آج میں کل تُو

\"\"
٭ڈاکٹر مشتاق احمدوانی

اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اُردو
بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری( جموں وکشمیر)

’’میں اپنے اس تیسرے بیٹے نفیس احمد کی نافرمانی اور بے راہ روی کی وجہ سے تنگ آچکی ہوں ۔گریجویشن کرنے کے بعد بھی اُس کے دل میں نہ والدین کے لیے عزت واحترام ہے اور نہ ہی مجھے اُس میں کوئی اچھی عادت نظر آرہی ہے ۔پرسوں ہماری پڑوسن ثمرین میرے پاس آگئی اور آنسو بہاتے ہوئے کہنے لگی
’’آپا……!آپ کا بیٹا نفیس احمد میری بیٹی شاہدہ کو موبائل فون پہ ناشائستہ کمنٹس لکھتا ہے ۔وہ اُسے پریشان کررہا ہے ۔بیٹی نے شرم کے مارے باپ سے کوئی بھی شکایت نہیں کی لیکن مجھے بیٹی نے سب کچھ سُنایا،دکھایا ۔آپ اپنے بیٹے کو سمجھا لیجیے کہ انسانیت کے دائرے میں رہے ورنہ بہت بُرا ہوگا‘‘
فیروز عالم نے اپنی بیوی دلنشیں اختر کی باتیں سُنیں تو لمحہ پھر میں اُن کے چہرے کی رونق نہ جانے کہاں غائب ہوگئی ۔وہ اپنے گھر کے بر آمدے میں مشین پہ کسی کا زنانہ سُوٹ سی رہے تھے ۔اپنے بیٹے کی ناشائستہ حرکت سُن کر اُن کے وجود میں سنسناہٹ سی دوڑ گئی ۔دائیں ہاتھ سے اپنے ماتھے کو پکڑتے ہوئے کہنے لگے
’’اس خبیث کی خباثت آمیز حرکتوں نے ہمارا جینا حرام کردیا ہے ۔کیا کریں ،کہاں جائیں ! نافرمانی اور بدتمیزی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔تُم نے اسے جنا ہی کیوں تھا؟‘‘
دلنشیں نے جواب دیا
’’مجھے اگر یہ پتا ہوتا کہ بڑا ہوکر یہ اس طرح کی حرکتیں کرے گا تو میں نے اُسے پیدا ہوتے ہی اُس کا گلا گھونٹ کے ماردیا ہوتا‘‘
فیروز عالم کی غیرت ٹھنڈی آہوں میں تڑپ کے رہ گئی ۔وہ پیشے سے ایک اچھے درزی تھے ۔اُنھوں نے گھر میں ہی لوگوں کے کپڑے سینے کے لیے ایک کمرہ مخصوص رکھا تھا ۔اُن کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی ۔بڑے بیٹے کا نام اعتدال احمد تھا ۔وہ فوج میں سپاہی تھا ۔اُس سے چھوٹے کانام امتیاز احمد پولیس میں تھا اور سب سے چھوٹے کانام نفیس احمد تھا ۔نفیس احمد سے بڑے دونوں بیٹوں کی شادی ہوچکی تھی اور وہ اپنی بیویوں کے ساتھ الگ رہ رہے تھے ۔بارہویں کا امتحان پاس کرنے کے ایک سال بعد ہی بیٹی شگفتہ کی بھی شادی کردی تھی۔
فیروز عالم نے جھنجھلاتے ہوئے بیوی کو کہا
’’تُم نے ہی نفیس احمد کو چھوٹا سمجھ کر بچپن سے بہت زیادہ لاڈ پیار میں رکھا ۔اُس کی ہرایک فرمائش مجھ سے پوری کروائی جس کا نتیجہ آج ہمیں رُسوائی کی صورت میں سامنے آرہا ہے ۔تُم نے ہی مجھ سے اُسے اسّی ہزار روپے کا موٹر سائکل خرید کردلایا ،بیس ہزار روپے کا موبائل سیٹ اور سنہرے رنگ کی کلائی گھڑی ۔اُس کی ہرایک فرمائش تُم نے مجھ سے پوری کروائی ہے ‘‘
دلنشیں بھی اونچی آواز میں کہنے لگی
’’آپ مجھے ہی دوشی نہ ٹھہرائیں ۔آپ نے بھی تو آج تک اُسے یہ نہیں پوچھا کہ تیری سنگت کن لڑکوں کے ساتھ ہے ؟تُو گھر سے کہاں جاتا ہے ؟کیا کرتاہے؟‘‘
فیروز عالم تلملا اُٹھے کہنے لگے
’’یہ تُم کیا کہہ رہی ہو؟وہ کوئی چھوٹا بچّہ تھوڑی ہے کہ اُسے مارپیٹ کر راہ ِ راست پر لایا جائے ۔جوان ہے ۔گریجویشن کرچکا ہے ۔کبھی سمجھانے لگتا ہوں تو آگے سے آنکھیں دکھانے لگتا ہے ۔میں ڈر جاتا ہوں ،خاموش رہتا ہوں ۔سوچتا ہوں کہیں غصّے کی حالت میں وہ خود کُشی نہ کر بیٹھے یا اگر گھر سے بھاگ گیا تو ہم دونوں کے لیے عمر بھر کا روگ بن جائے گا‘‘
دلنشیں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہنے لگی
’’اللہ ہمارے اس بیٹے کو نیک ہدایت دے۔بہت پریشان کر رکھا اس نے ۔سوچتے سوچتے کبھی کبھی میرے دماغ کی رگیں پھٹنے کو تیار ہوجاتی ہیں ۔یا اللہ اسے ہدایت دیجیے!‘‘یہ کہتے ہوئے وہ اُٹھ کھڑی ہوئی اور دوپہر کا کھانا تیار کرنے کے لیے رسوائی میں چلی گئی ۔
نفیس احمد آدھی آدھی رات تک موبائل فون پہ وہ سب کچھ دیکھتا تھا جس کے دیکھنے سے آدمی کی شرم وحیا کا جنازہ نکل جاتا ہے ۔احساس سے عاری ،آوارہ اور اوباش قسم کے لڑکوں سے اُس کی یاری نے اُسے والدین کے لیے وبالِ جان بنادیا تھا ۔وہ اپنے دوستوں کے ساتھ پان،چُٹکی کھاتا ۔سگریٹ ،بیڑی ،گانجا اور کبھی کبھی شراب بھی پیتا تھا ۔اپنی مرضی کا کھانا پینا ،دوستوں کے ساتھ تفریح گاہوں میں گھومنا پھرنا،کرکٹ کھیلنا،تاش کھیلنا،جُوا کھیلنا ،کسی کا مذاق اُڑانا اور ہیرو بننے کی اداکاری کرنا اُس کے مشاغل تھے ۔گھر میں آتا تو اپنے کمرے میں گُم سُم موبائل کے ساتھ لگا رہتا ۔والدین اُس سے سہمے رہتے ۔اندر ہی اندر کڑھتے ،زبان سے کچھ بھی نہ کہہ پاتے ۔جب ماں اُسے کوئی نصیحت کرتی تو وہ آگے سے غصّہ کرنے لگتا ۔ماں کا دل اپنی اولاد کے لیے ہر حال میں تڑپتا اور ترستا ہے ۔ماہ ِ صیام شروع ہونے میں کُل بیس دن باقی رہ گئے تھے کہ ایک روز دلنشیں نے فیروز عالم کو کہا
’’میرا دل چاہتا ہے کہ آپ سائیں چچا کو گھر میں بلائیں ۔وہ بڑے مُتّقی اور پرہیز گار آدمی ہیں ۔جھاڑ پھونک کرنا جانتے ہیں ۔مجھے اُمید ہے کہ اگر وہ میرے بیٹے نفیس احمد کو سمجھائیں گے تو وہ روزہ ،نماز کا پابند ہوجائے گا اور اپنی تمام بُری عادتیں چھوڑ دے گا‘‘
فیروز عالم نے کہا
’’تُم اگر سائیں چچا کو گھر میں بلانا چاہتی ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔تُم اپنا یہ ارمان پورا کر کے دیکھ لو ‘‘
دوسرے ہی دن گھر میں سائیں چچا آگئے تھے ۔سُنتی لباس میں ،اُن کے چہرے کی نورانیت دیکھ کر فیروز عالم اور دلنشیں اختر کو یہ اُمید بند ھ گئی تھی کہ اُن کے بیٹے نفیس احمد کو سائیں چچاراہ ِراست پرلائیں گے ۔سلام ومصافحہ کے بعد اُنھیں ایک کمرے میں بٹھایا گیا اور چائے پانی پینے کے بعد وہ نفیس احمد کے کمرے میں اُسے سبق آموذ باتیں سمجھانے چلے گئے ۔اُنھوں نے بڑے شگفتہ لہجے میں اُس سے پوچھا
’’بیٹا ! کیا حال ہے؟‘‘
’’اچھا ہوں‘‘نفیس احمد نے جواب دیا۔
’’آپ کا کیا نام ہے ؟‘‘
’’نفیس احمد ‘‘
سائیں چچا نے اُس کے سر پر اپنا دست ِ شفقت پھیرا ،پھر کہا
’’بیٹا ! آپ کا نام تو بہت اچھا ہے۔میری چند باتیں دھیان سے سُن لیجیے اور اُن پر عمل کیجیے ۔انشااللہ تُم زندگی میں کامیاب ہوتے رہو گے۔بیٹے! سُنو۔آج تُم جوان ہو۔ ایک وقت تھا میں بھی تُمہاری طرح جوان تھا،خوب صورت تھا ۔میری داڑھی اور سر کے بال بالکل سیاہ تھے لیکن آج تُم دیکھ رہے ہو میں بوڑھا ہوچکا ہوں ۔میری داڑھی اور سر کے بال برف کی مانند سفید ہیں ۔چہرے پہ جھریاں پڑ گئی ہیں ۔داڑھیں اور دانت ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں ۔آنکھوں کی بینائی میں بہت کمی آگئی ہے ۔بغیر
عینک کے کچھ بھی نہیں لکھ پڑھ سکتا ہوں ۔دُنیا میں ہمیشہ کون رہتا ہے ۔ہم سب وقت کے دریا میں بہہ رہے ہیں ۔اس لیے زندگی کا ہر لمحہ قیمتی جانو۔ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔اس لیے پانچ وقت کی نماز وقت پر پڑھو اور روزہ رکھو ۔والدین کا ادب واحترام کرواور اپنے اندر اچھی عادتیں پیدا کرو ۔بیٹے ! ایک دن ہم سب مٹّی ہوجائیں گے ۔اس لیے وہ کام کرو جن سے دُنیا اور آخرت میں کا میابی حاصل ہوتی ہے ۔بیٹا! کسی نے صحیح کہا ہے نا کہ ’’اک دن بِک جائے گا ماٹی کے مول ۔جگ میں رہ جائیں گے پیارے تیرے بول‘‘
سائیں چچا کی نصیحت آمیز باتیں سُن کر نفیس احمد کھکھلا کے ہنس پڑا پھر کہنے لگا
’’سائیں دادا …! نماز وہ پڑھے جس نے گناہ کیے ہوں گے ۔میں تو کوئی بھی گناہ نہیں کرتا ہوں اور روزہ وہ لوگ رکھتے ہیں جن کے گھر میں اناج کی کمی ہوتی ہے ‘‘
’’استغفراللہ! بیٹے …! اللہ سے ڈرو ۔یہ تُم کیا کہہ رہے ہو ؟ اللہ تمہیں نیک ہدایت دے ۔بس … میں چلا ‘‘
وہ مایوس ہوکر نفیس احمد کے کمرے سے اُٹھے ۔اُنھوں نے فیروز عالم اور دلنشیں اختر سے رُخصت لی اور اپنے گھر چلے آئے۔
محمد ارمان اور بال کرشن ،نفیس احمد کے گہرے دوست تھے ۔وہ دونوں بڑے امیر گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے ۔نفیس احمد اُن کے ساتھ آٹھویں سے بی اے تک پڑھا تھا ۔عید ،دیوالی اور ہولی کے موقعے پر یہ تینوں ایک ساتھ خوشیاں مناتے اور خوب ہنستے ہنساتے تھے ۔اُن کی دوستی اُس تکون کی مانند تھی جس کے تینوں زاویے برابر ہوتے ہیں ۔موبائل پہ وہ اکثر ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق کی باتیں کرتے،سیر وتفریح کے پروگرام بناتے ۔تینوں چونکہ کنوارے تھے اس لیے بیوی بچّوں کی فکروں سے دُور زندگی کو زندہ دلی کے ساتھ گزارنے کا جتن کررہے تھے ۔کل کیا ہوگا ؟کوئی نہیں جانتا ہے ۔سانسوں کی ڈوری کب ٹوٹ جائے کچھ کہہ نہیں سکتے۔
ایک روز نفیس احمد صبح کے آٹھ بجے تک گہری نیند میں سویا ہوا تھا کہ اُس کا موبائل فون بج اُٹھا ۔اُس نے لیٹے لیٹے ہی موبائل سیٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔ہیلو کہا تو آگے سے اُس کے کسی دوست نے یہ مایوس کُن خبر سُنائی کہ محمد ارمان کا آج صبح سات بج کر بیس منٹ پہ حرکت ِ قلب بند ہوجانے کی وجہ سے انتقال ہوگیا ہے!جنازہ اُس کے آبائی شہر خموشاں میں گیارہ بجے رکھا گیا ہے ۔نفیس احمد یکدم اُٹھ کے بستر پہ بیٹھ گیا ۔اُس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا ۔اُف اور ہائے افسوس جیسے کلمات اُس کی زبان پہ باربار آرہے تھے ۔اُسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اُس کا گہرا دوست آج اُس سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگیا ہے ۔وہ اُٹھا اُس نے ہاتھ مُنہ دھویا ،چائے ناشتے سے فارغ ہوکر چپکے سے گھر سے موٹر سائکل پہ اپنے گہرے دوست کے جنازے میں شریک ہونے کے لیے نکل پڑا ۔کوئی ڈیڑھ گھنٹے کے بعد وہ قبرستان کے گیٹ کے قریب پہنچا ۔اُس نے موٹر سائکل ایک طرف کھڑا کردیا ۔وہ جونہی قبرستان کے گیٹ کے اندر داخل ہونے لگا تو اُس کی نظر گیٹ پر پڑی ۔اُس کے وسط میں موٹے حروف میں لکھا ہوا تھا ’’آج میں کل تُو‘‘وہ دیر تک اُس عبارت پر غور وفکر کرتا رہا ۔اُسے یوں محسو س ہوا کہ جیسے اُس کا دوست آج چیخ چیخ کے اُسے کہہ رہا ہو کہ عدم کے واسطے کچھ سامان کر اے غافل ۔مسافر شب سے اُٹھتے ہیں جو جانا دُور ہوتا ہے ۔عبارت نے اُس کے ذہن ودل کے تمام روشندان کھول دیئے تھے ۔اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔اُس کے دوست کی میت پہلے ہی جنازہ گاہ میں پہنچادی گئی تھی ۔وہ بوجھل قدموں سے جنازہ گاہ کی طرف بڑھا ۔اندر لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔ کچھ ہی وقت کے بعد نمازِ جنازہ پڑھی گئی اور اُس کے بعد اُس کے دوست کو دو آدمیوں نے قبر میںاُتارا ۔پھر قبر پر بڑے بڑے چکور سلیٹی پتھر ترتیب سے رکھے گئے۔ اُس کے بعد سب باری باری مُٹھیوں میں خاک لے کر اُن پتھروں پر ڈالنے لگے ۔اس طرح قبر آخری شکل اختیار کرگئی ۔نفیس احمد نے قبرستان میں چاروں طرف نظریں گھمائیں تواُسے بہت دُور تک کچّی پکّی قبریں نظر آئیں ۔انسانی زندگی کی حقیقت آج اُسے سمجھ آگئی تھی ۔وہ بڑے دُکھی دل کے ساتھ قبرستان سے باہر آنے لگا تو اُس کی نظر ایک بار پھر قبرستان کے گیٹ پہ لکھی عبارت پر پڑی ’’آج میں کل تُو‘‘اب اُس کادل بہت نرم پڑ گیا تھا ۔وہ جونہی موٹر سائکل پر بیٹھا تو اُس کا موبائل فون بج اُٹھا۔ اُس نے ایک ہاتھ سے موٹر سائکل کا ہینڈل پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے موبائل سیٹ کان کے قریب رکھ کے ہیلو کہاتو آگے سے اُس کے کسی اور دوست نے دوسری مایوس کُن خبر یہ سُنائی کہ بال کرشن گھر سے موٹر سائکل پر بازار جارہا تھا تو کسی ٹرک والے نے اُسے زور سے ٹکر ماری اور اس طرح بال کرشن جائے حادثہ پہ ہی دم توڑ
بیٹھا! چار بجے گوتم نگر شمشان گھاٹ پہ اُس کی لاش کو نذر ِ آتش کیا جائے گا۔نفیس احمد نے یہ مایوس کُن خبر سُنی تو اُس کا سر چکرانے لگا ۔بڑی مشکل سے اُس نے موٹر سائکل اسٹارٹ کیا ۔ابھی اُس نے تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ اُسے اپنے دوستوں کے ساتھ گزارے دن یاد آنے لگے ۔اُس نے موٹر سائکل سڑک کے کنارے کھڑا کردیا اور دیر تک روتا رہا ۔پھر اُس نے ہمت جُٹاتے ہوئے دوبارہ موٹرسائکل اسٹارٹ کیا اور اپنے گہرے دوست بال کرشن کی ارتھی کو کندھا دینے کے لیے اُس کے گھر پہنچا ۔وہاں بھی لوگوں کا ہجوم تھا ۔اپنے پرائے سب رورہے تھے ۔نفیس احمد نے اپنے دوست کا چہرہ دیکھنا چاہا تو لواحقین نے اُسے چہرہ دکھایا ۔چہرہ لہولہان تھا ۔دیکھتے دیکھتے سنکھ کی آواز گونجی اور بال کرشن کی ارتھی اُٹھانے کے لیے اُس کے اپنے گھر اور رشتہ داری کے لوگ آگے آئے ۔نفیس احمد نے بھی تھوڑے وقت کے لیے اپنے دوست کی ارتھی کو کندھا دیا ۔جب میت شمشمان گھاٹ پر پہنچی تو وہاں بھی نفیس احمد کو ہندی میں لکھی یہ عبارت نظر آئی ’’آج میں کل تُو‘‘غم واحسا س کے بادل ایک بار پھر اُس کے دل ودماغ پہ چھاگئے ۔اُس کے دیکھتے دیکھتے لکڑیوں کے تہہ بہ تہہ انبار کے وسط میں اُس کے دوست کی لاش رکھی گئی ۔جب چِتا تیار ہوگئی تو کچھ ہی وقت کے بعد اُس کے خوب صور ت دوست بال کرشن کے وجود کو آگ کے شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا!
نفیس احمد کے دل میں اپنے والدین کی محبت وعظمت اور اُن کی خدمت کا جذبہ پیدا ہوچکا تھا ۔بازار میں سے گھر کی طرف گزرتے ہوئے اُس کی نظر ایک پھل فروش کی دکان پر پڑی ۔اُس نے اپنے والدین کے لیے پھل خریدا ۔وہ جب گھر پہنچا تو اُس نے والدین کو سلام کیا ۔ماں نے اُسے دیکھتے ہی بڑی بے قراری سے پوچھا
’’نفیس …!بیٹے!تُو کہاں گیا تھا ؟تُونے فون بھی نہیں کیا کہ میں کہاں ہوں ۔چُپکے سے تُو سویرے گھر سے نکل گیا ۔ہم سارادن تیرے لیے پریشان رہے ‘‘
اُس نے روتے ہوئے ماں کے قدموں پہ سر رکھ دیا اور کہنے لگا
’’امّاں…!مجھے معاف کیجیے ۔میں نے آپ والدین کی بہت نافرمانی کی ہے ۔آپ کادل دُکھایا ہے ۔مجھے اللہ کے لیے معاف کیجیے !‘‘
’’بیٹے! کیا بات ہوگئی ہے؟تُو کیوں رورہا ہے ؟‘‘دلنشیں کی آنکھوں میں بھی آنسو اُمنڈ آئے ۔اُس نے ڈروخوف سے ایک بار پھر پوچھا
’’ تُو کیوں رورہا ہے ؟مجھے پوری بات بتادے۔کیا ہوا ہے؟‘‘
نفیس احمد نے کہا
’’امّاں…!میرے گہرے دوست بال کرشن اور محمد ارمان آج اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں !ایک کو سپرد ِ خاک کرکے آیا ہوں اور دوسرے کو سپردِ آتش!‘‘
’’ہائے! اُنھیں کیا ہو گیا؟‘‘ماں نے حیرت سے پوچھا
نفیس احمد نے ماں کو ساری رُوداد سُنائی ۔پھر وہ اُٹھا اور اپنے ابّا کے پیروں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہنے لگا
’’ابّا…! مجھے معاف کیجیے ۔میری وجہ سے آپ اکثر پریشان رہے ہیں ۔آپ سے معافی کا طلب گار ہوں ۔مجھے معاف کیجیے‘‘
فیروز عالم کی آنکھیں بھی اپنے بیٹے کو دیکھ کے پُر نم ہوگئیں ۔انھوں نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا
’’بیٹے!ہمت وحوصلے سے کام لو۔والدین اپنی اولاد کا بُرا نہیں چاہتے‘‘
نفیس احمد نے اب ہر ایک نیک کام کرنا شروع کردیا تھا ۔وہ ماں کے ساتھ رسوئی میں کھانا تیار کرنے میں اُن کی مدد کرتا ۔کبھی برتن صاف کرتا اور کبھی جھاڑو پوچے کا کام کرتا ۔اپنے ابّا کے شانے دباتا ۔اُن سے صلاح ومشورہ کرتا ۔ایک رات اُس نے اپنی ماں کے پیر د ھوئے پھر تیل کی مالش کرتے ہوئے ماں سے کہنے لگا
’’امّاں…!میری یہ آرزو ہے کہ آپ میری شادی اُس لڑکی سے کروایئے جو صوم وصلوٰۃ کی پابند ہو ،پردے والی ہو،جو مجھ سے زیادہ آپ کی خدمت کرنے والی ہو!‘‘
ماں نے مُسکراتے ہوئے کہا
’’بیٹے…! انشااللہ میں تیری پسند کی لڑکی سے ہی تیری شادی کراؤں گی‘‘
٭٭٭٭

Leave a Comment