بنگلہ دیش کے شب وروز

(سفرنامہ)قِسط اول 
\"\"
پروفیسرشہاب عنایت ملک
رابطہ نمبر۔94191-81351
\"\"
بنگلہ دیش کاقیام 1971ءمیں عمل میں آیا۔اس سے پہلے بنگلہ دیش تقسیم ہندکے بعد پاکستان کاحصّہ بنا۔ تحریک آزادی کی جنگ میں بھی بنگالیوں کااہم رول رہاہے۔ اس تحریک میں انگریزوں نے کئی مسلمان بنگالیوں کوبے دریغی سے قتل بھی کیا ۔آزادی پسند بنگلہ عوام نے پاکستان کے ظلم وزیادتی کوبرداشت نہ کرتے ہوئے اُن کے خلاف جنگ ِآزادی چھیڑدی اوریوں1971ءمیں انہوں نے آزادی کی یہ جنگ جیتی ۔اس طرح دُنیاکے نقشے پرایک اورآزاداسلامی ملک وجودمیں آگیاجسے بنگلہ دیش کانام دیاگیا۔اس جنگ کوجیتنے میں بنگالیوں کی حکومت ہندنے ہرطرح کی بھرپورمددکی۔شیخ مجیب الرحمان کوبنگلہ دیش کابانی کہاجاتاہے ۔بنگلہ یہاں کی سرکاری اورعوامی زبان ہے۔مسلمانوں کی آبادی تقریباً 90فیصدہے جبکہ 10فیصدآبادی اقلیتوں کی ہے ۔ان اقلیتوں میں تقریباً 8 فی صدآبادی بنگالی ہندوﺅں کی ہے جن کارہن سہن اوررسم ورواج ہندوستانی بنگال کے ہندوﺅں سے ملتاجلتاہے۔اس وقت بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت ہے ۔شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش کی موجودہ وزیراعظم ہے جوبنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی ہیں۔
بنگلہ دیش سے میرااُنس بچپن سے ہی تھا۔ اسکی شاید ایک وجہ وہاں کی سیاسی اُتھل پُتھل تھی جوریڈیوکے ذریعے ہم سب تک پہنچتی تھی پھراسی زمانے میں ہمارے یہاں بنگلہ دیشی کپڑے بھی کافی مشہورتھے جوسستے داموں میں ملاکرتے تھے۔ بچپن میں اور اُس کے بعد بھی کبھی یہ نہیں سوچاتھاکہ ایک دن بنگلہ دیش گھومنے کاموقعہ نصیب ہوگا۔ جموں یونیورسٹی میں تقرری کے بعد جہاں اُردوکے عالمی ادیبوں کے ساتھ تعلقات پیداہوئے وہیں بنگلہ دیش کے شعبہ اُردوکے استادڈاکٹرغلام ربانی کے ساتھ چندسال پہلے ممبئی کے ایک انٹرنیشنل سیمی نار میں ملاقات کاشرف حاصل ہوا۔ اس کے بعدورلڈاُردوایسوسی ایشن کی ایک عالمی کانفرنس میں گذشتہ سال ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ اُردوکے چیئرمین ڈاکٹرعبدالرشید سے بھی ملاقات ہوئی اورمیں نے ان دونوں اساتذہ سے بنگلہ دیش آنے کی خواہش ظاہرکی۔ مئی 2019ءمیں مجھے شعبہ اُردوڈھاکہ یونیورسٹی کے چیئرمین ڈاکٹرعبدالرشید کاایک دعوت نامہ موصول ہوا جس کے مطابق و ہ 6اور7نومبر کو” اکیسویں صدی میں اُردو“عنوان کے تحت ایک عالمی کانفرنس منعقدکروانے جارہے تھے اورمجھے اس کانفرنس میں شریک ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔دعوت نامہ ملتے ہی میں نے بنگلہ دیش جانے کاٹکٹ بنوالیاجس کے مطابق مجھے 4نومبر کو جموں سے گوالیارتک اورگوالیارسے کلکتہ تک کاسفرSpice Jet کی فلائٹ سے کرناتھا۔ 5 نومبرکوٹکٹ کے مطابق مجھے بنگلہ دیش ایئرلائنزسے کلکتہ سے ڈھاکہ تک کاسفرکرناتھا۔اسی دوران میں نے جموں یونیورسٹی میں 16اور17 ستمبرکوعالمی اُردوکانفرنس کاانعقادکیاجس میںڈھاکہ یونیورسٹی سے ڈاکٹرغلام ربانی اورحسن البناشرکت کے لئے تشریف لائے ۔دونوں نے اس کانفرنس میںمقالات بھی پیش کئے ۔ان سے بنگلہ دیش میں اُردوکی صورتحال اوربنگلہ تہذیب کے بارے میں جاننے کاموقعہ ملا۔اسطرح میرے دِل میں بنگلہ دیش کاسفراختیارکرنے کی خواہش روزبروز زورپکڑتی گئی ۔ 27اکتوبر کوغلام ربانی نے فون کرکے یہ اطلاع دی کہ مجوزہ سیمی نار 6 اور7 نومبر کوہوناتھا بعض مشکلات کی وجہ سے ملتوی کردیا گیاہے۔نئی تاریخیں 26 اور27 جنوری 2020ءطے پائی ہیں۔اس لیے میں اب جنوری میں ہی بنگلہ دیش کاسفرکروں لیکن چونکہ میراٹکٹ پہلے سے ہی تیارہواتھا اس لیے میں پہلے سے طے شدہ تاریخوں پرہی بنگلہ دیش کاسفرکرناچاہتاتھا۔ اس خواہش کو جب میں نے ڈاکٹر غلام ربانی اورچیئرمین ڈاکٹرعبدالرشید سے ظاہر کیا توانہوں نے مقررہ تاریخوں پرہی آنے کے لیے حامی بھرلی ۔انہوں نے یہ فیصلہ لیاکہ میں شعبہ اُردوڈھاکہ یونیورسٹی کے طالب علموں ،ریسرچ اسکالروں اوراساتذہ کو”ہندوستان میں اُردوزبان وادب ۔آزادی کے بعد“موضوع پرایک خصوصی لیکچردوں جس کی میں نے حامی بھرلی اوریوں میرا نومبر2019ءکوہی بنگلہ دیش جانے کاطے ہوا۔ ویزامیں نے دہلی میں بنگلہ
دیشی ہائی کمیشن سے پہلے سے ہی لے رکھاتھا۔
\"\"

(سفرنامہ)دوسری قسط
\"\"
4 نومبرکوصبح سویرے اُٹھ کر اپنے سوٹ کیس میں ضروری سامان ڈال کرتقریباً 9 بجے میں جمو ں ایئرپورٹ کے لئے روانہ ہوا۔ ٹکٹ کے مطابق مجھے ساڑھے گیارہ بجے Spiece Jet کی فلائٹ سے پہلے گوالیار جاناتھا اورپھرشام 5 بجے اسی فلائٹ سے گوالیارسے کلکتہ کے لئے روانہ ہوناتھا۔ جموں ایئرپورٹ پہنچ کربورڈ نگ کارڈ بنوانے کے بعدمیں نے ایک کافی شاپ سے کافی لی۔ فلائٹ کے انتظارمیں میں ایک کرسی پربیٹھ کرکافی کامزہ لینے لگا۔ میری ساتھ والی کرسی پرایک فوجی جوان بیٹھاتھا۔ تعارف ہوا تو پتہ چلاکہ اس جوان کانام دھواکرسنگھ تھا جوکشمیرکے ضلع پلوامہ میں اپنی ڈیوٹی انجام دے رہاتھا۔اب چھٹیاں گزارنے اپنے آبائی وطن گوالیار جارہاتھا۔ ہم دونوں کشمیرکی موجودہ صورتحال پرگفتگوکرہی رہے تھے کہ Spice Jet کے ایک اہلکارنے بورڈنگ کے لئے دعوت دی۔ ہم گیٹ نمبر 1کی طرف بڑھے جہاں سے بورڈنگ شروع ہوچکی تھی۔سیکورٹی کے مراحل طے کرنے کے بعدہم جہازمیں داخل ہوئے ۔جہاز میں داخل ہونے کے بعد ہمارااستقبال دو خوبصورت ایئرہوسٹس کی جان لیوامسکراہٹ نے کیا۔دونوں سرخ لباس میں نہایت خوبصورت لگ رہی تھیں۔جہازنے ساڑھے گیارہ بجے گوالیارکے لئے اُڑان بھرلی ۔گوالیارتک کاسفر2 گھنٹے میں طے ہوا۔ گوالیارکاہوائی اڈہ نہایت ہی چھوٹاہے اس وقت دن کے دوبج رہے تھے۔ہوائی اڈے کی عمارت میں ایک چھوٹا ساکینٹین تھاجس میں کھانے پینے کی چیزیں رکھی گئی تھیں۔بھوک دورکرنے کے لئے میں نے سموسے کے ساتھ بلیک کافی لی۔ وقت گذاری کے لئے میں نے ایئرپورٹ کی عمارت کے لان میں ٹہلناشروع کیا۔ٹھیک پانچ بجے ہماری فلائٹ کلکتہ کے لئے روانہ ہوئی۔تقریباً ساڑھے سات بجے ہماراجہازکلکتہ کے نیتاجی سبھاش چندربھوس انٹرنیشنل ایئرپورٹ پراُترا۔ کلکتہ کایہ ایئرپورٹ نہایت ہی عمدہ اورعالیشان ہے۔جدیدطرزکی عمارتیں صاف وشفاف رن وے ،ایئرپورٹ کی مختلف جگہوںپررکھے گئے گلدستے اورمغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابینرجی کی لٹکی ہوئی بڑی تصویریں ایئرپورٹ کی خوبصورت میں بے پناہ اضافہ کررہی تھیں۔اپناسامان حاصل کرنے کے بعد میں بذریعہ ٹیکسی ایئرپورٹ کے قریب ہی ہوٹل Heaven پہنچا۔ یہ ہوٹل میں نے کلکتہ میں رات گذارنے کے لئے جموں سے ہی آ ن لائن تک کروایاتھا۔
5 نومبر کو صبح جلدی جاگا۔نہادھوکرناشتہ لینے کے بعدنیتاجی سبھاش چندربھوس انٹرنیشنل ایئرپورٹ کلکتہ کے لئے ہوٹل سے بذریعہ ٹیکسی روانہ ہوا۔ ٹکٹ کے مطابق کلکتہ سے ڈھاکہ کے لئے بنگلہ ایئرلائنز کی فلائٹ ساڑھے گیارہ بجے روانہ ہونی تھی۔ایئرپورٹ پہنچ کرمیں بنگلہ ایئرلائنز کے کونٹرپر بورڈنگ پاس بنوانے کے لئے کھڑاہوا۔کونٹرپرابھی کوئی اہلکارموجودنہیں تھا۔10 بج چکے تھے لیکن کونٹرابھی خالی تھا۔میں تشویش میں پڑگیا ۔اِدھراُدھرمعلوم کرنے کے بعد پتہ چلاکہ اس فلائٹ کا وقت تبدیل ہوچکاہے ۔اب فلائٹ دن کے دوبجے روانہ ڈھاکہ کے لئے ہوگی۔ ایئرپورٹ پر ابھی مجھے چارگھنٹے گذارنے تھے۔کافی کاایک کپ 235روپے میں ملا۔کافی پینے کے بعدمیں ایک دفعہ پھر اس خوبصورت ایئرپورٹ کامشاہدہ کرنے لگا۔ بنگالی زبان میںتحریرکردہ بڑے بڑے سائن بورڈ اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ یہاں کی سرکار اورعوام سرکاری زبان سے کس قدرمحبت کرتے ہیں۔وقت گذار ی کے لئے میں نے ٹہلناشروع کیا۔جب تھک جاتا توتھوڑی دیرآرام کرتا۔مسافروں کی ایک بڑی تعداداپنی منزل تک جانے کے لئے ایئرپورٹ کے اندرداخل ہورہی تھی۔ کسی نہ کسی طرح دن کے بارہ بجے بنگلہ ایئرلائنز کاکاﺅنٹرکھل گیا۔بورڈنگ پاس دینے کاسلسلہ شروع ہوگیا۔ بورڈنگ پاس لینے کے فوراً بعد بنگلہ دیش جانے والے مسافرImmigration کاﺅنٹر پرچلے گئے۔یہاں موجودایک آفیسرنے ویزاکی جانچ کرنے کے بعدگیٹ نمبر 5 پرجانے کی اجازت دی ۔1 بجے معلو م ہواکہ فلائٹ لیٹ ہے۔فلائٹ کے انتظارمیں ایک کرسی پربیٹھاہی تھا کہ بغل میں بیٹھاایک عمررسیدہ جوڑابنگلہ زبان میں آپس میں بات چیت کررہاتھا۔ان سے جب تعارف ہواتو معلوم ہواکہ یہ جوڑا کسی علاج کے سلسلے میں ہندوستان آیاہواتھا۔ یہ دونوں ڈھاکہ کے رہنے والے تھے۔عورت کاخاوندکسی بیماری میں مبتلاتھا جس کاعلاج ہندوستان میں بنگلہ دیش کے مقابلہ میں کئی درجہ سستاپڑتاتھا۔ اس سلسلے میں وہ کئی دفعہ ہندوستان آچکے تھے۔ اس جوڑے سے میری باتیں ہوہی رہی تھیں کہ فلائٹ میں مسافروں کوبیٹھنے کے لئے اعلان کیاگیا۔ میری نظر گھڑی کی طرف گئی دن کے ساڑھے تین بج چکے تھے۔ یعنی فلائٹ اپنے مقررہ وقت سے تقریباً ڈھائی گھنٹے لیٹ تھی ۔دروازہ نمبر5 پر بورڈنگ پاس چیک کروانے کے بعدتمام مسافربنگلہ ایئرلائنز کی فلائٹ پربیٹھ گئے ۔فلائٹ کارنگ گہرا سبزاور گہراسُرخ تھا۔یعنی اُس وردی کارنگ جوبنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی پہنتے ہیں۔ تقریباً چاربجے فلائٹ ڈھاکہ کے لئے روانہ ہوئی ۔ کلکتہ سے ڈھاکہ تک کاسفر صرف 40 منٹ کاہے۔دیکھتے ہی دیکھتے تقریباً 5 بجے فلائٹ ڈھاکہ کے شاہ جلال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پراُتری۔ شاہ جلال بنگلہ دیش کے ایک صوفی بزرگ تھے جوتقریباً300سال قبل اسلام پھیلانے کی غرض سے بنگلہ دیش میں وارد ہوئے ۔ان کی تعلیمات کی وجہ سے غیرمذاہب کے بہت سے لوگوں نے جوق درجوق اسلام قبول کیا۔پہلے اس ایئرپورٹ کانام ضیاانٹرنیشنل ایئرپورٹ تھالیکن عوامی لیگ کے اقتدارمیں آنے کے بعداس ایئرپورٹ کانام تبدیل کرکے شاہ جلال انٹرنیشنل ایئرپورٹ رکھاگیا۔ کلکتہ کے ایئرپورٹ کی طرح یہ ایئرپورٹ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ایئرپورٹ بڑا ہے جس میں موجودمختلف قسم کی بڑی بڑی دکانیں اس کی خوبصورتی میں اورزیادہ چارچاند لگارہی تھیں۔ایئرپورٹ پرکام کرنے والے زیادہ تراہلکارمردہی تھے۔بنگلہ زبان میں مختلف قسم کے سائن بورڈ مختلف جگہوں پر نصب کئے گئے تھے ۔ہرکوئی بنگلہ بول رہاتھا ۔بنگلہ یہاں کی سرکاری اورعوامی زبان ہے۔پورے بنگلہ دیش میں صدفی صد لوگ بنگلہ ہی بولتے ہیں۔ بنگلہ نہ جاننے والاکوئی بھی سیاح اس ماحول میں اپنے آپ کوعجیب طرح کامحسوس کرتاہے ۔انگریزی اوراُردوبہت کم لوگ سمجھ پاتے ہیں۔بہرحال ضروری لوازمات پوراکرنے کے بعدمیں میں ایئرپورٹ سے باہرآگیا۔ جہاں میرے استقبال کے لئے شعبہ اُردوڈھاکہ یونیورسٹی کے دوطالب علم پہلے سے ہی موجودتھے ۔تنویرساقی اورمحمدفردوس دونوں ایم اے اُردوکے طالبعلم تھے۔دونوں نے میرااستقبال پھولوں کاگلدستہ پیش کرکے کیا۔تنویرساقی اورمحمدفردوس نہایت ہی سادہ اورمخلص طالب علم ہیں۔میں جتنے دن بنگلہ دیش میں رہا۔دونوں میرے ساتھ سائے کی طرح رہے ۔دونوں نے بے لوث مہمان نوازی کابھی ثبوت دیا۔اب ہم تینوں ٹیکسی میں سوارہوکر ڈھاکہ یونیورسٹی کی طرف روانہ ہوئے جہاں منتظمین نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے انٹرنیشنل ہال میں میرے رہنے کاانتظام پہلے سے ہی کررکھاتھا۔ ایئرپورٹ سے ڈھاکہ یونیورسٹی کاسفرتقریباًایک گھنٹے کا تھالیکن ٹریفک جام کی وجہ سے یہ سفرتقریباً 2 گھنٹے میں طے ہوا۔
\"\"

Leave a Comment