٭ ڈاکٹر مشتاق احمد وانی
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)
\”ہیلو! پیارے!میرے سپنوں میں آنے والے،میرے دل کے چین کہاں ہو؟ میں شالنی بول رہی ہوں\”
\”اچھا تو آج دوسرے نمبر سے کال کررہی ہے؟\”
\”ہاں یار، یہ میرا جیو نمبر ہے\”
\”کیا حال ہے شالنی؟کیسی ہو،؟\”
\”اچھی ہوں پیارے،یار تیری یاد بہت ستاتی ہے؟\”
\”ہاں تو کیا چاہتی ہے؟\”
\”میں نا آج دو بجے پھلواڑی پارک میں آجاوں گی،تو بھی وہاں پہنچ جانا۔خوب گزرے گی جب مل بیٹھیں گے دیوانے دو\”
\”اری واہ! تو شاعری کررہی ہے\”
\”اچھا تو ضرور چلے آنا\”
یہ کہتے ہوئے شالنی نے فون کاٹ دیا۔پیارے لعل اور شالنی کی محبت پروان چڑھے ابھی صرف دس دن ہوگئے تھے ۔ایک ہی کالج میں زیر تعلیم تھے۔محبت کیا کیا روپ بدلتی ہے اس سے یہ دونوں ناواقف تھے۔پیارے لعل بہت جلد پھلواڑی پارک پہنچنا چاہتا تھا۔ وہ شالنی سے ملنے کے لیے بے تاب تھا۔وہ اپنے گھر والوں سے کسی کام کا بہانہ کرکے موٹر سائکل پر سوار ہوا۔وہ پھلواڑی پارک پہنچنے ہی والا تھاکہ اتنے میں محکمئہ صحت کی گاڑی کے لوڈ اسپیکر سے یہ اعلان گونج اٹھا
\”خبر دار!خبردار!خبردار!ہمارے شہر میں کروناوائرس کے مریض پائے گئے ہیں۔اس لیے کسی سے ہاتھ ملانایا کسی کے بالکل قریب جانا موت کو گلے لگانے کے برابر ہے\”
پیارے لعل نے جونہی یہ اعلان سنا تو چونک گیا۔اس کے چہرے پہ مایوسی چھا گئی لیکن اس کے باوجود وہ پھلواڑی پارک میں داخل ہوا۔وقت کے مطابق آگے جائے ملن پر شیلو بیٹھی اپنے محبوب کا انتظار کررہی تھی۔اس نے جونہی پیارے لعل کو دیکھا تو فورا\”اس کی طرف لپکی۔ہنستی مسکراتی ہوئی وہ اس کے قریب آئی ۔اس نے ہاتھ ملانا چاہا تو پیارے لعل نے ہاتھ نہیں ملایا۔اس نے دکھی لہجے میں کہا
\”میں تم سے ہاتھ نہیں ملاوں گا۔کیا معلوم مجھ سے پہلے تم نے یہ ہاتھ کس کس سے ملائے ہوں گے۔جانتی ہو ہمارے شہر میں کروناوائرس آگیا ہے\”!