ایران میں اردوشعرا کاابھی تک صحیح تعارف نہیں ہواہے:وفایزدان منش

فلحال صرف یونیورسٹی آف تہران میں شعبہ اردو قائم ہے
تہران میں غالب واقبال کو ان کی فارسی شاعری کے حوالے سے شہرت حاصل ہے
فارسی شاعری نے جدیدیت کاکھلے بازوؤں سے استقبال کیاہے
ہماری فلموں میں خواتین حجاب کے ساتھ کیمرے کے سامنے آتی ہیں
معاشی بدحالی سے کئی خرابیاں معاشرے میں پھیل جاتی ہیں
\"News

ڈاکٹر وفا یزدان منش ایران کے شہر تہران میںپیدا ہوئیں ۔ ان کے والد کا نام علی یزدان منش ہے۔ فی الحال وہ تہران یو نیورسٹی کے غیر ملکی زبان وادب کے شعبے سے منسلک ہیں۔ انہو ں نے لاہور پاکستان کی پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں پی ایچ ڈی مکمل کی ہے۔ ان کے مقالے کا عنوان ’’فارسی تعلیمات وتراکیب اردو غزلیات میں لسانی وتحقیقی مطالعہ (ولی سے اقبال تک)‘‘ تھا۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے اور ہندی لنگویج میں ڈپلو مہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ’’فارسی شاعری میں کلاسیکی شعرا سعدی اور حافظ سے لے کر نیما یو شیج اور سہراب سپہری تک سب نے فطرت کے سراپا حسن کو سراہا تو ہے مگر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ بیسویں صدی میں عصری حالات بدل چکے ہیں۔ شعرا اور ادباء مختلف رجحانات سے روشناس ہوتے رہے ہیں۔ ان کی زندگی میں اردگرد کی ماحولیات پرایک نپنے والی سوچ اور نئی نگاہ پائی جاتی ہے۔‘‘
یونیورسٹی آف تہران کے شعبہ اردو میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر فعال ا س مصنفہ کو بچپن سے ہی اردو زبان سے بے حد محبت تھی۔ حالاں کہ انہو ں نے بچپن میں یہ طے نہیں کیا تھا کہ آگے چل کر انہیں ادیبہ بننا ہے۔ وہ ریڈیو سے فارسی میں نشر کئے جانے والے پروگرام میں اردو غزل سناکر لطف اندوز ہوتی تھیں۔اکثروہ اپنے دوستوں کو اکٹھا کر تیں اور انہیں من گھڑت کہانیاں اور من گھڑت فلمیں سنایا کرتی تھیں اور وہ بھی یہ سب سن کر بہت خوش ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر وفایذدان منش کی والدہ کی جائے پیدائش تہران اور ان کے والد کی تفرش ہے۔ ان کی والدہ کی دادی فارسی اور ترکی میں شاعری کرتی تھیں اور ان کا نام ’’خورشید‘‘ تھا۔ ان کے بیٹے کو افسانہ اور مضمون لکھنے کا شوق ہے۔
ڈاکٹر وفایزدان منش کے مطابق ’’مجھے لکھنے کا شوق ہے۔ نوجوانی سے ڈائری لکھتی رہی ہوں ۔ اردو آگئی تو اردو زبان میں سکون سے لکھتی ہوں کیونکہ میرے گھر میں اور رشتہ دار وں میں کسی کو اردو نہیں آتی۔ فارسی میں شاعری کرتی تھی مگر کسی کو کبھی سنائی نہیں۔پھر اردومیں چند نظمیں کہیں۔ مجھے وزن اورموسیقی کی پروانہیں ، بس جذبات ابھر آتے ہیں اور لازمی سمجھ کر انہیںوجود کی گہرائیوں سےبیان کرتی ہوں ۔ اردو میں چند افسانے لکھ چکی ہوں ۔ ‘‘ ڈاکٹر وفایزدان منش نے اپنی کتاب’’ نوسرایان اردو در سدہ بیستم‘‘ میں اکیسویں صدی کے پانچ بڑے شعرا فیض احمد فیض، ناصر کاظمی ،ن م راشد،مجید امجد اورپروین شاکر کے کوائف اور شاعری کو فارسی زبان میں روشناس کیاہے۔ انہو ں نے چند فارسی افسانوں کا اردو میں ترجمہ کیا ہے جو ’’آج ‘‘ میں دواور مترجموں کے ساتھ شائع ہوچکے ہیں ۔ علاوہ ازاں ان کے لاتعداد مضامین بھی چھپ چکے ہیں۔ انہیں عالمی سیمیناروں میں بھی پیپر پڑھنے کی خاطر مدعوکیاجاتا ہے ۔ وہ یونیورسٹی آف تہران کے شعبۂ اردو میں بی اے اردو اور ایم اے اردو کی کلاسیس پڑھاتی ہیں۔ انہوں نے اب تک پاکستان ،ہندوستان ،جاپان ،ترکی اور جورجیا کا سفر کیاہے۔
وفایزدان منش کے بقول’’ جس طرح اردو میں سفر نامہ نگاری کا رواج ہے ،فارسی میں یہ رونق نہیں پائی جاتی ، حالاں کہ کلاسیکی فارسی میںعمدہ ادبی سفرنامے قلمبند ہوئے ہیں لیکن موجودہ دور میں سفر نامہ نگاری کی طرف رجحان کم پایا جاتا ہے، کبھی کبھی یہ خواہش دل میں پیدا ہوتی ہے کہ اردو مزاج کو اپنا کر میں بھی سفرنامہ لکھو ں ۔‘‘ اپنے من پسند شاعرکے بارے میں انہو ں نے بتایا ’ ’ جو بھی شاعری اچھی لگے تو اس کا شاعر بھی اچھا لگتا ہے ۔ میرتقی میر کی سادگی نے مجھے متاثر کیا ہے۔ باقی اردو شعرا نے بھی لازوال اشعار چھوڑے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ایران میں اردو شعرا کا ابھی تک صحیح تعارف نہیں ہوا ہے۔ ایران میں غالب اور اقبال کو ان کی فارسی شاعری کے حوالے سے شہرت حاصل ہے۔‘‘
ایران میں فی الحال صرف یو نیورسٹی آف تہران میں شعبہ اردو قائم ہے ۔ ادبی سر گرمیوں میں خواتین بھی حصہ لیتی ہیں اور خواتین کی علمی اور ادبی سرگرمیوں پر کوئی پابندی نہیںہے۔ ان کےلیے ادبی ماحول سازگار ہے اور روز بروز خواتین قلمکار وں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔ وہ بتاتی ہیں ’’ایران میں ادب کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ہر دور میں اس میں نئی کروٹ آئی ہے اوراتنی کروٹیں لے کر ادب کاسرمایہ بڑھتا گیاہے۔فارسی شاعری نے جدیدیت کا کھلے بازوؤں سے استقبال کیاہے۔فارسی ادب نے اپنی پرانی اقدار کو تحفظ دیتے ہوئے نئے موضوعات کے لیے جدید شاعری کے ہر پہلو کو اپنایا ہے۔افسانوی ادب نے بھی ہر قسم کے موضوع کو اپنے اندرسمو لیاہے بلکہ بین الاقوامی مسائل کا سراغ بھی فارسی ادب میں جا بجا ملتاہے۔فارسی میں ناول نگاری کو افسانہ نگاری سے زیادہ پذیرائی حاصل ہے۔‘‘انہیں اردو اورفارسی کے علاوہ ہندی،انگلش اورعربی زبانیں تھوڑی بہت آتی ہیں۔ہندی لکھنا بھی جانتی ہیں۔
وفا یزدان منش نے ایران کی مشہور خواتین قلمکاروں کے بارے میں بتایا’’ایران میں پروین اعتصامی،فروغ فرخ زاد،سیمین دانشور،سیمین بہبانی،زویا پیر زاد،فہیمہ رحیمی اورطاہرہ صفار زادہ کافی مقبول ہیں۔‘‘ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا’’اسلامی انقلاب کے بعدایران کی فلم انڈسٹری کی کایا پلٹ ہوگئی۔ہماری فلموں میں خواتین حجاب کے ساتھ کیمرے کے سامنے آتی ہیں۔چھوئے بغیر سارے جذبات کا اظہار ہوتا ہے،پھر بھی بہترین فلمیں بنتی ہیں۔یہی جواب کافی ہوگا کہ ان سالوں میں ہمارے بہت سے اداکاروں اوربنی ہوئی فلموں نے بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کئے ہیں۔‘‘ایران میں مجید مجیدی کے علاوہ فریدون جیرانی،اصغرفرہادی،پوران درخشندہ اوربہرام بیضایی نامی فلمسازوں کو مقبولیت حاصل ہے۔انہوں نے آگے کہا’’بہترین ادب،بدترین صورتحال میں پیدا ہوتا ہے۔معاشی بدحالی براہ راست سے زیادہ باواسطہ طور پر ادب پر اثر انداز ہوتی ہے۔معاشی بدحالی سے کئی خرابیاں معاشرے میں پھیل جاتی ہیں۔نفسیات میں قسم قسم کی بیماریاں ،غربت، اخلاقی فسادات،چوری کا پھیلاؤ،عورتوں کی فحاشی اوردھوکہ دینا وغیرہ۔ہر ایک خرابی ادب کی اصناف میں گھس جاتی ہے۔میرے خیال سے دنیا میں معاشرتی الجھنوں میں سب سےزیادہ معاشی بدحالی سے خرابیاں نکل آتی ہیں اورآنے والی نسلوں تک وہ خرابیاں چلی جاتی ہیں اورہر زبان میں ادب اس بات کاثبوت دے سکتا ہے۔‘‘
کیا ادب کے توسط سے سیاسی یا سماجی ماحول کو تبدیل کیا جاسکتا ہے؟انہوں نے کہا’’ادب کا مخاطب انسان ہے۔سیاست اورسماج کو انسان یا انسانوں کے گروپ بناتے ہیں۔انسان کا جیون عقل اوردل سے بنتا گذرتاہے،دونوں کو چھیڑنے سے بیداری کی لہر اٹھتی ہے۔ادب کے بھی دوپلڑے ہیں۔ایک میں جذبہ اوردوسرے پلڑے میں عقل،پھر ادب میں یہ گنجائش ہے کہ انسان کے عقل ودل کو اپنی گرفت میں پکڑلے،سیاست ہوچاہے سماج،دونوں کو پگھلانے،اونچائیوں تک پہنچانے،ان کی اقدار کاتحفظ دینے اورکھو دینے کی صلاحیت رکھتاہے۔اگرچہ ادب کی یہ کارکردگی لمبے عرصے کے بعداثرانداز ہوتی ہے۔‘‘
وفا یزدان منش اردو زبان وادب کو پڑھنے اورسمجھنے کے علاوہ فارسی میں اسے متعارف کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔وہ فارسی میں انسائیکلوپیڈیا ’’دانش نامہ جہاں اسلام‘‘میں اردوزبان وادب کی انچارج ہیں۔وہ منتخب عنوانات پر خود لکھتی ہیں یا ماہرین سے لکھواتی ہیں۔معاصراردو ادب پر مبنی ان کے بیس مقالات ابھی تک شائع ہو چکے ہیں۔علاوہ ازاں انھوں نے اردو ادب اورفارسی کے مابین مختلف زاویوں سے موازنہ کیا ہے او ر ان کی تحریریں چھپ چکی ہیں۔‘‘وہ بتاتی ہیں’’مجھے رنگ برنگے پہلوؤوں پر کام کرنا اچھا لگتا ہے۔خاص مقصدیت کو مدنظرنہیں رکھتی ہوں،یکسانیت سے اکتاتی ہوں۔انسان کی عمر جب بیت جاتی ہے تواس کے یہاں ہر قسم کے تجربات اورمشاہدات سرمایہ کے طور پر محفوظ ہوجاتے ہیں اوروہ انہیں بیان کرنے کا خواہش مند رہتاہے۔میری خواہش ہے کہ جو بات میرے دل میں پوشیدہ ہے میں اس کاخصوصاًافسانوں میں دل نشیں انداز میں اظہار کروں۔یہ خیال رکھتی ہوں کہ میری تحریروں میں نصیحت کاروپ نہ آئے اورہر بات ادب کے سانچے میں ڈھل کے آئے۔‘‘
وفا یزدان منش کے مطابق’’سالوں سے انسائیکلوپیڈیا سے وابستگی کے زیراثرمیں موضوع کو بہت باریک بینی سے پرکھتی ہوں۔کتابیں پڑھتی ہوں۔کوئی بات ثبوت کے بغیر نہیں مانتی ہوں۔تنقیدی میدان میں نئے زاویے سے کسی فن پارے کو پرکھنے کی شوقین ہوں۔فن پارے کو جانچنے سے قبل فن کار کی سوانح عمری،ان کے خطوط،ان کی آپ بیتی اوران کی یاد داشتوں کا مطالعہ کرتی ہوں۔اخذشدہ معلومات کو ان کے فن پاروں کی تجزیہ نگاری اورپرکھتے وقت مدنظر رکھتی ہوں۔مجھے نفسیات سے بہت لگاؤ ہے لہٰذا جانچ پرکھ میں نفسیاتی نقطہ نظر کو پیش نظر رکھتی ہوں۔‘‘اسلامی ممالک میں جاری خون خرابہ دیکھ کر وہ رنجیدہ ہوجاتی ہیں۔انہوں نے کہا’’دکھ ہوتا ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ مجھے بچوں کی تکلیفیں ستاتی ہیں۔بچوں پرڈھائے جانے والے مظالم اورتشدد سے میرا جی بھرآتاہے۔‘‘یونیورسٹی آف تہران نے بی اے میں فرسٹ آنے پرانہیں خصوصی ایوارڈ سے نوازاتھا۔لکھنؤ میں چار سال پہلے انہیں ’’اودھ رتن ایوارڈ‘‘بھی تفویض کیاگیاتھا۔
وہ بتاتی ہیں’’اسلام کی آمد کے بعدفارسی شاعری ،عربی شاعری سے کافی متاثر ہوئی،مختلف ہیتیں اخذ کیں۔اسلامی وسامی تلمیحات نے فارسی شاعری میں جگہ بنائی۔بیسویں صدی سے اب تک فارسی ادب نے مغربی زبانوں سے راست یا ترجموں کے ذریعے کافی اثرقبول کیاہے۔مشرق کے اثرات نسبتاً کم دکھائی دیتے ہیں۔جاپانی ادب سے ہائیکو کواپنایا گیا۔پھر بھی ایرانی ادب میں ایرانی اقدار،تہذیب اورروایات محفوظ ہیں۔‘‘
وفا یزدان منش نہایت خوبصورت انداز میں شعرکہتی ہیں۔ملاحظہ کریں:
دے گیا وہ رتجگے اورزندگانی لے گیا
کاسہ دل سے لہو آنکھوں سے پانی لے گیا
دیکھتے ہی دیکھتے یہ وقت ہاتھوں سے میرے
میرا بچپن میری گڑیا کی کہانی لے گیا
کس طرح سے غم نے ویران دل کا گلشن کردیا
رنگ پھولوں کاتو کلیوں کی جوانی لے گیا
دل میرا وہ لے گیا غم دے گیا جاتے ہوئے
کیا نشانی دے گیا اورکیا نشانی لے گیا
ایک برس پھر اوراس عمر رواں سے اے وفاؔ
خواب کچھ دھندلکے کئے یادیں پرانی لے گیا

Leave a Comment