مسلمانوں میں تعلیمی انقلاب اور گنگا جمنی تہذیب کی حمایت سر سید کے دو اہم ترین تجدیدی کارنامے ہیں: پروفیسر طلعت احمد
مشرقی تہذیب نے گذشتہ دو صدیوں میں سر سید سے بڑی قاموسی شخصیت پیدا نہیں کی: پروفیسر آلیں دزولیئر
سر سید کی تعقل پسندی اور سائنٹفک ذہن میں عصر حاضر کی نجات ہے: پروفیسر شمیم حنفی
نئی دہلی (اسٹاف رپورٹر)سرسید احمد خاں کے دو سو سالہ جشن ولادت کے موقع پر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اشتراک سے ’’سرسید کی عصری معنویت‘‘ کے موضوع پر ۲؍فروری ۲۰۱۸ کو سہ روزہ بین الاقوامی سمینار کا افتتاحی اجلاس منعقد ہوا ۔ صدارتی خطبے میں پروفیسر طلعت احمد وائس چانسلر، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے سرسید احمد خاں کو ملک وقوم کا مجدد اور محسن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک مسلم قوم اور ہندوستان دونوں کی نجات اور فلاح تعلیم اور اتحاد میں مضمر ہے۔ انجینئرنگ آڈیٹوریم ، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں موجود سینکڑوں اساتذہ اور طلبہ کے درمیان کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے ماہر سرسید پروفیسر افتخار عالم خاں (سابق ڈائر یکٹر ، سرسید اکیڈمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے سرسید کے نظریۂ دین و دنیا پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سرسید مذہب کو عقائد تک محدود رکھنا چاہتے تھے اور وہ اس خیال کے حامل تھے کہ امور دنیا سے مذہب کا تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ سرسید کا ایک اہم ترین کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے مذہب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا اور وہ اندھی تقلید کے قائل نہ تھے بلکہ تغیر پسندی اور سماجی ارتقا کے علمبردار تھے۔ اس موقع پر فرانس کے معروف مستشرق اور اردو زبان کے مشہور اسکالر پروفیسر آلیں دزولیئر نے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سرسید احمد خاں کے تصور زبان و ادب اور نظریۂ مذہب و تہذیب کی معنویت اور افادیت اکیسویں صدی میں اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ لہٰذا سرسید کے افکار و نظریات کا مطالعہ نئی تحقیق و تنقید کی روشنی میں ضروری ہوگیا ہے۔ اس موقع پر ڈین فیکلٹی برائے انسانی علوم و السنہ پروفیسر وہاج الدین علوی نے سرسید کی ہمہ جہت اور ہمہ گیر تعلیمی اور اصلاحی تحریک کو مذہب ، تہذیب ،تاریخ اور زبان و ادب کے شعبوں میں مؤثر ترین اجتہادی کارنامے سے تعبیر کیا ۔ استقبالیہ کلمات میں صدر شعبۂ اردو پروفیسر شہپررسول نے تمام بیرون اور اندرون ملک سے تشریف لائے ہوئے مندوبین کا خیر مقدم کرتے ہوئے قوی امیدظاہر کی کہ اس سمینار کے اگلے دو دنوں میں دانشوروں اور ماہرین کے مقالوں میں سرسید کی عصری معنویت روشن ہوگی۔ افتتاحی اجلاس میں شعبۂ اردو کے سالانہ مجلہ ’’ارمغان‘‘ کے تازہ شمارے کا اجرا بھی عمل میں آیا۔ یہ شمارہ کلاسیکی شعری اصناف کی تحقیق و تنقید پر مشتمل ہے۔ نیز شعبہ کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالرز کی تازہ شائع شدہ کتابوں کی رسم رونمائی بھی عمل میں آئی ۔ پروگرام کا آغاز حافظ نوراللہ کی تلاوت کلام پاک اور اختتام پروفیسرشہزاد انجم کے کلمات تشکر پر ہوا۔
سمینار کے دوسرے دن ۳؍فروری کو دو اجلاس منعقد کیے گئے۔ جس میں معروف فرانسیسی مستشرق پروفیسر آلیں دزولیئر نے ’’سرسید کا نظریۂ تعلیم اور مولانا آزاد کی نگاہ‘‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سر سید ایک ایسی ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں جن کے اثرات زندگی کے ہر شعبے پر مرتب ہوئے۔ انھوں نے مذہب و تہذیب، سیاست و صحافت، علوم و فلسفہ، شعرو ادب اور تعلیم و تاریخ کو ایک نئی سمت و رفتار عطا کی۔ پروفیسر آلیں دزولیئر نے مزید زور دیتے ہوئے کہا کہ مشرقی تہذیب نے گذشتہ دو صدیوں میں سر سید سے بڑی قاموسی شخصیت پیدا نہیں کی۔ پہلے اجلاس کی صدارت پروفیسر قاضی عبید الرحمن ہاشمی اور پروفیسر قدوس جاوید نے کی۔ اس اجلاس میں پروفیسر الطاف احمد اعظمی نے ’سر سید اور جدید علم کلام‘، پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے ’خطبات احمدیہ: ایک قابل قدر علمی کاوش‘، پروفیسر خالد محمود نے ’سر سید کا سفر نامہ مسافران لندن‘، پروفیسر مظہر مہدی نے ’اقامت گاہ، تربیت اور ذہن سازی: نوآبادیاتی علی گڑھ 1877-1907‘، پروفیسر کوثر مظہری نے ’آثار الصنادید: کل اور آج‘، اور ڈاکٹر رشید اشرف خاں نے ’سر سید اور ڈپٹی نذیر احمد‘ کے عنوان سے اپنے مقالات پیش کیے۔
دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر الطاف احمد اعظمی اور جناب مظفر حسین سید نے کی۔ اس اجلاس میںپروفیسر قدوس جاوید نے ’سر سید کی عصری معنویت‘، پروفیسر شہناز انجم نے ’سرسید بحیثیت صحافی‘، پروفیسر شہزاد انجم نے ’سر سید کی تاریخ نگاری‘ اور ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے ’سرسید کے تہذیبی تصورات‘ کے عنوان سے اپنے مقالات پیش کیے۔ دونوں اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد آدم اور ڈاکٹر محمد مقیم نے انجام دیے۔ ان مقالات پر شرکا نے بحث و مباحثے میں بھرپور حصہ لیا۔
سمینار کے آخری دن تیسرے اجلاس کی صدارت جناب جاوید دانش اور ڈاکٹر علی جاوید نے کی ۔ اس سیشن میں پروفیسر انیس اشفاق نے ’’سرسید کے ادبی تصورات‘‘، پروفیسر اعجاز علی ارشد نے ’’سرسید کے فکری ارتقاس میں سفر انگلستان کے اثرات‘‘ ، پروفیسر علی احمد فاطمی نے ’’سرسید غیر مسلم دانشوروں کی نظر میں‘‘، ڈاکٹر عمیر منظر نے ’’سرسید اور شبلی‘‘، ڈاکٹر سلطانہ واحدی نے ’’سرسید کی مکتوب نگاری‘‘ کے عنوان سے اپنے گراں قدر مقالات پیش کیے۔
چوتھے اجلاس کا انعقاد پروفیسر محمد ذاکر اور پروفیسر انیس اشفاق کی صدارت میں ہوا۔ اس سیشن میں پروفیسر ابن کنول نے ’’سرسید اور ان کے عہد کی نثر‘‘، پروفیسر صغیر افراہیم نے ’’فکر سرسید کی توضیح و تشریح اور تہذیب الاخلاق‘‘، پروفیسر سراج اجملی نے ’’سرسید اور مولانا حالی‘‘ ، ڈاکٹر ندیم احمد نے ’’سرسید کی شخصیت کے اہم نقوش‘‘، اور ڈاکٹر آصف زہری نے ’’اردو کی ادبی صحافت اور سرسید‘‘ کے عنوان سے نہایت وقیع اور پر مغز مقالوں سے نوازا۔ دونوں اجلاس کی نظامت ڈاکٹر عادل حیات اور ڈاکٹر ثاقب عمران نے انجام دیے۔
۴؍ فروری کو شام پانچ بجے اختتامی اجلاس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر شمیم حنفی نے کہا سر سید اپنی روشن خیالی ،تعقل پسندی، سائنسی شعوراور مدبرانہ شخصیت کے سبب ہمارے لیے آج بھی آئیڈیل کا درجہ رکھتے ہیں۔ سر سید کی علی گڑھ تحریک صحیح معنوں میں ایک ہمہ جہت انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور آج بھی اس کی معنویت و افادیت مسلم ہے۔ اس اجلاس میں پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ تمام تحریکات کا نقطۂ آغاز علی گڑھ سے جا ملتا ہے۔ اپنے زمانے کی منفی اقدار کو چیلنج کرنا سرسید کا ایک اہم کارنامہ ہے۔ سر سید کے بعد ہندوستان میں جو بھی مثبت تبدیلی آئی وہ سب علی گڑھ تحریک کی دین ہے۔انھوں نے مزید زور دیتے ہوئے کہا کہ سر سید نے قدیم مواد کے خمیر سے ایک نئے نظام کا ڈھانچہ تیار کیا۔ اختتامی اجلاس میں صدر شعبہ پروفیسر شہپر رسول نے استقبالیہ خطاب میں کہا کہ اس سہ روزہ بین الاقوامی سمینار میں پیش کیے گئے بیس مقالات کی علمی اور تحقیقی و تنقیدی اہمیت کے پیشِ نظر ہمیں اطمینان خاطر حاصل ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب یہ مقالے کتابی صورت میں شائع ہوں گے تو اس سے سرسید شناسی کی ایک نئی جہت روشن ہو گی۔ سمینار کے کنوینر پروفیسر احمد محفوظ نے سمینار کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے تمام مقالات کو سر سید کے حوالے سے بامعنی اور سمینار کے مقاصد سے ہم آہنگ قرار دیا ۔ اس موقع پر پروفیسر آلیں دزولیئر (فرانس)، پروفیسر انیس اشفاق، پروفیسر علی احمد فاطمی اور پروفیسر خالد محمود نے سمینار کے حوالے سے مثبت اور حوصلہ افزا تاثرات کا اظہار کیا۔ اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر خالد مبشر نے کی اور داکٹر ندیم احمد نے اظہار تشکر کے فرائض انجام دیے۔
اس سہ روزہ بین الاقوامی سمینار میں کل بیس (20)مقالے پیش کیے گئے ۔ اس میں بیرون ملک سے دو دانشوروں کے علاوہ ملک بھر کے منتخب اسکالرز شریک ہوئے ۔
اس یاد گار موقع پر پروفیسر اسحق احمد، پروفیسر اقتدار محمد خاں، ڈاکٹر عقیل احمد، ڈاکٹر وسیم راشد، ڈاکٹر شمع افروز زیدی، ڈاکٹر نگار عظیم، تسنیم کوثر، ڈاکٹر ابو بکر عباد، ڈاکٹر شاہینہ تبسم، مریم سکندر (لندن)، ڈاکٹر مشتاق احمد تجاروی، ڈاکٹر محمد خالد، ڈاکٹر محمد ارشد، پروفیسر عبدالحلیم اخگر، پروفیسر درگا پرشاد، پروفیسر ہارون سجاد، ڈاکٹر محمد سہراب، ڈاکٹر مشتاق قادری، ڈاکٹر شاہ عالم،ڈاکٹر سہیل انجم، جناب شبیر علوی، ڈاکٹر رحمان مصور، ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی، اسرا جامعی، پروفیسر نسیم احمد، پروفیسر سید علی ذہین نقوی، ڈاکٹر صفدر امام قادری، جناب محمد خلیل، جناب سہیل احمد، ڈاکٹر عالم شمس، ڈاکٹر انوار الحق، ڈاکٹرفیضان شاہد،شعیب رضا وارثی، ڈاکٹر عزیر اسرائیل،حافظ مطیع الرحمن،جناب زین شمسی، ڈاکٹر محمد علیم،پروفیسر عبدالرشید، ڈاکٹر خالد جاوید، ڈاکٹر عمران احمد عندلیب، ڈاکٹر مشیر احمد ، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر ابو ظہیر ربانی، ڈاکٹر ابو الکلام عارف، ڈاکٹر شاداب تبسم، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر سمیع احمد، ڈاکٹر نعمان قیصر، ڈاکٹر محضر رضا، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی،ڈاکٹر شاہ نواز فیاض، ڈاکٹر شاہدہ فاطمہ، ڈاکٹر محمد دانش، ڈاکٹر سعود عالم، ڈاکٹر واثق الخیر، ڈاکٹر نوشاد منظر، ڈاکٹر زاہد ندیم،ڈاکٹر نوشین حسن اور امتیاز احمد علیمی کے علاوہ دہلی یونیورسٹی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اساتذہ، ریسرچ اسکالرز اور طلبا و طالبات نے بڑی تعداد میں حصہ لیا۔