پروفیسر ڈاکٹر ستیہ پال آنند واشنگٹن
13055, Marcey Creek Road, HERNDON. VA. 20171. USA.
spanand786@hotmail.com
ناول کی صنف ایک ایسا ’ہولڈال‘ ہے جس میںبہت کچھ لپیٹا جا سکتاہے۔ وقت اور فاصلے کی افق تا افق بہتی ہوئی ندی جو کبھی دھیمی اور کبھی تیز رفتار سے چلتی ہوئی پہلے صفحے سے آخری صفحے تک اپنا سفر طے کرتی ہے اور اس سفر کے دورانیے میں ایک داستان سناتی چلی جاتی ہے۔ یہ تھا ناول کا بنیادی پیٹرن جس پر اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے یورپی ناول استوار کیے گئے۔ بہر حال بیسویں صدی کے وسط تک آتے آتے زمان اور مکان کا یہ تسلل ، کرداروں کی سہ جہتی بُنت، پلاٹ کا ایک ہی سمت آگے بڑھنے کا چلن ۔ یہ سب شعوری رو کے ریلے میں بہہ گئے ، ناول کے ڈھانچے کی شکست و ریخت کے بعد اس کی جو نئی شکل ابھری وہ ایک ملبہ نما مکان تھا جس میں دیواریں، دروازے، کھڑکیاں، روشندان ،فرش، چھت ۔ سب کچھ گڈ مڈ ہو چکا تھا۔ اسی دوران میں، یعنی دوسری جنگ عظیم کے بعد، بیانیہ نثر کی کچھ دوسری اصناف جن کے لیے کوئی نیا نام ڈھونڈنا مشکل تھا، ناول کی پٹاری میں ہی سما گئیں۔’’این فرینک کی ڈائری‘‘ ایک روزنامچہ ہے، لیکن اسے بھی ناول کی صنف میں رکھ کر دیکھا ا ور پرکھا جاتا ہے۔ ’’سوئی لا جیل کے قیدی‘‘ فرانسیسی میں لکھا ہوا ایک نثری مہا بیانیہ ہے جو ہند چینی کی جنگ میں یرغمال بنائے گئے اٹھارہ فرانسیسی قیدیوں کی داستان ہے، بلکہ اٹھارہ داستانوں کا ایک مرقع ہے، لیکن اسے بھی ناول کے قبیل میں ہی شمار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ’’گلاگ آرکی پلاگو‘‘ ناول تو ہے ہی مگر روس کے اس بھیانک دور کی تاریخ بھی ہے جس میں اسٹالین نے ہزاروں لوگوں کو سائبیریا کے کیمپوں میں تا حیات بند کر دیا تھا۔ اور امریکا میں رچرڈ نکسن کے عروج اور زوال کی کچھ داستانیں ایسی ہیں جو ناول کی طرح ہی پڑھی جا سکتی ہیں بلکہ جامعہ کی سطح پر کچھ امریکی نصاب سازوں نے ان کو ناول کے طور پر نصاب میں شامل کیا ہے۔
نند کشور وکرم کا ’’انیسواں ادھیائے‘‘ خود نوشت سوانحی رپورتاژ بھی ہے، ڈائری بھی ہے، تقسیم وطن کے دنوں کی چشم دید حکایت بھی ہے اور ، اگر داستان در داستان کے طریق کار کو بھی ملحوظ خاطر رکھ لیا جائے تو فرانسیسی ناول ’’سوئی لا جیل کے قیدی‘‘ کی طرح داستانوں کا مرقع بھی ہے۔ ٹایٹل ’’انیسواں ادھیائے‘‘ اپنے آپ میں ہی استعاراتی سطح پرایک گنج ہائے گراں نمایہ رکھتا ہے۔ ہندووئں کے مقدس گرنتھ ’’بھگوت گیتا‘‘کے اٹھارہ ادھیائے (ابواب) ہیں ، تو کیا نند کشور وکرم انیسواں ادھیائے اس کے ساتھ آخر میں منسلک کر کے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کوروئوں اور پانڈئووں کے مابین کرو کشیتر کا دھرم یدھ ابھی ختم نہیں ہوا اور بیسویں صدی کے وسط میں اسے ایک اور (آخری؟) معرکہ درپیش ہے، جس میں بھائی بھائی کو تہ تیغ کرے گا اور رشتوں ناطوں کی تجسیم کا کوئی بنیادی یا حتمی خیال رکھے بغیر میدانِ جنگ میں ہی اس بات کا فیصلہ ہو گا کہ خون پانی سے گاڑھا ہے یا نہیں؟
جو اقتباس کتاب کے فلیپ پر ایک تمغے سا آویزاں ہے، وہ اس طرح ہے:،
مجھے احساس ہوتا ہے کہ
میں بینائی سے محروم دھرت راشٹر ہوں
جو ہمیشہ سنجے کے رحم و کرم پر ہی زندہ رہا
میںہمیشہ اسی کی آنکھوں سے دیکھتا
اور اسی کے کانوں سے سنتا رہا
میں ایک ایسا نا بینا انسان تھا جو
سنجے روپی لاٹھی کے سہارے ہی ،
اُسی کے بتائے ہوئے راستے پر آنکھیںبند کئے چلتا رہا۔
میںبچپن سے لے کر آج تک
اُسی کے دم سے چلتا پھرتا رہا
اور ہر سوچ سمجھ کے لئے
اسی پر بھروسہ کرتا رہا،
اور زندگی بھر اُس سے سوال ہی کرتا رہا ،
ان گنت سوال،
سیدھے سادے سوال،
ٹیڑھے اور پیچیدہ سوال
میں کون ہوں؟
میں کہاں سے آیا ہوں؟
اور مجھے بالآخر کہاں جانا ہے؟
لیجئے، یہ تو طے ہو گیا کہ ناول کا واحد متکلم کون ہے۔ اندھا راجہ دھرت راشٹر جو بھائیوں کے ہاتھوں بھایئوں کے اجتماعی قتل، ایک پورے ونش کے خاتمے اورتاریخ کے ایک ایسے موڑ کا نابینا ’’چشم دید گواہ‘‘ ہے جس نے تاریخ کا دھارا ہی موڑ دیا ۔ تو کیا اندھی تاریخ کا یہ’’ آرکی ٹائپل‘‘ اندھا گواہ اب بیسویںصدی کے اس اجتماعی قتل و غارت کا نقشہ دیدۂ بینا سے کھینچنا چاہتا ہے،جس میں ہم سب جو تقسیم وطن کے زمانے کی خون کی ہولی دیکھ چکے ہیں، ملوث ہیں؟ اس سوال کاجواب یقیناً اثبات میں ہے، لیکن ناول کے پہلے باب کو پڑھنے کے بعد یوں لگتا ہے ، جیسے سوالوں کے جواب ملتے ملتے سینکڑوں دیگر سوالوں کے خار دار پودے زمین سے ابھر آئے ہیں جو سب اس بات کے متقاضی ہیں کہ ان کا جواب بھی دیا جائے ۔
سوال در سوال اور جواب در جواب کا یہ سلسلہ بھی اندھے دھرت راشٹر کی طرح دائیں بائیں اپنی لاٹھی سے ٹٹول ٹٹول کر دیکھتا ہے کہ تاریخ کے منطقے کی کون سی بنیاد کھوکھلی ہے اور کہاں کہاں سے وہ ڈھیلی پڑ چکی ہے۔اور اگر آنے والی تاریخ جو ابھی وقت کی کوکھ میںہے، کبھی لکھی گئی تو کیا وہ اس اتہاس سے کچھ سبق سیکھ سکے گی؟ آفاقی مورخ اندھا دھرت راشٹر نہ صرف مہابھارت کے یُدھ کا خاموش تماشائی رہا ہے، بلکہ اس کے بعد آنے والے سینکڑوں مہا یدھوں کو بھی اس کی نا بینا بجھی ہوئی آنکھوں نے سنجے کی روح میں حلول کر کے دیکھا ہے، اس لیے اس کی گواہی نا معتبر نہیں ہے۔ دھرت راشٹر اور سنجے ایک ہی مورخ کے دو سروپ ہیں۔ اندھی آنکھیں لیکن ایک بیدارمغز، دھرت راشٹر اور سنجے…
آیئے دیکھیں، وکر م صاحب پہلاباب کیسے شروع کرتے ہیں۔
میں ہی سنجے ہوں اور میں ہی دھرت راشٹر
میں ہی اس رن بھومی پرر ہ رہے جنگ و جدل کا چشم دید گواہ ہوں
میں ہی اس یدھ میں بار بار قتل و غارت کا شکار ہوتا رہا ہوں
اور میں ہی انسانیت کے خون سے سر تا پا لت پت ہوں
میں لاکھ چاہنے پر بھی اس کرم بھومی سے بھاگ نہیں سکتا
دھرت راشٹر نے پہلی جنگ عظیم دیکھی، دوسری جنگ عظیم کے ہولناک مناظر سے بھی وہ دو چار ہوا،۔ جنگ کے خاتمے سے کچھ پہلے اس نے وہ مناظر بھی دیکھے جن سے ہیروشیما اور ناگا ساکی کی تباہی ہوئی۔ اسی لیے تو وہ لرزہ بر اندام، اس آنے والے یُگ کی بربادی کے ممکنہ منظر نامے سے خائف ہے جو شاید ایک ایٹمی جنگ کی صورت میں برسوں تو کیا ، صدیوں تک ہمارے کرّۂ ارض کو اپنی مرگ آسا تباہی کی گُُدڑی میں لپیٹ کر رکھ دے۔ اس کی زبان سے ناول نگار نے جو الفاظ کہلوائے ہیں وہ ’آکاش بانی‘ کی طرح ارض و سما میں گونجتے سنائی پڑتے ہیں۔
اور شاید دو عظیم عالمی جنگوں کے بعد
مجھے تیسری اور آخری اٹیمی جنگ کے خونچکاں
لرزہ خیز اور عبرت ناک حادثات و واقعات سے
دو چا ہونا پڑے گا
جو اس د’نیا میں شاید قیامت ِ کبریٰ کا موجب ہو گی
اور شاید اُس وقت تک کوئی سنجے بھی نہیں بچے گا
جو اس قیامت خیزجنگ کے حالات بیان کر سکے
جنگ و جدل کی ہولناک تباہیوں کے علاوہ یہ باب کچھ اور دَر بھی وا کرتا ہے جو تاریخ کی پیشانی پر کلنک کے ٹیکے کی طرح لگے ہوئے ہیں، ان میں ’’حضرت عیسیٰ کا تختۂ دار پر لٹکنا‘، حضرت حسین اور ان کے اہل و عیال کاتڑپ تڑپ کر دم توڑنا،گورو نانک جیسے صوفی سنت کا بابر کے زنداں میںچکی پیسنا، مہاتما گاندھی کے سینے کا گولیوں سے چھلنی کیا جانا، ہمارے سماج میں عورت کا استحصال، دروپدی کا سر دربار عریاں ہونے کی ذلت و تضحیک کا برداشت کرنا، سیتا کا اپنی پاکیزگی کے ثبوت کے طور پراگنی پریکھشا دینا…نمونہ مشتے از خروارے کے طور پر شامل ہیں ۔
عجیب سلسلۂ روز و شب کا بکھان ہے اس ناول میں کہ پہلے باب کی اس طویل خود کلامی کے بعد دوسرا باب بعنوان’’انجام‘‘ خود کلامی کے بجائے خود احتسابی کا تانا بانا بُنتا ہے۔اس خود احتسابی میں واحد متکلم کاہمزاد، یا دوسرا ’’مَیں‘‘ شریکِ گفتگو ہے۔سوال و جواب کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے،جو دنیا بھر کے فلسفے کی کانٹ
چھانٹ اور ردو نفی کے عمل کے بعد بھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچتا۔ جیسے کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ایک سوال کا جواب ملتے ہی درجنوں دیگر سوال کانٹے دار پودوں کی طرح سطحٔ احساس پر اُگ آتے ہیں اور اپنے جواب طلب کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے پڑھا تھا کہ ہومر نے الیاڈ Illiad میں لکھا تھا کہ روح میں بولنے، دیکھنے اور نقل و حرکت کرنے کی اہلیت موجود ہوتی ہے، جب کہ اس سے پیشتر یونانی فلاسفروں کا اس سے متعلق مادیاتی نظریہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں، لیکن سقراط اور افلاطون نے غیر فانی روح کا نظریہ پیش کیا تھا۔ افلاطون کا خیال تھا کہ روح انسانی جسم سے پہلے بھی موجو تھی اور یہ غیر فانی ہے۔ افلاطونی نظریات کے ماننے والوں کے خیال میں روح ایک غیر مادی شے ہے اور لا جسم ہے، نیز یہ کہ یہ خدا کے نزدیک ہوتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن روح کے بارے میں ارسطو کا نظریہ غیر واضح اور مبہم ہے۔ اس کے خیال میں روح جسم کا پیکر (Form)ہے اور یہ جسم کے مادے کو انسانی شکل عطا کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں، وہ واضح نہیں کہ روح جسم کو کیسے زندہ رکھتی ہے، مگر وہ اس کا اشارہ کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ وہ دماغ کو زندہ رکھ کر ایسا کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ سنا ہے، سینٹ تھامس ایکیناس St. Thomas Aquinas نے ارسطو کے نظریے کو فروغ بخشا تھا اور اس طرح کو روحانی اور شعوری شے قرار دیا تھا؟
’’لیکن‘‘، ’’ہاں‘‘، ’’نہیں‘‘ ، ان تین الفاظ میں یہ وارتالاپ چلتا رہتا ہے۔ سوالوں کے پرندے کہیں ذہن کی تاریک کھائیوں میں پھڑپھڑاتے ہوئے سنائی پڑتے ہیں، کچھ جواب ملتے ہیں، کچھ نہیں ملتے۔ کچھ جو ملتے ہیں، دیگر سوالوں کو جنم دیتے ہیں۔ مصنف یہ بتانے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس کا اپنا مطمعٔ نظر کیا ہے تو بھی جوابوں کو کھنگالنے سے کچھ شواہد سامنے آتے ہیں۔ بات چیت میں ہی یونانی اور رومائے قدیم کے فلسفیوں اور مختلف مذاہب کے دیگر یورپی اہلِ دانش کا تذکرہ ہونے کے بعد بات اسلام اورہندو مت تک پہنچتی ہے۔ یہاں ہمیں ایک خاص قسم کی خوشبو جو مانوس بھی ہے اور غیر مانوس بھی ، جا بجابکھری ہوئی ملتی ہے۔ مانوس اس لیے کہ ہم بر صغیر میں ان بحثوں سے بہت پہلے نبرد آزما ہو چکے ہیں، اور غیر مانوس اس لیے کہ اس میں کچھ تازہ کاری کے شواہد بھی ہیں، جنہیں ہم محسوس تو کرتے ہیں لیکن زبان پر نہیں لاتے۔
۔۔۔۔۔۔مگر ہندو مت کی اکثریت کے مطابق تو انسان کی پیدائش کے وقت روح اس کے جسم میں داخل ہوتی ہے اور جسمانی موت کے بعد اسے ترک کر کے کسی دوسرے جسم میں داخل ہو جاتی ہے اور اس کی پیدائش کا انحصار اس کے کرموں یعنی اعمال پر ہے۔
۔۔۔۔۔۔ہاں، ہندو مت کی اکثریت اس میں یقین رکھتی ہے، مگر چونکہ ہندو مذہب ان گنت عقیدوں اور فرقوں پر مشتمل ہے اس لیے اس میں کئی نظریات پائے جاتے ہیں چاراواک فرقے میں اعتقاد رکھنے والے جسم کو ہی رو ح مانتے ہیں۔ ان کے مطابق مادی جسم کے علاوہ روح نامی کسی الگ مادے کاوجود نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن روح کے بارے میں اسلام کا عقیدہ تو ہندو مذہب سے بالکل مختلف ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ہاں، اسلام اس سلسلے میں عیسائی مذہب کے زیادہ قریب ہے۔ اسلام کا عقیدہ ہے کہ جسم کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی پیدائش ہوتی ہے اور جسم کی موت کے بعد وہ اپنی زندگی جیتی رہتی ہے۔ جسم سے اس کا ملاپ عارضی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔ اور بدھ مت کا عقیدہ؟
۔۔۔۔۔۔۔ بدھ مت کا عقیدہ تو ان سب سے زیادہ مختلف ہے۔ اس کے مطابق دائمی اور لافانی رہنے والی کوئی ر وح نہیں ہوتی۔ دھیان سے آگہی حاصل ہوتی ہے۔ روح یا ذات کا نظریہ در حقیقت فریبِ نظر ہے۔ بدھ مت عمل تناسخ میں یقین رکھتا تو ہے لیکن وہ کسی شے یعنی روح کے ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہونے میں یقین نہیں رکھتا۔
اس طویل اقتباس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مصنف نے ایک synthesizing عمل کے طور پر یہ ضروری سمجھا کہ مختلف مذاہب کی تعلیمات میںروح، اس کی ابدیت یا جسم سے اس کے تعلق کے حوالے سے جو کچھ بھی سادہ دل انسانوں کے لیے پیش کیا گیاہے، اس کا تقابلی موازنہ ہو جائے۔ گیتا کا اپدیش ارجن کو دیتے ہوئے کرشن بھگوان کے سامنے ایسا کوئی مسٗلہ نہیں تھا کیونکہ کرشن کے world view میں صرف بھارت ورش تھا اور وہ بھی ایسا بھارت ورش جس میں صرف ایک آریائی نژاد قو م بستی تھی۔ ہندو یا اس سے ملتا جلتا کوئی نام نہیں تھا۔ تقابلی پلڑے میں رکھ کر مختلف عقیدوں کو تولنے کی ضرورت کرشن بھگوان کو نہیں تھی، لیکن اس ناول کے واحد متکلم تک آتے آتے آج کے دھرت راشٹر کو اس بات کاا حساس ہونا ناگزیرتھا کہ وہ ایک ایسی دنیا میں رہ رہا ہے، جہاں مذہب کے نام پر سب سے زیادہ خون خرابہ ہوتا ہے، اس لیے کوئی جھگڑا بکھیڑا کھڑا کیے بغیر مختلف مفروضوں پر مبنی عوام الناس کے لیے قابل قبول عقیدوں کی درجہ بندی ایک ضروری امر تھا، جس کی طرف مصنف نے خاطر خواہ دھیان دیا۔
(۲)
اس سے پہلے یہ تحریر کیا جا چکا ہے کہ اس ناول کا اسٹرکچر غیر معمولی ہے۔ یہ بیک وقت کئی categories میں رکھا جا سکتا ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ناول کا مرکزی عدسہ، یعنی وہ محدب شیشہ جس سے واقعات قاری کے ذہن کے لینز lens میںمنعکس ہوتے ہیں، کیا ہے؟ تیسرا باب اس پر سے پردہ اٹھاتا ہے اور یکایک قاری کو خاک و خون سے لتھڑے ہوئے اسٹیج پر لا کھڑا کرتا ہے، جہاں بنفس نفیس کوئی کردار نہیں ہے اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں کردار ہیں۔ Event-oriented اس منظر نامے کے سبھی کردار یا تو مارے جا چکے ہیں یا قصہ گو (مورخ؟ ) دھرت راشٹر کے ذہن میں ان رینگتے، لنگڑاتے ہوئے زخمی، لاچار، بھوکے، دہشت زدہ ، ادھ مرے کرداروں کی طرح ہیں جو خود کچھ نہیں کہہ سکتے، یعنی ناول نگار نے ا ن کی ترجمانی کی ذمہ داری واحد متکلم پر ڈال دی ہے۔
عجیب منظر نامہ ہے اس ناٹک کا بھی کہ جس میں واقعات Off the stage ظہور پذیر ہوتے ہیں لیکن وقائع نگار کے کشادہ ذہن کے بڑے پردے پر ایک سلو موشن کی فلم کی طرح block by block منعکس ہوتے ہیں۔ شاید یہ صدیوں کے عرصہ ٔ کارزار پر پھیلے ہوئے دھرت راشٹر اور سنجے کا مقدر ہے کہ وہ ہر نئے مہابھارت کے خاموش تماشائی رہ کر اس کا بکھان کرسکیں۔
’’یہ جلتے ہوئے مکان ۔۔۔۔ عمارتوں سے اٹھتی ہوئی لپٹیں، جگہ جگہ جلتی ہوئی سڑتی لاشیں…بکھرے ہوئے خالی بکسے…ٹوٹے پھوٹے برتن اور کچھ ادھ مرے کراہتے ہوئے افراد اور چاروں اطراف کھنڈرات میں تبدیل گھر۔
آخر یہ کون سی جگہ ہے؟ میں کہاں کھڑا ہوں؟ اور میرے اِرد گرد یہ خوفناک منظر کس حقیقت کی عکاسی کر رہا ہے؟ معلوم نہیں یا شاید میرا ذہن اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہا؟
نہیں ایسی بات نہیں۔ در اصل نصف صدی سے زیادہ گزر جانے پر بھی میں ابھی تک اپنے گائوں کے کھنڈروں ہی میں کھڑا ہوں جسے مذہبی فرقہ واریت کا شکار ہونا پڑا تھا اور جو بر صغیر کے ہزاروںگاوئوں اور شہروں کی ترجمانی کر رہا ہے، جہاں فرقہ واریت کا بھیانک دیو آج بھی کسی نہ کسی صورت میں عریاں رقص کر رہا ہے اور ہزاروں بے گناہ اور معصوم افراد تعصب، فرقہ واریت ، علاقہ پرستی، ذات پات، اور اونچ نیچ کے نام پر بلی چڑھائے جا رہے ہیں اور شاید چڑھائے جاتے رہیں گے۔
آخر اس کا کون ذمہ دار ہے؟
میں؟ ۔۔۔۔ آپ ؟۔۔۔ یا ہم سب؟
اب مصنف کو اس بات کی ضرورت پیش آتی ہے کہ وہ اپنے بیانیے کو ایک مخصوس جگہ اور مخصوص وقت میں گاڑ سکے۔ اس کے لیے اس کے پاس سب سے آسان ذریعہ یہی ہے کہ وہ صاف الفاظ میں ان کو تحریر کرے تاکہ کسی شک وشبہ کی گنجائش نہ رہے۔ اس لیے اس منظر نگاری کے فورا بعد یہ سطریں آتی ہیں۔
یہ چھوٹا سا گائوں یا قصبہ، جس کا دنیا کے نقشے پر تو کیا، بر صغیر کے نقشے پر بھی کوئی نام و نشان نہیں اور جس سے بڑے اور حسین و دلکش گائوں ہزار ہا کی تعداد میں موجود ہوں گے۔ لیکن پھر بھی مری نظر میں یہ انتہائی خوبصورت اور پُر کشش مقام ہے۔
مارچ ۷۴۹۱ء کے فرقہ وارانہ فسادات میں یہ گائوں جل کر خاکستر ہو گیا اور ہندوئوں اور سکھوں کی آبادی یا تو یہاں سے بھاگ گئی یا بلوایئوں کے سفاک ہاتھوں سے لقمہ ٔ اجل بن گئی۔ مگر یہ تباہی و بربادی بر صغیر کے صرف اسی گائوں کا مقدر نہیں تھی بلکہ اس جیسے بے شما ر گائووں اور شہروں کا مقد بھی رہی ہے اور ان انسانیت کش قتل عام میں کہیں ہندو موت کے گھاٹ اتارے گئے اور کہیں مسلمان۔‘‘
صفحہ ۴۲ سے چل کر اس عجیب و غریب ناول کا قاری جب اپنے سفر پر گامزن ہوتا ہے تو اسے ہموار راستہ کہیں نہیں ملتا۔ بیانیہ اور داخلی خود کلامی سے عبارت لگ بھگ پونے دو سو صفحات اسے اونچی نیچی پہاڑیوں، چٹیل ڈھلانوں، نا ہموار سطحوں کے دشوا ر گذا رراستوں پر چلنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ یہ راستے راولپنڈی اور اس کے نواح میں بسی ہندوسکھ آبادی کی تباہ کاری، گلیوں، کوچوں، شاہرائوں میں قتل عام، زنا بالجبر، عورتوں کی انفرادی و اجتماعی خود کشی، لوٹ مار اور وحشیانہ آتش زنی کی دل کو لرزا دینے والی ایک بے حد دردناک داستان سناتے ہیں۔ بیچ بیچ میں مصنف کا ’’میں‘‘ دخل در معقولات کرتا ہوا بولتا رہتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس درندگی کا ذمہ دار صرف اور صرف ایک طبقہ نہ ہو کرایسی بنیاد پرستی اور مذہبی جنون ہے جس کی آگ چاروں طرف لگی ہوئی ہے۔ انسان انسان نہیں رہا، بھیڑیا یا بھیڑیے سے بھی کوئی بد تر درندہ بن گیا ہے۔ کل کے پڑوسی جو ایک دوسرے کے گلے ملتے تھے، خون کے پیاسے دشمن بن گئے ہیں۔
ان صفحات میں جوخون سے لتھڑے ہوئے ہیں، جا بجا ایک سوالیہ نشان ثبت نظر آتا ہے۔ یہ سوال مصنف بار بار دہراتا ہے، کہیں اونچے لہجے میں اور کہیں دبے دبے الفاظ میں، لیکن اس کا مقصد ایک ہی رہتاہے۔ خدا کون ہے؟ کیا ایک مسلمان خدا ہے، ایک ہندو خدا ہے، ایک سکھ یا عیسائی خدا ہے؟ کیا خدا واقعی اپنی مخلوق کے تئیں ’رحیم‘ ہے، ’کریم‘ ہے، بخششیں دینے والا ہے؟ یہ تسلیم کہ انسان انسان پر تو بھروسہ نہیں کر سکتا لیکن کیا وہ خدا کی نیک نیتی پر بھروسہ کر سکتا ہے؟
خدا کی مو ت کا اعلامیہ جس کی گونج یورپ سے ہوتی ہوئی انیسویں صدی میں دنیا بھر میں سنی گئی تھی، ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے،
خدا کی موت واقع ہو گئی
موت اور وہ بھی خدا کی موت؟
کتنا عجیب واقعہ تھا کہ خدا جو ہزاروں برس تک انسانی ذہن و شعور پر مسلط رہا اور جسے چیلنج کرنے کی کوئی جرأت نہیں کر سکتا تھا، آخر اسی طرح جس طرح انسانی فکر و فلسفہ سے اس کی ولادت ہوئی تھی، موت بھی واقع ہوگئی اور انیسویں صدی کے وسط میں جرمن فلاسفر فلپ مین لانڈر نے خدا کی موت کااعلان کر دیا۔
اور تبھی جرمن فلاسفر نیتشےؔ کی گونج سے ساری دنیا گونج اٹھی:
’’خدا انسان کے مضطرب اور بے سکون شعور کی پیداوا کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اور اس کے نتیجے میں تعذیب نفس (خود آزاری) کے فلسفے کو فروغ دیا گیا ہے …بلا شبہ خدا مر چکا ہے۔‘
مصنف کی ذاتی زندگی کی کچھ تفصیلات جن کی ناول کی تکنیک کے حوالے سے اشد ضرورت تھی ، اس بیانیے کو punctuate کرتی ہیں ، اور خدا، انسان کی بربریت اور موت کے اس منظر نامے کو بار بار حقیقت نگاری کی مضبوط چٹان پر لا کھڑا کرتی ہیں، لیکن ناو ل اپنے انت تک پہنچتے پہنچتے پھر اپنے دم آخری سے ایک ہی سوال بار بار پوچھتا ہوا دکھائی دیتا ہے، کہ اگر ہندو مت کے مطابق مصنف یا مصنف کے واحد متکلم کو آوا گون کے فلسفے کے مطابق پھر ایک بار اس دھرتی پر لوٹنا ہے تواس سے بہتر ہو گا کہ وہ دوبارہ جنم ہی نہ لے۔
او ر اگر ایسا ممکن نہ ہو تو۔۔۔۔مری دلی خواہش ہو گی کہ مجھے اس دنیائے رنج و غم میں دوبارہ لوٹ آنا نصیب نہ ہو اوراس جسد خاکی کے خاتمے کے بعد مجھے دوبارہ اس دوزخ نما دنیا میں لوٹ آنا نہ پڑے کیوں کہ۔۔۔۔
کیونکہ کیا؟ اس سوال کا جواب تو دو صد سے زیاد ہ صفحات پر جا بجا ملتا ہے، جن میں انسانی درندگی کی مکروہ مثالیں دی گئی ہیں!
یہ ناول اُردو میں اپنی قسم کی واحد دستاویز ہے، جو مذاہب کے صدیوں پر پھیلے ہوئے ارتقا، مادی اور روحانی فلسفے کی گنجلک تاریخ ، سماجی اور مذہبی سطح پرانسان اورانسان کے مابین اخوت کی ضرورت اور …آخر میں خد ا کی ہستی کے مفروضے پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ کوئی داستان ایک حتمی نکتے پر نہیں پہنچتی۔ کوئی کہانی ختم نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ زندگی ہمیشہ رواں دواں ہے، اس لیے یہ ناول بھی conclude نہیں ہوتا۔ قاری کو ان چبھتے ہوئے سوالوں کے جواب سوچنے پر مجبور کر کے چھوڑ دیتا ہے جو اس کے طول و عرض میں لگ بھگ ہر صفحے پر پوچھے جاتے رہے ہیں۔