوہر اور بیوی کاایک دوسرے کی کمزوریوں کو نظر انداز نہ کرنا ، عفو و درگزر، صبر و شکر سے کام نہ لینا ،ممکن ہے ازدواجی زندگی میں تلخیوں کی وجہ ہو سکتی ہے ۔دونوں کو چاہیے کہ صلح و سمجھوتے ، ایثار و قر بانی اور پیار و محبت کے ساتھ اپنے رشتے کو مضبوط بنائیں ۔
س: توانائی کے تمام مراکز پہ کنٹرول کے باوجود عورت کمزور کیوں کہلاتی ہے ؟
ج: کیوں کہ عورت دماغ سے سوچنے کے باوجود بھی فیصلے دل سے کرتی ہے،بہ نسبت مرد کے عورت زیادہ رحم دل اور ہمدر د ہوتی ہے ۔
س: کیا خانگی تشددمردوں کے خلاف ایک انتقامی ہتھیار ہے ؟
ج: میرے خیال میں یہ نادانی ہے ، نا عاقبت اندیشی ہے ۔ گمراہی ، تعلیم و تربیت کی کمی اس کی وجہ ہوسکتی ہے ۔
س: آپ کی کوئی خواہش ‘ کوئی خواب جس کے پورا نہ ہونے کا ملال ہو ؟
ج:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں
انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو
س: عالمی یوم خواتین کے ساتھ عالمی یوم مرداں کیوں نہیں ؟
ج: عالمی یوم مرداں کی کیا ضرورت ہے ! معاشرہ خود مرد اساس ہے ۔
س: کیا وومین امپاور منٹ کی آڑ میں مردوں کو مفلوج بنایا جارہا ہے ؟
ج: ہمارے سماج میں صلح ، امن و آشتی کی دہائی دینے والی عورتیں بھی ہیں اور ایسی عورتوں کی بھی کمی نہیں جنہوں نے امپاورمنٹ کی آڑ میں مردوں کے خلاف محاذ قائم کر رکھے ہیں ۔ میں نے بھی ویمنس امپاورمنٹ کے عنوان سے ایک تنظیم قائم کی ہے ، جس کا مقصد صرف خواتین کی اصلاح اور جائز حقوق کے لیے آواز اٹھانا ہے ۔
س: کیا خواتین کے خلاف جرائم کے لئے صرف مرد معاشرہ ہی ذمہ دار ہے ؟
ج: میرے خیال میں /70فیصد اگر مرد ذمہ دار ہیں تو /30فیصد عورتیں بھی ذمہ دار ہیں ۔عورتوں کے متعلق جرائم انجام دینے والے مردوں پر قانون کی بالادستی ضروری ہے تو عورتوں کو بھی اپنی حدوں سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے ۔
س: آزادی نسواں کے سوال پر خواتین دو خانوں میں منقسم کیوں ہیں ؟
ج: آزادیٔ نسواں کا نعرہ گویا فطرت سے جنگ ہے ، خواتین دو خانوں میں نہیں کئی خانوں میں منقسم ہوچکی ہیں ۔ روایت اور جدیدیت کے تصادم نے انہیں مقصد حیات سے دور کردیا ہے ۔
س: کیا اسقاط حمل اور جنسی آزادی سے عورت کو کھویا ہوا حق مل جائے گا ؟
ج: ہر گز نہیں ایسا کر نے سے وہ اپنی اصل شناخت پیار و وفا ، ایثار و قربانی اور عفت و عظمت کے مینار ڈھے دے گی ۔
س: مساوات کے لئے عورتیں کن محاذوں پر سرگرم ہیں ؟
ج: آج کی عورتیں مساوات کے لیے زندگی کے ہر شعبے میں خاص طور پر مذہبی ، سیاسی اور سماجی محاذوں پر سرگرم ہیں ۔
س: عملی طور پر آپ نے حقوق نسواں کے لئے کیا کیا ہے ؟
ج: یہ ضروری نہیں کہ ہم خواتین کی فلاحی تنظیموں کے قیام یا تحریر و تقریرکے ذریعے ہی حقوق نسواں کی بازیافت کا کام کریں ۔میں نے عملی طور پر کونسلنگ کے ذریعے کئی عورتوں کے گھر ٹوٹنے سے بچائے ہیں ، ان کی اصلاح کی ہے ، تعلیم و روزگار کے معاملے میں موثر راہ نمائی کرتی آرہی ہوں ۔ ہماری تنظیم ’’ ویمنس امپاورمنٹ ‘‘ ان شاء اللہ خواتین کی فلاح و بہبود، اصلاح ، تعلیم و روزگار کے معاملے میں موثر کام کرے گی۔
س: عورتوں پر جبر کے خلاف کسی مظاہرہ میں آپ نے حصہ لیا ہے ؟
ج: میری نظر میں سڑ کوں پر نکل کر مظاہرہ کرنا ہی ضروری نہیں ، قلمی طور پر میں نے ضرور آواز اٹھائی ہے ، احتجاج کیا ہے ۔
س: ڈپٹی نذیر احمد ‘ مولوی ممتاز علی ’ مولانا حالی نہ ہوتے تو کیا عورتیں اپنے حقوق کی جنگ لڑ پاتیں ؟
ج: معذرت کے ساتھ ان میں شیخ عبداللہ اور علامہ راشد الخیری کو ضرور شامل کرلیں ، یہ عظیم ہستیاں حقوق نسواں کی علم بردار ہیں ، ان کی سر پرستی ، راہ نمائی اور ساتھ نہ ہوتا تو عورتیں حقوق نسواں کی جنگ کبھی جیت ہی نہیں پاتیں ۔
س: کیا عورت تنہا اپنی نسائیت کے تحفظ میں کامیاب ہو سکتی ہے ؟
ج: اگر اللہ کی مدد ہو تو یقینا کامیاب ہو سکتی ہے ،مرد عورت کا محافظ ہے عورت کا تحفظ مرد کی ذمہ داری ہے ،ویسے بہت سی خواتین مارشل آرٹ کے ذریعے اپنی دفاع کر رہی ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ ہر لڑکی تعلیم کے ساتھ مارشل آرٹ کی خصوصی تربیت حاصل کرے ۔
س: کیا آزادی نسواں کے نام پر adultery میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے ؟
ج: آزادیٔ نسواں خواتین کے حقوق کے باز یافت کی تحریک ہے اور میں اعتدال پسند فیمنزم کی حامی ہوں ۔ انتہا پسند فیمنزم کے سبب یقینا ’’ زنا‘‘ Adultery میں اضافہ ہورہا ہے ۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے Adulteryاور ہم جنس پرستی کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ مہذب سماج میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ۔ شادی کی پاکیزگی اور ہندوستانی اقدار کی پامالی ہوگی ۔بحیثیت ایک ٹیچر مجھ پر نسلوں کی تعمیر کی ذمہ داری ہے ۔ قوم ، ملک و ملت کے لیے ،اخلاقیات ، شرافت ، صداقت ، آداب زندگی ، تہذیب و شائستگی، نیکی ، راستی امن و اشتی ایک ٹیچر کا اثاثہ ہوتا ہے اوراس وراثت کا ہر طالب علم حقدار اور حصے دار ہوتا ہے ۔طلباء کو ایک اچھا شہری ، ایک اچھا انسان بنا ناہر ٹیچر کا فرض عین ہے ۔
س: کیا بد نامی کے ڈر سے عورتیں چپ رہنا پسند کرتی ہیں ؟
ج: اکثریت تو چپ ہی رہنا پسند کرتی ہے لیکن حق گو اور بے باک عورتیں بدنامی سے نہیں ڈرتیں ۔
س: زندگی کے مدو جزر ‘ نشیب و فراز جن میں نئی نسل کے لئے کوئی انسپریشن ہو ؟
ج:
زیست ہمسائے سے مانگا ہوا زیور تو نہیں
ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے کھو جانے کا
دنیا کے بے ہنگم ماحول میں زندگی ریشم کی گتھیوں کی طرح الجھتی جاتی ہے ۔ نئی نسل میںزندگی کے مدو جزر اور نشیب و فراز سے مقابلے کی تاب کم ہی نظر آتی ہے ۔سب سے پہلے وہ زندگی کو سمجھیں ، ارادے نیک حوصلے بلند اور فیصلے اٹل ہوں ۔ کتابوں سے بڑھ کر کوئی رفیق نہ ہو ۔ عشق صرف اپنے کام سے ہو ، دنیا میں کسی سے اتنی محبت نہ ہو کہ جس کے بناء زندگی مشکل ہوجائے ، دنیا کا ہر رشتہ ، ہر شئے زندگی کا صرف ایک حصہ ہو مکمل زندگی نہ ہو ، تب زندگی سہل بن جائے گی ۔
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسمان نے ہم کو دے مارا
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل اس شعر کو اپنا نمائندہ بنائے ۔
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے
E-mail:haqqanialqasmi@gmail.com
Cell:9891726444