صدف مرزاکوپن ہیگن ڈنمارک کی قلم سے
بہت دن ادھر کی بات ہے کہ
جب پاکستان میں فیض کی یاد میں صد سالہ تقریبات کا آغاز ہوا تو دنیا بهر کے اردو حلقوں میں گرمجوشی کی ایک لہر دوڑ گئی.
یورپ میں بهی فیض کمیٹی کی بنیاد ڈالی گئی تاکہ فیض صدی مناتے ہوئے
ساکنانِ یورپ بھی اپنا حصہ ڈالیں اور پیغامِ فیض کو سیمنار اور تراجم کے ذریعے یورپ میں عام کیا جا سکے
اردو کی سب سے بڑی بستی یعنی برطانیہ کے کئی شہر بھی یورپ کے کچھ ممالک کے برابر ہیں لٰہذا برطانیہ کی اپنی انتظامیہ تھی
لیکن باقی یورپ کے اردو حلقوں سے ادب نواز احباب کی ایک تنظیم تشکیل دی گئی.
جنوری 2011 ء میں ہی برسلز میں پریس کانفرنس میں اس تنظیم کا آغاز ہوا جس کے صدر فیض کے دوست اور میزبان برلن میں مقیم محترم ڈاکٹر عارف نقوی تھے
نائب صدر کے لئے راقم الحروف نام چُنا گیا
ڈنمارک میں ٹی وی لنک جو اس وقت ہفتے میں تین دن نشریات پیش کرتا تھا فیض کے حوالے سے باقاعدہ پروگرام کرتا رہا
لندن فیض میلہ
یورپ میں منعقد ہونے والا عظیم ترین پروگرام تها
جس میں فیض کمیٹی یورپ نے بهی شرکت کی.
اسی سلسلے کی ایک کڑی ڈنمارک میں بین الاقوامی پروگرام تھا جو لندن میلے کے فوراً بعد یعنی اس سے اگلے ہفتے طے پایا
ریڈیو پاک سلونہ کے ڈائریکٹر محترم راجہ شفیق کیانی
جو سپین میں فیض کمیٹی کے ڈائریکٹر بھی تھے ہمیشہ ریڈیو پر بین الاقوامی پروگرام کرنے کا اہتمام کرتے رہے فیض تقریبات کے سلسلے میں سال بھر میں ایک مرتبہ فیض پروگرام ترتیب دیا جاتا اسی پروگرام میں ہم نے پہلی مرتبہ جناب تسلیم الٰہی زلفی کا نام سنا اور ان کا انٹرویو سُنا
محترم جناب تسلیم الٰہی ذلفی کو بھی ریڈیو پاک سلونہ پر متعارف کروایا گیا اور فیض شناسوں میں ان کا مقام اعلی اور ارفع بتایا گیا
ہماری بات چیت ریڈیو پاک سلونہ کے ڈائریکٹر محترم راجہ شفیق کیانی صاحب سے ہوئی. راجہ صاحب انتہائی متحرک سماجی شخصیت ہیں جو نہ صرف سخن فہم ہیں بلکہ سخن پرور بهی ہیں.
راجہ شفیق کیانی صاحب نے کہا کہ زلفی صاحب فیض کے قریبی دوست رہے ہیں ظاہر ہے کتاب کے مصنف ہیں آپ ان کی کتاب بهی ضرور پڑھیے.
. ہم نے فاضل مصنف سے کتاب مانگی موصوف نے بتایا کہ وہ برطانیہ تشریف لا رہے ہیں وہاں سے ڈنمارک بھی آ جائیں گے
ہم نئ بھی بتایا کہ ہم ابھی لندن میلے میں شرکت کے لیے جا رہے ہیں۔ بہر کیف پروگرام طے ہوا
اب لندن قیام کے دوران ان کے ای میل کا تانتا بندھ گیا ۔
\”\” بھئی مجھے باقاعدہ ٹی وی لنک کے آفیشل پیڈ پر دعوت نامہ بھیجا جائے تاکہ مجھے امیگریشن والے نہ روک لیں \”
جی بہتر\”\”
ہم نے آدابِ میزبانی نبهاہتے ہوئے کہا لیکن
ہمیں تھوڑی حیرت تو ہوئی کہ کینڈا سے یورپ آتے ہوئے
کوئی کسی کوائرپورٹ پر نہیں روکتا.
بہر حال ہم نےان کے حکم کی تعمیل میں اسی وقت خط بھیجوا دیا پھر اچانک خبر ملی کہ ان کی سیٹ چند دن پہلے کی ہوگئی ہے اور وہ چند دن پہلے کوپن ہیگن پہنچ جائیں گے
ہم نے مودبانہ گزارش کیا کہ حضور ہم توابھی لندن میں ہیں ہماری آمد پروگرام سے صرف دو دن قبل ہے \”\”
فوراً ہی جوابی ای میل موصول ہوا…
لیکن اب میری سیٹ تو بک ہو چکی .ایجنٹ کی غلطی سےچند دن پہلے ہو گئی.. اب تبدیل نہیں ہو سکتی
بہر کیف کسی نہ کسی طرح سلطان گوندل کو ائر پورٹ
دوڑایا گیا . سلطان گوندل نے ان کو اپنے دوست کے گھر ٹھہرایا
اب وہاں سے ضدی بچوں کی طرح واویلا شروع ہوا کہ….\”\” مجھے کھانا نہیں مل رہا …مجھے ناشتہ نہیں مل رہا میں اتنا بڑا ادیب مصنف براڈکاسٹر اپنے سب دوستوں کو نظر انداز کر کے آپ کی دعوت پر آگیا مجھے خوار کیا جا رہا ہے\”\”\”\”
ہم لندن میں پریشان کہ
یا وحشت…. یہ ہم نے کیا بچہ پال لیا.. لیکن خود کردہ را علاج نیست…
ہماری واپسی ہوئی اور
ہم نے ائیر پورٹ پر اترتے ہی ٹی وی ٹیم سے رابطہ کیا کہ ازراہِ کرم کوپن ہیگن ک جس اپارٹمنٹ میں ان کی رہائش کا بندوبست کیا گیا ہے ان کو وہاں پہنچایا جائے
زبیر رائی اور ہم ان کو لینے گئے….. آگے کیا دیکھتے ہیں کہ ڈنمارک کے رسوائے زمانہ اور بزعم خود ادیبوں کے ادیب محترم نصر ملک تشریف فرما تھے بلکہ \”\”نصر ملک لوکی\”\” جلوہ افروز تھے ان کے سایہِ عاطفت میں..بقول نصر ملک ان کے قلمی احسانات کے بار گراں تلے دبے امانت چوھدری بھی بیٹھے تھے جو ہمیشہ ان کے ڈرائیور کے فرائض بهی انجام دیتے تهے.
نصر ملک نے ہمیں دیکھتے ہی جلے کٹے انداز میں غالب کو تکلیف دی اور شعر پڑھا کہ
تهی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گیے پر تماشا نہ ہوا
ہمارے پیارے
ابا جی نے بچپن میں ایک چیز سکھائی کہ آوازِ سگاں کم نہ کند رزقِ گدا را \”\”
ہم نے اس سبق کو مضبوطی سے
پلو سے باندھ رکها تها..
سو ہم نے آوازِ سگاں پر کان نہ دھرے اور ظاہر کیا کہ ہم نے ان کی ہرزہ سرائی نہیں سُنی
ہم
نے شعوری طور پر کوشش کی کہ ہمارے پر تپاک سلام اور پرسشِ احوال سے ادب کا رنگ جھلکے
اگرچہ ہم انہیں نوڈک اساطیر کے شر پسند اور ایذا رساں کم ظرف کردار لوکی کا نام دے چکے تھے
زلفی صاحب کو کوپن ہیگن کے اپارٹمنٹ میں بھیجوا دیا گیا .
دیگر مہمانوں کی آمد شروع ہوگئی. برطانیہ سے صابر مرزا ناروے سے جمشید مسرور سویڈن سے عابدہ سیال آرہی تھیں ہم سب جمع ہوئے سب اصحاب کو ڈنر کروایا گیا اور پھر ان کو کوپن ہیگن کی سیر کروائی گئی
بالآخر پروگرام کا دن آ پہنچا۔
وہ آیا بزم میں ، دیکھو ، نہ کہیو پھر کہ ”غافل تھے“
شکیب و صبرِ اہلِ انجمن کی آزمائش ہے
پہلا جھگڑا جمشید مسرور کی صدارت سے شروع ہوا کہ ان کے ہوتے ہوئے جمشید مسرور کو صدارت کیوں دی گئی ….دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ان کی شان میں ان کی تصویر کے ساتھ ایک قدِ آدم بلند پوسٹر نہ بنوایا گیا تاکہ دور سے پتہ چلے کہ یہ فیض شناس ہیں اور فیض کی کتاب ہاتھ میں لیے یہاں آئے ہیں
تیسرا اعتراض انہوں نے یہ داغا کہ مجھے ایوارڈ نہیں دیا گیا پھر یہ کہ میری کتاب کے شایانِ شان رسمِ اجراء نہیں ہوا
کسی ایوارڈ کا انتظام نہیں…. کوئی فوٹو سیشن نہیں… ٹی وی کے لیے کوئی
انٹرویو نہیں \”\”
زلفی صاحب نے
محبوب کی زلف کی طرح دراز گلے شکوے
شروع کیے. ہم نے حسبِ استطاعت انهیں وضاحت دینے کی کوشش کی .
بین الاقوامی پروگراموں کے منتظمین جانتے ہیں کہ یورپ میں ادبی شوق کے تحت ایسے پروگراموں کا اہتمام کرنا کیسے صبر و تحمل کا متقاضی ہے
پروگرام کا اختتام شامِ غزل پر تھا جس میں مقامی کلاسیکی فنکار پرویز اختر اور یو-کے کے گلوکار صابر مرزا نے کلامِ فیض پیش کیا ۔
ایک بھر پور اور خوبصورت شام جاری تھی کہ زلفی صاحب نے وہاں بیٹھے بیٹھے سیر و تفریح کے نئے مطالبات پیش کیے اور ہمیں صرف ایک خاتون سمجھ کر سستے اور بیہودہ اشعار پڑهے جس پر ہم نے انہیں مصلحت آمیز ٍ جواب دیا کہ قبلہ ہمارے پروگرام بس ایسے ہی ہوا کرتے ہیں آپ کو بہتر لگ رہا ہے تو ٹھیک ہے نہیں بسند آیا تو ہم معافی چاہتے ہیں
آپ جو چیختے چلاتے رنگوں کا جوڑا ہمارے لیے کینڈا سے
اٹها کر لائے … ہم نے اس پر بهی خامشی اختیار کی ….
کہ بحیثیت میزبان بہت سی باتیں نظر انداز کرنا ہی ہوتی ہیں ۔
حالانکہ عابدہ سیال اپنے مخصوص پنجابی ظریفانہ انداز میں
جملے چست کرتی رہیں… جمشید مسرور ہمارے بہت محترم اور ہمسایہ ملک کے شاعر اور ادیب ہیں. انهوں نے بهی زلفی صاحب کی چند احمقانہ حرکات پر مہذب سی ناگواری کا اظہار کیا…. لیکن عافیت اسی میں تهی کہ اس پروگرام کے ختم ہونے کا انتظار کیا جائے.
پنجابی مشہور محاورہ ہے کہ
بهیڑ بهڑو… کبهیڑ نہ بهڑو\”\” یعنی لڑنے بھڑنے کے اصول ہوتے ہیں ان کے مطابق اختلاف کرو یہاں بات صرف جعل سازی کی ہو رہی ہے ورنہ ان کے دیگر اقوالِ زریں بھی ضرور تحریر کئے جاتے پولیس مقابلے کی طرح تمام مخالفین کے پیروں تلے سے تحتے کهینچ لیے جاتے…..
بہر کیف انکی کتاب چونکہ ہم نے پڑھ لی تھی لہذا فطری سی بات ہے کہ کچھ سوالات نوکِ زبان پر آگئے اور کچھ صرف ذہن میں ہی کروٹیں بدلتے رہے ہم نے صرف یہ پوچھا کہ آپ نے فیض کے مترجم کا کام کیا اس بات کا تزکرہ اس دور کے اخبارات نے یا باقی لوگوں نے کیوں نہیں کیا
یاد رہے کہ فیض صدی کی تقریبات کے سلسلے میں ہم لندن کے محترم مظہر صاحب سے لیکر ظفر اللہ پوشنی افتخار عارف اور ڈاکٹر عارف نقوی سے ذاتی طور پر مل چکے تھے ہمارے فاضل مصنف نے چہرے پر دانشوری طاری کرنے کی کوشش کرتے ہوئے فرمایا کہ فیض نے کہا کہ جِلا وطنی کا وقت ہے اور ان پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے لہٰذا ان معاملات کا صیغہ راز میں رہنا ضروری ہے
اس پروگرام کی ریکارڈنگ ٹی وی لنک کے ریکارڈ میں موجود ہے ہم واپس جاتے ہی یو ٹیوب پر ڈال دیں گے یا کسی نہ کسی طرح اپنے احباب کے ساتھ شئیر کریں گے
پروگرام سے اگلے دن لاہور سوسائٹی والوں نے مہمانوں کے اعزاز میں ایک نشست کا اہتمام کر رکھا تھا وہاں دوبارہ زلفی صاحب سے مڈ بهیڑ ہوئی
اب کے ہمارا مزاج بھی بگڑا تھا کہ ادبی مسخرے کیا کسی بهی خاتون قلمکار ابهی تک صنفی امتیاز کے تحت صرف ایک روایتی عورت سمجهتے ہیں جو ان کے جاہلانہ مکالمات کے جواب میں مسلسل خاموشی اختیار کرے گی .
زلفی صاحب کو بھی ایوارڈ نہ ملنے اور تعریفی سند کے حصول میں کامیابی نہ ہونے کی خلش نے بے سکون کر رکھا تھا آنکهیں ماتهے پر رکهے ، نتهنے پهلائے\’، فوں فوں کرتے تشریف لائے…. دهم سے کرسی پر جلوہ افروز ہوئے
صدارت کے فرائض جمشید مسرور کے زمہ تهے.
نظامت ہمارےسپرد تهی. ہم نے روایتی ادبی کلمات کے ساتھ مدعو کیا
بڑی رعونت کے ساتھ مائک پر تشریف لائے. عجیب الٹے سیدھے اشعار پڑھے
پھر سلطان گوندل کو ایک طرف لے گئے اور ہاتھ میں اُسترا لگے بندر کی طرح فردا فردا اور اسم بہ اسم سب منتظمین اور مہمانوں کا سر مونڈنا اور تراشنا شروع کر دیا جس میں ناشتا نہ دینے سےایورڈ نہ
دینےتک کے طعنے اور دشنام شامل تهے.
سلطان گوندل نے مجھے ایک طرف بلایا اور کہا آپا زلفی صاحب تو اپنی توہین پر شدید غصے میں ہیں.. اب کیا کریں؟
ہم نے ان کی بات بڑے تحمل سے سنی…
\”\” زلفی صاحب ! ہم نے ایک ثانیے کی تاخیر کئے بغیر کہا
آپ اپارٹمنٹ کی چابی واپس کیجیے…. ابھی….
اور اپنے دیرینہ دوستوں کے پاس تشریف لے جائیے .. حکم کریں تو میں آپ کو ڈرائیور مہیا کر دوں کیوں کے آپ کے با اختیار و خود مختار دوست گاڑی تک تو نہیں چلا سکتے .
ستاروں پر کمندیں پھینکنے کے عزم کیے بیٹهے ہیں. \”\”
اس ڈرامائی موڑ کی دونوں اصحاب میں سے کسی کو بھی توقع نہیں تھی
\”\” آپا ہتھ ہولا رکھیں… ہتھ ہولا رکھیں\”\”
سلطان بھائی بوکھلا کر بولے
زلفی صاحب نے ہیرو بننے کی کوشش میں زیرِ لب کوئی ادھورا مکالمہ دہرانے کی کوشش کی
اور دیکھ لیں گے… سمجھ لیں گے \”\”
جیسے عزائم کا اظہار کیا….
اس سے پہلے کے سلطان گوندل کے منہ سے کوئی اور بات نکلتی میں نے براہِ راست ان سے مخاطب,ہو کر کہا
رہائش کی چابی واپس کیجیے ۔۔۔ ابھی\”
پھر سلطان گوندل سے درخواست کی
کہ ان کو نصر ملک لوکی کے آستانے پر چھوڑ آئیں صاف شفاف ماحول ان کو راس نہیں آیا یہ وہیں پر خوش رہیں گے
سلطان بهائی نے ان سے چابی لے لی اور وہ نصر ملک عرف لوکی کے آستانے پر روپوش ہو گئے.
بعد میں دنیا بھر میں بہت
شور مچا بہت غلغلہ اُٹھا کہ ڈنمارک میں بہت ایوارڈ دئیے گئے اور ڈنمارک والوں نے بہت
فیض فروشوں کی قدر افزائی کی تو یہ اس بات کی بھی وضاحت سمجھی جائے کہ ڈنمارک سے کون مراد ہے اس کی وضاحت کرنا ضروری ہے
ڈنمارک \’ ساؤتھ ایشین رائٹرز ایسو سی ایشن
جناب تسلیم الہٰی زلفی آف کنیڈا کے اعزاز میں ، ڈنمارک میں عظیم الشان جشن کا انعقاد
ایوارڈ کی تقسیم میں شہر بھر سے ہنگامی بنیادوں پر تسلیم الٰہی زلفی کی قد آور شخصیت اور بے مثال فن پر گفتگو کرنے کے لئے مقررین اکٹھے کئے گئے جو صرف دو ہی مل سکے
ایک تو اپنے نصر ملک لوکی صاحب اور دوسرے جناب چوہدری امانت جهنوں نے اپنے سر پرست لوکی صاحب کا تحریر کردہ مضمون پڑھا… \”\”
سبھی تسلیم الٰہی زلفی کی علمی و ادبی معرکہ آرائیوں کے حوالے سے تو سن چکے میں اُن کی شخصیت کے اس پہلو کو سامنے لانا چاہتا ہوں جو انہیں بطور انسان، انسانیت کی معراج پر پہنچاتی ہے اور جس کی وجہ سے انسانی قدروں کا پیغامبر اور معتقد قرار دیا جا سکتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی میں اس \’\’ تنہا پرندے \’\’ کی اُس اُڑان کا ذکر بھی کرنا چاہوں گا جو اُڑا تو اکیلا لیکن اب آسمان اردو ادب کی رفعتوں کو چھو رہا ہے اور اپنے آبائی وطن سے دور رہنے کے باجود ابھی تک اپنے نشیمن کے اُس گھونسلے کو نہیں بھولا جہاں سے اُس نے پرواز کی تھی ۔ اور وہ ہے ۔ پاکستان ۔ زلفی میدان ادب کے شاہسوار تو ہیں ہی، وہ حب وطن کے بھی علمبردار ہیں ۔
\”\”
تنہا پرندے۔۔ گھونسلے اور نشیمن کے استعارات سے ہمیں خیال آیا کہ
اسی دن کے لیے اقبال نے کہا ہو گا
\”\”زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن!
امانت چوہدری نے مزید فرمایا
\”\”
آپ نے فیض صاحب کے حوالے سے جو کتاب تخلیق ہے اور جس پر آپ آسمان اردو کے قطبی ستارے جیسے مقام پر پہنچ چکے ہیں اس پر میں اپنی اور اپنے جریدے ، وطن نیوز انٹرنیشل کی مجلس ادارت کے سبھی احباب کی جانب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور آپ کی علمی و ادبی کاوشوں کے اعتراف میں آپ کی شان میں آج یہاں کوپن ہیگن میں جو جشن منایا جا رہا ہے اس میں اپنی شمولیت کو اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہوں ۔ زلفی ، تمھارے جشن میں شمولیت سے آج ہمارا قد بھی بڑا ہو گیا ہے ۔ \”\”
نصر ملک لوکی نے زلفی صاحب کی شان میں نثری قصیدہ پیش کیا….
ملاحظہ فرمائیے
\”\”
زلفی، دنیائے تصوف میں صوفیائے کرام پر لکھے گئے اپنے مقالوں کے حوالے سے بذات خود صوفیوں میں شمار کئے جانے کے قابل ہیں ۔\”\”
نصر ملک
موصوف اپنے وقیع مقالے میں رقمطراز ہیں\”\”
جلیل القدر، پیغمبر سخن، خلیل جبران کی روح اُن میں سما ئی محسوس ہوتی ہے اور اس کا اثر اور رنگ ان کی شاعری میں بھی دکھائی دیتا ہے\”\”
اور پهر فیض بیروت میں\”\”
کے حوالے سے لکهتے ہیں \”\”
بیروت میں اپنے قیام کے دوران جناب تسلیم الٰہی زلفی کو اردو ادب کے انقلابی شاعر فیض احمد فیض کے ساتھ چار سال مسلسل گزارنے کا موقع ملا اور اس عظیم شاعر کی صحبت میں انہیںقریب سے دیکھنے ، ان کے افکار کو سمجھنے اور عالمی تناظر میں ان کی فکر و سوچ کو جاننے کے ایسے مواقعے میسر ہوئے جو فیض سے قربت کے دعوے کرنے والوں تک کو بھی نصیب نہ ہو سکے ۔ فیض کی صحبت میں زلفی کوجس طرح فیض کی محبت، پیار و شفقت کے ساتھ ساتھ علمی و ادبی اور روحانی تربیت نصیب ہوئی اس نے زلفی کو کندن بنا دیا اور یہی وجہ ہے کہ خود زلفی کی کئی غزلوں ، نظموں اور تحقیقی تحریروں پر فیض کا رنگ ہی نظر نہیں آتا بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ ان میں خود فیض بولتے سنائی دیتے ہیں ۔
فیض احمد فیض کی شاعری ان کے انقلابی نظریات ان کی شخصیت پر تو بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھاجا رہا ہے لیکن یہ ایک حقیقت اور بہت بڑی بد قسمتی تھی کہ فیض نے بیروت میں اپنے جو چار سال گزارے اور افرو ایشین رائٹرز کے جریدے لوٹس کیلئے کام کیا اور فلسطینی قیادت کے ساتھ ان کے روابط اور اس دوران فیض کے لکھے کلام پر کسی نے کبھی اظہار خیال نہیں کیا تھا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ کوئی کرتا بھی تو کیسے، یہ بس زلفی ہی تھے جنہیں فیض کی آغوش محبت میں بیٹھنا نصیب ہوا اور یوں وہ فیض کی علمی و ادبی اور شخصی حیثیت کے ان چار نہایت ہی اہم سالوں کو ہمارے سامنے یوں لائے کہ فیض کی شخصیت کہ وہ سارے گوشے عیاں ہو گئے جو اب تک پوشیدہ تھے بلکہ یوں کہیے کہ فیض کی ادبی و علمی زندگی میں شامل ہی نہیں جاتے تھے \”\”۔
بیروت میں فیض کے قیام اور کتاب کے بارے میں نصر ملک کی مزید گلفشانی \”\”
تسلیم الٰہی زلفی کی کتاب ، \’\’ فیض احمد فیض بیروت میں \’\’ کے سامنے آجانے سے فیض کی ادبی و علمی اور سیاسی زندگی کے حالات کی کڑیا ں یوں مل گئی ہیں کہ وہ جو اک خلا تھا وہ پورا ہو گیا ہے بلکہ یہی نہیں مستقبل کے محقق اور مورخ کے لیے فیض کی زندگی کے ان چار سالوں کو سامنے لاکر زلفی صاحب نے جو کارنامہ سر انجام دیا ہے انہیں اس پر پاکستان کی حکومت نے \’\’ ستارۂ امتیاز \’\’ جیسے گرانقدر اعزاز سے تو نوازا ہی ہے ، خود تسلیم الٰہی زلفی نے مشرق و مغرب میں فیض کے چاہنے والوں کے دلوں میں گھر بنا لیا ہے\”: ۔
اکادمی ادبیات پاکستان پاکستان کی مجرمانہ غفلت کو سراہتے ہوئے نصر ملک فرماتے ہیں \”\”
یہ کتاب اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین جناب فخر زمان نے جس چاہت، خلوص اور جذبے کے ساتھ تسلیم الٰہی زلفی سے تحریر کرائی ہے اس پر وہ بھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے زلفی کو متحرک کیا اور یوں فیض کی زندگی کے یہ گم گشتہ سال ہمارے سامنے آئے ۔
پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ میں اغلباً یہ وہ پہلی کتاب ہے جس کی باقاعدہ سرکاری طور ملک کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت چاروں صوبائی دارالحکومتوں، کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں شاندار تقریبات منعقد ہوں اور ملک بھر کے محققین و دانشوروں اور علمی و ادبی شخصیتوں نے تسلیم
قبلہ نصر ملک لوکی بڑی جان فشانی سے لوگوں کو حیران کرنے کی سوچتے رہتے ہیں. ان کا محبوب جملہ
آپ یہ سوچ کر حیران ہوں گے اکثر ان کی زبان اور قلم سے پهسلتا رہتا ہے
زلفی صاحب کو صوفی اور خلیل جبران کہنے پر ان کی عالمانہ حس کی تشفی نہیں ہوئی-
فرماتے ہیں …
\”\’
آپ یہ جان کر حیران ہو جائیں گے کہ ہمارے معزز مہمان، تسلیم الٰہی زلفی جن کی شام میں ہم یہ جشن منا رہے ہیں، اجرام فلکی کے بھی ماہر میں اور یوں اقبال کے اس تصور کی جیتی گاتی تصویر میں جس میں وہ ستاروں پر کمندیں ڈالتے دکھائی دیتے ہیں \”\”
شنید ہے کہ تسلیم الٰہی نے اس پذیرائی پر شادکام ہو کر حکم جاری کیا کہ وہ بھی کینڈا میں ایک جشن برپا کریں گے جس میں ڈنمارک کے اعلٰی ترین شاعر کو کئی ہزار ڈالر کا انعام دیا جائے گا تعریفی سند دی جائے گی اور اعزازی شیلڈ سے نوازا جائے گا….. یہ بھی شنید ہے کہ یہ عالمی جشن ان کے مکان کے ایک تہہ خانے میں دنیا کی اس نُکڑے چھپ چھپا کر بر پا کیا گیا تاکہ وہاں پر نہ بندہ نہ بندے کی ذات ہو
ہماری بد تہذیبی زلفی صاحب کی دل شکنی کا باعث تهی جس کے ازالے کے طور پر انهیں جرمنی ٹرانسپورٹ کیا گیا… جہاں ایوارڈ بانٹنے کی علت میں مبتلا ایک
بڑے دانشور نے انهیں ایک عظیم ایوارڈ کا کهلونا دے کر ان کی اشک شوئی کی.
یہ داستان ہم پهر کسی موقعے پر اٹها رکهتے ہیں.
زلفی صاحب کو شاید ڈنمارک بہت پسند آیا سنا ہے کہ وہ ایک مرتبہ پهر
اس زمین کو آسمان بنانے کے لیے تشریف لائے
اور جوتے کے ایک ڈبے جتنے مقام پر ایک اور عالمی نشست کا انعقاد کیا گیا…
چائے کی پیالی میں سونامی بپهرتا رہا
نصر ملک لوکی جیسے شمس العلماء ان کی شان میں عالمانہ گفتگو فرماتے رہے .
نصر ملک لوکی نے اپنے ہی جیسے ایک نام نہاد دانشور کو بهی اپنی مجلسِ شوریٰ میں شامل کیا جو نشے میں ٹُن ، اپنی اس علت اور بے روزگاری کی وجہ سے گوشہ نشین ہو چکے
اور ان کو صرف دائیں بائیں آگے پیچھے شکایاتی رقعے ، ملامتی پرزے، اور غلیظ ای میلز کے ذریعے شہر بھر میں تعفن پھیلانے کے علاوہ کوئی شغل نہیں. وہ ایک الگ قضیہ ہے اس کی باری آنے پر بهی ایک کالم لکها جائے گا.
بات چل ہی نکلی تو ادبیات کے چئیرمین کا اور جناب نصر ملک کا قصہ بهی سنتے جائیے
سلطان گوندل کے ساتھ ابھی گفت و شنید ہو رہی تھی کہ فخرالزمان صاحب اس پروگرام میں تشریف لائیں گے انہوں نے مجھے فون کیا کہ آپا آپ بھی براہِ راست ان کو فون کر دیں ٹی وی لنک کی طرف سے آپ ان کو دعوت دے دیں انہوں نے مجھے نمبر دیا میں نے فون کرنے کی کوشش کی تو ان کا فون انگینج جا رہا تھا بہرحال انہوں نے خود مجھے جواباً فون کیا اور بہت ہی شائستگی سے کہا کہ وہ بھی یورپ ہی میں ہوں گے اور ضرور شمولیت کریں گے ان کے اخلاق سے میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی
لیکن چند دن کےبعد اچانک جناب ترغیب نقوی کا فون آیا.
اپنے تعارف کے بعد وہ مخصوص دو سو میل فی گھنٹہ رفتار کے لہجے میں بولے\”\” سنا ہے آپ کے پروگرام فخر زمان آرہا ہے
میں نے جواب دیا کہ بالکل آ رہے ہیں باقی شرکاء میں کون ہے ؟ انهوں نے مزید تفتیش کی
میں نے نام گنوا دئیے..
کھٹاک !!!!
بغیر الوداعی کلمات کہے فون بند ہو گیا
اس کے عین تیسرے دن شہر بھر سے ٹی وی لنک اور سلطان گوندل کو فون آنے شروع ہو گئے محترم عزت مآب نصر ملک سڑک کے کونے پر کھڑے آتے جاتے ہر پاکستانی راہگیر کو اپنے موبائل پر فخرزمان کا ریکارڈ کیا ہوا پیغام سنوا رہے تھے۔
ان کے مطالبات تھے کہ۔۔۔
مجھے فرسٹ کلاس جہاز کی ٹکٹ دی جائے اور فائیو سٹار ہوٹل میں
قیام دیا جائے۔
ارے بھیا ہم نے کونسا آپ کو آسمان
سے ستارے توڑ کر قدموں میں بچھانے کا وعدہ کیا تھا جو فائیو سٹار میں آپ کی رہائش کا بندوبست کریں ۔
عالی مرتبت
نصر ملک لوکی کا ہمیشہ یہ وطیرہ رہا کہ بندر ہتھ تیلی لگی اُنیں آکھیا چلو پنڈ ساڑئیے
سو پورے پنڈ کوفخر زمان کا ریکارڈ شدہ مطالبہ سنوایا گیا
اور ٹی وی لنک کی وعدہ خلافی کی مذمت کی گئی۔
سرور چوھدری کہنے لگے کہ نصر ملک لوکی میں اگر اتنی جرات ہوتی تو وہ ہمارے سامنے آکر یہ ریکارڈنگ پیش کرے اور اس دن کے بعد ہم دیکھ لیں گے کہ فخرالزمان صاحب سے کیسے رابطہ کرنا ہے اور اس کا جواب کیا دینا ہے
پھر فرمانِ شاہی نشر ہوا کہ فخرالزمان بڑے غصے میں ہیں وہ اس جسارت کا مزہ چکھا دیں گے وغیرہ وغیرہ
ہم نے بھی جواباً فرمایا ایک بات تو طے ہے کہ ہم کسی سے ڈرنے اور دبنے والے نہیں ہیں اگر فخرالزمان نے ہمارا پاکستان میں داخلہ بند کرنا ہے تو کروا لیں اور جو تارے موتی جڑا شاہی خلعت اُنھوں نے ہمارے لئے تیار کر رکھا تھا وہ نصر ملک لوکی کو پہنا دیں
کوپن ہیگن کے چھوٹے سے شہر میں آگ کی طرح فخرالزمان کا پیغام چلتا پھرتا رہا پھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ ایسی چٹ پٹی خبریں گمنامی کے کسی سرد گوشے میں دفن ہو جاتی ہیں
فیض کمیٹی کے تحت یورپ بهر میں تقریبات کا انعقاد ہوا. جس میں ہم نے بهر پور شرکت کی.
سپین کے ریڈیو پاک سلونہ سے ہم نے فیض سپیشل پروگرام کی میزبانی بھی کی جس میں ہم نے افتخار عارف، ڈاکٹر تقی عابدی اور روس کی فیض شناس محترمہ لڈمیلا وسلوا کو بھی دعوت دی
اس پروگرام کو افتخار عارف نے بہت سراہا کیوں کہ یہ فیض صدی تقریبات کا آخری پروگرام تھا اور سپین کے راجا شفیق کیانی نے خوبصورتی سے منعقد کیا تها
فیض صدی کی تقریبات کے اختتام پر جب دنیا بھر سے لوگوں کو دعوت دی گئی تو ہمیں بھی سرکاری طور پر ٹکٹ دے کر بلوایا گیا۔ ٹی وی لنک سے سرور چوھدری نے بھی شرکت کی ہمارا خیال تھا کہ تسلیم الٰہی زلفی بھی فیض بیروت میں \”\”کتاب کو سینے سے لگائے وہاں موجود ہوں گے اور چھاپنے والے بھی اس کارِ خیر کا سہرا سجائے وہیں پر تشریف لائیں گے لیکن
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
فیض فہمی اور فیض شناسی کا سلسلہ چلے نہ چلے فیض فروشی کا دھندہ خوب چل نکلا ادب کی دنیا میں ایسے تمام دانشوروں کی نشاندہی کر کے ان کی گرفت کرنی چاہیے لکھ کر دینے والوں خریدنے والوں اور بیچنے والوں کا محاسبہ
بہت ضروری ہے کہ سب شریکِ جرم ہونے والوں
کہ اوپر فردِ جرم عائد ہونا لازم ہے
کوپن ہیگن میں ایوارڈ ایوارٍڈ اور جشن
جشن کے کھیل سے تنگ آکر ہم نے ایک نظم \”\”کوّا کلچر \”\” تحریر کی جو کافی مشہور ہوئی آج ہم اس کی اصل وجہِ نزول پیش کر رہے ہیں کہ یہ صرف ہمارے شاعرِاعظم اور محققِ اعظم جناب تسلیم الٰہی زلفی اور ان کے پیر و مرشد شمس العلماء نصر ملک لوکی اور ہمنواؤں کے نام تھی۔
ان ہی بد تہذیبوں گھٹیا اور اوچھے ہتھکنڈوں کی وجہ سے ہم نے خود بھی تہیہ کر لیا کہ ایسے جعل سازوں کو نو سو کوس دوری پر رکھیں گے. بعض لوگوں کا یورپی مہذب معاشرہ بهی کچھ نہیں بگاڑ سکتا. وہ اپنے ذہن کی اندهیری گپھا میں صرف زہریلے سنپولیے پیدا کرتے رہتے ہیں.
ان کے انتہائی منفی رویے کے نتیجے کے طور پر ہم نے اپنی اولاد کو بھی نصیحت کی کہ ڈینش دوستوں اور اساتذہ کے ساتھ تعلق اور بے تکلفی ضرور ہو لیکن جہاں کہیں دور سے بھی دیسی نام کی تختی نظر آئے وہاں سے پوری رفتار سے بھاگیں.
اب بے اعتباری کا یہ موسم آگیا کہ ہمیں یہ ممکن ہی نہیں لگتا کہ اس تہذیبی سرمائے اور لسانی ورثے کے جعل سازوں میں کسی بھی طرح کی اپنائیت باقی رہ گئی ہے
کوّا
کلچر
کائیں کائیں …….. کائیں کائیں
شعروسخن کی دنیا میں اب کوّا کلچر پھیل گیا ہے
بے شمار ای میل خطوط اب دنیا کے ہر کونے میں بھیجے جاتے ہیں
تصویروں کی ست رنگی ایک قوسِ قزح بھی tag ٹیگ سے جبراً نتھی کر کے
سب احباب کی خدمت میں بھیجی جاتی ہے
دشمن کو دکھائی جاتی ہے
اک چھوٹے سے بند حجرے میں
بین الاقوامی شہرت کے بھوکے چیلے چانٹے سب
اک دوجے کو حاجی و ملّا کہتے کہتے
عظمت کی اسناد تھما کر خوش ہوتے ہیں
بند کواڑوں کی بنجر بچہ دانی سے باہر آکر
پھر ویسی ہی\’زاغ زنی\’ کی کائیں کائیں کرتے کرتے چلاتے ہیں
\”دیکھو بھائیو! کتنی اعلٰی شیلڈ ملی ہ !
یہ دیکھو!انعام ملا ہے !
اس ایوارڈ کے کیا کہنے ہیں !
آؤ اب اک جشن
منائیں کائیں کائیں کر کے اک دوجے کی عظمت کے گُن گائیں
سوچ رہی ہوں
اس کائیں کائیں کلچر کے نقّاروں کے شور میں آخر
بے چارے بُلبل کے نغمے کون سُنے گا؟؟؟