آزادی کے بعد پہلی بار پریس کلب آف انڈیا کے پینل میں اردو کو ملی جگہ

\"Ashraf
٭اشرف علی بستوی
بازیافت
\"logo\"
ہندوستان میں اردو اخبارات انگریزی اخبارات کے بعد اعداد و شمار کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر آتے ہیں۔ جنگ آزادی میں شہید ہونے والا پہلا صحافی اردو کا ہی تھا، 1857 میں پہلی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے جن 35 اخباروں پر پابندی عاید کی تھی ان میں 26 اخبار اردو کے تھے لیکن اردو کو پریس کلب آف انڈیا پہونچنے میں 60 برس لگ گئے۔ پریس کلب آف انڈیا کا قیام جنوری 1957 میں ہوا تھا۔اور اب 2017 کے الیکشن میں پہلی بار اردو کے سینئر صحافی ہفت روزہ چوتھی دنیا اردو کے ایڈیٹر اے یو آصف کو پریس کلب کی 16 رکنی منیجنگ کمیٹی میں جگہ ملی ہے۔ گوتم لہری کا پینل کامیاب رہا ، انگریزی اخبار ملینیم پوسٹ کے گوتم لہری صدر ، این ڈی ٹی وی کے منورنجن بھارتی نائب صدر ، دی ہندو کے سابق بیورو چیف ونئے کمار سیکریٹری جنرل ، راشٹریہ سہارا کے سنجے سنگھ جوائنٹ سیکریٹری اور ٹائمز آف انڈیا کی خاتون جرنلسٹ مہوا چٹرجی خازن منتخب ہوئی ہیں ، 16 رکنی منیجنگ کمیٹی میں گوتم لہری پینل کے 14 لوگ کامیاب ہوئے ہیں۔ جب یہ بات کہی جاتی ہے کہ عصر حاضر کی اردو صحافت کسی طور پر انگریزی ہندی و دیگر زبانوں سے کم تر نہیں ہے تو پھر آخر کیا وجہ رہی کہ اردو میڈیا کو پریس کلب میں جگہ لینے میں 60 برس لگ گئے ، خود اردو صحافی اس تاخیر کے لیے کس حد تک ذمہ دار ہیں ؟
دراصل اردو صحافیوں کو پریس کلب سے قریب کرنے کی پہلی باقاعدہ کوشش ہی بہت دیر سے شروع ہوئی مئی 2015 میں سینئر جرنلسٹ اے یو آصف نے نومنتخب صدر راہل جلالی اور جنرل سیکریٹری ندیم احمد کاظمی سے ملکر یہ کوشش شروع کی ، جس کے نتیجے میں 14 مئی 2015 کو ندیم احمد کاظمی نے پریس کلب آف انڈیا میں پہلی بار اردو صحافیوں کے ساتھ تبادلہ خیال کا پروگرام بنایا اور ایک خصوصی تقریب منعقد کی تھی جس میں بڑی تعداد میں اردو کے صحافی شریک ہوئے ، خالص اردو صحافیوں کے ساتھ پریس کلب کے عہدے داران کے تبادلہ خیال کا شاید یہ پہلا موقع تھا اس اعتبار سے اسے تاریخی قرار دیا جا سکتا ہے۔ میٹنگ میں ندیم احمد کاظمی نے اردو صحافیوں کی پریس کلب سے قربت اور پریس کلب سے ان کی باقاعدہ وابستگی کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ\” یہ کلب جتنا ہندی ،انگریزی اور دیگر زبانوں کے لیے ہے اتنا ہی اردو والوں کا بھی ہے لہذا اردو صحافی اس سے وابستہ ہوں، تاکہ ہم اردو صحا فت اور صحافیوں کے مسائل پر مل بیٹھ کر بات کر سکیں ایک دوسر ے کے قریب آئیں باہم ربط و تعلق بڑھنے سے ایک دوسرے کے مسائل کے حل میں مدد ملے گی\”۔ اسی میٹنگ میں روزنامہ خبریں کے چیف اڈیٹر قاسم سید نے ورکنگ جرنلسٹوں کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بڑی حیرت ناک بات ہے کہ اردو اخبارت کی بدحالی کا رونا رونے والے اخبارات کے مالکان تو ہوائی اسفار کرتے ہیں اپنی ذاتی زندگی بھر پور طریقے سے گزارتے ہیں لیکن ان کے اخبارات میں کام کرنے والے جرنلسٹوں کے حا لات انتہائی قابل رحم ہوتے ہیں ، اس طرح کی سوچ سے اردو والوں کو نکلنا ہوگا۔

خیرمیٹنگ کے مثبت نتائج برآمد ہوئے اس کے بعد سے اردو صحافیوں کی پریس کلب میں دلچسپی بڑھتی گئی اوراردو میڈیا کے لوگوں نے باقاعدہ پریس کلب کی رکنیت اختیار کی ، پریس کلب کی سرگرمیوں سے اردو صحافی باقاعدہ منسلک ہوئے ، وہ پریس کلب جو ابتک بالکل اردو والوں سے خالی تھا یہ کمی کسی حد تک پوری ہوئی اور سینئر جرنلسٹ اے یو آصف کی جیت کے ساتھ یہ ایک نتیجے کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے ۔ پریس کلب ملک کا ایک بڑا مرکزی پلیٹ فارم ہے جس کے 8 ہزار سے زائد ممبر ہیں ، ملک میں جمہوری اقدار کے تحفظ و بقا کے لیے مستقل کوشاں رہنا اس کی اہم سرگرمیوں میں شامل ہے ، جہاں کہیں بھی صحا فتی برادری کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے یہ پلیٹ فوری نوٹس لیتا ہے ، اس سال این ڈی ٹی وی پر پابندی ، گوری لنکیش قتل سمیت ملک کے دیگر حصوں میں صحافیوں کے قتل پر پریس کلب نے پرزور آواز بلند کی ، جس کے لیے انہیں تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود اس پینل کو دوبارہ کامیابی ملی۔
لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس بار پریس کلب کے الیکشن کی پوری مہم میں ملنے والے ایس ایم ایس پیغامات یہ بتاتے ہیں کہ مقابلہ دن بدن مزید سخت ہوتا جا رہا ہے ، ایسے صحافی گروپ جو ایک خاص ذہنیت کی نمائندگی کرتے ہیں ، انہوں نے این ڈی اے کی طرز پر تبدیلی کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرنے کی جی توڑ کوشش کی\’ اچھے دنوں کے خوشنما خواب دکھائے \’ لیکن با بصیرت ارکان نے توجہ نہیں دی اور برسر اقتدار گروپ کی فعالیت نے ان کے غلط پرو پیگنڈے کو ناکام بنادیا ، یہ لوگ یہ بات بار بار دہراتے رہے کہ گزشتہ 7 برس سے ایک ہی طرح کے لوگ ہیں انہیں ہٹایا جائے۔ لیکن گوتم لہری اور ان کی ٹیم کے لوگ یو پی اے کی طرح بے بس نہیں ہوئے بلکہ منظم ڈھنگ سے اپنی پوری الیکشن مہم کو آگے بڑھایا اپنے ترقیاتی کاموں سے لوگوں کو متوجہ کرنے میں کامیاب رہے ۔ پریس کلب میں ہوئے ترقیاتی کاموں کو نظر انداز کر پانا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں تھا۔ البتہ جائزے سے ایک بات سامنے آئی ہے کہ سخت مقابلے میں گوتم لہری پینل کو جیت حاصل ہوئی ہے۔اس پر سبھی کو سوچنا ہوگا ، بلا شبہ ایسے جمہوری پلیٹ فارموں سے صاف ذہن لوگوں کی سرگرم وابستگی ضروری ہے ورنہ خالی جگہ کو پر کرنے کے لیے ایسے افراد اور گروپ سامنے آتے ہیں جو سماج کو تقسیم کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ دوران الیکشن مہم میں ہم سب نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح سینئر جرنلسٹ رام بہادر رائے کی رکنیت کا معاملہ اچھالا گیا اور اس بہانے بدنام کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
آزادی کے بعد پہلی بار اردو کے نمائندے کو بحیثیت اردو جرنلسٹ نمائندگی حاصل ہوئی ہے ، یقینا یہ اردو میڈیا کے لیے خوش آئند ہے کہ آنے والے دنوں کے لیے ان کی نما ئندگی کو دوام حاصل ہوگا۔ اب اس بات کا انحصار اردو والوں پر ہے کہ وہ اپنی جگہ کو مزید مستحکم کیسے کریں گے۔ بہر حال دیر سے ہی سہی پریس کلب اردو والوں کے لیے قومی دھارے کے میڈیا سے قریب ہونے انہیں سمجھنے ان سے تبادلہ خیال کرنے کا یہ اچھا موقع ہے انہیں یہ بتائیں کہ اردو اخبارات و رسائل ملک کی تعمیر و ترقی میں کیا کردار ادا کر رہے
ہیں نیز انہیں یہ بھی بتائیں کہ قومی دھارے کا میڈیا ہونے کا دعویٰ کرنے والے اخبارات و رسائل ٹی وی چینل ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے سماجی سیاسی اور تعلیمی مسائل کو کس طرح نظر انداز کررہے ہیں۔ نومنتخب ممبر اے یو آصف کہتے ہیں اردو اخبارات اپنے یہاں کون کون سے ملکی و سماجی مسائل پر بحث کر رہے ہیں یہ ان لوگوں تک پہونچانا بہت ضروری ہے جو اردو نہیں جانتے ہم ان کا انگریزی ترجمہ پہونچانے کا جلد ہی کوئی نظم ترتیب دیں گے تاکہ اردو میڈیا کی باتیں بھی ہندی انگریزی و دیگر زبانوں تک پہونچے \”۔یقینا اردو والے رابطہ کار بہتر کا کام انجام دے سکتے ہیں۔ ملک کے موجودہ سیاسی حا لات کے تناظر میں بھی یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قومی میڈیا کو اس جانب متوجہ کیا جائے اس پلیٹ فارم سے وابستہ ہو کر یہ کام بڑی حد تک کیا جا سکتا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ جیت اردو صحافت اور اس سیوابستہ صحافیوں کے لیے ثمر آور ثابت ہو گی۔
ashrafbastavi@gmail.com
مضمون نگار پریس کلب آ ف انڈیا کے ممبر ہیں

Leave a Comment