بازارِ حسن کے شب و روز

(سفر نامہ۔چھٹی قسط)

\"\"
پروفیسرشہاب عنایت ملک

رابطہ نمبر:9419181351

23 فروری کا دن ہم نے قاہر ہ کی زیارتوں کے لیے مخصوص رکھا تھا۔اس دن صبح جلدی تیار ہو کر علیم اور براہیم کے ساتھ قاہرہ کی اہم زیارتوں پر حاضری دینے کے لیے چلے گیے۔ سیدہ عائشہ کے مزار پر حاضری دینے کے بعد ہم امام حسین علیہ سلام کے پوتے کی بیٹی سیدہ نفیسہ کے مزار پر حاضری دینے چلےگئے۔ یہاں فاتحہ خوانی کے بعد ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت عطیقہ اور حضرت امام صدیق کے بیٹے حضرت امام علی محمد کی مرقدوں پر فاتحہ خوانی کے لیے حاضرہوئے۔سیدہ نفیسہ کے مزار کی مسجد کے صحن میں تابوت میں دو مصریوں کی لاشیں رکھی ہوئیں تھیں جہاں ان کا جنازہ پڑھا جانا تھا۔معلوم ہوا کہ مصر میں جنازہ گاہ میں جنازہ پڑھنے کے بجائے مسجدمیں جنازہ پڑھ کر میت کو دفنا دیا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں خوابوں کی تعبیر کر نے والے امام علامہ ابن سیرین کے مرقد پر بھی فاتحہ خوانی کی۔خوابوں کی تعبیر کے متعلق عربی زبان میں لکھی گئی ان کی کتاب بہت مشہور ہے۔ اس کتاب کا ہندوستان میں بھی”تعبیر رویا“ کے عنوان سے ترجمہ ہو چکا ہے۔ہم حضرت عائشہؓ کی زیارت پر بھی حاضری دینے چلے گئے۔ یہاں ایک خوبصورت مسجد بھی حضرت عائشہ کے نام سے منسوب ہے۔ حضرت عائشہ امام صادق کی صاحبزادی تھیں۔ امام شافع کے مزار کا گیٹ اگر چہ کے باہر سے مقفل تھا لیکن ہم نے گیٹ سے ہی فاتحہ خوانی کی۔ اس مزار کا ان دنوں اندر سے مرمت کا کام چل رہا تھا۔ اسی لیے اس کا گیٹ زائیرین کے لیے بند کر دیا گیاتھا۔ جس وقت ہم اس مزار پر حاضری دے رہے تھے اس وقت انڈونیشیا سے عورتوں اور مردوں پر مشتمل ایک بڑا گروپ بھی حاضری دینے کے لیے آیا ہوا تھا۔ امام شافع عربی زبان کے بڑے شاعر اور ادیب بھی ہو گزرے ہیں۔ تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے ہم ابن جنحرالعقلانی کے مزار پر پہنچے۔ابن جنحر مصر کے نویں صدی کے ایک بڑے بزرگ ہو گزرے ہیں۔ یہ مصر کے نویں صدی کے مجدد بھی تھے۔ بخاری شریف کی تشریح انہوں نے ہی کی تھی۔ یہ بزرگ سینکڑوں کتابوں کے مصنف بھی تھے۔یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی حضرت سعیدی بن العاص اور سعید ابوالسرا کی مرقدیں بھی ہیں۔ مصر کے بڑے صوفی شیخ عثمان کی مرقد کی زیارت کرنے کے بعد ہم سعید عطا اللہ سکندری کی زیارت پر پہنچے۔یہ بھی مصرکے بڑے صوفی ہو گزرے ہیں۔ان کا شمار امام بوسیدی کے ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ یہ وہی امام بوسیدی ہیں جنہوں نے قصیدہ بردہ تحریرکیا تھا۔ ابن دقیدالعید مصر کے مجدد بھی تھے اور مفتی بھی۔یہ مصر کے آٹھویں صدی کے قاضی بھی تھے۔ دوپہر دو بجے تک ہم نے تقریباً مصر کی تمام اہم زیارتوں کی زیارت کر کے یہاں فاتحہ خوانی بھی کی۔اس کے بعد ہم سیدھا قاہرہ فیسٹول سٹی مال چلے گئے۔یہاں کے ایک خوبصورت ریستوران میں رانیہ فوزیہ نے ہمارے اعزاز میں دوپہر کے کھانے کا اہتمام کیا تھا۔ ڈاکٹر رانیہ فوزیہ عین شمس یونیورسٹی میں صدر شعبہئ اردو ہیں۔ میری ملاقات نومبر2019ء میں ان سے جے۔این۔یو کےاُس عالمی سیمی نار میں ہوئی تھی جو ولڈ اردو ایسویشن نے منعقد کیا تھا۔اس کے بعد ہم اکٹھے بنگال اردو اکادمی کے عالمی سیمی نار میں شرکت کرنے کے لیے بھی کولکتہ گئے تھے۔اس وقت ایران سے ڈا کٹر فرزانہ لطفی،مصر سے ڈاکٹر ولا،پروفیسر یوسف عامر اور ڈاکٹر مروا لطفی بھی ہمارے ساتھ تھے۔قاہرہ فیسٹول مال کے ایک عالیشان ریستوران میں ہم نے دوپہر کا کھاناکھایا۔کھانے میں کباب،مصری روٹی،آلو کے چپس،ایک خاص طرح کی چٹنی،کوفتہ،لیمن جوس اور مصری چاول سے ہم لطف اندوز ہوئے۔ یہ وہی قاہر ہ فیسٹول سٹی مال تھا جس کا ذکر میں گزشتہ صفحات میں کر چکا ہوں۔یہاں دن کوبھی بے حد رش دکھائی دیا۔یہاں کے خوبصورت فونٹین کو ڈانسنگ فونٹین بھی کہا جا تا ہے۔ شاید اس وجہ سے کہ یہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں عربی میوزک پر ہر وقت رقص کرتے رہتے ہیں۔ رانیہ فوزیہ نے حقہ پینے کے لیے بھی اصرار کیا جسے پینے سے ہم نے انکار کیا۔ البتہ پیلی دال کا سوپ ہم سب نے مزے سے پیا۔یہ مصر کا خاص سوپ ہے جسے پیلی دال سے بنایا جاتاہے۔ اس کا مزہ نہایت ہی لذیز ہوتا ہے۔یہاں سے فارغ ہونے کے بعد ہم پرانے مصر میں حضرت زین العابدین کی زیارت پر بھی گئے۔ایک روایت کے مطابق حضرت زین العابدین اسی جگہ مدفن ہیں۔ جس وقت ہم زیارت کے اندر پہنچے اس وقت وہاں عرس ہو رہا تھا۔ مصر کے دور دور کے علاقوں سے لوگ روایتی لباس پہن کر اس عرس میں شرکت کرنے کے لیے آئے تھے۔ یہاں ٹھیک اسی طرح سے عربی زبان میں قوالیاں گائی جا رہی تھیں جس طرح ہندوستان میں زیارتوں پر قوالیاں گائی جاتی ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر مصر کے روایتی کلچر کو دیکھنے کا موقعہ بھی ملا۔ شام کو ہمارے دوست عبدالرحمان ہم سے ہوٹل ملنے آئے۔ان کے ساتھ ان کا ایک عربی دوست بھی تھا۔ دونوں ہمیں ایک دفعہ پھر دریائے نیل کے کنارے لے گئے جہاں ایک ہوٹل میں ہماری خاطر تواضع لذیز مچھلی کھلا کر کی۔ ایک دفعہ پھر ہم دریائے نیل کے حسن سے لطف اندوز ہوئے۔ نیل کی خوبصورت شام سے ایک دفعہ پھر لطف اندوز ہونے کے بعد ہم اولادرجب پہنچے۔ اولا درجب دراصل قاہرہ کاایک بڑا شاینگ کمپلیکس ہے۔اس کی شاخیں تقریباً پورے مصر میں قائم ہیں۔ یہاں ضروریات ِ زندگی کی چیزیں مناسب داموں پر دستیاب ہیں۔ یہ کمپلکس چوبیس گھنٹے کھلا رہتاہے۔ہر وقت یہاں خریداروں کی بھیڑ رہتی ہے۔ اولادرجب کا سٹور ہمارے ہوٹل سے بالکل قریب تھا۔اولارجب سے ہم نے اپنی ضرورت کی چیزیں خریدیں۔ اس کے بعد ہم تقریباً رات 11 بجے واپس ہوٹل پہنچے۔

Leave a Comment