ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس ’’علامہ اقبال:فکری اور عصری تناظر‘‘ کا کامیاب اختتام

\"\"
٭ڈاکٹر تہمینہ عباس
\"\"

کراچی، ۲۶ /اپریل بروز بدھ شعبۂ اردو جامعہ کراچی کی جانب سے ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس ’’علامہ اقبال:فکری اور عصری تناظر‘‘کلیہ فنون و سماجی علوم کے ہال میں منعقد ہوئی۔افتتاحی نشست کا آغاز عارف حسین کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔جب کہ نعت رسول مقبولﷺفائنل ایئر کی مدیحہ ماہ نور نے پیش کی۔اس کانفرنس کی نظامت کے فرائض شعبۂ اردو کی استاد ڈاکٹر راحت افشاں نے انجام دیے۔افتتاحی نشست کی صدارت رئیس کلیہ فنون و سماجی علوم پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری نے کی۔خطبۂ استقبالیہ شعبۂ اردو کے استاد پروفیسر ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے پیش کیا ۔انھوں نے کہا کہ ایک سال کے دوران شعبۂ اردو نے تیسری کانفرنس کا انعقادکیا ہے جو بلا شبہ شعبۂ اردو کی چیئر مین پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس کی عملی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔اس موقع پر ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے تمام مہمانان، مندوبین ، اساتذہ، طلبہ کا خصوصی شکریہ ادا کیا ۔کلیدی خطبہ معروف اقبال شناس اسکالر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے پیش کیا ۔انھوں نے اقبال کی زندگی کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور اقبال شناسی اور اقبال فہمی کے کئی نکات بیان کیے۔ افتتاحی نشست کے آخر میں رئیس کلیہ فنون و سماجی علوم نے مہمانِ خصوصی ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور دیگر مندوبین کو نشان سپاس پیش کیا۔چائے کے وقفے کے بعد دوسری اور تیسری نشست کا انعقاد کیا گیا۔دوسری نشست کے صدر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور مہمان خصوصی معروف صحافی اور شاعر محمود شام تھے۔جب کہ تیسری نشست کے صدر ڈاکٹر راشد حمید ڈائریکٹر جنرل اکادمی ادبیات پاکستان ،اور مہمان خصوصی حمزہ فاروقی تھے۔ اس کانفرنس میں پہلا مقالہ شعبۂ اردو کی استاد ڈاکٹر سہیلا فاروقی نے پیش کیا۔جس کا عنوان تھا’’ڈاکٹر محمد طاہر فاروقی بطور اقبال شناس‘‘دوسرا مقالہ شعبۂ اردو کے استاد ڈاکٹر خالد امین نے پیش کیا جس کا عنوان تھا’’علامہ اقبال اور علامہ محمد اسد(لیوپولڈ) کے فکری ارتباط‘‘۔تیسرا مقالہ شعبۂ اردو کے استاد ڈاکٹر انصار احمد نے پیش کیا جس کا عنوان تھا’’اقبال کا تصور حقیقت اور عصری تقاضے‘‘۔چوتھا مقالہ شعبۂ فارسی کی استاد ڈاکٹر شہلا سلیم نوری نے پیش کیا جس کا عنوان تھا’’عصرِ حاضر اور اقبال کی فارسی شاعری‘‘۔پانچواں مقالہ شعبۂ انگریزی کے استاد ڈاکٹر افتخار شفیع نے پیش کیا ۔جس کا عنوان تھا ’’اقبال انگریزی اور ہم‘‘انھوں نے کہا ’’کہ انگریزی ہمارے لیے ایک پورے کلچر اور پوری ثقافت کا نام ہے ۔جس میں تمام چیزیں آجاتی ہیں ۔اقبال شعبۂ انگریزی میں بھی پڑھائے جاتے ہیں‘‘۔چھٹا مقالہ شعبۂ فلسفہ کے استاد ڈاکٹر عبدالوہاب سوری نے پیش کیاجس کا عنوان تھا’’مابعد نو آبادیاتی فکر،خیال کی جمالیات اور مطالعہ اقبال‘‘ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بڑے بڑے لوگوں کے خیال کو خوبصورتی کے ہتھیار کے ذریعے ختم کیا ہے‘‘۔ساتواں مقالہ محمد حمزہ فاروقی نے پیش کیا جس کا عنوان تھا’’اقبال کا عہد اور عصرِ حاضر‘‘۔انھوں نے کہا کہ اقبال وہ واحد فلسفی ہیں جن کا خیال مجرد نہیں ۔ان کے خیال کی مجسم صورت آج پاکستان کی شکل میں موجود ہے۔آٹھواں مقالہ محمود شام نے پیش کیا جس کا عنوان تھا ’’ اقبال کی فکری روایت اور دین ملا‘‘نواں مقالہ اکادمی ادبیات کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر راشد حمید نے پیش کیا جس کا عنوان تھا ’’اقبال اور عصر حاضر‘‘۔دسواں مقالہ امریکہ سے آئی ہوئی مشہور سماجی کارکن اور محققہ محترمہ صدف اکبانی نے پیش کیا جس کا عنوان تھا’’آئیڈیالوجی اینڈ کن ٹیمپرری پرسپیکٹیو‘‘انھوں نے کہا کہ مجھے امریکہ میں رہتے ہوئے اکثر اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ہمیں اقبال کی فکر سے استفادہ کرنا چاہیے۔اگر ہم اقبال کی فکر سے استفادہ کریں گے تو کوئی ہماری میراث کو نئی پیڑھی میں منتقل ہونے سے نہیں روک سکتا۔خطبۂ صدارت میں رئیس کلیہ فنون و سماجی علوم پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری نے کہا کہ بے شک شعبۂ اردو مختلف کانفرنس کے ذریعے سر سید، غالب اور اقبال کی فکر کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے ۔شعبۂ اردو نے پوری جامعہ کراچی کے لیے ایک مثال قائم کی ہے کہ ہمیں اپنے خول میں نہیں رہنا چاہیے بلکہ اجتماعیت کے ذریعے اپنے شعبے اور جامعہ کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔کانفرنس کے آخر میں شعبۂ اردو کی صدر نشین محترمہ ڈاکٹر تنظیم الفردوس صاحبہ نے اظہار تشکر پیش کیا۔انھوں نے کانفرنس میں شامل، طلبہ ،اساتذہ، مندوبین، مہمانان اور علماء کا شکریہ ادا کیااور کہا کہ طلبہ اور اساتذہ کے تعاون کے بنا اس کانفرنس کا کامیاب ہونا ممکن نہ تھا۔اس حوالے سے شعبۂ اردو کے اساتذہ اور طلبہ قابلِ تعریف ہیں۔و اضح رہے کہ محترمہ ڈاکٹر تنظیم الفردوس کی صدر نشینی کے دور میں یہ چوتھی کانفرنس کا انعقاد تھا اس سے قبل امام احمد رضاخان بریلوی،نفاذِ اردو، سرسید ، اور اب اقبال کے حوالے سے اس کانفرنس کا انعقاد ان کی بہترین منتظم ہونے کی دلیل ہے۔ مجموعی طور پر یہ کانفرنس ایک کامیاب کانفرنس تھی شروع سے آخر تک طلبہ کی کثیر تعداد اس کانفرنس میں موجود رہی۔کانفرنس کے بعد تمام شرکاء کے لیے ظہرانے کے اہتمام نے کانفرنس کا لطف دوبالا کردیا ۔
\"\" \"\" \"\" \"\" \"\" \"\" \"\" \"\" \"\" \"\" \"\" \"\" \"\" \"\" \"\" \"\" \"\" \"\" \"\" \"\" \"\"

Leave a Comment