آہ ! پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی

\"\"
٭شکیل شمسی

\"\"

۱۹۹۳ء میں مجھے پہلی بار گلزار صاحب سے بہ نفس نفیس ملنے کا موقع ملا۔ اس سے پہلے تک میں نے ان کو مشاعروں میں دیکھا اور سنا تو ضرور تھا مگر بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ سفید شیروانی کے بٹن میں گلاب کا پھول ،ایک جیب میں زنجیر والی گھڑی ، دوسری جیب میں خوبصورت سا قلم اور لبوں پر شوخ مسکراہٹ ان کی پرکشش شخصیت کا حصہ تھے۔ دلچسپ انداز گفتگو، بذلہ سنجی، بے تکلفی ، معیاری شاعری ، خالص دہلوی طرز زندگی اور سادگی ان کی خصوصیت تھی۔ میں کوشش یہی کرتا تھا کہ مشاعرے یا ادبی نشست میں ان کے قریب ہی بیٹھوں کیونکہ وہ شاعروں کے کلام پر داد تو دیتے ہیں تھے ساتھ ساتھ چپکے سے ایک آدھ پرلطف جملہ بھی کہہ دیا کرتےتھے کہ ہنسی چھپانا مشکل ہوجائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بلا کے ذہین تھے اور ۹۴؍ سال کی عمر میں بھی ان کا حافظہ ایسا تھا کہ آزادی کی جد وجہد، دہلی کے گنگا جمنی کلچر اور ثقافتی سرگرمیوں سے جڑی تمام باتیں ایسےدوہراتے تھے کہ جیسے کل کی بات ہو۔ جس موضوع پر بھی بولنا شروع کرتے تھے اس پر کئی کئی گھنٹے تک بول سکتے تھے۔ آزادی سے پہلے دہلی میں ہونے والی ادبی سرگرمیوں کا ذکر کرنے میں اور پنڈت جواہر لعل نہرو کا تذکرہ کرنے میں ان کو بہت مزہ آتا تھا اور خاص بات یہ ہے کہ سننے والے بھی بور نہیں ہوتے تھے۔جب بولتے بولتے تھکنے لگتے تو بڑی زور سے اللہ کہہ کر سانس لیتے اور پھر شروع ہوجاتے۔گلزار صاحب اس ہندوستان کے چندنمائندوں میں سے ایک تھے جن کی ہر سانس سیکولر ازم کو ایک نئی زندگی دیتی ہے۔ محبوب الہٰی حضرت نظا م الدین اولیا ء کے وہ مرید تھے۔ حضرت کا نام لیتے وقت کانوں پر ہاتھ نہ لگائیں یہ ناممکن تھا۔ ہندو مسلم اتحاد کی وہ جیتی جاگتی مثال تھے اور فرقہ پرستوں سے بہت دور رہتے تھے۔بہت زور سے السلام علیکم کہنے کی ان کو عادت تھی۔ ایک بار میں نے فون پر ان کو آداب عرض کہہ کر مخاطب کیا تو برا مان گئے بولے میاں شمسی تم بھی ویسے ہو کیا جو غیر مسلموں کو سلام نہیں کرتے؟ اس پر میں نے کہا’’ نہیں گلزار بھائی آپ نے غلط سمجھا، میں لکھنو کا ہوں اور وہاں اپنے بزرگوں کو ’آداب عرض ہے ‘کہنے کی رسم بہت پرانی ہے جو مجھے بچپن سے پڑی ہے، اسی لئے دہلی آنے کے بعد بھی اپنے بزرگوں کو آداب ہی کرتا ہوں۔ پھر میں نے ان سےکہا کہ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ آداب عرض کہنے کا سلسلہ لکھنؤ کے نوابوں نے اس لئے شروع کیا تھا کہ دربار میں ہندو داخل ہوتے تھے تو رام رام یا جئے رام جی کی کہتے تھے اور مسلمان آتے تھے تو السلام علیکم کہتے تھے، جس سے دربار میں آنے والے کے مذہب کے بارے میں بھی مصاحبین کو پتہ چل جاتا تھا۔لہٰذا آداب عرض کہنے یا تسلیم کرنے کے لفظ رائج کئے گئے، اس کے بعد وہ تھوڑا مطمئن ہوئے، لیکن میں نے پھر ان کو کبھی آداب نہیں کیا ہمیشہ السلام علیکم ہی کہا۔ یہ گلزار صاحب ہی تھے جنھوں نے رمضان میں روزۂ روداری رکھنے کی سیکولر رسم رائج کی ،رمضان میں ایک دن وہ روزہ رکھتے تھے او ر اپنے دوستوں کو باقاعدگی کے ساتھ افطار پر مدعو کرتے تھے۔ویسے توگلزار صاحب کا تعلق کشمیر ی پنڈتوں کے مشہور و معروف خانوادے سے تھا مگر انھوںنے خود کو ہمیشہ دہلی کی تہذیب کا علمبردار بتایا اور خود کو خاص دہلی والا بتا کر وہ بہت مسرور ہوتے تھے۔ دہلی کی زبان پر ان کو ایسا قابو تھا کہ کوئی ان کے سامنے جملے بازی کرکے نکل نہیں سکتا تھا وہ ہر ایک کو اسی کی زبان میں جواب دینا جانتے تھے۔ میری اور ان کی قربت کا سبب وہ ادبی نشستیں تھیں جوان کے گھر پر منعقد ہوا کرتی تھیں۔ ان نشستوں میں وہ نہ جانے کیوں میری دستار بندی ضرور کرتے تھے ۔گلزار صاحب کے گھر پر ادبی نشستیں، پندرہ اگست، چھبیس جنوری ، ہولی، دیوالی یا ان کی سالگرہ ۷؍ جولائی کے موقع پر ہوا کرتی تھیں۔وہ ان نشستوں میں شریک ہونے والو ںکا ایک رجسٹر بناتے تھے، شاعروں کے نام لکھتے اور ان سے دستخط کرواتے تھے اور ہر شاعر کو بلائے جانے کے بعد اس کے بارے میں تعارفی کلمات کہا کرتے تھے۔میری گلزار صاحب سے قربت انقلاب کی ادارت سنبھالنے کے بعد بہت بڑھ گئی تھی، جس دن اخبار ان کے گھر نہیں پہنچتا تھا ان کا فو ن آجاتا تھا اور کہتے دیکھو آج پھر غائب ہو گیا تمہارا ہاکراور اس کے بعد وہ کوئی نہ کوئی تذکرہ چھیڑ دیتے تھے۔ حیف صد حیف ہمارے درمیان سے ایک ایسا شخص اٹھ گیا جس کے دم سے ہندوستان کے نقشے میں بھرے سیکولراز م کے رنگ مزید گہرے ہوجاتے تھے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ زیادہ تر انسان ایسے ہوتے ہیں کہ جب وہ دنیا سے اٹھتے ہیں تو اکیلے اٹھتے ہیں مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جب اس دنیا سے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ ایک انجمن اٹھ جاتی ہے ایک ادارہ ختم ہوجاتا ہے۔

Leave a Comment