٭نورالنساء محمد سعد الدین صدیقی
پی۔ ایچ ڈی ریسرچ اسکالر،
شعبۂ اُردو یشونت مہاودیالیہ، ناندیڑ، مہاراشٹر
Noorunnisa Md. Saduddin Siddiqui
Ph.D. Research Scholar,
Dept. Of Urdu, Yeshwant Mahavidyalaya,
Nanded, Maharashtra
آمنہ ابوالحسن کا شمار حیدر آباد کی نمائندہ افسانہ نگار خواتین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے قلمی سفر کا آغاز آزادی کے بعد کیا۔ ان کا تعلق ایک تعلیم یافتہ خاندان سے تھا۔ لہذا بچپن ہی سے اُنھیں پڑھنے لکھنے کا شوق تھا وہ مطالعہ کی دلدادہ تھیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں وہ اس حقیقت کا انکشاف کرتی ہیں کہ اُنھیں لکھنے کا شوق اُس دور سے ہوا جبکہ انھیں ادب کی صحیح سمجھ بھی نہ تھی۔ مطالعہ سے انھیں ذہنی سکون ملتا تھا اور یہی مطالعہ سے وابستگی نے اُنھیں ایک نمائندہ افسانہ نگار بنادیا ان کی زندگی میں اُتار چڑھائو آتے رہے لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ اُن کی پہلی تخلیقی کہانی ’’ننھی کلی‘‘ کے نام سے بچوں کے رسالے میں شائع ہوئی۔ ادب کے علاوہ موسیقی اور مصوری سے اُنھیں گہرا لگائو تھا۔ اسی لیے ان کی بیشتر کہانیوں کے موضوعات ’’موسیقی کے زیر اثر حاصل ہوئے inspiration کی بدولت ہی وجود میں آئے ہیں‘‘۔(فن اور شخصیت آپ بیتی نمبر ، صفحہ 267) آمنہ ابوالحسن کی تخلیقات میں دو افسانوں کے مجموعے ’’کہانی‘‘ 1965 اور ’’بائی فوکل ‘‘ 1990 کے علاوہ چھ ناول شامل ہیں۔ جن میں ’’سیاہ سرخ سفید‘‘ 1968 ’’واپسی‘‘1981 ’’پلس مائنس‘‘1987 قابلِ ذکر ہیں۔
آمنہ ابولحسن اپنے دور میںایک تخلیق کار کی حیثیت سے مشہور ہوئیں اور انہوں نے اپنے افسانوں میں عصری تقاضوں اور تجربات کے ذریعے اپنی انفرادیت کا ثبوت دیا ہے۔ ان کے افسانوں میںعصری حسیت ہی نہیں بلکہ رومانی احساس اور فکر کی گہرائی بھی دکھائی دیتی ہے۔ اپنے افسانوں میں ماحول ، معاشرت اور جنس کے علاوہ زندگی کے مسائل کو شامل کرکے انہوں نے ادب کے سماجی تصور کو پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اُن کی افسانوی نثر میں زبان کا رچائو اور اظہار کا سُبک پن دکھائی دیتا ہے۔
آمنہ ابوالحسن نے اُس وقت افسانہ نگاری کی طرف توجہ دی جبکہ سارے ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کا زور تھا۔ لیکن اُن کی افسانہ نگاری میں ترقی پسند تحریک کے اثرات اور اُس سے متاثر ہونے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ جس دور میں انہوں نے افسانہ نگاری کی روایت کو فروغ دیا اُسکا جائزہ لیتے ہوئے نکہت سلطانہ تحریر کرتی ہیں :
آمنہ ابوالحسن نے جس زمانے میں افسانہ نگاری کا آغاز کیا تھا اُس وقت مرد افسانہ نگاروں کے علاوہ خاتون افسانہ نگاروں کی خاصی تعداد موجود تھی اور ہر افسانہ نگار اپنے اپنے طور پر فن کی آبیاری کررہا تھا۔ کوئی خاندانی رشتوں کی ڈور سنبھالے ہوئے تھا تو کوئی گائوں ، کھیت کھلیان پر اپنی نگاہ مرکوز کیے ہوئے تھا کوئی انسانی جذبوں کا پاس و لحاظ رکھ رہا تھا تو کوئی نفسیات کو اپنے افسانوں میں جگہ دینے کی کوشش کررہا تھا۔ اسی طرح کوئی افسانہ نگار فساد اور تقسیم کے موضوع کو افسانے میں شاملِ کررہا تھا تو کسی افسانہ نگار نے جنسی رجحانات اور اس سے پیدا ہونے والی برائیوں کی طرف اشارہ کیا۔ بہر کیف ہر تخلیق کار نے اپنے زورِ قلم سے سماج اور اس کے اِرد گرد کے ماحول کو پیش کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔( از نکہت سلطانہ ،صفحہ 76)
آمنہ ابوالحسن نے خود اپنے افسانوی مجموعے ’’کہانی‘‘ کے ذریعے جن حقائق کی نشاندہی کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کا تخلیقی سفر کسی کی فرمائش یا دِل بہلائی کے لیے نہیں بلکہ ان کی تخلیقات ایک مقصد رکھتی ہیں۔ چنانچہ وہ خود لکھتی ہیں۔
لکھنے کی خاطر کبھی نہیں لکھ سکی۔ فرمائش پر بھی نہیں۔ بلکہ ارد گرد بکھری ہوئی زندگی میں پیش آنے والے واقعات ہی ہمیشہ اسکے محرک بنے۔ علم سے زیادہ مشاہدہ نے میرا ساتھ دیا۔ جسطرح علم انسانی اذہان کے مختلف گوشے اپنے آب و تاب سے منور کرتا ہے اسی طرح مشاہدہ ہر اس بڑی اور مشکل ترین کیفیت سے بذات خود گزار دیتا ہے جو بسا اوقات الفاظ سے اخذ کرنا مشکل ہے۔
(کہانی ،صفحہ 10)
آمنہ ابوالحسن نے جو کچھ بھی اپنی زندگی میں تحربات و مشاہدات حاصل کیئے انہیں اپنے قلم کے ذریعے کرداروں کی صورت میں پیش کیا ہے۔ کردار نگاری ان کے افسانوں کی ایک خصوصیت رہی ہے۔ افسانہ نگار جو کچھ بھی محسوس کرتا ہے وہ اپنے خیالات کو کرداروں کے ذریعے قارئین تک پہنچاتا ہے۔ اُن کی کردار نگاری کے بارے میں ایک اور خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے قارئین کو متاثر کرنے کیلئے اپنے افسانوں میں کہیں کہیں فلمی گیت، بھجن اور نغمے بھی شامل کیے ہیں۔ جس سے افسانوی ماحول میں نغمگی کا اثر پیدا ہوتا ہے۔ اُن کے افسانے میرا ناچی رِے ،اندھیرا دل اور روشنی اور پیلا پھول میں فلمی گیتوں ، بھجنوں اور نغموں کو جگہ دی گئی ہے۔
آمنہ ابوالحسن کے افسانوی تخلیقات میں دو افسانوی مجموعے ’’کہانی‘‘ 1965 اور’’ بائی فوکل ‘‘1990 شامل ہیں۔’’ کہانی‘‘ میں 10 اور’’ بائی فوکل‘‘ میں 16افسانے شامل ہیں انکے افسانوں کے تنقیدی جائزے کے ذریعہ یہ بتانا مقصودہے کہ انھوں نے اپنے عہد اور معاشرے کو اپنے کرداروں کے ذریعے تخلیقی موثر اور کامیاب طریقے سے پیش کیا ہے۔
تجدید:
افسانوی مجموعہ کہانی کا پہلا افسانہ’’ تجدید ‘‘ہے جو اسٹیشن ماسٹر شیام کے اِرد گرد گھومتا ہے۔ اس افسانے کا پلاٹ گتھا ہوا ہونے کی وجہ سے دل کش اور دل نشین بھی ہے۔ اس افسانے میں شیام کے کردار کے ذریعے انسانی زندگی میں پیش آنے والے نشیب و فراز کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس کہانی کا کردار اپنی یادوں کے ساتھ چلتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ شیام ایک 25سالہ نوجوان ہے جو قصبے کی خاموشی اور سکوت سے حد درجہ خائف ہے لیکن قصبے کی دل نشین اور پُر کیف شبیں اُس کی زندگی کا سہارا ہیں۔ اور اسی میں وہ اپنے شوق کی تکمیل میں وقت گزارتا ہے۔ وہ اپنے گھر کی دیواروں پر تصویریں آویزاں کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ایک رات جب اسٹیشن پر گاڑی رُکتی ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ ایک لڑکی بڑی پریشان اور گھبرائی ہوئی اُس کے کیبن میں داخل ہوتی ہے ۔شیام کے دریافت کرنے پر وہ بتاتی ہے کہ اُس کے والدین اُس کی شادی زبردستی کروانا چاہتے ہیں اس لیے اُس کے پاس سوائے گھر سے فرار ہونے کے کوئی چارہ نہیں۔ وہ اُسے بیٹھنے کی اجازت تودیتا ہے لیکن اُس کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ یہ لڑکی کوئی بھوت پریت یا چڑیل تو نہیں لیکن وہ تھوڑی ہی دیر میں پلٹ کر دیکھتا ہے تو لڑکی سوچکی تھی۔ سوئی ہوئی لڑکی کو دیکھ کر شیام کے اندر کا آرٹسٹ جاگ جاتا ہے۔ وہ لڑکی کی تصویر کو رنگ و برش کے ذریعے کینوس میں قید کر لیتا ہے۔ کچھ دیر بعد وہ لڑکی کوریل میں سوار کردیتا ہے۔ یہ اُس کی زندگی کے قیمتی لمحے ہوا کے جھونکوں کی طرح گزر جاتے ہیں اور وہ پر اُمید تھا کہ کسی بھٹکی ہوئی نیکی کی طرح وہ پھر آئے گی ۔اسی طرح ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے 25سال گزرجاتے ہی ۔ ایک دن ایک نوجوان لڑکی زنانہ کمپارٹمنٹ سے شیام کے کیبن کی طرف چلی آتی ہے اور چیخ مار کر کمپارٹمنٹ کی طرف دوڑ جاتی ہے۔ جب ٹرین چل پڑی تو لڑکی اپنی ماں سے کہتی ہے کہ ریلوئے کیبن میں میری تصویر رکھی ہوئی تھی۔ تب اُس کی ماں بتلاتی ہے کہ وہ تمہاری نہیںمیری تصویر ہے۔ 25 سال قبل میں گھر چھوڑ کر ممبئی جارہی تھی تب اُس کیبن میں رُکنے کے دوران وہاں کے اسٹیشن ماسٹرنے میری تصویر بنائی تھی اسطرح اس افسانے کے ذریعے آمنہ ابوالحسن نے ثابت کیا ہے کہ انتظار کرنے والے لوگ ہمیشہ زندگی میں انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں اور فیصلہ لینے کی اہلیت اور جسارت رکھنے والے زندگی میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اسطرح آمنہ ابوالحسن نے انسان کی زندگی کے فلسفے کو سمجھناے کی کوشش کی ہے۔ شیام کا کردار زندگی میں ٹھہرا ہوا کردار ہے جو فیصلہ لینے میں نا اہل ہے۔ اس لیے اُس کی زندگی انتظار ہی میں گزرتی ہے۔ جبکہ گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کا کردار فیصلہ کرنے کا اہل ہے۔ اس لیے زندگی میں وہ آگے نکل جاتی ہے۔
میری میّا:
افسانہ میری میّا میں آمنہ ابوالحسن نے نچلے اور محنت کش کرداروں کو نمائندگی دی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ نچلے طبقے کے لوگ محنت کش ہونے کے بائوجود نہ صرف آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں بلکہ جب کسی پر مصیبت درپیش ہوتو وہ سب چیزوں کو بھول کر ایک ہوجاتے ہیں۔اس معاشرے کی سچی نمائندگی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس معاشرے کی عورت اپنے شوہر کو کوستی ہے ۔ عام طور پر مرد کسی نہ کسی جرم کا ارتکاب کرکے سلاخوں کے پیچھے چلا جاتا ہے اور عورتوں کو بچوں کی پرورش کا فریضہ انجام دینا پڑتا ہے ریشمی کا کردار اس افسانے کا نمائندہ کردار ہے جو فطرتاً لالچی ہے۔ ریشمی اپنے بیٹوں سے ہمیشہ ان کی کمائی کے بارے میں پوچھتی رہتی ہے اور روزانہ کی کمائی چھین کر اپنے پاس محفوظ رکھتی ہے۔ ماں کی اس عادت سے تنگ آکر اس کا بڑا بیٹا بابو الگ ہوجاتا ہے۔ ریشمی کو اس کا شوہر چھوڑ کر چلا جاتا ہے اس کے ساتھ اس کا چھوٹا بیٹا و نائک رہتا ہے بہن کا لڑکا کالے بابو بھی اُسی کے ساتھ رہتا ہے۔ بیٹا ونائک ہر بات پر بہن اور اس کے لڑکے کو پیٹتا ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود ریشمی کا ایک خواب ہے کہ اُس کے بیٹے ونائک کی شادی ہوجائے۔ جس کیلئے وہ پیسہ جمع کرتی ہے۔ ایک محنت کش مضبوط جسم کی کالی فولاد کی طرح سخت لڑکی شکُنتلا سے اس کی شادی طئے کردیتی ہے شادی کے دن داروغہ آکر ونائک کو بھورے نامی شخص کے قتل کے جرم میں گرفتار کرلیتی ہے۔ بھورے نے ونائک سے کہا تھا کہ اُس کی ہونے والی بیوی بدچلن ہے۔ جیل جاتے ہوئے ونائک شکنتلا سے ماں کا خیال رکھنے کو کہتا ہے۔ جبکہ شکنتلا اپنی بدقسمتی کا رونا روتی ہے۔ افسانوں میں مختلف کرداروں کی عکاسی کے ذریعے محنت کش طبقہ اُبھر کر نظر آتا ہے۔ کرداروں کے ذریعے نفسیاتی کشمکش اور ذہنی تنائو بھی دکھایا گیا ہے۔ ریشمی اپنے شوہر کو گالیاں دیتی ہے تو ونائک اُسے بری طرح پیِٹ دیتا ہے۔ بیٹے سے پیٹے جانے کے دروان بھی ریشمی اُس کے جیب ٹٹولتی رہتی ہے۔ کہانی کے آغاز سے ہی کرداروں کے درمیان رشتوں کی بے حُرمتی کا ثبوت ملتا ہے۔ لیکن اختتام میں رشتوں کا احترام نمایاں نظر آتا ہے۔ مختلف کردار ان پڑھ جاہل اور پست طبقہ ہونے کے باوجود اُن میں شعور کی علامت پائی جاتی ہے۔ یہ شعور اُن کی اپنی ضروریات کو بہتر ڈھنگ سے سمجھنے میں معاون ہوتا ہے جیسے ریشمی ، ونائک کو شکنتلا سے شادی کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے کہتی ہے کہ
عورت گوری ہویا کالی۔ بدصورت ہویا خوبصورت، عورت ہی ہوتی ہے اور ہماری اندھیری کوٹھریوں میں وجینتی مالا یا مدھو بالا نہیں رہ سکتیں ، سیتا شکنتلا ہی زندہ رہ سکتی ہیں‘‘ (کہانی صفحہ نمبر 36)
غرض اس افسانے میں کردار نگاری کے ذریعے جہاں محنت کش طبقے کی نفسیات اور اُن کی روزمرہ زندگی کی حقیقتوں کو نمایاں کیا گیا ہے وہیں یہ بات بھی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسان کی مجبوری اور پیسے کی کمی اخلاقی گراوٹ کا سبب بنتی ہے۔ غرض اس افسانے کے کردار حقیقت پسندی اور تخلیق کار کی فطرت پسندی کے مظہر ہیں۔
مِیرا ناچی رے :
افسانہ مِیرا ناچی رے کے کرداروں کے ذریعے آمنہ ابوالحسن نے زندگی کے مختلف زاویوں کو فلسفیانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ اس افسانے کے تین کردار، ایاز، نشاط اور زماں اہمیت کے حامل ہیں۔ کہانی کے ہر کردار کی یہ خصوصیت ہے کہ کوئی نہ کوئی کردار دوچار سطور کے بعد قاری کو حقیقت کی طرف لے جانے اور اس کے ذہن کو جھنجوڑنے کا کارنامہ انجام دیتا ہے۔ جس کے ذریعے افسانہ نگار دنیا، زندگی ، انسان ، کائنات اور قدرت کے عطا کردہ مختلف اشیاء کو نمائندگی دینے میں کامیابی حاصل کرلیتا ہے۔ سارے افسانے میں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے ساتھ ’’پگ گھنگرو باندھ مِیرا ناچی رے‘‘ کی صدا گونجتی رہتی ہے۔ ایاز، نشاط کو پسند کرتا ہے جبکہ نشاط زماں کو پسند کرتی ہے۔ نشاط ایک گہری کالی آنکھوں اور سُرخ ہونٹوں والی نغمہ گانے والی اور پرکشش شخصیت کی حامل ہے۔ جو وینس کے کسی مجسمے کی طرح باوقار ہے جبکہ نیلی آنکھوں والا ایاز لہر کی مانند ہے۔ جو شور مچاتی لہراتی اور بل کھاتی ساحل کے کنارے تک آتی ہے اور کسی سنگ مرمر جیسے سفید پائوں کو چھوکر گزرجاتی ہے۔ تیسرا کردار نشاط کے فن کا دلدادہ زماں ہے جو شادی شدہ اور بچوں والا ہے۔ لیکن زندگی سے ہار گیا ہے۔ جبکہ نشاط کے گیت اور اس کے گھنگرو کی آواز خاموش طبع زماں کے دل میں خیالات پیدا کرتے ہیں۔ اس افسانے کے اختتام پر بتایا گیا ہے کہ زماں کی بیوی اور بچے جو کبھی اُس کا ساتھ چھوڑچکے تھے وہ سوچنے لگتے ہیں کہ وہ نشاط کے پیچھے کیوں دوڑ رہا ہے۔ وہ یہ بات سمجھ جاتے ہیں کہ جسم و جان اور آزوئوں کی قربانی ہی سب کچھ ہے۔ جو اُس انسان کو عظیم بناتی ہیں۔ جس طرح میرا نے زندگی ہاردی تھی لیکن نشاط کے روپ میں ایاز کو ایک نئی زندگی حاصل ہوتی ہے۔ میرا گرچہ اپنی محبت میں ناکام رہی لیکن نشاط اس لیے کامیاب رہی کہ اُس نے اپنے گانے کے ذریعے زماں کے جذبوں میں شعور پیدا کردیا۔ اسطرح آمنہ ابوالحسن نے کرداروں کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ صرف جذبات کے مجروح ہونے سے انسان نہیں ٹوٹتا بلکہ احساسات کی دنیا میں تغیر پیدا ہوجائے تو ٹوٹا ہوا انسان پھر دوبارہ زندگی کی طرف گامزن ہوسکتا ہے۔
بَر مَزارِمَا :
آمنہ ابوالحسن کے افسانوں میں افسانہ ’’بَرمزارِما‘‘ ایک پاک و صاف خوبصورت افسانے کی حیثیت حاصل ہے۔ بظاہر یہ معمولی کہانی ہے لیکن افسانوں کے نقاد نے اسے صبر و تحمل اور ایثار کے وصف کی بنیاد پر اہمیت دی ہے۔ یہ افسانہ ایک المیہ ہے جس سے ہزاروں قارئین بھی اس کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ افسانے کے کردار حساس ذہن کی نمائندگی کرتے ہیں سہیل اور الطاف دو دوست ہیں اور سہیل کی بیوی ثروت نہایت حسین ہے۔ ایک تعارف کے درمیان پتہ چلتا ہے کہ الطاف اور ثروت ایک دوسرے کو پہلے سے ہی جانتے تھے ۔ الطاف اور سہیل کے دوستانہ تعلقات اتنے مضبوط اور بااعتماد ہیں کہ الطاف دو دن تک اپنی بیوی ثروت کی ذمہ داری سہیل کو سونپتا ہے جسے وہ بخوبی انجام دیتا ہے۔ اسی دوران الطاف کو اپنی بیوی کو میکے سے لانے کیلئے سسرال جانا پڑتا ہے تب وہ ثروت کو بھی اپنی سسرال ساتھ لے جاتا ہے۔ طویل عرصے بعد سب کے بچے بڑے ہوجاتے ہیں اور اسی دوران کارحادثے میں سہیل کا انتقال ہوجاتا ہے اور ثروت اپنے بچوں کو لے کر میکے منتقل ہوجاتی ہے لیکن ہر سال اپنی شادی کی سالگرہ پر وہ گھر آتی ہے اسی دوران الطاف سے اس کی ملاقات ہوتی ہے اور دورانِ گفتگو بارش ہوتی ہے وہ بھیگتے رہتے ہیں اسطرح رات گزرتی ہے۔ ثروت کے لیے وہ رات ایسی تھی جس کی کوئی صبح نہیں تھی۔ ثروت کے کردار کے ذریعے آمنہ ابوالحسن نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اپنے شوہر کے انتقال کے بعد بھی وہ ایک وفادار بیوی کی طرح اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہے اور اپنی انفرادی زندگی کو بھلا دیتی ہے۔ ثروت کا کردار ایثار و قربانی کی علامت ہے۔ زندگی بھر وہ صعوبتیں برداشت کرتی ہے اور اُسی رات انتقال کرجاتی ہے۔ الطاف جنازے میں شرکت کرتا ہے اور سوچتا رہتا ہے کہ اگر دنیا اُسے پوچھے گی کہ وہ آنسو بہانے کا کیا حق رکھتا ہے تو وہ کیا جواب دے گا۔ غرض الطاف کے کردار کے ذریعے آمنہ ابوالحسن نے دوستی، وفاداری اور رواداری کے عناصر کی نمائندگی کی ہے۔ یہ افسانہ المیہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی اختتامی کیفیت نہ صرف قارئین کو متاثر کرتی ہے بلکہ افسانہ نگار کی تخلیقی صلاحیت کی بھی عکاسی کرتی ہے۔
اندھیرا روشنی اور دل :
آمنہ ابوالحسن نے اس افسانے کے کرداروں کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان غلط راہوں پر کیوں اور کسطرح پڑ کر اپنی زندگی اجیرن کرلیتا ہے۔ اس افسانے میں صرف دوہی کردار ہیں۔ ایک رئیسہ اور اس کی نوکرانی فتو۔ افسانے کا آغاز فطری انداز سے ہوتا ہے۔ جس میں رئیسہ دیکھتی ہے کہ اس کے سامنے والے فلیٹ کی چوتھی منزل پر ہنگامہ برپا ہواہے موسیقی کی زور و شور سے آوازیں آرہی ہیں جو اُسے اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔ وہ اُس کی نغمگی میں مسحور ہوجاتی ہے۔ اور چاہتی ہے کہ کسی طرح اس موسیقی کی محفل میں شریک ہوجائے لیکن وہ خوددار ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں کرسکتی تھی۔ جب وہ اپنی نوکرانی سے دوسرے دن اُس محفل کے بارے میں دریافت کرتی ہے تو اُسے پتہ چلتا ہے کہ وہاں ایک آرٹسٹ مقیم ہے۔ رئیسہ اُس آرٹسٹ کے بارے میں جاننے کیلئے متجس ہے اس کام کے لیے وہ فتو کو کہتی ہے کہ اُس آرٹسٹ کے بارے میں مکمل معلومات درکار ہیں۔ فتو کا کردار اگرچہ کہ ایک نوکرانی کا ہے لیکن وہ بھی فطری طور پر ایک عورت کی سوجھ بوجھ رکھتی ہے کم عمر ہونے کے باوجود بھی فتو مرد کی ذہنیت سے بخوبی واقف تھی۔ کیونکہ اُسکے دونوں شوہر ناکارہ اور نااہل ثابت ہوئے تھے۔ وہ فتو کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔ اس لئے فتو نے شوہروں سے ملنے والے تلخ تجربوں سے ازدواجی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ فتو رئیسہ کو آرٹسٹ کے بارے میں معلومات تو فراہم کرتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ نصیحت کرتی ہے کہ اُس آرٹسٹ سے بچ کر رہے۔ رئیسہ کو دھیرے دھیرے پتہ چلتا ہے کہ وہ آرٹسٹ عورتوں میں کم اور شراب اور لڑکوں کا دیوانہ ہے۔ دل کا عورت کا اسکی زندگی میں کوئی مقام نہیں۔ اس طرح رئیسہ کو یہ بات سمجھنے میں آتی ہے کہ اجنبی آرٹسٹ کس مزاج کا مالک ہے۔ وہ غور کرنے لگتی ہے کہ انسان جس نغمے کی تلاش میں رہتا ہے ضروری نہیں کہ وہی اس کی زندگی کا حاصل ہو۔ رئیسہ کا کردار عورت کی نفسیات اور اُس کے فطرت کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کے ذریعے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کو وقت پر صحیح تربیت حاصل نہ ہوتو چاہے وہ کتنا ہی بڑا آرٹسٹ بن جائے بحیثیت انسان وہ بے کار ہی رہتا ہے۔ رئیسہ کے ذریعے آمنہ ابوالحسن نے پہلی مرتبہ افسانے کو نفسیاتی روش دی ہے اور ثابت کیا ہے کہ خیالی طور پر جس حقیقت کو قبول کرلیا جائے۔ اُس حقیقت کی نمائندگی اُسی وقت ممکن ہے جب اُس پر سے پردہ اُٹھادیا جائے۔ آرٹسٹ کے کردار کے ذریعے اخلاقی گراوٹ اور انسان کی فطرت میں دھوکہ دہی کے عناصر کی عکاسی کی گئی ہے۔ اس کی زندگی ایک جانور کی طرح گزررہی ہے جو جنسی بے راہ روی کا شکار ہے۔
کہانی :
افسانوی مجموعہ’’ کہانی‘‘ میں شامل نویں کہانی کا عنوان بھی افسانے کے مجموعے کے عین مطابق ہے۔ اس افسانے کے ذریعے آمنہ ابوالحسن نے یہ بتایا ہے کہ انھیں انسانی نفسیات سے بڑی دلچسپی ہے چنانچہ ایک کردار کی نفسیات کو نمائندگی دی ہے۔ جس کی وجہ سے کردار کو دوامی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کہانی میں ایک ہی کردار ہے جس کا نام ’’جہاں‘‘ ہے اور وہی راوی ہے۔ راوی اپنے مخصوص اور پیار بھرے لمحات کسی دوسرے کو کہانی کے طور پر سناتا ہے۔ واحد کردار کے ذریعے کہانی بُننا بلاشبہ ایک مشکل کام ہے۔ جسے تجربہ کی بنیاد کہا جا سکتا ہے۔ اس مرحلے میں انسان کی خود کلامی بھی ظاہر ہوجاتی ہے ’’جہاں‘‘ کے بیان اور اس کے تجربات کی روشنی میں یہی بات واضح ہوتی ہے کہ جب تک ایک انسان دوسرے انسان کے دکھ درد کو پہچان نہیں سکتا تب تک کہانی کا وجود ممکن نہیں ’’جہاں‘‘ کے کردار کی یہ خوبی ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز میں خوبیوں کو تلاش کرتی ہے۔ اُس کا کردار انشاء پرداز کے مثبت خیالات Optimistic views کا حامی ہے۔
اس کردار کے مکالماتی انداز سے حقائق کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ انسانی عقل و فراست کے دائرے بھی وسیع ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس افسانے میں شعور کی رو کی تکنیک کا استعمال بحسن خوبی کیا گیا ہے۔ افسانہ اگرچہ طویل ہے لیکن ڈرامائی کیفیت لیے ہوئے ہے اس افسانے کے مکالمے یہ ثابت کرتے ہیں کہ تخلیق کا ر کو صرف بیانیہ پر ہی دسترس حاصل نہیں بلکہ مکالمات کو وابستہ اور برجستہ کرنے میں بھی اُن کو کمال حاصل ہے۔ افسانے کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے نکہت سلطانہ نے حقیقت پسندانہ روش کے ساتھ ان کلمات کے ذریعہ خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
آمنہ ابوالحسن نے اس کہانی میں ’’جہاں‘‘ کی زندگی میں آئے نوجوانوں کا ذکر تو کردیا مگر یہ نہیں بتایا کہ زماں کون ہے اس سے اس کا کیا رشتہ ہے۔ صرف ایک جگہ تحریر ملتی ہے کہ ‘‘اب تو میں پرائی ہوں‘‘ بات واضح نہیں ہوتی۔ مصنف نے ’’شعور کی رو‘‘ کی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے افسانے کی تکنیک پر اپنی گرفت کا ثبوت دیا ہے۔ چونکہ یہ افسانہ صرف ایک کردار کی نفسیات کا جائزہ ہے اس لیے اس افسانے کو کرداری افسانے کے زمرے میں شمار کیا جائے گا‘‘( از نکہت سلطانہ ، صفحہ 111)
آمنہ ابوالحسن کی افسانہ نگاری میں موجود حسیت، حقیقت پسندی، ترقی پسندی کے ساتھ ساتھ جدیدیت کی نمائندگی کے دوران زندگی کی حقیقتوں اور وسائل کو ہی وسیلہ نہیں بنایا بلکہ انسانی جذبات اور احساسات کو بھی پوری دیانت داری کے ساتھ پیش کیا۔ آمنہ ابوالحسن کے افسانوں کے کردار کی حقیقت اور اُن کے کردار نگاری کے فن پر محاکمہ کرتے ہوئے نکہت سلطانہ لکھتی ہیں :
آمنہ ابوالحسن کے کردار کوئی آسمانی یا کسی اور دنیا سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ یہ ہمارے سماج کا حصہ ہیں اور یہ کردار اپنا کام بخوبی نبھاتے چلے جاتے ہیں۔تجدید کا ’’شیام‘‘ میری حیا کی ’’ریشمی‘‘ میرا ناچی رے کی’’نشاط‘‘ برمزارِ ما کے تینوں کردار (سہیل ، الطاف اور ثروت) سچائی کا بوجھ کی ’’سلمٰی‘‘ اندھیرا روشنی اور دِل کی ’’ریئسہ‘‘ ،کہانی کی ’’جہاں‘‘۔۔۔۔۔۔ وغیرہ ایسے کردار ہیں جن کی شخصیت قاری کو متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ یہ کردار عام نوعیت کے انسان ہیں ان کی زندگی بھی عام نوعیت کی ہے۔ مگر ان سب کے جینے کا سلیقہ الگ الگ ہے کیونکہ ان میں انسانیت ہے جبکہ انسانیت ہی سب سے عظیم ہے‘‘ ۔(از نکہت سلطانہ صفحہ نمبر 79 )
آمنہ ابوالحسن کے کرداروں میں زنانہ اور مردانہ کردار کی نشاندہی کرکے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ انہیں زندگی سے قریب کردار اور حقیقت کو شامل کرنے سے بڑی دلچسپی ہے۔ الغرض اُن کے کرداروں کا وصف یہ ہے کہ وہ دھنک کے مختلف رنگوں کی طرح مختلف طبقات کی نمائندگی کرتے ہیں جن میں اخلاق تہذیب ، جدیدیت اور رواداری کے پہلو نمایاں ہیں۔
حوالہ جات :
۱۔ فن اور شخصیت آپ بیتی نمبر ممبئی 1980 ۔
۲۔ مقالہ ’’آمنہ ابوالحسن سوانح اور ادبی خدمات‘‘ غیر مطبوعہ از نکہت سلطانہ (مقالہ برائے ایم۔فل) سینٹرل یونیورسٹی آف حیدر آباد 1999۔
۳۔ آمنہ ابوالحسن ’’کہانی‘‘ افسانوی مجموعہ مرتبہ 1965۔