بنگلہ دیش کے شب وروز

(سفرنامہ)تیسری قسط
\"\"
پروفیسرشہاب عنایت ملک
رابطہ نمبر۔94191-81351
تقریباً 8 بجے شام ہماری ٹیکسی ڈھاکہ یونیورسٹی کے احاطے میں داخل ہوئی۔شام ہونے کے باوجودہرطرف طلباکی چہل پہل نظرآرہی تھی۔یونیورسٹی کے اندرموجودکئی طرح کی دکانیں ایک بازارکامنظرپیش کررہی تھیں۔معلوم کرنے پر پتہ چلاکہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں رات گیارہ بجے تک اسی طرح طلباکی بھیڑرہتی ہے جوشام کویونیورسٹی میں اپنی کلاس پڑھنے کوآتے ہیں۔یونیورسٹی کے مختلف اسٹالوں پرطلباکابے حدرش تھااوراس بھیڑبھاڑ میں رکشے والوں کی اچھی خاصی تعداداس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ بنگلہ دیش کے اکثرلوگ غربت کاشکارہیں۔طالب علم اوررکشاوالے بنگلہ زبان میں بات چیت کررہے تھے جبکہ تنویرساقی اورمحمدفردوس مجھے ان کی باتوں کواُردومیں سمجھارہے تھے۔ساقی اورفردوس نے بتایاکہ ڈھاکہ یونیورسٹی کاقیام انگریزوں نے 1921ءمیں عمل میں لایا۔یونیورسٹی 500ایکڑ رقبہ پرپھیلی ہوئی ہے۔بنگلہ دیش کی یہ قدیم دانش گاہ 87 شعبوں پرمشتمل ہے جبکہ 13 انسٹی ٹیوٹ بھی اس یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے والے طلباکی کل تعدادتقریباً40,000 ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی میں اندرداخل ہوتے ہی یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے انسان کسی چھوٹے شہرمیں داخل ہوگیاہے ۔یونیورسٹی کے بڑے گیٹ کے ساتھ ہی ایک خوبصورت مسجددیکھنے کوملی جسے قیام پاکستان کے بعدتعمیرکیاگیاہے ۔جس وقت ہم مسجدکے قریب سے گذرے ،اندرسے نمازیوں کی اچھی خاصی تعدادنمازپڑھ کرباہرآرہی تھی جس سے معلوم ہواکہ بنگلہ عوام اپنے مذہب کے بے حدپابندہیں۔یونیورسٹی کے مختلف سائن بورڈ بھی بنگلہ زبان میں ہی تحریرکئے گئے ہیں۔ایک طرف جہاں یونیورسٹی کی بعض سڑکیں خستہ حالی کاشکارتھیں وہیںدوسری طرف یونیورسٹی میںپیڑپودوں کی وجہ سے ہریالی بھی نظرآرہی تھی ۔انٹرنیشنل ہال میں داخل ہوتے ہی معلوم ہواکہ یہاں غیرملکی طالب علموں کے علاوہ ڈھاکہ یونیورسٹی سے وابستہ اساتذہ بھی قیام پذیرہیں۔یہاں میرااستقبال شعبہ اُردوڈھاکہ یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹرعبدالرشید اورپروفیسرغلام ربانی نے کیا۔کمرے میں ایک کشمیری طالب علم محمدسفین سے ملاقات ہوئی۔ جواسی ہال میں قیام پذیرتھا۔ بنگلہ دیش کے ایک میڈیکل کالج سے MDکی ڈگری حاصل کرنے کےلئے تعلیم حاصل کررہاتھا۔سفین سے ہی معلوم ہواکہ پورے بنگلہ دیش میں ہزاروں کشمیری مختلف میڈیکل کالجوںسے ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔جن میںلڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ یہاں تقریباً ایم بی بی ایس کے داخلے کی فیس 30سے 33 لاکھ تک ہے جوہندوستان میںلی جانے والی اس کورس کی فیس سے آدھی ہے M.D اورایم ایس کی فیس بھی کم ہے ۔ڈھاکہ یونیورسٹی کے بعض شعبوں میںچندکشمیری طلباایم اے کی ڈگری بھی حاصل کررہے ہیں۔سفین سری نگرکے علاقے بڈشاہ نگرکارہنے والاشادی شدہ ہے۔وہ اپنی کشمیری بیوی کے ساتھ اسی ہال میں رہتاہے۔کمرے میںداخل ہوتے ہی اُس نے گرماگرم چائے پلاکرمیری تھکاوٹ کوکسی حدتک کم کردیا۔رات کاکھاناپروفیسرغلام ربانی کے یہاں تھا۔ پروفیسرغلام ربانی شعبہ اُردوڈھاکہ یونیورسٹی کے سینئرپروفیسرہیں جواسی انٹرنیشنل ہال کی پانچویں منزل پر اپنی فیملی کے ساتھ قیام پذیرہیں۔غلام ربانی نہایت ہی شریف النفس انسان ہیں۔صوم وصلوٰة کے پابندہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے سماجی کارکن بھی ہیں۔ قیام کے دوران غلام ربانی نے میری بے حدخدمت کی ۔غلام ربانی مختلف کانفرنسوں میں شرکت کرنے کے لیے کئی دفعہ ہندوستان کادورہ کرچکے ہیں۔اس لئے وہ ہندوستانی تہذیب وثقافت سے بخوبی واقف ہیں۔رات کے کھانے پرانہوں نے بنگلہ دیشی پکوان سے خوب خاطرتواضع کی۔ بنگلہ دیشی مچھلی ۔انڈے ،چاول،سبزی ہرچیزموجودتھی۔ ذائقہ ہندوستان سے مختلف تھا۔پکوان میں بنگلہ لوگ مصالحہ اورلال مرچ کااستعمال بالکل بھی نہیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کاپکوان پھیکاپھیکاسارہتاہے۔میں جتنے دن بنگلہ دیش میں رہامجھے ہندوستانی پکوان کی بے حدیادآتی رہی۔میراستقبال پروفیسرربانی نے اپنے گھرمیں کیک کاٹ کرکیا۔
\"\"

Leave a Comment