’اندازِبیاں‘مجلہ نہیں،میرا جنون ہے:حقانی القاسمی

’اندازِبیاں‘حقانی القاسمی کے ادبی وتحقیقی امتیازات کا خوب صورت نمونہ :مولانا اعجاز عرفی قاسمی

عبارت پبلی کیشن کے زیر اہتمام میڈیکل ڈاکٹروں کی ادبی خدمات کے جائزے پر مشتمل’اندازِ بیاں‘کے تازہ شمارے کی رسم ِاجرا

\"\"
نئی دہلی(اسٹاف رپورٹر )
حقانی القاسمی ایک باکمال اور مایہ نازادیب و تنقید نگار ہیں اور انھوں نے نہایت اخلاص اور بے نیازی کے ساتھ اردو کی خدمت کی ہے اور یہ ہنوز سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ان خیالات کا اظہار معروف عالم دین اور آل انڈیا تنظیم علماے حق کے صدر مولانا اعجاز عرفی قاسمی نے کیفے ٹیمپٹیشن،شاہین باغ میں حقانی القاسمی کے زیر ادارت شائع ہونے والے یک موضوعی مجلہ’اندازِ بیاں‘کے تازہ شمارے کے اجرا کی تقریب میں صدارتی خطاب کے دوران کیا۔ اس پروگرام کا انعقاد عبارت پبلی کیشن کے زیر اہتمام ہوا تھا۔ انھوں نے اس شمارے کی اشاعت پر حقانی القاسمی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تحریروں میں غیر معمولی جاذبیت اور شیرینی پائی جاتی ہے اور انھیں پڑھنے والایہ محسوس کرتا ہے کہ وہ آسمان کی سربلندیوں سے لے کر زمین کی شادابیوں تک کا نظارہ کرکر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حقانی القاسمی بے پناہ خوبیوں اور امتیازات کے مالک ہیں اور ان کا یہ رسالہ’اندازِ بیاں‘ان کے انہی امتیازات کا نمونہ ہے جس کے پہلے شمارے میں خواتین کی خود نوشتوں کا جائزہ لیاگیا تھا اور دوسرے شمارے میں پولیس کے تخلیقی چہرے کو اجاگر کرنے کے بعد اِس شمارے میں میڈیکل ڈاکٹرز کی ادبی خدمات کا تجزیہ پیش کیاگیا ہے۔ اس موقعے پر یواین آئی سے وابستہ معروف صحافی عابد انور نے اپنے تاثرات میں کہا کہ حقانی القاسمی کے بارے میں کچھ بولنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے،وہ اس وقت اردو دنیا کے معروف ترین ادیب و تنقید نگار ہیں۔ انھوں نے حقانی صاحب سے اپنے دیرینہ روابط کا خصوصی تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ حقانی القاسمی شروع سے ہی غیر معمولی تخلیقی صلاحیتوں کے حامل رہے ہیں اور دارالعلوم دیوبند کی طالب علمی کے دور میں ہی ان کی تحریری قابلیتوں کا شہرہ ہونے لگا تھا۔ وہاں کے طلبہ ان کی ادارت میں شائع ہونے والے جداری میگزین کو پڑھنے کے لیے بے قرار رہتے تھے۔ ڈاکٹرخان محمد آصف نے کہا کہ حقانی القاسمی کی تحریروں میں مخصوص قسم کی موسیقیت اور نغمگی پائی جاتی ہے جو قاری کو مسحور کردیتی ہے اور وہ سر دھننے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر نعمان قیصرنے حقانی القاسمی کی مختلف ادبی و تحقیقی تصانیف کا خصوصی حوالہ دیتے ہوئے ان کی تحریروں کی علمیت،ان کے اسلوب کے حسن و جمال اور طرزِ نگارش کی خوب صورتی کا تذکرہ کیا اور کہا کہ وہ ہمیشہ ادب میں نیا تجربہ کرنے کے قائل رہے ہیں ،’ اندازِ بیاں‘ بھی ان کا اسی قسم کا ایک نہایت کامیاب تجربہ ہے۔ حقانی القاسمی نے اس موقعے پر پروگرام میں شریک تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مختصراً ’اندازِ بیاں‘ کا تعارف پیش کیا اور کہا کہ ’اندازِ بیاں‘ محض ایک مجلہ نہیں،میرا جنون ہے جسے میری بے روزگاری نے مہمیز کیا ۔اخبارِ نو سے علیحدگی نے مجھے عینی آپا تک پہنچایا تو راشٹریہ سہارا سے استعفا نے ’اندازِ بیاں ‘کی تشکیل کا جذبہ پیدا کیا۔ اس کا پہلا شمارہ خواتین کی خودنوشتوں پر مشتمل تھا،دوسرا شمارہ پولیس کے تخلیق چہرے پر اور تازہ شمارے میں میڈیکل ڈاکٹروں کی ادبی خدمات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس میں ان لوگوں کی ادبی خدمات پر گفتگو کی گئی ہے جو پیشے سے ڈاکٹر ہونے کے باوجود اردو زبان کے شاعر،ادیب ،مصنف اورناول نگار ہیں اور تنقید و تحقیق کے میدانوں میں بھی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اس پروگرام کی نظامت ٹی ایم ضیاء الحق نے بحسن و خوبی انجام دی۔ اخیر میں عبارت پبلی کیشن کے سربراہ سلام خان نے تمام مہمانوں کا شکریہ اداکیا۔ اس موقعے پر اردو ادب و صحافت سے وابستہ اہم شخصیات شریک تھیں جن میںمولانا فیروز اختر قاسمی، شاہدالاسلام،ماجد خان،اشرف بستوی،زبیر خان سعیدی،اشرف بستوی،اے این شبلی،منظر امام،نایاب حسن،عبدالباری قاسمی، محمد علم اللہ،شمس تبریز قاسمی،شاداب شمیم، امیر حمزہ،عمران عاکف خان،رضوان احمد اوراحسن مہتاب خان وغیرہ خاص طورپر قابلِ ذکر ہیں۔

Leave a Comment