سرکاری مراعات پر اردو کی ترقی نا ممکن
اردو نے صارفیت کے بل پر نہیں بلکہ ثقافت کی بنیاد پر دنیا کی سیر کی ہے اور اپنا وقار بنایا ہے۔ڈاکٹر خواجہ اکرام
اردو‘ مسلط کی ہوئی زبان نہیں‘ بلکہ اردو والوں کی اپنی زبان ہے ۔ڈاکٹر خلیل طوقارترکی
مقررین کا تاریخی اور عصری حوالوں سے زبان کے تحفظ کی کوششوں پر زور
پروفیسر ارتضیٰ کریم، محترمہ وفایزدان منش ایران، پروفیسر خلیل طوقارترکی، محترمہ نازیہ بیگم جافو ماریشس، پروفیسر جاوید دانش کناڈا اور دیگر مقررین کا خطاب
ڈاکٹر زر نگار یاسمین پٹنہ کی رپورٹ
پٹنہ : اردو ہماری مادری زبان ہے اور آج کے حقائق کی روشنی میں ہمیں اپنی زبان کی ترقی کے لئے ٹھوس لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اردو مٹ گئی تو ہماری پہچان مٹ جائے گی۔ ہمیں دوسری زبان والوں سے سبق لینا اور اپنی زبان سے ہر حال میں ترجیحی محبت کرنا چاہئے۔ اردو کتابوں کے ناشرین کی یہ ذمہ داری ہے کہ اردو آبادی کی قوت خرید کا لحاظ رکھتے ہوئے مناسب قیمت پر اردو کتابیں بازار میں لائیں تاکہ بک اسٹال سے ان کی آسان نکاسی ہوسکے۔ ہمیں اردو کی ابتدائی اور پرائمری تعلیم کے فروغ پر خاص دھیان دینا ضروری ہے۔ حکومت اردو کی ترقی کے لئے پابند عہد ہے‘ یہ بہار کی دوسری سرکاری زبان ہے اور حکومت کے ذریعہ ملنے والی سہولیات کا ہمیں بہتر سے بہتر استعمال کرنا چاہئے۔
مذکورہ خیالات کا اظہار وزیر اقلیتی فلاح حکومت بہار وکارگذار صدر بہار اردو اکادمی نے کیا۔ وزیر موصوف ’’اردو زبان وادب: موجودہ عالمی تناظر‘‘ کے موضوع پر‘ اکادمی کے زیر اہتمام دو روزہ عالمی اردو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ مقامی اے این سنہا انسٹی ٹیوٹ میں منعقدہ اس کانفرنس سے اپنے استقبالیہ وتعارفی خطاب میں پروفیسر اعجاز علی ارشد وائس چانسلر مولانا مظہر الحق عربی وفارسی یونیورسیـٹی ونائب صدر اکادمی نے کہا کہ اردو کے تعلق سے عالمی تناظر میں ہمیں آج کی صورتحال کا بار بار جائزہ لینے اور نوجوانوں کو اس زبان وادب کی طرف رغبت دلانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام بزرگوں کی سچی اعانت اور نوجوانوں کے لئے حوصلہ افزا اقدام کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔ ہمیں ماضی کے تناظر میں حال کا جائزہ لینا چاہئے اور زبان کے سلسلے میں کسی بھی غیر فطری رویہ کی حوصلہ افزائی سے بچنا چاہئے۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں پروفیسر ارتضیٰ کریم نے زبان وادب کے تعلق سے گروپ ازم کی حوصلہ شکنی پر زور دیا اور کہا کہ اردو کی نئی بستیوں میں آج بہت سارے کام ہورہے ہیں۔ ہمیں ترجیحی طور پر اردو کے مسائل کا حل ڈھونڈنا اورا س کے لئے احساس کمتری سے نکل کر‘ پورے اعتماد اور اتحاد کے ساتھ ٹھوس کام کرنا چاہئے۔ بنیادی ذمہ د اری ہم اردو والوں کی ہے۔ ہمیں حلفیہ ذمہ داری کا احساس رکھے ہوئے غیر اردو داں آبادی کو‘ انفرادی اور اجتماعی توجہ کے ساتھ اردو سے آشنا بنانے اوران میں اردو خواندگی عام کرنے کی کوشش میں کس طرح پیچھے نہیں رہنا چاہئے۔
اکادمی کی اس تاریخ ساز کانفرنس میں ملک کے مختلف علاقوں سے آنے والے اربابِِ قلم کے علاوہ متعدد بیرونی ممالک سے آئے ہوئے مہمانوں نے شرکت کی اور اپنے خیالات سے نوازا۔ ایران کی محترمہ وفایزدان منش نے اردو ادب کے حوالے سے‘ قدیم معاصرانہ ادبی چشمکوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہرحال سودمند نہیں رہیں۔ انہوں نے اردو زبان کا خیال رکھنے پر زور دیتے ہوئے بتایا کہ اردو ادب کی جڑ فارسی میں ہے اور آج کے ایران میں اردو کی تعلیمی صورتحال بہت بہتر ہے۔ وہاں جامعات سے لے کر متفرق علمی مراکز میں اردو کا مطالعہ ذوق وشوق سے ہورہا ہے۔
ترکی سے تشریف لانے والے دانشور پروفیسر خلیل طوقار نے‘ کانفرنس کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے خسروؔ سے غالبؔ تک‘ اردو کی خدمت کرنے والے ان شعرا کو یاد کیا جو نسلاً ترک تھے۔ جناب خلیل نے کہا کہ اردو‘ مسلط کی ہوئی زبان نہیں‘ بلکہ اردو والوں کی اپنی زبان ہے۔ اردو اللہ کا احسان ہے۔ متعدد تاریخی شواہد اردو اور ترکی کی قربت ومحبت اور ان کے باہمی احترام کی کیفیتوں کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں۔ اردو اپنا خیال بھی رکھتی ہے اور اپنوں کا خیال بھی رکھتی ہے اور نازک وقتوں میں زبان کے تحفظ کی ذمہ داری خواتین کے لئے بڑھ جاتی ہے۔ انہوں نے مثالیں دے کر کہا کہ تاریخ بتارہی ہے کہ جب وقت آیا ہے تو خواتین نے حوصلے اور ذہانت سے تحریکی انداز میں زبان کے تحفظ کی راہ دکھائی ہے اور انہیں کامیابی ملی ہے۔ جناب خلیل نے بتایا کہ ترکی کی کئی یونیورسیٹی میں اردو پڑھائی جارہی ہے اور ترکی نے گذشتہ سال اردو تعلیم کی ایک صدی پوری کی ہے اور یادگار جشن اردو منایا ہے۔ امریکہ سے آئے ہوئے مہمان جناب ضامن جعفری نے کہا کہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور زبان کا تحفظ اسے بولنے والوں کی پہلی اور آخری ذمہ داری ہے۔ موصوف نے ’’ادب کی خدمت‘‘ اور ’’ادبی صورتحال‘‘ کے زیر عنوان‘ اپنے خاص لہجہ میں‘ اپنی طنزیہ ومزاحیہ نظم سے بھی سامعین کو محظوظ کیا۔
نائب صدر اکادمی جناب سلطان اختر نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ اردو پوری دنیا میں محوخرام اور ان گنت دلوں میں خیمہ زن ہے اور اردو کے مخالفین بھی اس کی عظمت وقوت کے معترف ہیں۔ انہوں نے شاعری کی زبان میں کہا کہ
لیتے ہیں اس کا نام بصد احترام اب ٭ اس کو گلے لگانے لگے خاص وعام اب
مقبول بے پناہ ہے بیرون ملک بھی ٭ سر چڑھ کے بولنے لگی اردو تمام اب
عالمی کانفرنس کے اس افتتاحی اجلاس میں حسب روایت شمع افروزی اور مہمانوں کے لئے گل پیشی بھی ہوئی اور انہیں مومنٹو اور اسناد سے نوازا گیا۔ اس موقع پر وزیر محترم کے ہاتھوں پروفیسر ارتضیٰ کریم‘ خواجہ اکرام الدین‘ غضنفر‘ انور پاشا‘ علیم صبا نویدی اور ریاض عظیم آبادی وغیرہ کو ’’اکادمی ایوارڈ‘‘ دیئے گئے۔ سکریٹری اکادمی مشتاق احمد نوری نے کہا کہ بہت جلد ایک شاندار تقریب کا انعقاد کرکے اکادمی مزید ایوارڈ کی تقسیم کا عمل پورا کرے گی۔آج کا یہ پروگرام پوری طرح کامیابی سے ہم کنار ہوا اور اس کی مسلسل ستائش ہوتی رہی۔
واضح رہے کہ عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے دن تین اجلاس ہونگے پہلا اجلاس 10.30 بجے سے 1 بجے تک‘ دوسرا 2 بجے سے 4 بجے تک اور تیسرا 4 بجے سے 6 بجے شام تک‘ ان تینوں اجلاس میں ملک اور بیرون ملک کے مشاہیر اپنے مقالات پیش کریں گے۔
بہار اردو اکادمی کے زیر اہتمام منعقدہ عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے دن علمی وفکری اجلاس کا آج مقامی اے این سنہا انسٹی ٹیوٹ میں حسب پروگرام انعقاد
ہوا۔ ’’اردو زبان وادب‘ موجودہ عالمی تناظر‘‘ کے موضوع پر ہونے والی اس کانفرنس کے پہلے امروزہ اجلاس کی صدارت کے فرائض پروفیسر جاوید دانش اور کارداش زکائی نے انجام دیے اور کل کے افتتاحی اجلاس کی طرح آج کے پہلے دونوں اجلاس کی نظامت کے فرائض بھی سکریٹری اکادمی مشتاق احمد نوری نے بہ نفس نفیس انجام دیا اور دوران نظامت جہاں اپنے آپ پر اعتماد کرنے‘ زبان سے محبت رکھنے اور اپنے معاشرے اور اپنی نسل کو اردو سے آشنا بنانے کی طرف توجہ دلائی وہیں اپنی بذلہ سنجی کی بے پناہ صلاحیتوں سے بھی حسب موقع کام لیا۔ پہلے اجلاس میں محترمہ نازیہ بیگم جافو نے اپنے مقالہ میں ’’ماریشس میں اردو کے مسائل اور امکانات‘‘ کی متنوع جہتیں اجاگرکیں اور موجودہ حالات میں ماریشس میں اردو کی ترقی کے لئے مختلف تجاویز کی طرف اشارے کیا اور کہا کہ اگر چہ وہاں بھی اردو تدریس وتعلیم کے بعض مسائل ہیں اور وہاں سے اردو کا کوئی اخبار ہنوز نہیں نکلتا‘ مگر وہاں اردو کے طلبا وطالبات کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اردو کے تخلیقی ادب کی کتابیں بھی مختلف اصناف میں منظر عام پر آرہی ہیں۔ مجموعی طور پر وہاں اردو کا حال ومستقبل درخشاں ہے اور حکومت کی سرپرستی میں اردو کی ترقی جاری ہے۔ جناب مشرف عالم ذوقی نے موجودہ عالمی تناظر میں اردو زبان وادب کے تعلق سے کہا کہ اردو والوں کے سامنے تشخص اور تحفظ دونوں ہی کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے تاریخ کے حوالے سے اردو کے روشن امکانات اور اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے اعداد وشمار کی روشنی میں اہم عصری احوال اجاگر کئے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی تناظر میں اردو کا مستقبل روشن ہے اور ہمارا ادب روز افزوں مقبولیت پارہا ہے۔ ہم جدید تکنیکی تقاضوں کے ذریعہ اور انٹرنیٹ سے اردو کا مستحکم رشتہ بناکر اسے مزید فروغ واستحکام دے سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں ترجمے کے فن پر بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ادب میں ایک سے بڑھ کر ایک فکشن لکھا جارہا ہے اور صارفیت کے دور کے مسائل نیز دیگر جدید عصری مسائل پیش ہورہے ہیں۔ اگر ہم اپنے تخلیقی ادب کا منصفانہ جائزہ لیں تو کمتری کے احساس سے بہ آسانی نجات پاسکتے ہیں۔ جناب غضنفر نے اردو کی عصری صورتحال کو نہایت مرصع استعاراتی زبان میں کامیاب تدریسی وتجزیاتی انداز سے سامنے لایا اور حصول زبان کے اصل مقاصد بتاتے ہوئے کئی اہم مشورے دیے۔ انہوں نے اردو والوں کو تبلیغ زبان کے انداز میں کام کرنے کی طرف توجہ دلائی اور اردو کے جیالوں کی موثر تنظیم بنانے پر زور دیا۔ جناب غضنفر نے کہا کہ اردو کچھ مسائل کے حصار میں ضرور ہے مگر اس کا حل کسی بھی طرح ناممکن نہیں۔ ہمیں اردو کے تعلق سے تدریسی‘ تنظیمی اور نصابیاتی کمزوریاں دور کرنے کے لئے موثر اقدام پردھیان دینا چاہئے۔
اس موقع پر ایران کی محترمہ وفا یزدان منش نے اپنے خطاب میں لسانیات کی تدریسی اہمیت اور اس کے تازہ علمی ونظریاتی فروغ پر توجہ دلائی اور ترویج اردو کے لئے آموزش اردو کے کام کی اہمیت وضرورت بتاتے ہوئے کہا کہ معاصر ادب کے متون اور حالیہ ادبی تحریک ورجحان پر کتابوں کی کمی دور ہونی چاہئے۔ محترمہ وفانے ادب میں اثر پزیری کے اسباب کی گہری تلاش‘ معاصر ادب کے تقابلی مطالعہ اور خصوصاً کتاب شناسی کے علم کو بھی پوری طرح فروغ دینے کی بات کہی اور تدریسی زبان کے نفسیاتی رجحانات پر نظر رکھنے کا مشورہ دیا۔ جناب انور پاشا نے کہا کہ اردو کے فروغ وبقا‘ اس کے مستقبل اور اس کے تحفظ کا معاملہ خالصتاً برصغیر کا معاملہ ہے کسی بھی ملک میں اہم تقاضوں کی تکمیل کے لئے‘ بیرونی زبانوں کی تعلیم کا اہتمام ہوتا ہے مگر اس کی ایک الگ حیثیت ہے۔ ملک کی تہذیبی شناخت میں اردو کا وسیع کردار رہا ہے۔ ہم اگر آج بھی اردو کو تہذیبی شناخت بنالیں تو ہماری محتاجی دور ہوجائے گی۔ جناب پاشا نے بہار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہاں اردو دوسری سرکاری زبان ہے یہ ریاست اردو کی سب سے بڑی منڈی ہے اور یہ بات ہمارے لئے باعث فخر ہے۔ انہوں نے کہا کہ بات صرف مراعات کے حصول کی نہیں‘ اردو کا فروغ تو ہمارا جمہوری وآئینی حق ہے۔ ہمیں احساس کمتری سے نکل کر اردو کو اپنے معاشرے‘ اپنی زندگی اور اپنے گھر آنگن میں بنیادی طور پر پھیلانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مثالیں دے کر سمجھایا کہ بعض صورتحال خود ہماری بے اعتنائی اور احساس کمتری کی پیداوار ہے۔ ہماری خواتین میں تعلیم کا مسلسل فروغ بقائے اردو کی خاص ضمانت ہوسکتی ہے اور اس کے لئے ہمارے علما اور دانشوروں کو بھی تحریکی وتبلیغی انداز میں توجہ دینی چاہئے۔ جناب کارداش زکائی نے اپنے صدارتی خطاب کے دوران‘ اہل عظیم آباد‘ اور اراکین اکادمی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ مشکلات ضرور ہیں مگر محبان اردو کی کوئی کمی نہیں۔ کناڈا سے تشریف لانے والے مہمان پروفیسر جاوید دانش نے اردو کے تعلق سے کناڈا کی ادبی وصحافتی تاریخ اور عصری‘ نصابی اور تعلیمی ترقیات کا تذکرہ کیا اور مہجری ادب کی اہمیت بتائی انہوں نے کہا کہ اردو سے زیادہ اہل اردو کا مسئلہ ہے کہ وہ تراجم اور دیگر طریقوں سے ادب کا سرمایہ بڑھائیں۔
دوسرے اجلاس کا آغاز وقفہ طعام کے بعد دو بجے دن سے ہوا۔ ڈاکٹر جمیل اختر نے اس موقع پر اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ عملی اقدام سے ہی اردو کو اس کا سچا وقار مل سکتا ہے۔ انہوں نے بہار میں اردو تحریک کی تاریخی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے‘ کہا کہ ہمیں بہرصورت اپنی بے خبری وبے حسی دور کرنے اور اردو سماج میں بیداری لانے کیلئے قربانیاں دینے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر مشتاق احمد نے ’’اردو زبان اور زندگی عا لمیت کے تناظر میں‘‘ کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا اور کہا کہ ہمیں عصر حاضر کے تقاضوں کے سمجھنے اور انہیں پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مستند ماہرین لسانیات کے اقوال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ زبان صرف ذریعہ اظہار ہی نہیں زندگی گذارنے کا پیمانہ بھی ہے اور ہمیں اردو میں ایسی قوت بڑھانے کی ضرورت ہے کہ عالمی بازار میں اس کی پکڑ مستحکم ہو۔ ڈاکٹر سید احمد قادری نے خواتین افسانہ نگاروں کے حوالے سے اردو زبان وادب کے موجودہ عالمی تناظر پر اپنے مقالے میں اجمالاً روشنی ڈالی اور کہا کہ فن ارتقا پزیر رویے کا نام ہے۔ اکیسویں صدی میں جدید تکنالوجی کی برکتوں سے ہمارے افسانوی ادب کے لئے بہت سارے مفید دروازے کھل چکے ہیں اور پرانے خدشات کے بادل چھٹ چکے ہیں۔ ڈاکٹر زرنگار یاسمین نے ’’اردو شاعری کے موضوعات موجودہ عالمی تناظر میں‘‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا اور تنہائی‘ صارفیت اور دہشت گردی جیسے سہ گانہ کلیدی عصری موضوعات کی اردو شاعری میں فنکارانہ شمولیت پر مدلل روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مجموعی طور پر عالمی تناظر میں جو نئے موضوعات ابھرے ہیں ان کے متعلقات واثرات کو بالکل غیر جانبداری کے ساتھ ہمارے شعرا نے اپنے فکروفن کے حصار میں لے لیا ہے۔ قطر سے آئے ہوئے مہمان ڈاکٹر شہاب الدین احمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ دیگر باتوں کے علاوہ اقتدار اور جغرافیائی تحفظات بھی زبان کے معاملے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ لہذا اردو زبان وادب کو عالمی تناظر میں دیکھتے اور دکھاتے ہوئے ہمیں اسلوبیاتی لہجے کی باریکیاں سمجھنی ہونگی اور فصیح وغیر فصیح کے روایتی دائرے سے نکل کر کسی تازہ تجزیاتی فیصلے تک پہونچنا ہوگا اور اس خاص مزاج کو بھی سامنے رکھنا ہوگا جو جمہوریت نے اردو کو عطا کیا ہے۔ انہوں نے باہمی روابط کے استحکام اور ادب فہمی وادب شناسی کا تازہ پیمانہ وضع کرنے پر زور دیا۔ جناب زین رامش نے اپنی پرمغز تحریر کے اشارات سے نوازتے ہوئے کہا کہ مغربی دنیا غیر مغربی دنیا اور عرب امارات وخلیج میں اردو کا پھیلائو دراصل عالمی اردو ادب کی تین خاص جہتیں ہیں۔ اگرچہ نئی بستیوں میں تنقیدی‘ تاریخی اور تحقیقی ادب کی کمی کھٹکتی ہے۔ لیکن تخلیقی ادب خصوصیت کے ساتھ شاعری کے حوالے سے جو منظر نامہ سامنے آتا ہے وہ بہرحال اردو کے زندہ اور ارتقا پزیر زبان ہونے کا بین ثبوت ہے۔
ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین نے اپنے صدارتی خطاب میں اپنے جامع تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اردو کے تعلق سے کسی مایوسی میں مبتلا ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ اردو نے صارفیت کے بل پر نہیں بلکہ ثقافت کی بنیاد پر دنیا کی سیر کی ہے اور نئی بستیوں میں اپنا وقار واعتبار بنایا ہے۔ انہوں نے رجائی پہلو پر نظر رکھنے کی ضرورت واہمیت بتائی اور کہا کہ ماتم ہونا چاہئے مگر محاسبہ کے طور پر گلے شکوے کے طور پر ہرگز نہیں۔ اردو نہ ہوتی تو مشترکہ تہذیب نہ ہوتی‘ آج زمانے کے تقاضوں کو سمجھنے اور جدید تکنیکی سہولیات سے ہر طرح استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ زندہ زبان وہ ہے جو کثرت سے استعمال ہوا اور تازہ اعداد وشمار اور احوال اردو کی زندگی کاکھلا ثبوت ہیں۔ پروفیسر علیم اللہ حالی نے اپنی صدارتی تقریر میں خوش فہمی اور یاسیت کے مابین فطری توازن بنائے رکھنے کا ذہن دیتے ہوئے بعض اہم نکات کی طرف اشارے کیا اور معاشرتی اورگھریلو زندگی میں عملی وعلمی طور پر اردو کو پروان چڑھانے کے مفید مطلب طریقے کو اپنانے اور اپنی کمزوریاں دور کرنے کے لئے کئی اہم باتیں یاد دلائیں۔ جناب شکیل احمد خاں نے اپنے مختصر خطاب میں اردو کی محفل میں آنے کے فوائد کا اعتراف کرتے ہوئے دوسری زبانوں کے شاہکارمتون پڑھنے اور عملی طور پر اردو کے لئے بنیادی تعلیمی کام کرنے کی اہمیت بتائی۔ اس موقع پر جناب شکیل خاں کے دست مبارک سے جناب زین رامش‘ جناب مشرف عالم ذوقی‘ جناب انور پاشا‘ محترمہ زرنگار یاسمین‘ ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین‘ ڈاکٹر سید احمد قادری‘ جناب غضنفر‘ جناب علیم صبا نویدی‘ محترمہ نازیہ جافو‘ ڈاکٹر شہاب الدین اور جناب ظفر کمالی وغیرہم کے درمیان مومنٹو‘ سند اور اکادمی ادبی ایوارڈ کی تقسیم بھی عمل میں آئی۔ واضح رہے کہ کل کے افتتاحی اجلاس میں بھی جناب اشرف فرید اور دیگر حضرات کو اکادمی ایوارڈ دیا گیا تھا۔
آج کے پروگرام کا تیسرا اجلاس ’’شعری نشست‘‘ کی صورت میں منعقد ہوا جس کی صدارت جناب سلطان اختر نائب صدر اکادمی نے فرمائی اور نظامت کے فرائض جناب صفدر امام قادری نے انجام دیے۔ اس نشست میں صدر مشاعرہ کے علاوہ جناب ظہیر انور‘ جناب زین رامش‘ جناب انور شمیم‘ پروفیسر اعجاز علی ارشد‘ پروفیسر علیم اللہ حالی‘ جناب ارمان نجمی‘ جناب علیم صبا نویدی اور بیرون ملک سے آئے ہوئے مہمان ڈاکٹر خلیل طوقار‘ ڈاکٹر جاوید دانش اور جناب ضامن جعفری نے اپنے غزلیہ اور نظمیہ کلام سے سامعین کو محظوظ فرمایا۔ اکادمی کی یہ دو روزہ عالمی کانفرنس علمی وفکری اور ادبی وانتظامی سبھی اعتبار سے نہایت کامیاب رہی اور شرکاء کی بڑی تعداد نے اکادمی کی اس کاوش کو اپنی ستائشوں سے نوازا۔