\”بوف کور: ۸۰ سال کی مسلسل للکار\” کے عنوان سے دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس

ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ کی رپورٹ

\"IMG_3928\"

لکھنو، 1/مارچ ۔صادق ھدایت کی مایہ ناز تصنیف بوف کورکی ھندوستان میں اشاعت کے ۸۰ سالہ جشن تقریبات کے موقع پر انسٹی ٹیوٹ آف انڈو پرشین اسٹڈیز (آئ۔ آئ۔ پی۔ ایس) نے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر۔ایشیا پراجکٹ کے باھمی اشتراک سے مورخہ ۱۷ و ۱۸ فروری ۲۰۱۶ بمقام انڈیا انٹرنیشنل سنٹر(آئ۔ آئ۔ سی۔ملحقہ) بوف کور: ۸۰ سال کی مسلسل للکار کے عنوان سے دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ صادق ھدایت ایران کے ایک ممتاز مصنّف تھے جو ۱۹۳۶عیسوی میں ھندوستان تشریف لاۓ اور ۱۹۳۷ء  تک یہیں مقیم رہے۔ بمبٔی میں اپنے قیام کے دوران انہوں نے ۱۹۳۶ ء میں ایران میں خرید و فروخت ممنوع کے نوٹ کے ساتھ  نقش ساز تختی پر بوف کور کی آشاعت کی۔

کانفرنس کا افتتاحی جلسہ  آئ۔ آئ۔ پی۔ ایس کے صدر ڈاکٹر سیّد اختر حسین کے استقبالیہ خطبہ سے ہوا۔ انہوں نے ملک اور بیرون ملک سے تشریف لاۓ شرکاء کا خیر مقدم کرتے ہوۓ کہا کہ ھندوستان مشرق اور مغرب کے باہمی امتزاج کا ایک مثالی مرکز ہے اور نیز یہ کہ ہندوستان میں فارسی ادب کے مطالعہ کے امکانات اب بھی موجود ہیں اور یہ ملک ہند و ایران کے مشترکہ تہذیب اور ادب کے فروغ میں ھنوز اعانت کر سکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ دن دور نہیں جب بوف کور کو گلستان سعدی اور فارسی کی دوسری کلاسک کتابوں کے برابر مقبولیت حاصل ہوگی۔

جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر جناب سیّد شاہد مہدی نے بطور مہمان خصوصی افتتاحی خطبہ دیتے ہوۓ ہندوستان اور ایران کے درمیان دیرینہ تعلّقات اور برّصغیر میں زمانٰہ دراز سے فارسی کے اثرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے عہد حاضر میں فارسی کو فروغ دینے کی ضرورت اور فارسی ادب بخصوص فارسی ناولوں اور افسانوں کے ھندوستانی علاقائ زبانوں میں تراجم پر زور دیا۔ بوف کور پر روشنی ڈالتے ہوۓ انہوں نے اسے ایک معمّا قرار دیا جس کے تراجم و تفاسیر اس کے اصلی متن سے بھی تجاوز کرتے ہیں۔ موصوف نے آخر میں کہا کہ بدھ مت اور تبّتی عقاید کے مطابق موت کا واضح تصوّر مذکورہ ناول میں ملتا ہے۔

پروفیسر چندر شیکھر صدر شعبہ فارسی دھلی یونیورسٹی اس کانفرنس کے افتتاحی جلسے کے مہمان خاص تھے۔ انہوں نے اپنے خطبے میں ہندوستان میں فارسی ادب کے مطالعہ کے فروغ میں آئ آئ پی ایس کی ادبی سرگرمیوں کی تعریف کی۔ بوف کور پر تبصرہ کرتے ہوۓ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب مختلف انسانی خصوصیات بشمول اس کی دوگانہ شخصیت کو ظاہر کرتی ہے۔ پروفیسر شیکھر کے مطابق مذکورہ کتاب زندگی اور موت کے بعد کی زندگی کو اجاگر کرتی ہے۔

کولمبیا یونیورسٹی کے مطالعات ایرانی کے تا حیات پروفیسر اور انسائیکلوپیڈیا ایرانیکا کے ایڈیٹر پروفیسر احسان یار شاطرنے اس موقع پر اپنا پیغام بھیجا جسے ڈاکٹر سیّد اختر حسین نے سامعین کے لئے پڑھا۔ پروفیسر احسان یار شاطر نے ہندوستان اور ایران کے درمیان زمانہ دراز سے استوار تعلقات کی تعریف کی۔ انہوں نے آئ آئ پی ایس کے قیام کی بھی ستایش کی اور بوف کور کے ھندوستان میں اشاعت کے ۸۰ سالہ جشن تقریبات کے انعقاد پرموخرالذکر اور آئ آئ سی ایشیا پراجکٹ کو مبارکباد دی۔

کولمبیا یونیورسٹی نیو یورک کے موقر جرنل انسائیکلو پیڈیا ایرانیکا سے وابستہ پروفیسر حورا یاوری نے اپنے کلیدی خطبے میں آئ۔ آئ۔ پی۔ ایس۔ کے صدر ڈاکٹر سیّد اختر حسین اور آئ۔ آئ۔ سی۔ ایشیا پراجکٹ کی چیرپرسن ڈاکٹر کپیلا وتسیان کو بوف کور کے موضوع پرکانفرنس منعقد کرنے پر مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے جدید ناولوں میں بوف کور واحد ناول ہے جس نے عالمگیر شھرت پائ اور دنیا بھر کی ادبی شخصیات کی توجہ اپنی جانب مبذول کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مذکورہ ناول کے متعدد تعبیرات موجود ہیں مثلا مصنّف کی خودنوشت سوانح حیات، زندگی اور فن کے درمیان رابطہ اور کچھ قارئین کے لئے یہ ناول نفسیاتی ترجمانی کا ایک آلہ ہے۔ بقول پروفیسر یاوری مذکورہ ناول ایران کی سیاسی اور سماجی زندگی کو منعکس کرتا ہے جس میں خود مصنّف زندگی بسر کرتے تھے۔ ھدایت کو جن اشخاص سے ان کی زندگی میں سابقہ پڑا ان تمام کرداروں کو انہوں نے ایک واحد ناول میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا۔ یہ کردار ایک ایرانی شخص کے تاریخی شعور کو بیان کرتا ہے۔ موصوف نے بوف کور پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس ناول میں ایک ندی کا بیان ہے جس کے دو دھارے ہیں: ایک اسلام سے قبل کا ایران اور دوسرا اسلام کے بعد کا ایران۔ انہوں نے مزید کہا کہ بوف کور خود شناسی اور دیگر شناسی کے مطالعہ کی کتاب ہے۔ ان کے مطابق بوف کور اپنا محاسبہ کرنے اور دوسروں کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔

آئ آئ سی ایشیا پراجکٹ کی صدر ڈاکٹر کپیلا وتسیان نے اپنے صدارتی خطبے میں ہندوستان میں فارسی موضوعات پر ادبی مباحث کو فروغ دینے میں آئ آئ پی ایس  کی کوششوں کی قدردانی کی۔ ساتھ  میں انہوں نے ہندوستان کے مختلف مراکز میں پڑے ہوئے فارسی مخطوطات کے تئیں نوجوان نسل کی عدم توجہی پر گہرے دکھ کا اظھار کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آئ آئ پی ایس کے اشتراک سے مزید مواقع کی  تلاش کی جائے تاکہ ان نسخوں تک دسترسی حاصل کی جا سکے۔ محترمہ وتسیان کو یہ جان کر حیرت ہوئ کہ صرف ایک ناول بوف کور نے دنیا کے دانشمندوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کی اور بیرون ایران جدید فارسی ادب کی کامل طور پر نمائندگی کی۔

آئ۔ آئ۔ پی۔ ایس۔ کے نائب صدر ڈاکٹر علیم اشرف خان نے پروگرام کے اختتام پر کانفرنس میں آئے تمام مھمانان گرامی اور حاضرین مجلس کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے خاص کر آئ۔ آئ۔ سی۔ ایشیا پراجکٹ، آئ۔ سی۔ ایس۔ ایس۔ آر۔ اور ایران سے شائع ہونے والے ادبی جریدہ بخارا کے تئیں اظھار تشکّر کیا۔ انہوں نے کانفرنس کے انعقاد میں آئ آئ پی ایس کے ممبران کی کوششوں کی بھی قدردانی کی۔ انہوں نے تاجیکستان کے سفیر مرزوشریف اے جلولوو کی بھی سپاسگذاری کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے دری اور فارسی یونٹ کے آل انڈیا ریڈیو کے خبر نگار اور فوٹوگرافر محترمہ میناکشی چودھری کا بھی تہ دل سے شکریہ ادا کیا جنہوں نے پورے پروگرام کی رپورٹنگ کی۔

کانفرنس کے افتتاحی جلسے کے اختتام کے بعد آئ آئ سی کے لکچر روم۔۲ (ملحقہ) میں ادبی جلسے کا آغاز ہوا۔ ۱۷ فروری ۲۰۱۶ سے لیکر ۱۸ فروری ۲۰۱۶ تک چلنے والا یہ کانفرنس پانچ ادبی جلسوں پر محیط تھا اور اس میں فارسی اور انگریزی میں ۱۹ مقالے پڑھے گئے جسے ملک اور بیرون ملک سے آئے دانشوروں نے پیش کیا۔ یورک یونیورسٹی کناڈا سے ڈاکٹر خاطرہ شیبانی، راولپنڈی پاکستان سے ڈاکٹر عارف نوشاہی، آزاد اسلامی یونیورسٹی جنوبی شاخ تہران سے ڈاکٹر ماندانا منگلی، ادبی رسالہ بخارا کے ایڈیٹر محترم علی دھباشی، تھران کی مشھور شاعرہ  محترمہ مھری شاہ حسینی، ڈھاکہ بنگلہ دیش سے ڈاکٹر ابوالکلام سرکار، جناب پرمندر سنگھ بھوگل، ای۔ایف۔ایل یونیورسٹی حیدرآباد سے ڈاکٹر مظفر عالم اور ڈاکٹر محمود عالم اور دیگر دانشمندوں نے بوف کور کے مختلف جہات پر روشنی ڈالی۔

علاوہ ازیں ’ناول: ہماری زندگی کے نیرنگیوں کا کینوس‘ کے عنوان سے ایک خاص مذاکرات کا انعقاد کیا گیا اور اس کی نظامت ڈاکٹر سیّد اختر حسین نے کی۔ پروفیسر حورا یاوری، پروفیسر جی۔جے۔وی۔ پرساد شعبہ انگریزی، جواہر لعل نھرو یونیورسٹی، نئی دھلی، معروف ہندوستانی ادیبہ، نقّاد اور تاریخ نویس ڈاکٹر رخشندہ جلیل اور ڈاکٹر خاطرہ شیبانی نے اس خاص ادبی مباحثہ میں شرکت کی اور ناول کے مختلف مفہوم و معانی کے علاوہ اس بات پر بحث و مباحثہ کیا کہ  کیسے ناول ایک محدود زمان و مکان میں ہمارے سماج اور تاریخ کی ترجمانی کرتی ہیں۔

اس دو روزہ کانفرنس کا اختتام ’شب بخارا: صادق ھدایت کو خراج عقیدت‘ کے عنوان سے ایک مخصوص پروگرام پر ہوا۔ بخارا ایران سے چھپنے والا فارسی کا پندرہ روزہ ادبی رسالہ ہے اور ایران کے دارالسلطنت تہران میں اس نے مختلف ادبی اور ثقافتی پروگرام کا انعقاد کیا ہے۔ مذکورہ رسالہ کے ایڈیٹر جناب علی دھباشی پرعزم تھے کہ ایران سے باہر شب بخارا کا پہلا پروگرام آئ۔ آئ۔ پی۔ ایس اور آئ۔آئ۔ سی کے اشتراک سے  نئی دلّی میں ہی کریں۔ اس سیشن کے شرکاء میں پروفیسر حورا یاوری، جناب علی دھباشی، محترمہ ناھید طباطبائ، محترمہ ناھید مرشدلو، جناب ندیم اختر اور ڈاکٹر سیّد اختر حسین تھے۔ تمام خطیبوں نے فارسی کو میراث جہانی قرار دیا جو انسان کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ھے۔

انسٹی ٹیوٹ آف انڈو پرشین اسٹڈیز اور انڈیا انٹرنیشنل سینٹر۔ ایشیا پراجکٹ کے اشتراک سے منعقدہ اس دو روزہ کانفرنس کی آئ۔آئ۔سی نئی دہلی کے مذکورہ ادبی اجتماع میں کافی پذیرائ ہوئ اور کانفرنس میں شریک دانشمندوں نے بوف کور کو غیر معمولی ہندوستان اور عظیم ایران کے ناول کے طور پر متعارف کیا
\"IMG_3809\"
\"IMG_4977\"
\"12443215_10207739502959422_2069963035_n\"
\"12821964_10207744670848616_1218292947_n\"

۔

Leave a Comment