٭پروفیسرصغیر افراہیم
سابق صدر شعبہ اردو
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
عام طور پر ناول کی تعریف اِس طرح کی جاتی ہے کہ نثر میں ایک ایسا افسانوی بیان، جو قابلِ لحاظ طوالت رکھتا، اور زندگی کے تمام پہلوؤں کی نمائندگی کسی خاص نقطہ نظر کے تحت کرتاہے۔ ڈی ایچ لارنس، اِسے زندگی کی ایک روشن کتاب، قرار دیتا ہے جس میں حقائق کی عکاسی منفرد انداز میں کی گئی ہو۔ ورجینیا وُولف نے اِس صنف کی ہمہ گیری اور اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ناول میں اتنی جگہ ہوتی ہے کہ مصنف اس میں سب کچھ سموسکتا ہے۔ حیوانات ونباتات بھی ، چرند وپرند بھی۔ اِس میں عجیب الخلقت مخلوق بھی ہوسکتی ہے اور اشرف المخلوقات بھی۔ چوںکہ انسانی زندگی گُوناگوں اتفاقات وحادثات کا مجموعہ ہے اور ناول میں اِن کا الگ الگ زاویوں سے اِظہار ہوتا رہا ہے، اس لیے ناول کا مرکزی کردار انسانیت بھی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے عہد میں رائج ہونے والی یہ صنف عالم انسانیت کو اپنے اندر سمیٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جس طرح کائنات سے الگ انسانیت کا تصور ناممکن ہے بالکل اُسی طرح مخصوص ماحول یا معاشرے سے جدا ہوکر انفرادی زندگی کے کوئی معنی نہیں رہ جاتے۔ اِس لیے شروع سے ناول نگار کی توجہ کا مرکز ایک شخص اور اُس کے واسطے اُس کا ماحول یا مُعاشرہ ہوتا ہے۔
شروع سے یہ تصور رہا ہے کہ ناول انسان کی باطنی اور خارجی زندگی کے تصادم کا ایک مُسلسل اور پُرپیچ قصہ ہے جو داستان کی بہ نسبت، تبدیل شدہ مُعاشرے سے زیادہ قریب معلوم ہوتا ہے۔ داستانیں بھی اپنے عہد کے واقعات، حالات اور حادثات سے جڑی ہوئی تھیں مگر ضمنی طور پر، اصلیت وقت گزاری اور دل بہلاوے کو حاصل تھی جب کہ ناول مختلف سماجی، ثقافتی اور تکنیکی تبدیلیوں کے زیر اثر وجود میں آیا اور اپنے ساتھ عدیم الفرصتی کو بھی لایا۔ اِس کافن ماضی میں رائج قصہ کہانیوں کے طریقوں سے مختلف ہے۔ یہ یادِ رفتگاں سے سبق لیتا ہوا، حال کی حقیقی صورت حال کی تصویر کشی کا فن ہے۔ اِس میں تخیلات سے زیادہ تجرباتِ حیات کا زیادہ صحیح شعور ملتا ہے۔ داستانوں کی طرح مذکورہ صنفِ ادب میں بھی تفریح اور دلچسپی کا عنصر ہے مگر اس عنصر کی نوعیت ثانوی ہوتی ہے اور اس کا اہتمام محض اِس لیے کیا جاتا ہے کہ ناول کے واقعات میں کشش اور جاذبیت برقرار رہے۔ گڑ کھیت کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے یہ فنی نکتہ بھی ملحوظ رہے کہ ناول کے ذریعے روز مرہ کے معمولات اور معاملات کے رنگارنگ مرقع پیش کیے گئے ہیں اور چوںکہ زندگی تغیر پذیر ہے اس لیے فطری طور پر زندگی کے تغیرات ناول کے فن میں بھی تغیرات پیدا کرتے ہیں۔
۱۸۵۷ء کے انقلاب کے بعد مغرب سے مستعار لی گئی اِس صنف میں زندگی کی طرح نت نئی تبدیلیاں آتی رہی ہیں جس میں ناول نگار کے تجربے اور خواب ہم آہنگ ہوکر قوس قزح کا منظر پیش کرتے ہیں۔ قارئین جب صفحہ قرطاس پر اُن متحرک تصویروں کو دیکھتے ہیں تو کچھ دیر کے لیے اُس کے پس منظر میں کھوجاتے ہیں اور پھر اُسی پس منظر کے توسط سے ناول نگار قاری کو اپنا ہمنوا بناکر زندگی کے حقائق سے روشناس کراتا ہے۔ اِسی وصف کی بدولت ناول زندگی کا ترجمان قرار پاتاہے۔ ایم۔طاہر کے اِس ناول میں موضوع کے اعتبار سے کینوس بے حد وسیع ہے۔ اِس میں انسان کے افعال، اقوال، جذبات، کامرانیاں، ناکامیاں، اور اُن سے وابستہ چھوٹی چھوٹی باتیں سب کچھ سمٹ آئی ہیں۔ ایک سال پہلے منظر عام پر آیا ’’گڑ کھیت‘‘ ایم۔طاہر کا پہلا ناول ضرور ہے مگر ادبی حلقے میں وہ اپنے شخصی خاکوں اور دلچسپ انشائیوں کی بدولت مشہور ہیں۔
بالواسطہ طور پر ڈاکٹر راہی معصوم رضا کے ناول ’’آدھا گاؤں‘‘ سے متاثر ہوکر اودھی اور بھوجپوری فضا میں خلق کیاگیا یہ ناول اودھ کے قصبے، نصیر آباد کی سوندھی مِٹی کی مہک سے مہک اُٹھا ہے۔ رائے بریلی، جائس، نصیر آباد، سلون، امیٹھی کے قرب وجوار کی عکاسی کرنے والے اِس ناول میں ہماری وہ تہذیب سمٹ آئی ہے جو ہند ایرانی کے نام سے مشہور ہے۔ جسے ہم مشترکہ ، گنگا جمنی تہذیب کہتے ہیں۔ ایم۔طاہر کا خلاقانہ کمال یہ ہے کہ انھوں نے بولیوں اور زبان کے داخلی ربط، تہذیب وتاریخ کے باہمی رشتے اور ہند ایرانی پس منظر میں اُن سے متعلق رونما ہونے والے حادثات اور اُن کے اثرات کو بڑی خوبی سے ’’گُڑ کھیت‘‘ میں ڈھال دیا ہے۔ نُدرت یہ کہ ایم۔طاہر نے اودھی کلچر کی روایتی انداز میں وضاحت نہیں کی ہے بلکہ اُسے جو قالب عطاکیا ہے، اُس سے سب کچھ واضح ہوتاہے۔ اِس کے مرکزی اور ثانوی کرداروں کے معمولات اور فکر کی بدولت دیہات کی حالت اور شہر کی منافقت اُبھرتی ہے اور پھر اُسی منظر وپس منظر میں ماضی کی بازیافت بھی ہے۔ مشترکہ تہذیبی قدریں، گزرے ہوئے کل سے جذباتی لگاؤ، رسم ورواج، طبقہ امراء کے حالاتِ زندگی، عوامی ہلچل، شہروں کے آس پاس کی ثقافتی فضا اور متوسط طبقہ کی ذہنی کشاکش کی تصویریں ہیں۔ اِن تصویروں میں میل ملاپ کا اودھی تمدن ہی نہیں بلکہ وہ زہر آلود فضا بھی درآئی ہے جسے واضح کرنے کے لیے ایم۔طاہر نے پلاٹ ترتیب دیا، اور اُن کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ:
’’وقت اور حالات کا فائدہ اُٹھانے والے دونوں جانب نکل ہی آتے ہیں۔ پھر ردِعمل در ردِعمل کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتاہے‘‘۔ (ص:۲۵۱)
ایک خاص منظر ملاحظہ ہو:
ناول کے اہم کردار رائے صاحب کے یہاں شانتی ہَون ہورہا تھا۔ اُن کے خاندانی پنڈت کا متا پرساد چُترویدی منتر کاجاپ کررہے تھے کہ کارسیوکوں کا ایک جلوس نکلتا ہے جس کی اشاراتی روداد ناول نگار اِس طرح پیش کرتاہے:
’’زور سے بولو!! جئے سری رام- مِل کر بولو جئے سری رام!! شوروغل کی آواز اتنی تیز تھی کی پنڈت جی کی آواز جیسے دب کے رہ گئی— انھوں نے انتہائی کرب کے عالم میں رائے صاحب کی طرف دیکھا جو پہلے ہی غصے کی وجہ سے لال پیلے ہورہے تھے۔ ’شور کم ہونے پر وہ دریافت کرتے ہیں‘ —پنڈت جی آپ ہمیں اِیی بتائیے کہ اِیی لوگ کُون سے رام کی جئے جئے کار کررہے ہیں؟ کابھگوان کے سمئے ماں، رام راج یہی طرح کے رہا؟ کا اُن کے راج ماں اِیکئے پرکار کی پَرجارہی کہ جے رام جی کی جئے نہ کہے، اُوکا راج سے نکال دیا جات رہا؟‘ ہَون کے بعد اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے رائے صاحب نے پنڈت جی پر سوالوں کی پوچھار کردی —’کاجنی اِیی کہاں سے نئے نئے لوگ اِیی قصبہ ماں آئے کے وِش گھول رہے ہیں‘‘۔ (ص: ۱۳۷-۱۳۷)
اِس طرح کے تمام ’مکالمے موقع ومحل، فضا وماحول میں رچے بسے ہیں۔ ناول نگار نے جس موضوع کو اپنی تخلیق کے لیے منتخب کیا ہے، اُسے دور کی تاریخ اِس میں نمایاں ہوتی ہے۔ فنکار نے جن کرداروں کو سماج سے اُٹھایا ہے، اُن کی تہذیب بھی اِس میں عیاں ہے، اور جس زمین کا ذکر مقصود ہے، وہاں کے تمدن کی جھلکیاں بھی ’’گُڑکھیت‘‘ میں سمٹ آئی ہیں۔ اِس طرح ناول میں تہذیب وتمدن اور رسم ورواج کا رشتہ مربوط نظر آتاہے۔ ایم ۔طاہر نے اپنے تہذیبی شعور اور مشاہدے کی وسعت کے ذریعے اِس علاقائی ناول میں تابناکی پیدا کی ہے۔ انھو نے فروغ پار ہے باہمی نفرت اور عدمِ رواداری کے ماحول میں محبت ومساوات کی بات کی ہے ایک ہی بستی کے باشندوں کے باہمی سلوک کی شکل میں ہندو مسلم اتحاد کا تذکرہ اِس ناول میں تقریباً گم شدہ ہندوستانی معاشرہ کی امن پسند زندگی اور ایک دوسرے کے لیے محبت اور قربانی کی جھلک پیش کرتاہے۔ کھیت کھلیان کی کھلی فضا میں خوش گوار دھوپ کے گھٹتے ہوئے سائے محض وقت کے گُزرنے کا اعلانیہ نہیں بلکہ دولخت ہوتی ہوئی اقدار کا علامتی اظہار بن جاتے ہیں۔ دونوں میں مضبوط ربط ہے جو ماضی وحال کو نئے زاویوں سے دیکھنے پر اُکساتاہے۔ اس طرح یہ ناول ماضی کی بازیافت ، حال کی کسک اور مستقبل کی تشویش کاحساس بیانیہ ہے۔ فن پارے کا قصباتی ماحول ذات پات، اونچ نیچ اور فرقہ وارانہ تفریق سے پاک ضرور تھا مگر اب اُس پر گرہن لگنا شروع ہوگیا ہے۔ تاریکی کی حکمرانی پائیدار نہ ہوجائے، اِس جانب تمام تر توجہ دلانے کی اِمکانی کوشش کی گئی ہے۔ زبان وبیان کے تعلق سے بس اِتنا کہ جو اودھی اور بھوجپوری لب ولہجہ سے پوری طرح واقف نہیں ہیں، وہ بھی فضا اور ماحول کی بھرپور عکاسی کی بدولت اُکتاہٹ کا شکار نہیں ہوسکتے ہیں۔ کیوں کہ یہ ناول بھرپور تاثر دیتا ہے کہ ہند ایرانی تہذیب وثقافت پر بعض مخصوص مباحث کی صراحت کے سبب ایک طرف رائج قدریں ردّ ہورہی ہیں تو دوسری طرف اُن کے متبادل معیار سامنے آئے ہیں۔ ایسے میں ہم جس بین الاقوامی سیاست کے زیر اثر جی رہے ہیں اور جن پیچیدہ معاملات میں دوچار ہیں، جہاں کوئی باضابطہ اصول یا مطمح نظر کام نہیں آرہا ہے بلکہ دونوں ہی اعتبار سے انتشار پسندی میں اضافہ ہوا ہے، تو اُس صورتِ حال کو ناول ’’گُڑکھیت‘ نے موثر انداز سے اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے۔ یہی اِس ناول کی کامیابی کاراز ہے۔
پروفیسرصغیر افراہیم
سابق صدر شعبہ اردو
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ