بیدل اگرایران میں پیدا ہوتے تو ان پر لاتعداد کتب شائع ہوچکی ہوتیں:۔ڈاکٹر سید تقی عابدی

عصر حاضرمیں بیدل کے کلام کی اہمیت وافادیت “پر توسیعی خطبہ میں دانشوروں کا خطاب
\"3\"

نئی دہلی (اسٹاف رپورٹر ) شعبہ فارسی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی جانب سے ”عصر حاضرمیں بیدل کے کلام کی اہمیت وافادیت “پر توسیعی خطبے کا انعقاد عمل میں آیا۔خطبے کا آغاز یاسرعباس غازی نے تلاوت کلام پاک سے کیا اورنظامت کے فرائض توسیعی خطبات سیریزکے کوآرڈنیٹر ڈاکٹر سید کلیم اصغر نے انجام دیا۔مہمان خصوصی کی حیثیت سے ڈاکٹر علی دہگاہی ،کلچرکاونسر،سفارت جمہوری اسلامی ایران ،نئی دہلی نے شرکت کی۔اس خطبے کے مقررخصوصی ڈاکٹرسید تقی عابدی (کناڈا)تھے۔جب کہ صدارت کے فرائض صدرشعبہ فارسی پروفیسرعبدالحلیم نے انجام دی۔ڈاکٹر سید کلیم اصغر نے استقبالیہ کلمات کے دوران کہا کہ اس طرح کے خطبات سے طلبا کے اندرتحقیق کی خواہش پیدا ہوتی ہے،خاص طور پر آج کا موضوع بہت اہم ہے اوراسی لیے ہم نے اس موضوع کے لیے ڈاکٹرسیدتقی عابدی کو دعوت دی ۔

اس موقع پرڈاکٹر تقی عابدی نے خطبہ کے دوران کہاکہ آج کا یہ موضوع نہایت اہم ہے اوراس موضوع کے لیے صرف ایک خطبہ نہیں بلکہ ایک سیریز کی ضرورت ہے۔کیوں کہ بیدل کوئی ناشناختہ شاعر نہیں ہے اگربیدل جیسا شخص ایران میں پیدا ہوتاتواس پر لاتعدادکتابیں شائع ہوچکی ہوتی۔بیدل فارسی کا ایک عظیم شاعر ہے جس نے ایک لاکھ سے زیادہ اشعارکہے۔اس کو ایک خطبے میں سمیٹنا بیدل کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔آپ نے کہا کہ بیدل انسانی نفسیات کا شاعرہے جب ہم بیدل کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تین سوسال قبل جوبات بیدل نے اپنے کلام میں کہی تھیں وہ آج نظرآرہی ہیں۔مزید انہوں نے بیدل کی شعری تخلیقات کو غنچہ اورنثری تخلیقات کو پھول سے تعبیر کیا۔

ڈاکٹر علی دہگاہی نے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہورہی ہے کہ میں آج اس پروگرام کا حصہ ہوں جو بیدل سے منسلک ہے۔بیدل نہ صرف ہندوستان کا شاعر ہے بلکہ تمام دنیائے فارسی کا شاعر ہے۔بیدل پر ہندوستان کے علاوہ افغانستان،تاجیکستان اورایران میں بڑے پیمانے پرکام ہورہاہے۔ایران میں بیدل کے نام کی انجمن بیدل ہے۔جب کہ خانہ فرہنگ ایران ،نئی دہلی میں انجمن ادبی بیدل کی بنیاد برسوں پہلے رکھی گئی اورجس کے تحت اب تک ۳۶ جلسے منعقد ہوچکے ہیں ۔جہاں تک بیدل پرسمینارکا تعلق ہے تو ایران میں ابھی حال ہی میں بیدل پر ایک سمینار ہوااورہندوستان میں یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔

پروفیسر عبدالحلیم نے صدارتی کلمات کے دوران کہا کہ بیدل پر جو مشکل پسندی کا الزام آتاہے وہ پوری طرح درست نہیںکہا جاسکتا۔ان کی شاعری کا ایک حصہ نہایت آسان،سادہ اورسہل بھی ہے اوراصل بیدل کی یہی انفرادیت ان کی خارجی مشاہدات اورحقائق فکری وعرفانی جذبات کی ترجمانی میں پنہاں ہے۔اخیر میں صدرشعبہفارسی نے حاضرین کا شکریہ اداکیا۔اس پروگرام میں فارسی اور اردوکے اساتذہ اور ریسرچ اسکالرس کافی تعداد میں موجود تھے۔
\"1\"
\"4\"

Leave a Comment