تحریکِ آزادی کی پیداوار عظیم ادارہ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے وابستگی میرے لیے قابلِ فخر ہے: ڈاکٹر نجمہ ہپت اللہ

۷۴؍ ویں یومِ آزادی کے موقع پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیرِ اہتمام ۶؍ زبانوں پر مشتمل مشاعرۂ جشنِ آزادی کا انعقاد
\"\"

نئی دہلی (اسٹاف رپورٹر)۷۴؍ ویں یومِ آزادی کے موقع پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیرِ اہتمام ایک مشاعرۂ جشنِ آزادی کا انعقادکیا گیا، جس میں ۶؍ زبانوں اردو، ہندی، انگریزی، عربی، فارسی اور سنسکرت کے شعرا نے اپنا کلام پیش کیا۔ مشاعرے میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے ڈاکٹر نجمہ ہپت اللہ، گورنر منی پور اور چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ، نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے میری وابستگی صرف منصبی حد تک نہیں ہے بلکہ میرا اس عظیم ادارے سے جذباتی تعلق ہے۔ یہ ادارہ تحریکِ آزادی کی پیداوار ہے اور جامعہ ملیہ سے میرے جدِ امجد مولانا ابوالکلام آزاد کی گہری وابستگی رہی ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کو ابھی تمام مرکزی یونی ورسٹیوں میں پہلے مقام کا اعزاز حاصل ہوا۔ مجھے جامعہ سے منسلک ہونے پر فخر ہے۔ مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر نجمہ اختر نے کہا کہ جامعہ محض ایک تعلیمی ادارہ نہیں ہے بلکہ ملک و قوم کی خدمت اور اس کی ترقی کے حوالے سے جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا ہے۔ اس کی اپنی ایک تاریخ اور تہذیب رہی ہے۔ یہاں کے بانیان اور معماران نے آزادیِ ہند کے لیے بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں۔ اس دانش گاہ سے عظیم شخصیات منسوب رہی ہیں۔ مشاعرے کے کنوینر پروفیسر شہپر رسول نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک و قوم کی خواتین کے لیے ڈاکٹر نجمہ ہپت اللہ اور پروفیسر نجمہ اختر ایک مثالی اور قابلِ تقلید نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان دونوں کی قیادت میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ملک کے تعلیمی اداروں میں اپنا ایک اعلیٰ وقار و معیار قائم کیا ہے۔ مشاعرے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مختلف شعبوں سے وابستہ موجودہ اور سابق اساتذۂ کرام نے اپنا منتخب اور معیاری کلام پیش کیا۔ نمونتاً چند شعر درج کیے جاتے ہیں:
سچ پوچھیے تو ہارنے والا ہی تھا حریف

اتنے میں کیا ہوا کہ مِرے دوست آ گئے
خالد محمود
پھول ، پھل سب کے سب فنا ہو جائیں
صرف موسیقی ڈال پات میں ہو
انیس الرحمٰن
تنگ ہو جائیں گی جب تم پر خلا کی وسعتیں
لوٹ ہی آؤگے آخر اپنی دنیا کی طرف
سہیل احمد فاروقی
نقش کر دیتی ہے نظروں پہ سماعت اس کو
جیسے آواز میں وہ خود بھی چلا آتاہے
شہپر رسول
زلیخا نے یہ سوچا ہی کہاں تھا
خدا والوں کا دامن بولتا ہے
عراق رضا زیدی
یہ جو دھواں دھواں سا ہے دشتِ گماں کے آس پاس
کیا کوئی آگ بجھ گئی سرحدِ جاں کے آس پاس
احمد محفوظ
موسمِ دل جو کبھی زرد سا ہونے لگ جائے
اپنا دل خون کرو پھول اگانے لگ جاؤ
کوثر مظہری
نہ مشورہ دو ہمیں تم کسی سہارے کا
جو پستہ قد ہیں وہی سیڑھیاں تلاش کریں
اے نصیب خاں
رات کٹتی ہے آسمانوں پر
دن کو میں بکریاں چراتا ہوں
رحمان مصور
میں نے دیکھی ہیں تری بھی آنکھیں
صرف مجھ پر نہ لگا تہمتِ خواب
خالد مبشر
مشاعرے میں پروفیسر درگا پرشاد گپتا، پروفیسر باراں فاروقی، پروفیسر عصمت جہاں، ڈاکٹر دلیپ کمار شاکیہ، ڈاکٹر رومی نقوی، ڈاکٹر آئی وی ہینس ڈیک، ڈاکٹر دھننجے منی ترپاٹھی، احمد عظیم اور ڈاکٹر نجمہ ہپت اللہ کے سکریٹر ی بدرالدین خان نے مختلف زبانوں میں اپنا کلام پیش کیا۔ مشاعرے کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر خالد مبشر نے انجام دیے اور مشاعرے کا آغاز ڈاکٹر شاہنواز فیاض کی تلاوت سے ہوا۔

Leave a Comment