ایک شام پروفیسر راشدہ ماہین ملک پاکستان کے نام

عالمی شہرت یافتہ مترنم لب و لہجہ کی خوبصورت پاکستانی شاعرہ راشدہ ماہین ملک کے اعزاز میں حیدر آباد انڈیا میں مشاعرہ کا انعقاد

تم کو بس آواز لگانی ہوتی ہے
لیکن مجھ کو بھاگ کے آنا پڑتا ہے
خوشبو تم کو چھوڑ کے جانے والی ہے
پھولوں کو احساس دلانا پڑتا ہے

\"Rashida-Maheen\"
حیدر آباد (اسٹاف رپورٹر )انجمن محبان اردو تلنگانہ کے زیر اہتمام ایک شام پروفیسر راشدہ ماہین ملک (پاکستان) کے نام انجمن محبان اردو تلنگانہ کے زیر اہتمام 19؍اپریل رات 8 بجے میڈیا پلس آڈیٹوریم گن فائونڈری جامعہ نظامیہ کامپلکس میں ایک یادگار مشاعرہ کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ معروف قانون داں جناب عثمان شہید ایڈوکیٹ نے صدارت کی جبکہ سابق صدر نشین اردو اکیڈیمی جناب سید شاہ نور الحق قادری نے بطور مہمان خصوصی اور پروفیسر ایس اے شکور نے مہمان ذی وقار کے طور پر شرکت کی۔
صدر انجمن جناب سید مسکین احمد نے خیر مقدمی تقریر کرتے ہوئے انجمن کے مقاصد پر روشنی ڈالی اور پروفیسر راشدہ ماہین ملک و دیگر مہمانان کا خیر مقدم کیا۔
صدر مشاعرہ جناب عثمان شہید نے اردو کی چاشنی کو برقرار رکھنے کے لئے جدوجہد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے واضح کیا کہ جرمنی کے شہر میونخ میں واقع یونیورسٹی کے باب الداخلہ پر مرزا غالب کا شعر تحریر ہے جس سے عالمی سطح پر اردو کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
پروفیسر ایس اے شکور نے اپنے خطاب میں اردو کی ترقی کے لئے حکومت کے سنجیدہ اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ریاست میں اردو سرکاری زبان ہے اور محکمۂ پولیس میں ملازمت کے لئے منعقدہ حالیہ امتحانات بھی اردو میں تحریر کرنے کی اجازت دی گئی۔ انہوں نے اردو شاعری کی عالمی مقبولیت میں مخدوم محی الدین‘ شاذ تمکنت‘ سعید شہیدی و دیگر شعراء کرام کی خدمات کو ناقابل فراموش قرار دیا۔ جناب فیروز رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے سمیع صدیقی نعیم کو دعوت سخن گی۔

سمیع صدیقی نعیم:
اب اسی بات کو سچ مان کے چلنا ہوگا
تم سے بچھڑے تو کسی اور کا ہونا ہوگا
زندگی بزم عقیدت سے نکل آئی ہے
اب گھنے پیڑ کے سائے کو ترسنا ہوگا

ناظم مشاعرہ نے شکیل حیدر کو مدعو کیا جنہوں نے مترنم غزل سناکر داد حاصل کی۔
شکیل حیدر:
کوچۂ یاد سے وحچی کو گزرجانے دو
مرنا مقصود ہے کمبخت کو مرجانے دو
گیسوئے ناز کے سایہ میں اگر ممکن ہو
دھوپ کا مارا ہوں کچھ ٹھہر جانے دو

مشاعرہ بام عروج پر پہنچ چکا تھا اور باذوق سامعین شعراء کو داد سے نواز رہے تھے۔ انجنی کمار گوئل کو دعوت سخن دی گئی
انجنی کمار گوئل:
اکیلے پن میں میرا دل سدا محفل میں رہتا ہے
مگر محفل میں تنہائی کا عالم دل میں رہتا ہے
اسے طوفان کے زور ستم کا کیا ہو اندازہ
سمٹ ک جو ہمیشہ دامن ساحل میں رہتا ہے
ناظم مشاعرہ نے کوکب ذکی کو کلام سنانے مدعو کیا۔

کوکب ذکی:
میرے عدو میں کسی حال میں اداس نہیں
سکون دل ہے میرے پاس تیرے پاس نہیں
نظر ملا کے طلب کررہا ہوں حق میرا
تو دیکھ آنکھ میں غیرت ہے التماس نہیں

شیخ نعیم
کسی دن سوئی ہوئی لہروں کی غیرت جاگے
پھینکتے ہیں اسی امید پہ پتھر ہم لوگ
شہر کی ٹوٹ فصیلوں پہ یہ لکھا ہے نعیمؔ
وقت دکھلا گیا کتنے ہیں قدرآور ہم لوگ

ناظم مشاعرہ نے پاکستان سے تشریف لائی مہمان شاعرہ پروفیسر راشدہ ماہین ملک کو دعوت سخن دی جنہوں نے نعتیہ اشعار سے کلام کا آغاز کیا۔
بات کرتی ہوں مگر بات کہاں ہوتی ہے
وہ نہ چاہیں تو بھلا نعت کہاں ہوتی ہے

غزل کے چند اشعار:
قدم قدم کی نشانی بتائی تھی اسکو
تو کیسے بھول گئی ہے مری گلی اسکو
وہ مجھ سے ملنے کبھی وقت پر نہیں پہنچا
میں سوچتی ہوں کہ اب بھیج دوں گھڑی اسکو

مہمان شاعرہ کے بعد ایک اور شاعرہ مہک کرن کو مدعو کیا گیا

مہک کرن:
رونا اگر ہوتا دل کھول کے رولیتے
آنسو بھی ہمارے ہیں دامن بھی ہمارا ہے
ہم نے ہی مصیبت میں امداد نہیں مانگی
ہر ڈوبنے والے نے ساحل کو پکارا ہے

تمجید حیدر:
سانس کا اپنی رگ جاں سے گزرہونے تک
درد ہوتا ہے مجھے شب کے سحر ہونے تک

ناظم مشاعرہ نے معروف شاعر آغا سروش کو دعوت سخن دی جنہوں نے سامعین سے کافی داد حاصل کی

آغا سروش:
جا اے دل ناداں تیری رسوائی تو اب ہے
پہلے تو وہ معصوم تھا ہرجائی تو اب ہے
سادہ تھی ہر اک بات تیرے عشق سے پہلے
لفظوں میں سندر کی سی گہرائی تو اب ہے

سردار اثر:
جوانی کی محبت کے فسانے ڈھونڈلیتا ہوں
کسی موسم میں بھی لمحے سہانے ڈھونڈ لیتا ہوں
جھٹک کر دیکھ لیتا ہوں گرد آلود تصویریں
برے حالت میں اچھے زمانے ڈھونڈ لیتا ہوں

عارف سیفی کو مدعو کیا گیا:
اب کس پر اعتبار کی شمعیں جلائوں میں
سورج بھی میرے گھر کا اجالا نگل گیا

حنا شہیدی کو مدعو کیا گیا اور سامعین نے ان کے مترنم کلام کو داد سے نوازا۔
عنایت یوں وہ فرماتے رہیں گے
خیالوں میں میرے آتے رہیں گے
وہ آئیں گے‘ وہ آتے ہیں‘ وہ آئے
یوں ہی ہم دل کو بہلاتے رہیں گے

ڈاکٹر مسعود جعفری کو دعوت سخن دی گئی۔
نکل گیا ہے عوامی جلوس سڑکوں پر
ہمارے پائوں کی ٹھوکر میں تخت آہی گیا
شب وصال میسر کہاں رہی مسعودؔ
سفر پہ لوٹ کے جانے کا وقت آہی گیا

ناظم مشاعرہ نے مہمان شاعرہ کو مشاعرہ کے اختتام سے قبل دوبارہ مدعو کیا

پروفیسر راشدہ ماہین ملک:

کسی کا سچ بھی حقیقت سے دور لگتا ہے
کسی کے جھوٹے فسانے سے بات بنتی ہے
وہاں ہمیشہ مری آنکھیں خشک رہتی ہیں
جہاں پہ اشک بہانے سے بات بنتی ہے

خوشبو تم کو چھوڑ کے جانے والی ہے
پھولوں کو احساس دلانا پڑتا ہے

سید مسکین احمد کے تحریک تشکر پر مشاعرہ کا اختتام عمل میں آیا۔
\"18034161_1143822542396563_7754047494296447490_n\"
\"18010196_1143822515729899_8937229203258384158_n\"
\"17952901_1143822529063231_2738524833011642628_n\"

Leave a Comment