بعنوان ’ ’اردو زبان و ادب: ہند اور بیرون ہند‘‘ دو روزہ عالمی اردو کانفرنس اختتام پذیر

\"DSC_1982\"

٭ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ کی رپورٹ

پٹنہ:(اسٹاف رپورٹر) ’ ’اردو زبان و ادب: ہند اور بیرون ہند‘‘ کے موضوع پر ، آج ۲۱ مارچ کو بہار اردو اکادمی کے زیر اہتمام دو روزہ عالمی کانفرنس کا افتتاح عزت مآب شری رام ناتھ کووند گورنر آف بہار کے وست مبارک سے ہوا، جس کی صدارت وزیر اقلیتی فلاح ڈاکٹر عبدالغفور نے فرمائی اور پروفیسر سید ارتضیٰ کریم نے اپنے کلیدی خطبے سے نوازا۔
گل پیشی اور شمع افروزی کی رسم اداکئے جانے کے بعد سکریٹری اکادمی مشتاق احمد نوری نے اپنے استقبالیہ خطاب میں گورنر بہار کی عوامی خدمات اور بہار میںترقیات کی تیز رفتاری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تمام تر عدیم الفرصتی کے باوجود گورنر موصوف کی تشریف آوری ہمارے لئے اور پوری اردو آبادی کے لئے ایک یادگار لمحہ ہے۔ ہم سب اس کے لئے سراپا سپاس ہیں۔
اکادمی سمینار ہال میں منعقدہ اس کانفرنس کے موقع پر اپنے کلیدی خطبہ میں پروفیسر سید ارتضیٰ کریم نے عزت مآب گورنر بہار کی اردو نوازی اور ہمہ جہت ترقیات کے لئے ان کی فکر پرا ظہار ستائش کرتے ہوئے موجودہ عہد میںعالمی اردو بستیوں میںثقافتی سرگرمیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ اردو بلا شبہ آسان اور رابطے کی کامیاب زبان ہے ۔ اردو کی ترقی میںہر طبقہ کا حصہ ہے اور آج کے حالات میں اردو والوں کو اپنا احتساب کرنے اور اس زبان کے لئے نجی طور پر ایثار پسندی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے معیاری اسکولوں کے قیام کی ضرورت پر زور دیاتاکہ نئی نسل اردو کی طرف راغب ہو۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اردو کے ادبی ولسانی منظرنامہ پر نظر رکھتے ہوئے اردو پڑھنے والوں کی تعداد میںاضافہ کی فکر ہونی چاہئے ۔یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم روزمرہ کی زندگی میں اردو کے استعمال کو زیادہ سے زیادہ عام بنائیں۔
ڈرامہ نگار و شاعر جناب جاوید دانش (کناڈا) نے اپنی تقریر میںبتایا کہ کناڈا میں اردو بولنے والوں کی کثیر تعداد ہے اور وہ اس زبان و ادب کی ترقی کے لئے مسلسل کوشاں ہیں۔
ڈاکٹر عبدالغفور وزیراقلیتی فلاح نے اپنی مختصر صدارتی تقریر میں کہا کہ یہ ایک اہم کانفرنس ہے اور اس کے پروگرام سے استفادہ ہوناچاہئے۔ انہوں نے اردو کی موجودہ مایوس کن صورتحال کو سلجھانے اور احساس کمتری سے دور رہنے پر توجہ دلائی۔ وزیر موصوف نے کہا کہ اردو کی ابتدائی تعلیم کے ادارے قائم کرنے کی آج اشد ضرورت ہے۔
اس موقع پر پروفیسر سید ارتضیٰ کریم نے گورنر موصوف کا ذہن بہار میں اردو لکچرر کی بحالی اور خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری کے لئے ڈائرکٹر کے انتظام کی طرف بھی مبذول کرایا۔
گورنر بہار عزت مآب رام ناتھ کووند نے اپنے افتتاحی خطاب میں فرمایا کہ اردو ہندوستانی تہذیب کا عظیم ورثہ ہے۔ آزادی کی جنگ میں اردو کی فکری حصہ داری کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ قومی یک جہتی کی زبان اور گنگا جمنی تہذیب کی علمبردار ہے۔ گورنر موصوف نے بسملؔ عظیم آبادی کا مشہور شعر ؎سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے۔ پڑھتے ہوئے مزید کہا کہ اردو ادب کی پرورش و پرداخت میں مسلم اور غیر مسلم فنکاروں کا تاریخ ساز حصہ رہاہے۔ انہوں نے پریم چند اور دیگر فنکاروں کے ساتھ بہار کے اردو ادب میں شادؔ عظیم آبادی اور سہیل عظیم آبادی کی خدمات کو بھی یاد کیا ۔ گورنر موصوف نے اکادمی کی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اردو ہماری تہذیب میںہے اور اردو کی ترقی نے ہمیں پوری دنیا کو پریم کا پیغام دیا ہے اور اس میںبیرون ملک کے باشندوں کا بھی اہم کردار ہے۔ ہمیں اردو کا استعمال کرنا اور اس کی ترقی کے لئے کام کرنا ضروری ہے۔
اس موقع پر شکریہ کی تجویز پیش کرتے ہوئے پروفیسر اعجاز علی ارشد نے کہا کہ بیرون ہند جو لوگ اردو میںلکھ رہے ہیں وہ اردو کلچر کی عظمت کا ثبوت ہے۔ اس افتتاحی اجلاس کی نظامت سکریٹری اکادمی مشتاق احمد نوری نے فرمایا۔ اس موقع پر سکریٹری کے ہاتھوں گورنر موصوف کو مومنٹو پیش کیا گیا۔
افتتاحی اجلاس اور چائے کے مختصر وقفہ کے بعد مقررہ وقت کے مطابق پروفیسر سید ارتضیٰ کریم (دہلی) پروفیسر عبدالصمد (پٹنہ) اور جناب مہتاب قدر (جدہ) کی مشترکہ صدارت میںپہلے اجلاس کا آغاز ہوا جس کی نظامت ڈاکٹر نسیم احمد نسیم نے کی۔ اس میں شہاب الدین احمد (قطر) نے ’’خلیج کا اردو ادب‘‘ کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ خلیجی ممالک میں اردو کی نئی بستیاں تیزی سے ترقی کرر ہی ہیں۔ انہوں نے منظوم ادب، صحافت اور شعری محفلوں کے انعقادکا ذکر کیا اور کئی ادبی انجمنوں کے حوالے دیے ، لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ ترقی کے اسباب واضح ہیں، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ بنیادی وسائل و سہولیات کی کمی کی وجہ سے خلیج کا اردو ادب ناقدین و محققین کے لئے باعث کشش نہیںبن رہا ہے، لہٰذا اس رخ پر توجہ رکھتے ہوئے مہجری ادب پر خصوصیت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر ارشد مسعود ہاشمی (گوپال گنج) نے ’’اردو زبان و ادب چین میں‘‘ کے زیر عنوان قدیم و جدید معلومات سے آراستہ نہایت پر مغز مقالہ نذر سامعین کیا اور بتایا کہ وہاں اردو فکشن اور شاعری کے چینی تراجم کا کام مسلسل فروغ پارہاہے اور چینیوں کی نظر میںاقبالیات ایک محبوب موضوع ہے اور وہ اقبالؔ کی شاعری کو راہ نجات و عمل سے عبارت سمجھتے ہیں۔ چینی زبان میںپریم چندی فکشن کے تراجم بھی مقبول ہیں۔
ڈاکٹر حامد علی خاں (پٹنہ) نے اردو کو اسلامی اور ہندوستانی تہذیب کا نقطہ اتصال بتاتے ہوئے متعدد سنین اور دیگر حوالہ جات کے ساتھ اپنے مقالے میں اردو بستیوں کی قدیم و جدید روایات اور ان کے فروغ کی صورتحال پر روشنی ڈالی اور بتایاکہ مصنفین ، ادبی ادارے ، خواتین قلم کار، جامعاتی تعلیم اور اردو بولنے والوں کے لحاظ سے ان ممالک میںواضح پیش رفت ہوتی جارہی ہے۔
پروفیسر صغیر افراہیم (علی گڑھ) نے ’’ہجرت کا بیانیہ اور معاصر اردو فکشن‘‘کے موضوع پر اپنا جامع مقالہ پیش کرتے ہوئے کئی برجستہ سوالات اٹھائے اور ہجرت کی مختلف نوعیت پر روشنی ڈالی اور منٹو، قاضی عبدالستار، عینی اور پیغام آفاقی کے حوالے سے بتایا کہ کس طرح الگ الگ فن کاروں کے یہاں ہجرت کے کرب کی بازیافت کا الگ الگ انداز ملتا ہے۔ انہوں نے برسبیل تذکرہ جدید ناول’’آخری سواریاں‘‘ کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ بہر صورت اس قسم کے فن پاروں میں ہجرت کے حوالے سے تین نسلوں کی نفسیاتی کشاکشی ملتی ہے اور اس سے مہجری ادب کے کینوس کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔
اپنے صدارتی خطابات کے دوران جناب مہتاب قدر (جدہ) نے مقالہ نگاروں کی ستائش کرتے ہوئے ایسے اسکالروں کی ضرورت پر توجہ دلائی جو مہجری ادب پر باقاعدہ کام کریں۔
پروفیسر عبدالصمد (پٹنہ) نے اس بات پر زور دیا کہ زبان کے پھیلائو پر محنت ہونی چاہئے۔ انہوں نے اس عالمی کانفرنس کے موضوع کو ضروری، اہم اور منفرد قرار دیتے ہوئے اور غیر ملکی مندوبین کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہاں جو مقالے پڑھے گئے وہ یقینا معلومات افزا اور مقالہ نگاروں کی محنت پر گواہ ہیں۔ انہوں نے ان پہلوئوں کی طرف بھی اشارہ کئے جن کا ہجرت کرنے والوں کو خلاف توقع اور خلاف تصور سامنا کرنا پڑا۔
پروفیسر سید ارتضیٰ کریم (دہلی) نے کہا کہ علمی محفلوں سے خاطر خواہ استفادہ ہمارے نوجوانوں کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے لفظ ہجرت کے جدید مفاہیم کی طرف جامع اشارے کئے اور کہا کہ علم و فکر کی دنیا وسیع ہے اور ہماری نظر میں اردو کا ماحول و مستقبل یقینا حوصلہ افزا ہے۔
اس اجلاس کے اختتام پر کلمات تشکر نذر کرتے ہوئے سکریٹری اکادمی مشتاق احمد نوری نے کہا کہ بیشک اردو زندہ زبان ہے اور اس کے لئے ہمیں اپنے گھر سے اردو کا کام شروع کرنے کی ضرورت ہے ۔
وقفہ طعام کے بعد دن کے ڈھائی بجے سے پروفیسر علیم اللہ حالی، محترمہ وفایزدان منش (تہران) اور جناب اشفاق احمد (دوحہ) کی مشترکہ صدارت میں دوسرے اجلاس کا آغاز ہوا، جس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر زاہدالحق (حیدرآباد) نے انجام دیے۔ اس اجلاس میںڈاکٹر واحد نظیر (دہلی) نے مہجری ادب کے تعلق سے اپنا پر مغز اور نہایت نفیس اسلوب میں لکھا گیا مقالہ پیش کیا اور ’’مہجر‘‘ کے لفظی ماخذ، ہجرت کے قرآنی نظریے اور اس کے ادبی مفاہیم کی طرف بلیغ اشارے کرتے ہوئے کئی اہم سوالات اور نکات کی طرف توجہ دلائی۔ انہوں نے بتایا کہ مہجری ادب کا تعلق زبان سے نہیں، اہل زبان سے ہے اور سبھی فنکاروں کی تخلیقات پر بلاتکلف مہجری ادب کا لیبل نہیںلگایا جاسکتا۔ انہوں نے مہجوری اور مہجری کے فرق کی وضاحت کرتے ہوئے نقل مکانی کے جذباتی کوائف کو برجستہ مثالوں سے سامنے لایا اور لطیف تفاوتی پہلوئوں پر غور و فکر کی دعوت دی۔
جناب ندیم ماہر (دوحہ) نے اپنے مقالے میںبتایا کہ مہجری ادب کی اصطلاح تارکین وطن عرب لکھاریوں کی دین ہے۔ انہوں نے ہجرت کے عمل کا زمانی منظر و پس منظر سامنے لاتے ہوئے کہا کہ ترک وطن کاکرب مسلم ہے، مگر اس نے بہر حال لکھنے والوں کی صلاحیت میںکمی نہیں آنے دی۔ انہوں نے قطر میں اردو کی صورت حال اور شعری سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے ناسٹلجیائی مضمون کے اشعار سے بھی نوازا اور یہ بھی کہا کہ اس معاملے میں برصغیر کاکینوس ذرا مختلف ہے۔
ڈاکٹر مشتاق احمد (دربھنگہ) نے بہار سے پاکستان اور پاکستان سے امریکہ ہجرت کرنے والے شاعر رفیع الدینؔ راز کی کلیات ’’سخن سرمایہ‘‘ کے حوالے سے اپنے مقالے میں ان کی شاعری پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ان کا اصل جوہر غزلوں میں کھلتا ہے ۔ ہجرت ان کا مقدر رہی، ان کے یہاں موضوعات کا تنوع ہے، وہ بلا شبہ ’’مانوس مشاہدوں اور تجربوں کے ترجمان‘‘ شاعر ہیں اور ان کی شاعری چشمہ حیات کا احساس دلاتی ہے۔
ڈاکٹر احمد کفیل (گیا) نے اپنے مقالہ ’’اردو کے فروغ میں اس کی پیدائش اور وجہ تسمیہ کے کردار‘‘ میں تجزیاتی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اردو کو ملوان زبان کہنا بڑی غلطی ہے۔ عربی و فارسی کا رول اصلاً اردو کی پیدائش میں نہیں بلکہ اس کی آرائش میں ہے۔ اس زبان کا نام ریختہ عام کرنا غلط ہے۔ علاقائی زبانوں سے بہر حال اردو کے رشتے کی اہمیت ہمیں سمجھنی چاہئے۔ جناب کفیل نے اپنے اس خالص لسانی مقالہ میں ان تعصبات کا بھی ذکر کیا، جس کی شکاریہ زبان فرنگی عہد میں ہوئی۔
جناب مہتاب قدر (جدہ) نے ’’جدہ کے تاریخی مشاعرے اور اس کی جدید صورت حال ‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے وہاں کے شاعروں اور نثر نگاروں کا تذکرہ کیا اور اس تعلق سے وہاں کی صحافت کے مثبت کردار کی طرف بھی اشارے کئے۔
مقالہ خوانی کے بعد وقفہ سوالات کے دوران جناب اسفر فریدی، جناب صفدر امام قادری اور جناب عابد نقوی نے کئی اہم جہات کی نشاندہی کی اور جہاں ایک طرف تلفظ کے حسن و صحت پر توجہ کی بات آئی ، وہیں لسانیات کا سراسما جیات و سیاست سے جوڑنے میںحد درجہ احتیاط اور وضاحت کی ضرورت کا احساس بھی اجاگر ہوا۔
جناب احمد اشفاق (دوحہ) نے اپنے صدارتی خطاب میں مقالہ خواں حضرات کی تحریروں کو مدلل ،معلوماتی اور پر مغز بتایا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں ڈاکٹر واحد نظیر نے حسب موضوع معانی و مفاہیم پر مدلل گفتگو کی اور جناب ندیم ماہر نے معلوماتی تحریرسے نوازا، وہیںڈاکٹر مشتاق احمد کے مقالے سے مہجری ادب کے کسی ایک فن کار کی شخصیت پر اظہار خیال کی ضرورت پوری ہوئی اور احمد کفیل نے قابل بحث سوال سامنے لایا۔
محترمہ وفایزدان منش (تہران) نے اپنے صدارتی تاثرات میں مقالہ نگاروں کی کاوشوں کو لائق ستائش بتاتے ہوئے کہا کہ اردو میں فارسی کا سرمایہ چھپا ہے۔ جب تک ہندوستان ہے، تب تک اردو زبان بھی رہے گی۔ انہوں نے ایران میں اردو مہجری ادب کے تعلق سے بعض اشارے کئے اور کہا کہ اب ضرورت ہے کہ فارسی اردو کو گلے لگائے ۔
پروفیسر علیم اللہ حالی نے اپنے صدارتی کلمات سے نوازتے ہوئے جہاں تلفظ میںفرق اور غلطیوں کے اسباب و عوامل کی طرف اشارے کئے، وہیں ہجرت کے تعلق سے بتایا کہ ہجرت صرف نقل مکانی کا نام نہیں ہے۔ ہجرت کے بعد بھی جب مایوسی ہی ہاتھ آئے تب مہجری ادب وجود میں آتا ہے۔ مہجری ادب میں بہر حال ناتکمیلیت کا درد دوحزن ہوتا ہے۔ جناب حالی نے برسبیل تذکرہ پاکستان میںرفیع الدین رازؔ کی مہمان نوازی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کے عرفان صدیقی تھے۔ انہوںنے ڈاکٹر واحد نظیر کے مقالے کو پائیدار بتایا، مگر اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ اختتام پر پہونچ کر یہ مقالہ سراپا سوال بن گیا ہے اوراس میں کوئی ٹھوس فیصلہ نہیںہے۔ پروفیسر موصوف نے اس بات پر بھی توجہ دلائی کہ ہمیں اعتراض کے انداز میںسوالات سے بچنا چاہئے۔
سکریٹری اکادمی جناب مشتاق احمد نوری نے کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا کہ صحت تلفظ کی اہمیت اپنی جگہ ،مگر اصل بات یہ بھی ہے کہ لفظیات کے تفہیمی پہلو پر توجہ رکھی جائے۔ انہوں نے کئی دلچسپ واقعات کے حوالے سے کہا کہ دراصل اردو میں دیگر زبان کے الفاظ ضم کر لینے اوران کے لہجے ہضم کر لینے کی خدا داد صلاحیت ہے۔
حسب پروگرام شام چھ بجے سے جناب جاوید دانش (کناڈا) نے میلوڈرامہ ’’داستان ہجرتوں کی‘‘ پیش کیا ۔ اس پروگرام میں وزیر اقلیتی فلا ح ڈاکٹر عبدالغفور کی بھی تشریف فرما رہے۔ یہ اپنی نوعیت کی منفرد اور نہایت دلپذیر پیش کش تھی جس سے ناظرین و سامعین خوب خوب محظوظ ہوئے۔
واضح رہے کہ دو روزہ عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے دن ۲۲ مارچ کو ساڑھے دس بجے سے پروگرام کا آغاز ہوگا۔ تیسرا اجلاس بارہ بجے دن تک چلے گا اور پھر سوابارہ بجے سے چوتھے اجلاس کا اور تین بجے سے پانچویں اجلاس کا انعقاد ہوگا۔ یہ سبھی اجلاس ملک اور بیرون ملک کے مہمانوں کی شرکت سے با رونق بنیں گے اور ان کے کلمات سے کانفرنس کے موضوع کی مختلف جہتیں روشن ہوں گی۔ پانچویںاجلاس کے بعد شام چھ بجے سے ایک شعری نشست شروع ہوگی جس میں بیرون ملک شعرا کے علاوہ مقامی شعرائے کرام اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ فرمائیں گے۔
بہار اردو اکادمی کے زیر اہتمام دو روزہ عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے دن ۲۲ مارچ کو حسب اعلان اکادمی سمینار ہال میں’’تیسرے‘‘، ’’چوتھے ‘‘اور ’’پانچویں‘‘ اجلاس کا انعقاد ہوا اور بعد ازیں شعری نشست بھی منعقد ہوئی۔ پابندی وقت کے ساتھ، جناب شفیع مشہدی اور پروفیسر اعجاز علی ارشد کی مشترکہ صدارت میں ’’تیسرے اجلاس‘‘ کی شروعات ساڑھے دس بجے سے ہوئی۔ اس میں جناب عتیق انظر (دوحہ) نے ’’ادب مہجر‘‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بیسویں صدی میں ہجرت کا خاص تعلق معاشیاتی اسباب و عوامل سے ہے اور مہجری ادب خصوصاً شاعری میں نوع بنوع انداز سے ہجرت کے موضوعات نظم ہوئے ہیں اور اپنی مٹی سے رابطہ رکھنے کی بات کہی گئی ہے۔
ڈاکٹر خالد سیف اللہ (علی گڑھ) نے ’’مردم شماری اور اردو کی صورتحال‘‘ کے موضوع پر اپنے مقالے میںاعدادوشمار کے ساتھ بعض اہم تجزیے پیش کئے اور برجستہ امکانات و خدشات کی طرف توجہ دلائی۔ انہوں نے کہا کہ اردو کا ذریعہ تعلیم ہونا اور اردو پڑھنا پڑھانا الگ الگ بات ہے آج ایسی تنظیمیں بنانے کی ضرورت ہے جو رضا کارانہ طور پر مقامی مسائل کے تجزیے اور ان کے حل سامنے لائیں۔
ڈاکٹر زر نگار یاسمین نے ’’اردو افسانہ: مشرق بنام مغرب‘‘ کے عنوان سے اپنا جامع مقالہ نذر سامعین کرتے ہوئے کئی اہم اور تاریخی و تقابلی نکات کی طرف توجہ دلائی اور بہار کے مہاجر افسانہ نگاروں کویاد کرتے ہوئے کہا کہ مغرب کی طرف ہجرت کرنے والوں نے بہر صورت نری جذباتی وا بستگی سے یک گونہ دوری بنائے رکھا ہے، اور بعض افسانہ نگاروں کے یہاں بیانیہ سے قدرے انحراف بھی ملتا ہے۔
ڈاکٹر ریحان غنی (پٹنہ) نے اردو تحریک کے عالمی منظرنامہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کئی اہم سوالات اٹھائے اور بروقت بیداری لانے اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اردو تحریک کا کوئی قومی یا عالمی منظر نامہ نہیں۔ البتہ بہار کے حوالے سے اس کا منظر نامہ روشن ہے اور اردو تحریک آج بھی یہاں زندہ ہے۔ جناب ریحان غنی نے نام بنام اردو تحریک کے محسنین کو بھی یاد کیا۔
محترمہ وفایزدان منش (تہران) نے ’’نئی بستیوں میں اردو ‘‘کے عنوان پر اپنے خیالات و مطالعات کا اظہار کرتے ہوئے بیرون ملک سفر کے اسباب و عوامل کی جہتوں کا جائزہ لیا اور کہا کہ بہر صورت مہجری ادب ہمارا بڑا سرمایہ ہے اور اس پر بالا ستیعاب تنقیدی و تجزیاتی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ایران کے خصوصی حوالے سے بھی بعض نکات کی نشاندہی کی۔
صدارتی خطابات سے پہلے سوال و جواب کے مختصر وقفہ میں جناب جمشید قمر، ڈاکٹر محمد بشیر الدین، محمد اظہار الحق اور جناب شموئل احمد نے حصہ لیا اور ان کے جوابات کی صورت میں یہ نکات چھن کر سامنے آئے کہ اردو رسم الحظ سے دوری جو ہمیں ہندی کی طرف لے جارہی ہے، نہایت خطرناک ہے اور یہ کہ اردو اصناف شعر و ادب کا فارسی پر کچھ خاص اثر نہیں پڑا ہے۔ نیز یہ کہ لسانی اتحاد بنانا آج کی اہم ضرورت ہے۔
اس موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں ڈاکٹر اعجا ز علی ارشد نے پیش کردہ مقالات کو معیاری بتایا اور سوال و جواب کے تعلق سے کہا کہ اس پروگرام میں نئی نسل کی حصہ داری ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جناب ریحان غنی کی اس بات سے اتفاق نہیںکیا جاسکتا کہ اردو تحریک کا کوئی عالمی منظرنامہ نہیں ہے۔ یوروپ اور گلف کے مہاجر فنکار و دانشور بہرحال اردو کے فروغ میںحصہ لے رہے ہیں اور قومی سطح پر بھی ہمارے بعض مشاہیر اردو کے لئے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے جہاں وفایزدان منش کے مقالے کی ستائش کی وہیں یہ بھی کہا کہ ڈاکٹر زرنگار یاسمین بھی موضوع سے انصاف کرنے میں نمایاں حدتک کامیاب رہیں۔
جناب شفیع مشہدی نے اپنے صدارتی کلمات سے نوازتے ہوئے کہا کہ جناب عتیق انظر کے مقالے میںہجرت کے کرب کی پیش کش نہایت پر اثر ہے۔ مہجری ادب نے بلاشبہ اردو ادب کو نئے زاویہ نظر سے باثروت بنادیا ہے۔ مردم شماری کے اعداد و شمار کی نوعیت کو انہوں نے قطعاً غیر حتمی بتاتے ہوئے کہا کہ اصلاً اردو کے تعلق سے بہت سارے المیے کی چادر ہم نے خود اوڑھ رکھی ہے۔ فروغ زبان پر خرچ کے لئے ہمیں اپنے بجٹ میںترجیحی گنجائش رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ ادب کے لئے کام کرنے کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن زبان کے لئے کام کرنا خصوصاً اہم ہے۔ اردو ہمارے بزرگوں کی امانت ہے اور ہمیں اسے اگلی نسلوں تک پہونچانے میں کسی طرح کی خیانت کا مرتکب نہیںہونا چاہئے۔
اس اجلاس کے اختتام پر سکریٹری اکادمی جناب مشتاق احمد نوری نے کلمات تشکر کے ساتھ برسبیل تذکرہ یہ بھی وضاحت کی کہ بہت سارے معاملوں اور مطالبوں میںضابطہ کی بندش ہمارے سامنے ہوتی ہے انہوں نے کہا کہ بہر حال جو باتیں سامنے آرہی ہیں ان کی اہمیت کے پیش نظر ان پر ہماری توجہ اور کاوش مسلسل جاری ہے ۔ اردو کی ترقیاتی فکر میں ہمیں انشاء اللہ کامیابی ضرور ملے گی۔
’’چوتھا اجلاس‘‘ جناب جاوید دانش (کناڈا) پروفیسر صغیر افراہیم (علی گڑھ) اور ڈاکٹر جاوید حیات کی مشترکہ صدارت میں ڈھائی بجے دن سے شروع ہوا ۔ اس میں ڈاکٹر ہمایون اشرف (ہزاری باغ) نے ’’ہند اور بیرون ہند میں اردو زبان و ادب کی موجودہ صورتحال ‘‘ پر نہایت شرح و بسط سے روشنی ڈالی اور وسیع عصری تناظر میں متنوع جہتوں سے نفس موضوع کا جائزہ لیا۔ انہوں نے اپنے مقالے میں نئے حالات کا گہرائی سے مطالبہ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج جو نئے امکانات ابھر رہے ہیں انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اردو کے چند کمزور عصری کا احوال کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اصل مسئلہ قومی زبان کا ہے ۔ اردو کو فقط مادری زبان کے خانے میں ڈھکیل رکھنا کچھ زیادہ مستحسن نہیںکہا جاسکتا ۔
جناب انوارالحسن وسطوی (حاجی پور) نے ’’اردو تحریک عالمی تناظر میں‘‘ کے عنوان پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ اس کے دونوں بڑے پڑوسی ملک کے علاوہ برطانیہ اور دیگر ممالک میں بھی اردو اپنے عہد پیش رفت سے گزر رہی ہے۔ اردو تحریک نے نہ صرف بہار کا منظر نامہ بدلا بلکہ اس کے ثمرات دیگر ریاستوں میں بھی سامنے آئے۔ انہوں نے نہ صرف اردو تحریک کی تاریخ کا اجمالی جائزہ لیا بلکہ عصر حاضر میں اردو کے سرگرم اداروں کی خدمات کا بھی ذکر کیا۔
جناب احمد اشفاق (دوحہ) نے خلیجی ریاست خصوصا قطر میں اردو کے تازہ احوال پر روشنی ڈالی اور کہا کہ خلیج میںقطر اردو کی راجدھانی ہے ۔ یہاں اب تک بہت سارے اہل قلم مدعو کئے جا چکے ہیں اور سرکاری سرپرستی میں اردو کی تدریس کا نظم ہے جس سے بڑی تعداد میں طلبا وطالبات استفادہ کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر جاوید حیات (پٹنہ) نے اپنے صدارتی تاثرات میں اس بات پر خوشی ظاہر کی کہ اس اجلاس میںزبان کے حوالے سے مفید مطلب باتیں ہوئیں۔ انہوں نے ڈاکٹر ہمایون اشرف کی پیش کش کو اردو کے عالمی منظر نامہ پر بھرپور مقالہ بتایا اور کہا کہ جناب انوارالحسن وسطوی نے جناب ریحان غنی کی باتوں کو بڑے سلیقے سے آگے بڑھایا اور جناب احمد اشفاق کے ذریعہ بھی بہت حوصلہ افزا معلومات ملی۔
پروفیسر صغیر افراہیم (علی گڑھ) نے اپنے صدارتی خطاب میں ڈاکٹر ہمایون اشرف کے مقالے میں بعض پہلوئوں کی خصوصی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کسی بھی طرح ہندو اور بیرون ہند میں اردو زبان و ادب کے حال و مستقبل سے مایوس نہیںہونا چاہئے۔
جناب جاوید دانش نے اپنی صدارتی تقریر میں کناڈا کی ادبی و سماجی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یوروپ میںتارکین وطن کو دوسرے یا تیسرے درجے کا شہری سمجھے جانے کی بات قطعا غلط ہے، انہوں نے ڈاکٹر ہمایون اشرف کے مقالے میںڈرامہ کا ذکر چھوٹ جانے کی نشاندہی کی اور اپنے تجربات بتاتے ہوئے کہا کہ بچوں کی تعلیمی دلچسپی کے لئے محض متون پڑھا دینا کافی نہیںبلکہ ان کے لئے دیگر مفید تعلیم و دلچسپ سرگرمیوں کا اہتمام بھی ہونا چاہئے۔
وقفہ طعام کے بعد تین بجے سے جناب شموئل احمد (پٹنہ) اور پروفیسر رئیس انور (دربھنگہ) کی مشترکہ صدارت میں’’پانچویں اجلاس‘‘ کا آغاز ہوا۔ اس میںڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی (پٹنہ) نے امریکی خاتون افسانہ نگار لالی چودھری کے فکر و فن اور خصوصاً ان کے یہاں تانیثیت کے واضح عناصر کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے مجموعہ ’’حد چاہئے سزا میں‘‘ کے حوالے سے نہایت جامع گفتگو کی اور تنقیدی اور تازہ مطالعاتی حوالوں کے ساتھ ان کی کہانیوں کے متنوع موضوعات اور اسلوبی خصائص پر روشنی ڈالی۔ جناب اعظمی نے کہا کہ لالی چودھری بہر حال مغرب کی جنسی افراتفری سے متنفر ہیں اور انہیں بلا تکلف شعور ذات کی حامل اور قصہ گوئی کے آرٹ سے واقف مغربی تہذیب کی سنجیدہ سفیر افسانہ نگار کہا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر زاہد الحق (حیدرآباد) نے ’’مہجری ادب کے نئے تصورات اور جاوید دانش کے نئے پرانے ڈرامے‘‘ پر اپنا پر مغز مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ترک وطن جناب دانش کا خاص موضوع ہے اور ان کے ڈراموں نے مہجری ڈرامے کا نیا تصور سامنے لایا ہے۔ ان کا مجموعہ ’’ہجرت کے تماشے‘‘ کردار نگاری میں ان کے سلیقہ پر گواہ ہے۔ وہ ڈرامے کے لسانی آہنگ پر پوری گرفت رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں تجسس کی خوبیاں بھی نمایاں ہیں اور بعض ڈراموں میں گلف کے کچھ مسائل بھی آگئے ہیں۔
جناب ریاض عظیم آبادی نے ’’اردو تحریک عالمی تناظر میں‘‘ کے موضوع پر اپنے خیالات پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو تحریک اصلاً اردو کی بقا و جدوجہد کا نام ہے۔ انہوں نے جمہوری عہد میں تحریک کی اہمیت و اقسام کی طرف جامع اشارے کئے اور بتایا کہ اردو کے شیدائی ہمیشہ ہی متحرک رہے ہیں اور اردو کی تحریک کسی نہ کسی انداز سے آج بھی دنیا کے مختلف ملکوں میں پروان چڑھ رہی ہے۔
ڈاکٹر ممتاز احمد خاں (حاجی پور) نے اپنی گفتگو میںاردو تحریک کی نوعیت و اثرات کے تعلق سے برجستہ سوالات سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ آج کہیں کوئی اردو تحریک نہیں ہے انہوں نے مزید کہا کہ آج اصلاًیہ دیکھنا ہے کہ اردو تعلیم و تدریسی کا کام کس پیمانے پر ہو رہا ہے۔ آج کی بے حسی کیسے دور ہو سکتی ہے اور نئی نسل میں اردو رسم الحظ سے جو دوری بڑھ رہی ہے اسے کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے۔
پروفیسر رئیس انور (دربھنگہ) نے اپنے صدارتی خطاب میں ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی اور ڈاکٹر زاہد الحق کے مقالات کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ جناب ریاض عظیم آبادی کا خیال درست ہے کہ صحافت اور شخصیات سے اردو تحریک کو مسلسل سہارا ملا ، البتہ ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کی اس بات سے اتفاق مشکل ہے کہ اس وقت اردو تحریک ناپید ہو چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مشاعرے بھی یک گونہ تحریک کا حصہ ہوتے ہیں اور حکومت کی توجہ مبذول کرانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر چوتھی ، آٹھویں اور دسویں جماعت کے طلبا و طالبات میںاردو کا شعور پیدا کیا جائے اور بیت بازی کا اہتمام کرکے انہیں انعامات دیے جائیں تو اس سے بہتر نتائج سامنے آنا یقینی ہے۔
جناب شموئل احمد نے اپنے صدارتی کلمات سے نوازتے ہوئے کہا کہ اکادمی کے زیر اہتمام منعقدہ اس دو روزہ کانفرنس کا موضوع نہایت ہی وسیع اور اہم ہے۔ انہوں نے مہجری ادب کے تعلق سے یہاں اور وہاں کے مسائل و معاملات کو کامیابی سے دیکھنا ہی اور دکھانا اہم قرار دیا اور کہا کہ سجاد ظہیر کے ناولٹ سے بیرون ملک کے ادب کی شروعات ہوئی ۔ ڈاکٹر شہاب ظفر کی پیش کش کو تخلیقی تنقید کا نمونہ قرار دیتے ہوئے اور تانیثیت کی ضرورت بتاتے ہوئے جناب شموئل احمد نے قدرے تفصیل اور حوالہ متون کے ساتھ بیرونی شاعرات کی نظموں کے تیور سمجھنے کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ ادب اور مذہب کی اخلاقیات بہر حال الگ الگ ہے۔ انہوں نے واضح لفظوں میں یہ بھی کہا کہ اردو بہر حال زندہ ہے اور خصوصاً نچلے اور متوسط طبقے سے زندہ ہے کیونکہ وہ اردو پڑھتا ہے۔ ہمیں کسی مایوسی میں پڑنے کی ضرورت نہیں ۔
جناب سلطان اختر نائب صدر اکادمی نے شکریہ کی تجویز پیش کرتے ہوئے اردو کے بارے میں اپنے برجستہ اور یقین افزا اشعار سے نوازا۔ واضح رہے کہ آج کے تینوں اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر زاہدالحق نے نہایت حسن و خوبی اور ادبی شگفتگی کے ساتھ انجام دئے۔
شام چھ بجے سے ایک شعری نشست کا اہمتام ہوا جس میں بیرون ملک مہمان شعرائے کرام کے علاوہ متعدد و مقامی شعرائے کرام نے اپنے کلام سے سامعین کو تادیر محظوظ کیا۔
\"DSC_2831\"
\"DSC_2699\"
\"DSC_2782\"

Leave a Comment