٭احمدی بیگم
پبلک ایڈمنسٹریشن (پی ۔ایچ ۔ڈی ریسرچ اسکالر)
مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی‘ گچی بائولی حیدرآباد
E-Mail:ahm.ammu08@gmail.com
بچے کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں۔سنہر ے ملک کا مستقبل اور ترقی کا دارومدار اس ملک کے بچوں کی صحت ‘ تغذیہ تعلیم اور استحصال سے بچائو اور ملک کی ترقی یافتہ آبادی پرمنحصر ہوتا ہے۔ ان تمام امور کا بنیادی مقصد بچوں کے تحفظ سے جڑا ہوتا ہے ۔ کیونکہ یہ بچے آگے چل کر ملک کا مستقبل ہوتے ہیں۔ اس لئے حکومتوں کو چاہیے کہ وہ بچوں کی فلا ح وبہبود کے لئے اپنے اسباب و سائل کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ تحفظ اطفال کی وجہ سے ملک کے بچوں کے حقوق کی پاسداری ہوتی ہے ۔ بچوں کا تحفظ ایک فوری اور لا زمی قدم ہے۔عام طور پر بچوں کے تحفظ سے متعلق تصور کے اقدامات کی بات ہوتی ہے تو صرف بچوں سے متعلق عام مسائل جیسے بچہ مزدوری ‘ بچوں کی خرید و فروخت ‘ جنسی استحصال ‘ بچپن کی شادیاں اور مختلف بیماریوں کو ملحوض رکھا جاتا ہے ۔ لیکن بچوں کے تحفظ میں دیگر مسائل اور عملی مشکلات بھی درپیش ہوتے ہیں جیسے یتیم و بے سہارا ہونا ‘ غریبی کا شکار بچے ‘ خاندانی مسائل کا بچوں پر اثر و غیرہ کی بدولت بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما متاثر ہوتی ہے جو بچوں کے تحفظ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں اس تنا ظر میں بچوں کے تحفظ کے لئے فکر مند ہونا اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے ۔۱؎
لفظ ’’تحفظ‘‘ کو یہاں بچوں سے متعلق درپیش مسائل کی روک تھام یا ترقی میں حائل رکاوٹوں میں دیکھا جاتا ہے ۔ جو کہ صحیح مفہوم بھی ہے ۔ لیکن جب لفظ ’’تحفظ‘‘ کا استعمال بچوں کے لئے لیا جاتا ہے تو یہ بچوں کے مجموعی مسائل کو ظاہر کرتا ہے۔یہاں ا س بات کو مدنظر رکھنا چاہے کہ سماج میں بچوں کا طبقہ بالکل نادانی اور معصومیت جیسی صفت کا حامل ہوتا ہے۔ اس لئے سماج کے دوسرے طبقات کی بہ نسبت بچوں کا طبقہ بہ آسانی استحصال کا شکارہوتا ہے اس لئے بچوں کے تحفظ کا تصور دوسرے طبقات کے تحفظ کے بہ نسبت بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ اس لیے ہر ملک اس بات کا علم رکھے کے بچوں کی صحیح نشوونما ‘ صحت مند ماحول ‘ عمدہ دیکھ رکھ ‘ تغذیہ بخش غذا اور معیاری تعلیم سے ہی بچوں کا تحفظ ہوسکتا ہے ۔ اور وہ اچھی طرح پھل پھول سکیں گے۔ اور یہ تمام بچوں کے بنیادی حقوق میں شامل ہیں ۔ سماج کا اتنا بڑا حصہ جو ہمارا مستقبل بھی ہے بچوں کی طرف تھوڑی سی لا پرواہی یا کوتا ہی نہ صرف بچوں کے تحفظ میں خطرہ پیدا کرسکتی ہے بلکہ یہ ملک کی ترقی و تحفظ کو بھی نقصان پہنچاسکتی ہے۔2؎
بین الاقوامی سطح پر حقوق سے متعلق اعلامیہ میں انسانی حقوق کو مرکزی اہمیت حاصل ہے چاہے وہ بچے ہی کیو ں نہ ہو انھیں اسکا حق حاصل ہے۔ انسانی حقوق کا اطلاق 18سال سے کم عمر کے تمام لڑکوں اور لڑکیوں پر مساوی ہوتا ہے ۔ مختلف سماج میں بچوں کے حقوق اور ان کی ترقی و فروغ کے طریقے الگ الگ ہوسکتے ہیں ۔ لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بچوں کی فلاح وبہبود پر سب سے پہلے توجہ ہونی چاہیے۔3؎ لہذا کسی بھی بچے کو پیدا ہوتے ہی یقینی طور پر اسے انسانی حقوق حاصل ہوجاتے ہیں ۔حقوق اطفال دراصل بچوں کی بنیادی آزادیاں ہیں ہر بچہ کو اس بات کا حق ہیکہ وہ ایک بہترین ‘ با معنی اور یادگار بچپن گذارے۔ لیکن بیشتر بچے ایسے ہیں جن کے لئے حقوق کے معنی بلکل علٰحیدہ ہیں ۔ تاریخ گواہ ہیکہ بچوں کے ساتھ ہمیشہ سے استحصال اور حق تلفی کی جاتی رہی۔ بچے بھوکے اور بے گھر ہونے کی تکلیف جھیلتے ہیں ۔ خراب ماحول میں کام کرنا ‘ نومولود بچوں کی شرح اموات میں اضافہ ‘ صحت کی ناقص دیکھ بھال اور معیاری تعلیم کا فقدان وغیرہ بچوں کی لاپرواہی سے پرورش کی چند مثالیں ہیں۔ حالانکہ تمام بچوں کو مساوی حقوق عطا کئے گئے ہیں۔ جس کا انھیں حق ہے ۔ صرف بچوں کو بنیادی ضرورتیں فراہم کرنا ہی ان کا حق نہیں بلکہ دوستی ‘شفقت اور محبت جیسے جذبات کو بھی بچوں کے حقوق میں شمار کیا جانا چاہیے جس کا واضح طور پر ذکر کیاگیا ہے۔4؎
بچوں کے تحفظ کا عالمی پس منظر
پہلی جنگ عظیم کے بعد یوروپ میں ایسے کئی بچے تھے جو مختلف وجوہات کی بناء پر فاقہ کشی کی زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ تب اس وقت ایک لفٹنٹ جیب نے بچوں کو اس حال میں دیکھا تو وہ بہت متاثر ہوئیں اور وہ اپنی بہن ڈور تھی بکسٹن کے ساتھ ملکر19مئی1919ء میں بچوں کو محفوظ رکھنے ’’ جینوا میں Save the Children International Union(SCIU)کی داغ بیل ڈالی ۔ ایگ لینٹن جیب نے محسوس کیا کہ بچے معصوم نادان اور کمزور ہوتے ہیں۔ اس لئے ہنگامی حالات میں سب سے زیادہ بھی بچے ہی متاثر ہوتے ہیں۔ بچوں کومدد و سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں کی خاص ضروریات کے متعلق بیداری پیدا کرنے کے لئے انھوں نے ’’ بچوں کے حقوق‘‘ پر انتہائی مختصر اور آسان انداز میں1923ء میں ایک مسودہ جاری کیا (SCIU) نے ڈکلریشن آف جنیوا کی تائید کی۔ بعد ازاں لیگ آف نیشن نے اسے تسلیم کیا۔ بچوں کو تحفظ کے حقوق حاصل نہیں تھے بلکہ وہ اپنے والدین کی ملکیت ہواکرتے تھے۔ اور والدین بھی اپنے بچوں کو انسانی املاک سمجھ کر اس کی خدمات اور آمدنی سے پورا استفادہ کرتے تھے لیکن جنیوا اعلامیہ کے ذریعہ سے دنیا کے تمام مرد و خواتین کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ بچوں کو بہترسے بہتر سہولیات دینا اپنا فرض سمجھیں اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا استحصال نہ کرے۔5؎
اس اعلامیہ کے تحت بچوں کی جسمانی و روحانی نشوونما کے ساتھ ساتھ بچوں کی بنیادی ضروریات جیسے تغذیہ ‘ تعلیم اور نگہداشت کو اہمیت دی گئی تھی ما بعد 1959ء میں بچوں کے حقوق اور تحفظ سے متعلق واضح اصول متعین کرنے کی کوشش کی گئی جس کے تحت بچوں کے نشوونما و ترقی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے چند اصولوں کا احاطہ کیا گیا اور اس بات کی کوشش کی گئی کہ بین الاقوامی سطح پر اصولوں کی بنیاد پر بچوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس اعلامیہ کو اعلامیہ برائے حقوق اطفال 1959ء کہا گیا۔ جس میں جملہ دس اصولوں کو طئے کیا گیا جو حسب ذیل ہیں۔
1۔ بچے کی پرورش ہم آہنگی ‘ دوستی ‘امن اورعالمی بھائی چارہ کے ماحول میں ہواور اس کے ساتھ کسی بھی نوعیت کا نسلی ‘
مذہبی اور دیگر امتیاز نہ کیا جائے۔
2۔ بچوں کی ہر نوعیت کی عدم توجہی ‘ظلم و استحصال اور غیر قانونی تجارت سے تحفظ کیا جائے۔
3۔ بچوں کو کسی بھی ناگہانی صورتحال کے دوران سب سے پہلے تحفظ اور امداد کا حق حاصل رہے۔
4۔ بچے کو مفت اور لازمی ابتدائی تعلیم فراہم کی جانی چاہیے اور مستقبل میں بچے کے مفاد سے مربوط تعلیم کی فراہمی
والدین کی ذمہ داری ہے۔
5۔ بچے کو پیار‘ محبت ‘ اخلاقی اور معاشی تحفظ کے ماحول میں نشوونما کا حق حاصل ہے ۔ علاوہ ازین عوامی اداروں کو
یتیم اور مزدور بچوں کی نگہداشت کا پابند کیا گیا۔
6۔ جسمانی ‘ ذہنی اور سماجی طور پر معذور بچوں کو خصوصی توجہ اور تعلیم کا حق حاصل ہے۔
7۔ بچے کو مناسب غذا ‘ مکان ‘ تفریح اور طبی خدمات بشمول مائوں کو قبل ازژجگی خصوصی تحفظ صحت کا حق حاصل ہے۔
8۔ بچے کو نام اور قومیت کا حق حاصل ر ہے۔
9۔ بچے کو آزادانہ اور با اختیار ماحول میں نشوونما پانے کا حق حاصل رہے۔
10۔ تمام بچے بشمول ان کے والدین کو مذہب ‘ ذات پات ‘ رنگ و نسل اورجنس کی بناء پر کئے جانے والے امتیاز سے
تحفظ کا حق حاصل ہے۔6؎
1959ء کے اس اعلامیہ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی بلکہ محض عام اصول و ضوابط پر مبنی صرف ایک بیان بن کر رہ گیا تھا۔ 7؎ 21ڈسمبر 1976ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک اور قرارداد منظور کرتے ہوئے سال1979ء کو بین الاقوامی سال برائے اطفال کے طور پر منانے کا اعلان کیا جسکا مقصد عوام میں بچوں کے حقوق کے متعلق بیداری پیدا کرنا تھا۔ 1959ء کے ڈکلریشن کے پورے 30سال بعد بچوں کے حقوق پر اقوام متحدہ کے منشور کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے1989ء میں منظور کرلیا اور بعد ازاں 2سپٹمبر 1990ء کو ایسے بین الاقوامی قانون کی حیثیت دے کر اس کا اطلاق کیاگیا۔ 8؎
بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن (NUCRC)United Nations Convention on the Right of the Childپولینڈ نے بین الاقوامی یوم اطفال کو تحفہ کے طور پر بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کنونشن کو سب سے پہلے پیش کیا تھا۔ اس کنونشن کو مکمل کرنے کے لئے دو سال کا وقت لگ گیا۔ اس طرح دنیا کے تمام بچوں کو بنیادی انسانی حقوق ‘ مساوات اور عزت و قار کے تحفظ کے لئے بین الاقوامی دستاویز فراہم کیا ہے۔ 31مئی 1991ء تک کنونشن میں 191ممالک نے شرکت کی۔ 9؎ حکومت ہند نے بھی 12نومبر 1992ء کو بچوں کے تحفظ کا پابند کیا۔
بین الاقوامی کنونشن کے مطابق بچوں کے تحفظ کے ضمن میں حکومت کی ذمہ داریاں اس طرح ہیں۔
1۔ قومی اور ریاستی قوانین پر نظرثانی اور انھیں کنونشن کے مقاصد کے تحت عمل میں لانا۔
2۔ کنونشن کے اطلاق کی جانچ کے لئے مناسب نگرانی کے طریقے کار کو فروغ دینا۔
3۔ کنونشن کے اطلاق اور رپورٹنگ میں تمام متعلقہ سرکاری وزارتوں‘ محکمہ جات‘ بین الاقوامی ایجنسیوں ‘ غیر حکومتی
ادارے اور قانونی جواز کو شامل کرنا۔
4۔ کنونشن کی اشاعت اور رپورٹنگ کے لئے عوامی سفارشات کے حصول کو ممکن بنانا۔
5۔ اس بات کو یقینی بنانا کہ رپورٹنگ آزادانہ اور شفاف طورپر ہو۔10؎
ہندوستان نے 1942ء میں بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن کو منظور کیا۔ اور اس کنونشن کے مطابق بچوں کے حقوق کی انجام دہی اور تحفظ کی ضمانت کے لئے پابند ہوا۔ ایسا نہیں ہیکہ 1992ء سے قبل ہندوستان میں بچوں کے تحفظ اور ان کے حقوق سے متعلق کوئی حکمت عملی کو اختیار نہیں کیا بلکہ ما قبل آزادی اور آزادی کے بعد کے قوانین اور دستوری توضیحات سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں بچوں کے تحفظ سے متعلق سرگرمیاں ہر دور میں جاری رہی ہیں۔ لیکن1992ء سے قبل بچوں سے متعلق سرگرمیاں ان کی فلاح بہبود کے لئے اقدامات کی جاتی ہیں۔1992ء کے بعد یہی سرگرمیاں بچوں کے حقوق کی بنیاد پر زیر عمل ہیں جس کا تعلق راست بچوں کے تحفظ سے متعلق ہے۔
دستور ہند میں ایسی کئی دفعات ہیں جن کا نفاذ ملک کو اس بات کا پابند بناتا ہے اور تیقن دیتا ہیکہ بچوں کی تمام ضروریات کی تکمیل کی جائے اور ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیاجائے۔ 11؎ ہندوستان میں بچوں کے حقوق سے متعلق اعلامیہ کے مختلف دفعات کے اطلاق کو سمجھنے کے لئے ان سے متعلق اہم انتظامی و قانونی اقدامات کا تجزیہ کرنا
لازمی ہے جو UNCRCکے اہم دفعات سے مربوط ہیں اور جن پر حکومت ہند کی عمل آوری جاری ہے ۔ 12؎
دستور ہند میں بچہ کے فروغ اور نشوونما کے لئے والدین کے رہنمائی ضروری ہے اب بھی خاندان ہی ایک بنیادی اکائی تصور کیا جاتا ہے اس بات کو یقینی اور عملی بنانے کے لئے اس کو دفعہ 5 میں رکھا گیا ۔ والدین کی بیروزگاری اور غربت کی وجہ سے سماجی و معاشی طور پر کمزور ہونے کا اثرراست طور پر بچوں پر ہوتا ہے۔
دفعہ 21کے مطابق تمام ہندوستانیوں اور ملک میں رہنے والے ہر بچہ کو زندگی جینے کا حق حاصل ہے ۔ اس کے علاوہ دفعہ21(A)کے تحت حکومت ہند کو یہ ہدایت دی گئی ہیکہ وہ 6تا14سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے اور دفعہ 24اس بات کی دلیل دیتا ہیکہ 6سے14سال تک کی عمر کو پہنچنے والے بچوں کو کسی بھی فیکڑیوں ‘ کارخانوں‘ اور خطرناک جگہوں پر کام کروانا یا پھر ان سے کام لینے پر پابندی لگائی ہے بچوں کو سماجی و معاشی استحصال سے تحفظ فراہم کرنے کے لئے متعدد قوانین بنائے گئے ہیں جو بچے بچہ مزدوری کا شکار ہیں انھیں بچہ مزدوری سے روکنا اورتعلیم کی طرف راغب کرنا ہے۔ تاکہ بچہ مزدوری جیسی لعنت کو سماج سے ختم کیا جائے۔13؎
بچوں کو ہر نوعیت کے جنسی استحصال سے بچانا او ر غیر قانونی استحصال کو روکنا اس کا ذکر دفعہ 34 میں واضح الفاظ میں کیا گیا ہے ۔ اسی طرح سے دفعہ 35کے مطابق بچوں کی خرید و فروخت ‘ غیر قانونی تجارت چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو اس کی روک تھام کے لئے مناسب اقدامات کرنے کے پابند بناتا ہے ۔ دستور ہند کے کئی دفعات جیسے39(A)‘ 45‘51(A) کے شق Kکے مطابق والدین/ سرپرست‘ حکومت و سماج کو چاہیے کہ وہ بچوں کے بچپن کی ابتدائی دور میں ان کی دیکھ بھال کو یقینی بنانا اور بچوں کو تعلیم بہم پہچاناہے ۔ یہ وہ بچے ہیںجن کی عمر6تا14سال کے درمیان ہو ان کا پورا خیال رکھنا پہلا فرض ہے۔ 14؎
ہندوستان میں آزادی سے قبل بھی بچوں کی فلاح وبہبود کے لئے مناسب اقدامات کئے گئے تھے ۔ چونکہ بچوں کے معیار کو حقیقی و یقینی بنانے کے لئے ملک میں زیادہ سے زیادہ پالیسیاں و پروگرام نافذالعمل ہیں ۔ اس سلسلے میں قانون برائے بچہ ’’چلڈرن ایکٹ 1960ء‘‘ کو ایک اہم قانون سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے جس کا مقصد عدم توجہ ہی کا شکار بچوں کو تحفظ ‘ تربیت ‘ تعلیم اور بازآبادکاری فراہم کرتا ہے۔ اس قانون کے تحت بچوںکو بھیک مانگنے کے لئے مجبور کرنا ‘ شراب نوشی اور ان کا استحصال کرنا قانونی جرم ہے علاوہ مذکورہ قانون پولیس آفیسران کو بھی اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اپنائیں۔ 15؎
1974ء میں قومی پالیسی برائے اطفال تشکیل دی گئی ۔ اس پالیسی کے ذریعہ بچوں کو ملک کا اہم اثاثہ تسلیم کیاگیا۔ جس کا اہم مقصد مشکل حالات اور دیگر مسائل سے دوچار بچوں کو حکومت اور سماج سے روشناس کرانا ہے۔ یہ حکومت کا فرض ہیکہ و ہ بچوں کے جسمانی‘ ذہنی ‘جنسی استحصال و تشدد کا شکارہونے سے بچائے ۔ ان تمام کے لئے حکومت کو پابند بنایا گیا جو بچوں کے خصوصی تحفظ فراہم کرنے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے کار کرد ہیں۔ ان تمام کے لئے اہل قرادیا گیا ۔ 16؎
اس کے علاوہ بچوں کی مجموعی ترقی کو فروغ دینے کے لئے بچوں کے ترقی پر مربوط اسکیم Integrated Child Development Scheme(ICDS) بچوں اور خواتین میں تغذیہ و صحت کے موقف کو بہتر بنانے کے لئے اس اسکیم کی شروعات 2اکٹوبر 1975ء میں ہوئی جس میں0تا6سال کی عمر کے تمام بچے ‘ حاملہ خواتین اور شیر خوار بچوں کے مائیں شامل ہیں اس اسکیم کا مقصد تغذیہ ‘ صحت ‘ اسکول کی ابتدائی تعلیم ‘ امیو نائزیشن‘ صحت کی جانچ جیسی خدمات شامل ہیں ان خدمات کو آنگن واڑی مراکز کے ذریعہ فراہم کی جارہی ہیں۔ 17؎
بچوں کی طاقت کے استحصال کو روکنے اور استحصال سے تحفظ کے لئے بچہ مزدوری امتناع و باقاعدگی قانون کی تشکیل 1986ء میں دی گئی۔ جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ جو بچے مزدوری کرتے ہیں۔ ان کو روکنا اور ان کی مناسب بازآبادکاری کرنا ۔ خصوصاً ایسے علاقوں میں جہاں بچہ مزدوری کے امکانات زیادہ ہیں۔ بچہ مزدوری کے خلاف قانونی کاروائی کی جارہی ہے اور اسے قانونی جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح بچہ مزدوری جیسی برائی سے بچوں کا تحفظ کیا جارہا ہے ۔18؎
دی جووینائل جسٹس(بچوں کے نگہداشت اور تحفظ)ایکٹ 2000ء میں تشکیل دیا گیا۔ یہ ایک مخصوص قانون ہے ۔ ہندوستان میں بچوں کو قانونی سرگرمیوں یا کاروائی میں تحفظ کے لئے JJ Act بنایا گیا۔ اس قانون کے دائرے میں ایسے بچے بھی شامل ہیں جن کو نگہداشت اور تحفظ کی خاص ضرورت ہوتی ہے جیسے سڑکوں پر بے سہارا رہنے والے بچے ‘یتیم بچے ‘ ہراسانی کا شکار بچے ‘ غریب بچے ‘ بچہ مزدور ‘ غیر قانونی تجارت کا شکار بچے ‘ ذہنی طور پر بیمار بچے ‘ ایچ آئی وی /ایڈس سے متاثرہ بچے ‘ فساد و تشدد اور آفات سماوی کا شکار بچے شامل ہیں ان بچوں سے کوئی جرم سرزد نہیں ہوا لیکن یہ اپنے حالات اور صورتحال کا شکار ہیں کچھ اور دیگر زمروں سے تعلق رکھنے والے بچے ہیں جنہیں نگہداشت اور تحفظ درکار ہے ان میں جن حالات کا شکار ‘ نقل وطن کرنے والے اور آفات سماوی جیسے سیلاب و طوفان سے متاثرہ بچے بھی شامل ہیں یہ بچوں کا وہ طبقہ ہے جو مشکل حالات کا سامنا کررہے ہیں ۔ اس قانون میں ایسے بچوں کا تحفظ اور نگہداشت کے لئے وسیع تراقدامات کو واضح کیا گیا ہے۔
JJ Act قانونی رسہ کشی میں مبتلا بچوں کی بازآبادکاری اور انھیں سماج سے دوبارہ جوڑنے کی راہ ہموار کرتا ہے بچہ کی بازآبادکاری اور سماجی باز یکجہتی کا عمل چلڈرنس ہوم یا اسپیشل ہوم سے شروع ہوتی ہے۔19؎
انسداد بچپن کی شادی ایکٹ 2006ءProhibition of Child Marriage Act کو پارلیمنٹ میں 10جنوری 2007ء میں منظور کیاگیا جس کے مطابق 18سال سے کم عمر کی لڑکی اور 21سال سے کم عمر کے لڑکے کی شادی پر پابندی عائد کی گئی۔ بچپن کی شادی تشدد کی بدترین شکل ہے جو ایک سماجی لعنت بھی ہے یہ آج بھی ہندوستان میں کہیں نہ کہیں عام ہے ۔ بچپن کی شادیوں کو روکنا امن قانون کا مقصد رہا اس طرح یہ قانون واضح طور پر اس بات کا پابند بناتا ہیکہ ’’ بچپن کی شادی کی نہ صرف مخالفت کریں بلکہ اس پر مکمل امتناع عائد کریں۔ ان تمام کے با وجود بھی ہندوستان میں بچپن کی شادی سے متعلق واقعات آج بھی درپیش ہیں کیونکہ قبل ازوقت کی گئی شادیوں سے حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایک طویل سفر شروع ہوتا ہے اور بچوں سے ان کے بچپن کا بنیادی حق چھین لیا جاتا ہے۔ جو دراصل ان کے دیگر حقوق کی تکمیل سے مربوط ہے ۔ ایسی شادیوں سے صحت سے متعلق کئی سنگین مسائل پیدا ہوتے ہیں جیسے حاملہ خواتین کی شرح اموات میں اضافہ ‘ معینہ وقت سے پہلے بچہ کا پیدا ہونا‘ بچوں کی شرح اموات میں اضافہ ‘ جنس کی بنیاد پر تشدد ‘ جنسی استحصال‘ غیر قاونی تجارت ‘ کم وزن بچوں کا پیدا ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ بات بلا شبہ کہی جاسکتی ہی کہ بچوں کی شادی سے صحت پر بین نسلی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ 20؎
UNCRCکی دفعہ28 اور دفعہ29 میں بچوں کے تعلیم کے حق سے منسلک ہے جس میں تعلیم کے حق کو بنیادی حق تصور کیاگیا اس قدم کو ہندوستان میں عملی جامع پہنانے کے لئے سال 2009ء میں قانون حق مفت اور لازمی تعلیم برائے اطفال (Right of Children to free and compulsory Education Act)RTEکی تشکیل عمل میں لائی گئی۔لہذا حق تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے یا ایک ایسی آواز ہے جس کے ذریعہ حقوق کا دعویٰ اور انھیں تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے۔ تعلیم کو بنیادی حق میں تبدیل کرنے کے لئے 86ویں دستوری ترمیم کو 2002ء میں پارلیمنٹ نے منظور کیا لیکن ترمیم کے آٹھ سال بعد حکومت ہند نے یکم اپریل 2010ء سے مفت اور لازمی تعلیم کے قانون کا اطلاق ہوا۔ یہ قانون ریاستی حکومت و مجالس مقامی کو پابند بناتا بلکہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہر بچہ اس کے مکان سے قریب ترین اسکول میں تعلیم حاصل کرسکے۔ 21؎ اس قانون کو دستور ہند کے دفعہ 21(A) میں شامل کیا گیا ہ جو6تا14سال کے بچوں کے لئے تعلیم کے حصول کو بنیادی حق قرار دیتی ہے۔ان تمام بچوں کو مفت و لازمی تعلیم دی جارہی ہے۔22؎
بچوں کی ترقی سے توجہ ہٹاتے ہوئے حکومت ہند نے تحفظ کی بناء پر بچوں کی ترقی کو فروغ دینے کے لیے سال2009ء میں Integrated Child Protection Scheme(ICPS)کو متعارف کروایا ۔ بچوں کے تحفظ پر مربوط اسکیم کے ذریعہ بے گھر بچوں‘ فٹ پاتھ پر رہنے والوں اور بچہ مزدوروں ‘ نشہ کے عادی بچوں ‘ بچہ بھکاریوں ‘ بے یارومددگار اور مدد و دیکھ بھال کے محتاج بچوں کی سب سے بڑی تعداد شہری علاقوں میں ہوتی ہے ۔ وہ سائبان کی عدم موجودگی اور بنیادی خدمات جیسے صفائی ‘ محفوظ پینے کا پانی ‘ تعلیم ‘ صحت کی دیکھ بھال ‘ تفریحی سہولیات وغیرہ جیسی بنیادی خدمات تک رسائی انتہائی درجہ محرومی کی حالت میں زندگی گذارتے ہیں وہ ٹریفک چوارہوں ‘ ریلو ے اسٹیشنوں ‘ راستوں ‘ سبزی منڈیوں وغیرہ میںبھیک مانگتے‘ کاروں کے شیشے صاف کرتے ہوئے ‘ کچرا چنتے ہوئے ‘ معمولی چیزیں بیچتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ یہ بچے اکثر وبیشتر بڑوں کے ہر قسم کے ظلم وستم جیسے جسمانی ‘ جنسی ‘ نفسیاتی اور معاشی استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ غیر انسانی اور پرتشدد حالات زندگی میں اکثر بچوں کو قانون شکن ‘ جرائم پیشہ اور خود ہی استحصال کنندہ بنادیتی ہے ۔ ICPSبچوں کی ضروریات بشمول بچائو ‘ علاج اور باز آبادکاری کی تکمیل کرتا ہے۔ICPSایک مرکزی اسپائنسر شدہ پروگرام ہے۔ ایسے بچے جن کی زندگی کو لا حق حقیقی خطرہ یا جو کھم ان کی شخصیت اور بچپن کے خلاف کسی بھی امر سے ان کی حفاظت ہے کوئی بھی بچہ سماجی تحفظ کے دائرہ سے باہر نہ رہے اور جو ضروری نگہداشت ‘ تحفظ اور امداد فراہم کرتے ہیں یہ مرکزی حکومت کی مالی اعانت سے ریاستی حکومتوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں کے علاوہ NGOsکے ذریعہ اس پروگرام کو روبہ عمل لیا جارہا ہے ۔23؎
ہندوستان میں درپیش جنسی استحصال کے معاملات کے مسائل سے بچوں کا طبقہ بھی محفوظ نہیں ہے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے بچوں کا جنسی استحصال بالغ افراد کے بہ نسبت آسان ہوتا ہے چونکہ یہ نادان اور معصوم ہوتے ہیں ۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے 2012ء میں The Protection of Children From Sexual Offences Actکو بنایا گیا ۔ اس قانون کے ذریعہ بچہ کی تعریف یا تشریح کسی بھی ایسے فرد کی حیثیت سے کی گئی ہے جس کی عمر18سال سے کم ہو۔ اس قانون کے ذریعہ مختلف جنسی جرائم کی واضح تشریح کی گئی ہے۔ بشمول جنسی اختلاط کا عمل یا غیر اختلاطی عمل ‘ جنسی ہراسانی و فحش گری وغیرہ ۔ اس قانون کے ذریعہ جرم کی سنگینی کے مطابق سخت سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں جس میں با مشقت عمر قید شامل ہے۔
اس قانون کے تحت واضح کئے گئے اصول و ضوابط میں جنسی استحصال کا شکار بچوں کے لئے نگہداشت کے انتظامات ‘ بچوں کا تحفظ اور ان کا ہنگامی ‘ طبی علاج ‘ جنسی زیادتی کا شکار بچوں کے لئے معاوضہ /ہر جانہ ادائیگی وغیرہ شامل ہیں۔ اس قانون کی نگرانی قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال اور ریاستی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال کی جانب سے کی جائیگی۔
JJ Act کے تحت وضع کئے گئے اداروں پر جنسی جرائم قانون کے ضوابط کا انحصار ہے تا کہ بچہ کی نگہداشت اور تحفظ کے انتظامات بہتر کئے جائیں اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کے مثاثرہ بچہ تحقیقات یا مقدمہ کے دوران دوبارہ مجرمین کا شکار نہ بنے۔
اس قانون میں ایک اہم اضافہ یہ کیاگیا ہیکہ اگر کسی بچے کو ہنگامی نگہداشت کے لئے کسی میڈیکل سنٹر یا ہاسپٹل لا جاتا ہے تو علاج سے قبل کوئی بھی مجسٹریل یا دیگر دستاویزات کا مطالعہ نہیں کیا جاسکتا۔ اصولوں کے ذریعہ معاوضہ یا ہر جانہ کی ادائیگی کیلئے خصوصی عدالت کو پیمانہ مقررکرنے کا اختیار دیا گیا۔24؎
خلاصہ:
بچوں کے تحفظ کا تصور ان تمام مسائل کو اجاگر کرتا ہے جن کا راست یا بالراست تعلق بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما سے ہوتا ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر بچوں سے متعلق جو بھی اعلامیے منظور کئے گئے ان کا اہم مقصد دراصل سماجی برائیوں اور غیر سماجی عناصر سے بچوں کا تحفظ رہا ہے۔ ہاں یہ بات بالکل درست ہیکہ ہم بچوں کے حقوق اور انکی فلاح و بہبود کے اقدامات کی پر جو ش سفارش کرتے ہیں لیکن بنیادی نقطہ نظر بچوں کا تحفظ ہی ہوتا ہے اور اس بات کو عالمی سطح پر ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک نے قبول بھی کیا ہے۔اس لئے ہندوستان نے بھی 2000ء کے بعد سے جو بھی سرگرمیاں بچوں کے حقوق سے متعلق کی ہے۔ان میں بچوں کے تحفظ کاعنصر شامل رہا ہے۔ اس بات کا اندازہ 2009ء میں متعارف کی گئی اسکیم ICPSسے لگایا جاسکتا ہے جو بچوں کے تحفظ پر مربوط ہے۔لیکن یہ سمجھنا بلکہ غلط ہیکہ ہندوستان نے بچوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا ہے یا پھر ان کے تحفظ سے متعلق معیار کو برقرار رکھا ہے ۔ کیونکہ ہندوستان کی جملہ آبادی میں سے بچوں کی آبادی کا اتنا اہم حصہ جو مختلف مسائل کا شکار ہیں جیسے ہر ہزار بچوں میں سے 77بچے پانچ سال تک زندہ نہیں رہ پاتے۔ 42فیصد بچے دائمی طور پر تغذیہ کی کمی کا شکار ہیں۔ 27ملین بچوں کا وزن اپنے مقرر معیاد سے کم ہے۔ 40فیصد بچے خون کی کمی کا شکار ہیں کئی بچے HIV/AIDSسے متاثر ہیں۔ 43فیصد بچے بھوکے سوتے ہیں۔ تقریباً 33ملین بچے تعلیم سے محروم ہیں اور 12لاکھ بچے بچہ مزدوری کا شکار ہیں ۔ 5سال سے 15سال کی عمر کے 20لاکھ بچے سیکس ورکرس ہیں۔ بچوں کی خرید وفروخت کی جاتی ہے۔11ملین بچے سڑکوں پر زندگی گذاررہے ہیں۔ کئی مسائل جیسے جنسی استحصال کا شکار ہورہے ہیں۔ حال ہی میں کشمیر کی رہنے والی لڑکی آصفہ بانو جس کی عمر آٹھ سال تھی وہ جنسی استحصال کا شکار ہوئی ہے ۔ کھلے عام ایسے کئی واقعات دن بہ دن پیش آرہے ہیں۔ انکے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جارہی ہے۔ صحیح معنوں میں بچوں کا تحفظ اس وقت ممکن ہوگا جب بچے مکمل محفوظ رہیں گے۔ حکومت ہند کو ان تمام معاملات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے۔
حواشی Refreces
The Integrated Child Protection Scheme (ICPS), A centraly, I sponsord scheme of Government- civil society partner ship, Ministry of women and Child Development of India, P-6
1-منتقیم عبدل خواجہ‘ انسانی حقوق قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ‘ نئی دہلی 2009‘ ص 127
2-افتخارالزماں ‘ بچے مستقبل کا معمار ‘ ماہنامہ یوجنا ‘ نئی دہلی ‘ مئی2008‘ ص۔23
3-Jyotsan Tiwari, Child Abuse and Human Right, Vol 2, Isha Books Publication, Delhi, 2004,P-3
4-Michael Freemans, The Moral Status of Children Essay on the right of the child martins Nijoff Publisher, 2002, PP 86-87
5-Sastry T.S.N India and Human on rights (Reflection), Ashok Kumar Mittal Concept Publishing, New Delhi, 2005, P-245
6-Ashish Kumar Das and Prasant Kumar Mohanty, Human Right in India, Saru and Sons, New Delhi, 2007, P-153
7-www.childrights.ie lindex.phigchidren sir/and/funconvention right-child (June 2012)
8-Ibid
9-www.wikipedia.org/wiki/conventiion the right of the child state parties and signatories (Jan-2013)
10-Jagan nath Mohanty, Human Rights Education, Deep &Deep Publication, New Delhi, 2003, P-241
11-Children in India 2012: A Statistical appraisal, Central Statistics office, Ministry of Statistics and programme implemention, govt of India, 2012, New Delhi, P-3
12-Anith Abraham, formation and managment of NGOs- Non-Governamental Organisation, Universal law, Publishing, Delhi, 2011, P-182
13-Azizur Rahman Chawadhry, Jahid Hussain and shawkat alam, issues Human Rights, Atlantic Publication, Distributors, New Delhi, 2010, PP-185-186
14-sneh Kumar, An Evalution of the ICDS in India, Spellbound Publication, Rohtak, 1996, P-12
15-فوزیہ سلطانہ ‘ سب کے لئے تعلیم ‘ ماہنامہ یوجنا‘ جولائی ‘ نئی دہلی ‘ ص – 27
16-Children in India 2012:Opcit, N 12, P-61
17-Ibid, P-63
18-Right to Education: Role of the private sector, 2012 (www.ey.com/publication/vwlussete) (Feb-2014)
19-روزنامہ سیاست ‘ یکم اپریل 2010ء‘ ص۔10‘حیدرآباد۔
20-The Integrated Child protection scheme, opcit No 1, PP 6-7
21-The Hindu, New Delhi, 2012 November 15, P-9