٭ڈاکٹرشہنازقادری
صدرشعبہ اُردو،
گورنمنٹ ایم ۔اے ۔ایم پی جی کالج جموں۔
مکتوب نگاری کا فن اردو کے غیر افسانوی سرمائے کا ایک لطیف ترین فن ہے۔ مکاتیب کی ترتیب و تدوین کا کام اردو ادب میں خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ چنانچہ مکاتیب ہی وہ مستند تحریریں ہیں جن میں ہمیں مشاہیرِ ادب کی زندگی کے گوناگوں پہلوئوں کی عکاسی کو دیکھنے اور ان سے فیض یاب ہونے کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ مکتوب نویس اپنے خط میں مکتوب الیہم کی ادبی شخصیت کے مخفی گوشوںسے بے تکلف پردہ وَا کرتا ہے اور یوں ادب میں شخصیتیں جاذبِ نظر اور جاذبِ توجہ ہوتی چلی جاتی ہیں۔ چنانچہ جہاں تک علمی و ادبی شخصیات کی پرکھ کا تعلق ہے اس ضمن میں خط ایک معتبر ترین حوالہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ مکاتیب کی ترتیب و اشاعت اس لیے بھی غیر اہم ہے کہ ا س سے جہاں مکتوب نویس خط و تحریر کا سلیقہ سامنے آتا ہے وہیں مکتوب الیہم کی شخصیت و فن پہلو بہ پہلو قارئین کے سامنے آتی ہے۔
زیر نظر کتاب ’’بنام تقی عابدی ‘‘ اُن خطوط پر مشتمل ہے جو ڈاکٹر سید تقی حسن عابدی (تقی عابدی) کے نام مشاہیر ادب نے وقتاً فوقتاً تحریر کیے ہیں۔ ان خطوط میں تقریباً۹۵ فیصد خطوط ایسے ہیں جو آج سے تقریباً دس سال قبل موصوف کے نام تحریر کیے گئے ہیں۔ ان خطوط کو بہ اعتبار سنین اس لیے نہیں رکھا گیا کہ ان میں بیشتر خطوط ایسے ہیں جن پر تاریخ رقم نہیں ہے۔ ان خطوط کے بارے میں ایک اہم بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ یہ خطوط مشاہیر ادب نے ازخود تحریر کیے ہیں یعنی ان میں کوئی برقی خط شامل نہیں کیا گیا ہے جو مکتوب الیہم کو بذریعہ واٹس ایپ، ای۔میل، فیس بک وغیرہ سے ملا ہو۔ ایک اور اہم بات مکاتیب بنام تقی عابدی کے بارے میں یہاں بتانا لازمی ہے کہ تقی عابدی کے نام خط و تحریر کا ایک لمبا سلسلہ کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے لیکن اسے ادب کی بدنصیبی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ موصوف نے اپنے نام لکھے گئے خطوط کی ایک بڑی تعداد وقتاً فوقتاً تلف کردی یعنی ان خطوط کو سنبھالنے کا اہتمام نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے ہم ایک اہم ادبی سرمائے سے محروم ہوگئے۔ البتہ اب جتنے خطوط محفوظ تھے انھیں منظر عام پر لانے کی کافی وجہیں ہیں اسی لیے ان کی ترتیب و تدوین کی ضرورت محسوس کی گئی۔ ان خطوط کی اشاعت کے کئی فائدے ہیں۔ ایک تو یہ خطوط مکتوب نویسی کے اسرار و رموز کی عمدہ مثالیں فراہم کرتے ہیں۔ اس کے لیے علاوہ مکتوب نگاروں کے سلیقۂ تحریر سے قارئین کو آگاہ بھی کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ خطوط علم و ادب کا ایک بیش قیمت اثاثہ بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ ان خطوط میں مکتوب الیہم یعنی دورِ حاضر کے ایک بتِ ہزار شیوہ ڈاکٹر سید تقی عابدی کی علمی و ادبی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ خطوط موصوف کے فن اور شخصیت کے تمام گوشوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ اسی لیے یہ بات بڑے ہی وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ خطوط ادب اردو کا ایک پوشیدہ خزانہ تھا جسے منظرِ عام پر لانا از حدلازمی تھا۔
یوں تو مشاہیر و اکابرین ادب نے ہر قسم کے خطوط ڈاکٹر سید تقی عابدی کے نام تحریر کیے ہیں جن میں نجی، سرکاری، ادبی وغیرہ شامل ہیں تاہم زیرِ نظر کتاب میں خصوصاً ادبی نوعیت کے خطوط کو ہی خاص طور پر جگہ دی گئی ہے۔ ان خطوط میں مکتوب نویسی کے فن کے تقاضے بھی جابجا دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان میں اگرچہ طویل خطوط کی مثالیں بھی شامل ہے تاہم اختصار کے نمونے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ طویل ادبی خطوط میں ڈاکٹر جمال الدین کے تحریر کردہ خطوط کے حوالے کو اس ضمن میں مثال کیے لیے پیش کیا جاسکتا ہے۔ یہ خطوط ایک اہم ادبی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں خصوصاً وہ خط جو ڈاکٹر جمال الدین نے ڈاکٹرسید تقی عابدی کو ۱۲؍ جولائی ۲۰۰۰ء میں ارسال کیا تھیا۔ اس طویل خط سے قارئین یایک تو ڈاکٹر جمال کی عروض دانی سے واقف ہوجائیںگے تو دوسری طرف ڈاکٹر تقی عابدی کی ادبی شخصیت سے واقفیت حاصل کریںگے۔ یہ خط فن عروض کے سلسلے میں ایک مکمل اور مدلّل حوالے کاحکم رکھتا ہے اور اس کے مطالعے سے قارئین کو عروض دانی کے سلسلے میں اضافی معلومات حاصل ہوسکتی ہیں۔ اسی طرح کچھ خطوط سے مکتوب نویسی میں اختصار کی عمدہ مثالیں سامنے آتی ہیں۔ ایسے خطوط میں ڈاکٹر خلیق انجم کا ۳۰؍ دسمبر ۲۰۱۰ء کا تحریرکردہ خط اور عزیز قریشی کا ۶؍دسمبر ۲۰۱۰ء وغیرہ جیسے خطوط کے حوالے پیش کیے جاسکتے ہیں۔
علاوہ ازیں زیر نظر کتاب ’’بنام تقی عابدی‘‘ میں ایسے خطوط بھی شامل ہیں جن میں مکتوب نگار اپنی دلی خواہشات اور اپنے جذبات و احساسات مکتوب الیہم کے تئیں منظوم ارسال کرتے ہیں جوکہ مکتوب نویسی کی دنیا میں ایک منفرد واقعہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایسے منفرد خطوط میں سے ایک خط ۳۱؍ مئی ۲۰۱۰ء کا بشیر آثم (جے پور) کا پیش پذیر بذریعہ پروفیسر سید رضا نمونتاً پیش ہے:
عزت مآب جناب ڈاکٹر سید تقی عابد مد ظلہ العالی کی نذر
ادب کے مطلعِ انورا کا استقبال کرتے ہیں
شگفتہ جذبۂ اطہر کا استقبال کرتے ہیں
سخن کی صبح کے اختر کا استقبال کرتے ہیں
تقی عابدی برتر کا استقبال کرتے ہیں
مداحِ فاتحِ خیبر کا استقبال کرتے ہیں
فدائے ساقیٔ کوثر کا استقبال کرتے ہیں
نظر آتا ہے جن میں حضرتِ اقبال کا پرتو
ہم ایسی فکر کے پیکر کای استقبال کرتے ہیں
خدا شاہد کہ یہ لمحے بڑے انمول لمحے ہیں
سخن فہم وسخن پرور کا استقبال کرتے ہیں
بہت کشمیر کے اہل ادب کو ناز ہے اس پر
حسین تخلیق کے پیکر کا استقبال کرتے ہیں
بہت افسوس ہے اس کیا کہ حاضر ہو نہیں سکتا
مرے اشعار ہر منظر کا استقبال کرتے ہیں
زہے قسمت بشیر آثم کے یہ ساعت بھی آئی ہے
محقق کے حسیں جوہر کا استقبال کرتے ہیں
پیش کردہ، بذریعہ پروفیسر رضا
کشمیر
۳۱؍ مئی ۲۰۱۰ء
اس کے علاوہ ’’بنام تقی عابدی‘‘ کے خطوط ہمیں ڈاکٹر سید تقی عابدی کی حیات اور شخصیت سے بخوبی واقف کراتے ہیں ۔ تقی عابدی ہمہ پہلو اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کی تہہ دار شخصیت میں بیک وقت ایک طبیب، شاعر، محقق، تخلیق کار اور تجزیہ نگار وغیرہ کی بے شمار تہیں سمٹی ہوئی ہیں۔ زیرِ نظر خطوط میں ان تمام تہوں کی عکاسی اور تصویر کشی کو دیکھاجاسکتا ہے۔ پروفیسر شارب ردولوی اپنے ایک خط میں ڈاکٹر سید تقی عابدی کی شخصیت کے تئیں یوں رقم طراز ہیں:
’’… سائنس اور طبِ مغربی سے وابستگی کے باوجود مشرقی علم و دانش اور اردو ادبیات سے آپ کا جو گہرا تعلق ہے اور ادبی کاموں میں جو آپ کا انہماک ہے وہ قابلِ ستائش ہی نہیں قابلِ رشکِ ہے۔‘‘
تقی عابدی کے نام لکھے گئے خطوط میں ادب اور طب کا ایک بہترین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ خطوط یقینا تقی عابدی کے یک بتِ ہزار شیوہ ہونے کی بیّن دلیل فراہم کرتے ہیں۔ مشاہیر ادب ان خطوط میں تقی عابدی کی ادبی صلاحیتوں کو دیکھ کر حیران نظر آتے ہیں۔ پیش ہے اس ضمن میں ۱۸؍ دسمبر ۲۰۰۸ء میں لکھا گیا اردو زبان وادب کے مستند ادیب خلیق انجم کا یہ خط:
’’… ادب کی تقریر سن کر حیرت ہوئی کہ آپ اپنے پیشے کے اعتبار سے اتنے مصروف ڈاکٹر اور پھر بھی اردو اور فارسی ادب پر آپ کی اتنی گہری نظر ہے… غالبؔ کے فارسی کلام کا جس طرح سے آپ نے تنقیدی ایڈیشن تیار کیا ہے وہ عام آدمی کے بس کی بات نہیں تھی…‘‘
’’بنام تقی عابدی‘‘ فن مکتوب نویسی میں یقینا ایک اہم اضافہ ہے۔ اس میں شامل مکاتیب ایک پوشیدہ علمی و ادبی خزانہ ہے۔ ان خطوط کی ادبی اہمیت تو مسلّم ہے ہی مگر تاریخی اعتبار سے بھی یہ خطوط ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں نعیم راشد کے خطوط سے چند سطور ملاحظہ ہو:
’’… شہر برہان پور جسے دارالسرور اور بابِ دکن اور مدینۃ الاولیا بھی کہا جاتا ہے۔ شہنشاہ شاہجہاں نے شہزادگی کے زمانے میں جب وہ شہزادہ خرم تھے۔ اس شہر میں گورنر بن کر ۲۸ سال گزارے ہیں۔ دو سال بادشاہت کے زمانے میں بھی برہان پور میں رہے اور ارجمند بانو ممتاز کا انتقال بھی یہیں ہوا اور ان کے جسدِ خاکی کو ۶ ماہ یہاں رکھنے کے بعد آگرہ لے جاکر تاج محل میں دفنایا گیا…‘‘
بہرحال ڈاکٹر سید تقی عابدی اپنے بیش بہا ادبی کارناموں اور ادبی منفرد ذہنی صلاحیتوں کی بنا پر اردو زبان و ادب میں ایک فرد ہی نہیں بلکہ ایک انجمن کا درجہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے اردو زبان وادب سے دور رہ کر دنیائے سائنس و طب میں رہ کر عروضِ اردو کی مشاطگی کے فرائض انجام دئیے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ سرزمینِ وطن سے دور رہ کر دیارِ غیر میں اردو زبان و ادب کی محفلیں سجائی۔ ان کی انھیں صلاحیتوں کی بنا پر عروج زیدی ۲۱؍ اپریل ۱۹۹۹ء کے ایک مکتوب میں یوں رقم طراز ہیں:
’’ہندوپاکستان کے معروف ادیب حضرت ضمیر جعفری نے عابدی صاحب کی خدمات دیکھتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ عابدی صاحب ’’نیویارک کے جمیل جالبی ہیں‘‘ اس امر سے سب اہل علم بخوبی واقف ہیں کہ علم عروض و علم بیان اردو نظم و نثرف کے حوالہ سے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔‘‘
چندخطوط نمونتاًملاحظہ ہوں
خط نمبر: ا
۲۳۔مارچ ۱۹۹۸ء جوہرمیر
نیو یارک
نذرجناب ابوطالب علیہ السلام
بے سایہ کے لئے نہ کوئی سائباں بنا
تھا ایک ، دوسرا ابوطالب کہاں بنا
یہ ابتدائے عہد نبوت کی بات ہے
میرے نبی کادشمنِ جاں اِک جہاں بنا
کانوں میں جب قریش نے رکھ لی تھیں انگلیاں
وہ کون تھا جو میرے نبی کی زباں بنا
وہ کون تھا جو سینہ سپر روز و شب رہا
وہ کون تھا جو دعوتِ حق کی اذاں بنا
کذب وریاکے شورمیں جب چُپ تھے سورما
تھا کون احتجاج کا کوہ گراں بنا
جب جُرم تھاتعلقِ خاطر رسولؐ سے
شہر خدا میں ایک وہی نعت خواں بنا
تھا یہ بھی اُس کی ہیبت ایماں کا معجزہ
ہر سنگ راہ خاکِ درِ آستاں بنا
وہ کس کاگھرتھاجس میں رسالت تھی مہماں
مکے کا ایک غنی بھی نہ جب میزباں بنا
وہ کون تھا ،کیا تھا مقرر جِسے ولی
تھا کون جو نبی کا مرے عقد خواں بنا
ہراک سفرمیںجس کے نبوت تھی ہمسفیر
ہر کاروانِ عشق کا جو سارباں بنا
جوہر جو تیر سینۂ باطل میں گڑ گیا
اُس تیر کے لیے ابوطالب کماں بنا
خط نمبر: ۲
محترم جناب سیدتقی عابدی صاحب
السلام علیکم
فیکٹ پاکستان ہی نہیں بلکہ دُنیابھرمیں سب سے زیادہ پڑھاجانے والاآئن لائن تحقیقی میگزین ہے جوگذشتہ تین سالوں سے ایسے حقائق منظرعام پر لارہاہے جنہیں ڈریاخوف کے باعث یاتوچھپالیاجاتاہے یاپھرمصلحتوں کے تحت انہیں منظرعام پر نہیں لایا جاتا۔ فیکٹ کی اسی پالیسی کے باعث اُسے اندرون ملک کے اعلیٰ سیاسی،صحافتی ،سماجی اور حکومتی حلقوں کے علاوہ بیرون ملک کی ایک کثیرتعداد کی طرف سے بھی پذیرائی مل رہی ہے۔فیکٹ نے اُردوصحافت میں تحقیقی کی جوبنیادرکھی ہے اُسے کوئی اورمیگزین فالونہیں کرسکا۔اس اعزازپرہم اپنے رب العزت کے شکرگزارہیں۔ فیکٹ جہاں دوسرے تمام موضوعات کا احاطہ کرتاہے وہاں ادب کے میدان میں بھی کچھ نئی شروعات کرناچاہتاہے۔
فیکٹ نے اب بیرون ملک مقیم معروف ادیبوں اورشعراء کے انٹرویوزکاسلسلہ شروع کیاہے ۔اس سلسلے میںفیکٹ آپ کاانٹرویوبھی کرناچاہتاہے۔ آ پ سے گزارش ہے کہ مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات اپنی چندتصاویر کے ساتھ ان پیج یا Tiff,Jiff,JPG فارمیٹ میںجلدسے جلدبھجوادیں۔
آپ اس سلسلے میںمزیدکوئی بات کرناچاہیں یاکچھ پوچھناچاہیں توبراہ راستہ رابطہ بھی کرسکتے ہیں۔
اُمیدہے آپ اس سلسلے میںاپنے جواب سے جلد آگاہ کریں گے۔
مقبول ارشد
ایڈیٹر،فیکٹ،لاہور
پاکستان
***
سوالنامہ
l اپنے بارے میں کچھ بتائیں
l لکھنے کاآغازکب اورکیسے کیا؟
l بچپن میں کن ادیبوں سے زیادہ متاثرتھے؟
l اب تک کتنی کتابیں منظرعام پرآچکی ہیں؟
l پہلی کتاب کب منظرعام پرآئی؟
l پہلی کتاب آنے کے بعد آپ کے جذبات کیاتھے؟
l کنیڈامیں کب سے مقیم ہیں؟
l یہاں جب آئے تھے توکن مشکلات کاسامناکرناپڑاتھا؟
l ادب کی کس صنف کے بارے میں آپ کاخیال ہے کہ یہ زیادہ پڑھی جاتی ہے ؟
l معاشرے میںکتاب کلچردن بدن کم ہوتاجارہاہے ،آپ کیاسمجھتے ہیںکہ اس سلسلے میں کن اقدامات کی ضرورت ہے؟
l کیاآپ ادبی گروہ بندی کے قائل ہیں اورکیاآ پ کے خیال میں یہ گروہ بندیاں ادب کونقصان نہیں پہنچارہیں؟
l آپ کے پسندیدہ شاعراورادیب کون سے ہیں؟
l آپ پاکستان اورانڈیا میں کن شاعروں اورادیبوں سے متاثرہیں؟
l آپ کاکیاخیال ہے کہ بہترادب کہاں تخلیق ہورہاہے؟
l نئے لکھنے والوں میںکون بہترشاعری کررہاہے اورکون بہترنثرلکھ رہاہے ؟
l یہاں کے میڈیاکے بارے میں کچھ بتائیں؟
l کوئی پیغام جوآپ پاکستان کی حکومت، یہاں کے شاعروں اورادیبوں اورعوام کودیناچاہتے ہیں؟
خط نمبر: ۳
برادرم تقی عابدی صاحب ! السلام وعلیکم
مکتوبِ گرامی مورخہ ۲۶؍اپریل موصول ہوا۔شکریہ ۔خوشی ہوئی کہ آپ شاہکار انیس کاپاکٹ ایڈیشن شائع کرنے پرتیارہیں۔ یہ ایڈیشن بھی انشاء اللہ بہت مقبول ہوگا۔
آپ کی اشاعتی پروگرام میں مولوی خیرات احمد محب (میرسلطان کے والد)کی کتاب ’’مطلع انوار‘‘شامل ہوناچاہیے۔یہ میرانیس کی شاعری کاعمدہ مطالعہ ہے ۔یہ مختصرکتاب ہے اوراس کی اشاعت زیادہ نہیںہوئی۔سیدافضل حسین ثابت کی حیات دبیرؔ کاکاغذ اتنابوسیدہ ہوچکاہے کہ جلد ہی یہ فناہوجائے گی ۔اس کاکم ازکم پہلاحصہ (سوانح) شائع ہوجاناچاہیے۔
پروفیسرکلیم الدین احمدکی کتاب کاجواب لکھناچناں چہ ضروری نہیں اس کتاب کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی ہے۔
میرانیس پرہونے والے کاموں کی ایک فہرست عبدالقوی دسنوی نے ’’انیس نما‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کی ہے ۔ ضمیراخترنقوی نے بھی اس موضوع پراچھاکام کیاہے جورسالہ ماہِ نوکے انیس نمبر میں شائع ہواہے اورغالباً’’اشاریہ ٔ میر انیس‘‘کے نام سے بھی کتابی صورت میں چھپاہے۔
مجالس عزا میں پڑھنے کے لئے مراثی انیس کے منتخب بندوں کی اشاعت کاخیال بہت اچھا ہے ۔ اچھا ہے ۔ان کے ساتھ انیس کے سلاموں اوررباعیوں کابھی انتخاب شائع ہوناچاہیے۔
رثائی ادب کے تحفظ کامبارک کام آپ نے شروع کیاہے۔اس سے مرثیے پرکام کرنے والوں کوبہت مددملے گی۔سرکارِحسینی سے حوصلہ ملے گا اس کاحساب نہیں ۔سیدعلی احمددانشنبیرہ عارف کے پاس جوذخیرہ ہے وہ اسے علیحدہ کرناچاہتے ہیں ۔ان سے براہِ راست رابطہ کیجئے۔پتہ انیس ہائوس،چوبداری محلہ، چوک لکھنو’۲۲۶۰۰۳‘‘ ہے۔
آپ کاایک بار ہندوستان آناضروری ہے۔یہاں کافی چیزیں مل سکتی ہیں اورآ پ سے ملاقات کی میری خواہش بھی پوری ہوسکتی ہے ۔مجھ کوفالج نے معذورکردیاہے ۔ میرانیسؔ کی سوانح عمری مکمل کرچکاہوں ۔کمپوزنگ وغیرہ ہوچکی ہے۔ عنقریب انشاء اللہ شائع ہوجائے گی۔
اطہررضوی صاحب کے انیسؔ سیمینارمیں ہندوستان سے ڈاکٹرگوپی چندنارنگ اورلکھنؤ یونیورسٹی کے ڈاکٹرانیس اشفاق عابدی صاحب شرکت کریں گے۔
آپ انیسؔ اورمرثیے کے سلسلے میں بہت کام کررہے ہیں ۔خداتوفیقات زیادہ کرے۔اُمیدہے مزاج بہ خیرہوگا!
آپ کا
۱۳؍مئی ۲۰۰۲ء نیرمسعود
’’ادبستان‘‘ دیال روڈ
***
خط نمبر: ۴
برادرم محترم ۔سلامِ عرض
ایک عرصہ سے آپ لوگوں کی خیریت نہیں ملی۔میں نے آپ کی کتاب پرتفصیلی تبصرہ روانہ کیاتھا ۔اس کی رسیدبھی نہیں ملی۔یقین ہے کہ تبصرہ آپ کو مل بھی گیاہوگا۔میری کتاب ’’اقبال اوررپورتاژ‘‘زیرطبع ہے جلدہی منظرعام پر آئے گی۔
اس درمیان جوشؔ بانی شائع ہوگیا۔ جلدہی آپ کوملے گا۔دہلی کے جوشؔ سیمینارمیں اس کااجراء ہوا۔ شاہدبھائی صاحب نے بتایاکہ آپ اقبال پرسیمینارکرنے والے ہیں۔ہم توسمجھ رہے تھے کہ جوش کی باری ہوگی لیکن خیراقبال کوبہرطور اولیت ہے ۔ اس کے بعدہی سہی…اقبال ؔسیمینار کے لئے ہم لوگوں کے لائق کوئی خدمت ! بھائی جان کوسلام عرض۔
مخلص
پروفیسر علی احمد فاطمی
الٰہ آباد
***
خط نمبر: ۵
محترم سیدتقی عابدی صاحب سلام ونیاز!
آپ کی خیریت کی اطلاع اخبارات سے ملتی ہے ۔ادب میں فعالیت کی مثال دیکھنی ہوتو ہمیں دورجانے کی ضرورت نہیں۔میری نئی کتاب ’’دہلیز پرپھول ‘‘کے چندنسخے ہوائی ڈاک سے پہنچے تھے جوفوراً ختم ہوگئے۔ بحری ڈاک سے مرسلہ کتابیں اب ملی ہیں تواحباب کوروانہ کررہاہوں۔ چنانچہ ایک نسخہ آپ کی نذر ہے ۔رسیداوررائے سے مطلع فرمائیے گا۔ نیزحال میں شائع شدہ میری غزلوں پرایک مضمون کے ساتھ کچھ متعلقہ تبصرہ اوراقتباسات کی نقلیں بھی آپ کی خدمت میں حاضرہیں۔
اُمیدہے آپ جملہ افراد خانہ سمیت بخیرہوںگے۔
مخلص
۲۴؍فروری ۲۰۰۶ء سیدولی عالم شاہین
اٹاوا، کنیڈا
بنام :داکٹرسیدتقی عابدی
۱۱۱۰۔سیکرٹریٹ رود ۔نیومارکیٹ
اونیٹریو ، ایل تھری ایکس ون ایم فور
مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب ناچیز کی ایک حقیر کوشش ہے۔ ڈاکٹر سید تقی عابدی جیسی مایۂ ناز شخصیت سے دنیائے اردو ادب کو رو برو کرانے کی ممکن ہے اس میں راقمہ کی طرف سے کچھ کوتاہیاں اور غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہو، تاہم اس کتاب کا منظر عام پر لانے کا مقصد یہی ہے کہ ادب کے اس عظیم سپہ سالار (تقی عابدی) اور علم کے اس عظیم اثاثے کو قارئین کے سامنے لایا جائے۔
امید ہے کہ اس حقیر کوشش کو دنیائے علم و ادب میں سراہا جائے گا۔
گر قبول افتد رہے عزو شرف